Mutaliya-e-Quran - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے
وَالَّذِيْنَ [اور جن لوگوں نے ] كَفَرُوْا [انکار کیا ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی آیات کا ] وَلِقَاۗىِٕهٖٓ [اور اس کی ملاقات کا ] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ ہیں ] يَىِٕسُوْا [جو مایوس ہوئے ] مِنْ رَّحْمَتِيْ [میری رحمت سے ] وَاُولٰۗىِٕكَ [اور وہ لوگ ہیں ] لَهُمْ [جن کے لئے ] عَذَابٌ اَلِيْمٌ [ایک دردناک عذاب ہے۔ نوٹ۔ 1: زیرمطالعہ آیت۔ 19 ۔ سے آیت 23 تک ایک جملہ معتر ضہ ہے جو حضرت ابراہیم کے قصے کا سلسلہ منقطع کرکے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو خطاب کرکے فرمایا ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔ اور اس دنیا کے مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے کہ توحید ، قیامت اور جزاء و سزا کے لئے باہر سے دلیل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس دنیا کے شب و روز کے مشاہدات میں ان میں سے ہر چیز کی شہادت موجود ہے۔ فرمایا کہ اس زمین میں چلو پھر و اور غور کی نگاہ سے دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح خلق کا آغاز فرماتا ہے اور پھر اس کو فنا کرکے اس کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ ایک قوم کو وجد بخشتا ہے اور پھر اس کو مٹا کر اس کی جگہ دوسری قوم کو لاتا ہے۔ رات کے بعد دن نمودار کرتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے۔ یہ سارے مشاہدات وہ اسی لئے کر ارہا ہے کہ انسان مرنے کے بعد کی زندگی کو بعید از امکان تصور نہ کرے۔ یہ باتیں غائب کے اسلوب میں بیان کرنے کے بعد آیت۔ 22 ۔ میں قریش کو خطاب کرکے فرمایا کہ جب وہ تم کو پکڑنا چاہیے گا تو تم اس کی پکڑ سے نہ زمین میں بچ سکو گے نہ آسمان میں۔ نہ یہاں تمہارا کوئی کار ساز ہوگا نہ آخرت میں کوئی حامی ہوگا۔ (تدبر قرآن)
Top