Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے
[ وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں میں وہ بھی ہیں ] [ مَنْ : جنہوں نے ] [ یَّشْرِیْ : سودا کیا ] [ نَفْسَہُ : اپنے آپ کا ] [ ابْتِغَآئَ ] [ مَرْضَاتِ اللّٰہِ : اللہ کے راضی ہونے کی جستجو کرنے سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ رَئُ وْفٌ : بےانتہا نرمی کرنے والا ہے ] [ بِالْعِبَادِ : بندوں سے ] ترکیب : ” یَشْرِیْ “ کا فاعل اس کی ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو ” مَنْ “ کے لیے ہے۔ ” نَفْسَہٗ “ اس کا مفعول اوّل ہے اور مرکب اضافی ” اِبْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ “ اس کا مفعول ثانی ہے ‘ اس لیے مضاف ” اِبْتِغَائَ “ پر نصب آئی ہے۔ نوٹ : سورة البقرۃ کی آیت 200 سے آیت زیر مطالعہ یعنی 207 تک میں چار قسم کے حاجیوں کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان کے لیے حاجی کے بجائے ” النَّاس “ کا لفظ لایا گیا ہے۔ اس سے راہنمائی یہ ملتی ہے کہ جیسے معاشرے میں مختلف کردار کے لوگ ہوتے ہیں ویسے حاجیوں میں بھی مختلف کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔ آیت 200 میں ” وَمِنَ النَّاسِ مَنْ “ کے الفاظ سے پہلی قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا حج کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں دنیا میں عزت و شہرت اور مقام و رتبہ حاصل ہو۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں حج کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ پھر آیت 201 میں ” وَمِنْھُمْ مَّنْ “ کے الفاظ سے دوسری قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کے فوائد کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ ان کو ان کی کمائی میں سے دونوں جگہ حصہ ملے گا۔ پھر آیت 204 میں ” وَمِنَ النَّاسِ مَنْ “ کے الفاظ سے تیسری قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ Self Centred لوگ ہیں ‘ یعنی انتہائی خود پسند لوگ جو اپنی ناک سے آگے کچھ نہیں دیکھتے اور اپنی بات کے آگے کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتے ‘ یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات بھی نہیں سنتے۔ حالانکہ بات بات پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ یہ لوگ حج کرنے کے بعد بھی اپنے مخالف کو پست کرنے کے لیے کسی زیادتی یا ظلم سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور آیت زیر مطالعہ میں چوتھی قسم کے حاجیوں کا ذکر ہے۔ یہ لوگ حج سے اللہ کی رضا کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں رکھتے۔ ایسے بندوں سے اللہ تعالیٰ انتہائی نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ یعنی بشری تقاضوں کے تحت حج کے دوران ان سے جو بھی بھول چوک یا لغزش ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وہ سب معاف کردیتا ہے۔ مذکورہ آیات کے مطالعہ سے بزرگوں کی اس بات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے کہ ” جو کچھ آدمی کے اندر ہوتا ہے ‘ حج کرنے کے بعد وہی نمایاں ہوجاتا ہے۔ “
Top