Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اُس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا
[ وَاِنْ : اور نہیں ہے ] [ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اہل کتاب میں کوئی ] [ اِلاَّ : مگر یہ کہ ] [ لَیُؤْمِنَنَّ : وہ لازماً ایمان لائے گا ] [ بِہٖ : ان (علیہ السلام) پر ] [ قَبْلَ مَوْتِہٖ : ان کی موت سے پہلے ] [ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : اور قیامت کے دن ] [ یَکُوْنُ : وہ ہوں گے ] [ عَلَیْہِمْ : ان پر ] [ شَہِیْدًا : گواہ ] نوٹ : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کی وضاحت آل عمران :55 کے نوٹ 1 میں کی جا چکی ہے۔ آیات زیر مطالعہ میں اس عقیدے کی بہت واضح الفاظ میں تردید کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نعوذ باللہ قتل کیا گیا یا سولی چڑھایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہ معاملہ ان لوگوں کے لیے مشتبہ کردیا گیا تھا۔ اس معاملے کو کس طرح مشتبہ کیا گیا ‘ اس کی وضاحت قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی حدیث میری نظر سے گزری ہے ۔ البتہ اس کی تفسیر میں ابن کثیر (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور وہب بن منبہ ؓ کے اقوال نقل کیے ہیں۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جب شاہی سپاہیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مکان کا محاصرہ کیا تو اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ سترہ حواری تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کون اسے پسند کرتا ہے کہ اس پر میری شبیہہ ڈالی جائے ‘ وہ میری جگہ قتل کیا جائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔ ایک حواری اس کے لیے تیار ہوگئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جگہ ان کو قتل کر کے صلیب پر لٹکایا گیا۔ جبکہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا۔
Top