Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 239
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو فَرِجَالًا : تو پیادہ پا اَوْ : یا رُكْبَانًا : سوار فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن پاؤ فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَمَا : جیسا کہ عَلَّمَكُمْ : اس نے تمہیں سکھایا مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
بدامنی کی حالت ہو، تو خواہ پیدل ہو، خواہ سوار، جس طرح ممکن ہو، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے، تو اللہ کو اُس طریقے سے یاد کرو، جو اُس نے تمہیں سکھا دیا ہے، جس سے تم پہلے نا واقف تھے
[ فَاِنْ خِفْتُمْ : پھر اگر تمہیں خوف ہو (کسی چیز کا)] [ فَرِجَالاً : تو (نماز پڑھو) پیدل چلتے ہوئے ] [ اَوْ رُکْبَانًا : یا سواری کرتے ہوئے ] [ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ : پھر جب تم لوگ امن میں ہو ] [ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ : تو یاد کرو اللہ کو ] [ کَمَا : اس طرح جیسے ] [ عَلَّمَکُمْ : اس نے سکھایا تم لوگوں کو ] [ مَّا : جس کو ] [ لَمْ تَـکُوْنُوْا : تم لوگ تھے ہی نہیں ] [ تَعْلَمُوْنَ : کہ جانتے ] ر ج ل رَجَلَ (ن) رَجْلًا : ٹانگ پر مارنا۔ رَجِلَ (س) رَجَلًا : پیدل چلنا۔ رِجْلٌ ج اَرْجُلٌ (اسم ذات) : ٹانگ ‘ پیر ۔ { اُرْکُضْ بِرِجْلِکَج } (صٓ:42) ” آپ (علیہ السلام) ٹھوکر ماریں اپنے پیر سے۔ “{ اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَاز } (الاعراف :195) ” کیا ان کی ٹانگیں ہیں ‘ وہ لوگ چلتے ہیں جن سے ؟ “ رَجُلٌ ج رِجَالٌ (اسم ذات) : مرد ‘ آدمی۔ { اَلَـیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ۔ } (ھود) ” کیا تم لوگوں میں کوئی نیک چلن مرد نہیں ہے ؟ “ { وَنَادٰی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا } (الاعراف :48) ” اور پکارا اعراف کے لوگوں نے کچھ مردوں کو۔ “ رَاجِلٌ (ج) رِجَالٌ اور رَجِلٌ (اسم الفاعل) : پیدل چلنے والا ‘ پیادہ۔ ” رَاجِلٌ“ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ رِجَالٌ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ { وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ } (بنی اسرائیل :64) ” اور تو لے آ ان پر اپنے سواروں کو اور اپنے پیادوں کو۔ “ ر ک ب رَکِبَ (س) رُکُوْبًا و مَرْکَبًا : کسی چیز پر چڑھنا ‘ سوار ہونا۔ { فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ } (العنکبوت :65) ” پھر جب وہ لوگ سوار ہوتے ہیں کشتی پر تو وہ پکارتے ہیں اللہ کو۔ “ اِرْکَبْ (فعل امر) : تو چڑھ ‘ تو سوار ہو۔ { یٰـبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا } (ھود :42) ” اے میرے بچے ! تُو سوار ہو ہمارے ساتھ۔ “ رَاکِبٌ جمع رَکْبٌ‘ رَکُوْبٌ‘ رُکْبَانٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : سوار ہونے والا ‘ سوار۔ رَاکِبٌ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ { وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْط } (الانفال :42) ” اور سواروں کا دستہ تم سے زیادہ اترائی میں تھا۔ “{ فَمِنْھَا رَکُوْبُھُمْ وَمِنْھَا یَاْکُلُونَ ۔ } (یٰسٓ:72) ” تو اس میں سے ان کے سوار ہیں اور اس میں سے وہ لوگ کھاتے ہیں۔ “ رُکْبَانٌآیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ رِکَابٌ : سوار کے پیر رکھنے کی جگہ ‘ رِکاب ‘ سواری کا اونٹ۔ { فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ } (الحشر :6) ” تو تم نے نہیں دوڑایا اس پر کوئی گھوڑا اور نہ ہی کوئی اونٹ۔ “ رَکَّبَ (تفعیل) تَرْکِیْبًا : ایک پر دوسری چیز رکھنا ‘ ترتیب سے رکھنا ‘ کسی کو ترتیب دینا۔{ فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ ۔ } (الانفطار) ” جیسی صورت میں اس نے چاہا ترتیب دیا تجھ کو۔ “ تَرَاکَبَ (تفاعل) تَرَاکُبًا : باہم ایک دوسرے پر چڑھنا ‘ ایک دوسرے میں گتھ جانا۔ مُتَرَاکِبٌ (اسم الفاعل) : ایک دوسرے میں گتھنے والا۔ { نُخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًاج } (الانعام :99) ” ہم نکالتے ہیں اس سے کچھ دانے باہم گتھے ہوئے۔ “ ترکیب : ” خِفْتُمْ “ کا مفعول محذوف ہے۔ ” رِجَالًا “ اور ” رُکْبَانًا “ دونوں حال ہیں اس لیے منصوب ہیں۔ ان کا فعل ” فَصَلُّوْا “ محذوف ہے۔ ” عَلَّمَکُمْ “ میں ” عَلَّمَ “ کا فاعل اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو ” اللّٰہ “ کے لیے ہے۔ ” مَا لَمْ “ میں ” مَا “ مفعول مقدم ہے ” تَعْلَمُوْنَ “ کا۔ نوٹ (1) : گزشتہ آیت میں نماز میں ہمیشگی اختیار کرنے کے حکم کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہر نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنا ‘ اور دوسرے یہ کہ ہر نماز کو حضور قلبی کے ساتھ ادا کرنا۔ ہمیں حکم ہے کہ ان دونوں پہلوئوں سے ہم ہمیشہ ہر نماز کی حفاظت کریں۔ اگر کبھی حالات ایسے ہوں کہ کسی بھی وجہ سے مذکورہ حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں حضور قلبی کے پہلو کو چھوڑ دو ‘ لیکن مقررہ وقت کے پہلو کو قائم رکھو ‘ اور جیسے بھی بن پڑے نماز پڑھ لو۔ نوٹ (2) : کلمہ طیبہ دین اسلام کا پہلا رکن ہے۔ اس کا اقرار کرنے کے بعد انسان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر عمل کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ لیکن ان میں سے چار فرائض نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کی اہمیت زیادہ ہے اور ان کو ارکانِ دین کا درجہ حاصل ہے۔ اب نوٹ کریں کہ ان میں بھی روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج ایسے ارکان ہیں جن میں کچھ استثناء بھی ہیں ‘ لیکن نماز وہ واحد رکن ہے جس کا کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں ” فَاِنْ خِفْتُمْ “ کے مفعول کو محذوف کر کے اسے عمومیت دی گئی اور حکم دیا گیا کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں ‘ نماز بہرحال پڑھنی ہے ‘ بیٹھ کر ‘ لیٹ کر ‘ چلتے ہوئے ‘ سواری کرتے ہوئے ‘ جیسے بھی بن پڑے نماز پڑھو۔ خوف کی انتہائی حالت جنگ ہے ‘ اس میں بھی استثناء نہیں ہے۔ حالت جنگ میں نماز پڑھنے کا طریقہ سورة النساء کی آیت 102 میں بتایا گیا ہے۔ نوٹ (3) : جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود ‘ اس کی صفات و کمالات اور آخرت کے تصورتک انسان کی عقل از خود رسائی حاصل کرسکتی ہے ‘ لیکن تفصیلات کے لیے انسان کی عقل اس کی راہنمائی نہیں کرسکتی ‘ اس کے لیے وہ علم وحی کا محتاج ہے۔ آیت زیر مطالعہ اس کی ایک مثال ہے۔ نوٹ (4) : شادی ‘ بیاہ اور طلاق وغیرہ کے مسائل کے درمیان میں نماز کا ذکر کرنے کا مقصد ہمیں یہ یاد دلانا ہے کہ نماز کے بیشمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی مشق انسان میں خدا ترسی کا جذبہ اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کا حوصلہ پید ا کرتی ہے۔
Top