Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 187
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوْا
: دیا گیا
نَصِيْبًا
: ایک حصہ
مِّنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
يَشْتَرُوْنَ
: مول لیتے ہیں
الضَّلٰلَةَ
: گمراہی
وَيُرِيْدُوْنَ
: اور وہ چاہتے ہیں
اَنْ
: کہ
تَضِلُّوا
: بھٹک جاؤ
السَّبِيْلَ
: راستہ
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) رمضان کی قضا میں تاخیر کا جواز ارشاد باری ہے فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اللہ تعالیٰ نے گنتی پوری کرنا ایسے دنوں میں واجب کردیا جن کی آیت میں تعیین نہیں کی گئی ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اس کے لیے جائز ہے کہ جس وقت چاہے روزے رکھ لے البتہ سال کے اختتام تک قضا کی تاخیر کے جواز میں ہمارے اصحاب سے کوئی روایت محفوظ نہیں ہے ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے اتنی تاخیر جائز نہیں کہ اگلا رمضان شروع ہوجائے۔ میری یہ رائے احناف کے مسلک کے مطابق ہے ۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک اگر امر غیر موقت ہو ، یعنی اس کا کوئی وقت مقرر نہ ہو ، تو وہ علی الفور ہوتا ہے یعنی اس پر امکانی حد تک فی الفور عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے اس اصول کی اصول فقہ میں وضاحت کردی ہے ۔ جب یہ بات درست ہے تو اگر رمضان کی قضا پورے سال کے ساتھ موقت نہ ہوتی تو عبد الفطر کے دوسرے ہی دن سے اس پر روزہ رکھنا لازم ہوجاتا اور تاخیر جائز نہ ہوتی اس لیے کہ تاخیر کی وجہ سے قضا میں کوتاہی کرنا ہی اس کے لیے جائز نہیں خاص کر جبکہ اسے اس بات کا علم بھی نہیں کہ وجوب فرض کا آخری وقت کون سا ہے جس سے موخر کرنا اس کے لیے جائز نہیں جس طرح کہ یہ بات جائز نہیں کہ شریعت کی طرف سے کسی ایسی عبادت کی فرضیت کا امر کردیا جائے جو مامورین کے نزدیک مجہول ہو یعنی جن لوگوں کو اس عبادت کی فرضیت کا امر کیا گیا ہے وہ سرے سے اس سے واقف نہ ہوں اور پھر اس کی وضاحت سے پہلے اس کے ترک پر شریعت کی طرف سے سختی کی جائے اور تارکین کو قابل ملامت گردانا جائے ، مذکورہ بالا دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اور ہمارے علم میں یہ بات بھی ہے کہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ امکان قضا کے اول اوقات سے رمضان کی قضا کو موخر کردینا جائز ہے تو اس سے اس بات کا ثبوت مل گیا کہ قا کی تاخیر سال کے گزرنے کے ساتھ موقت ہے یعنی قضا میں سال کے گزرنے تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔ تو اس کی مثال بمنزلہ ظہر کے وقت کی ہوگی کہ اس کے اول اور آخر دونوں معلوم ہیں ۔ اس لیے اول سے آخر تک کے درمیان کسی بھی وقت اس کی عبادت کا ورود درست ہے۔ یعنی ان دونوں اوقات کے درمیان کسی بھی وقت ظہر پڑھی جاسکتی ہے اور اس کی تاخیر بھی اس وقت تک جائز ہے کہ اگر اس کے اندر یہ عباد ت بجا لائی جائے تو اس کے فوت ہونے کا خطرہ ہو اس لیے کہ اس کا وہ آخری وقت معلوم ہے جس تک اگر وہ اسے موخر کر دے تو وہ کوتاہی کرنے والا قرار پائے گا ۔ سلف کی ایک جماعت سے سال کے اندر رمضان کی قضا میں تاخیر کا جواز منقول ہے ۔ یحییٰ بن سعید نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ” میرے اوپر رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی ، مجھے ان کے قضا کی استطاعت نہ ہوتی ۔ یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا “ ۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ قول مروی ہے کہ دس دس دنوں میں رمضان کے روزے قضا رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے۔ عطا بن ابی رباح ، طائوس اور مجاہد کا قول ہے کہ جب چاہو رمضان کی قضا کرلو ۔ البتہ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص رمضان کی قضا میں اتنی تاخیر کر دے کہ اگلا رمضان آ جائے ۔ ہمارے جملہ اصحاب کا یہ قول ہے کہ وہ آنے والے رمضان کے روزے خود رکھے گا اور پھر قضا شدہ رمضان کی قضا کرے گا اور اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، امام شافعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے پہلے رمضان کی قضا میں کوتاہی کی یہاں تک کہ اگلا رمضان آگیا تو وہ قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کھانا کھلائے گا ۔ ثوری اور الحسن بن حی کا قول ہے کہ ہر دن کے بدلے نصف صاع گندم کا فدیہ دے گا ۔ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مد ( دو یا تقریباً سو ایک رطل کا پیمانہ ، ایک رطل چالیس تولے کا ہوتا ہے) طعام کا فدیہ دے اور اگر اس سے مرض یا سفر کی بنا پر قضا کرنے میں کوتاہی نہیں ہوئی ۔ تو اس پر اطعام یعنی مستکین کو کھانا کھلانا لازم نہیں ہوگا ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر پہلے رمضان کی قضاء میں اس سے کوتاہی ہوگئی اور دوسرے میں بیمار ہوجانے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا حتیٰ کہ دوسرا رمضان گزر گیا اور پھر اس کی وفات ہوگئی تو پہلے رمضان کے ہر دن کے بدلے دو مد کا فدیہ دیا جائے گا ایک مد روزے کا اور دوسرا مدا سے ضائع کرنے کا اور دوسرے رمضا ن کے ہر دن کے بدلے ایک مد فدیہ دے گا ۔ امام اوزاعی سے قبل جن ائمہ کا قول گزر چکا ہے ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان میں بیمار پڑگیا اور پھر تندرست ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو اس کی طرف سے اطعام واجب نہیں ہوگا ۔ عبد الباقی بن قانع نے ہمیں روایت کی ، انہیں محمد بن عبد اللہ حضرمی نے انہیں ابراہیم بن اسحاق ضبی نے ، انہیں قیس نے اسود بن قیس سے ، اسود نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ بن خطاب ؓ سے روایت کی ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ ذی الحجہ میں رمضان کے قضاء روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ہم سے عبد الباقی نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں یحییٰ بن اسحاق نے ، انہیں ابن طیعہ نے حرث بن یزید سے ، انہوں نے ابو تمیم جیشانی سے یہ روایت کی کہ جیشانی نے کہا کہ طرابلس کے مقام پر ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے اور ہماری مجلس میں حضور ﷺ کے دو صحابی حرت عمرو بن العاص حبیب بن معقل بھی تھے۔ حضرت عمرو نے فرمایا کہ ” میں رمضان کے روزوں میں فصل کرتا ہوں “ ۔ یعنی متفرق ایام میں روزے رکھتا ہوں یہ سن کر غفاری نے فرمایا ” ہم رمضان کے روزوں میں فصل نہیں کرتے “ اس پر حضرت عمرو نے فرمایا ” میں رمضان کے قضاء روزوں میں فصل کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فعدۃ من ایام اخد۔ ہمیں عبد اللہ بن عبد ربہ بغلانی نے ، انہیں عیسیٰ بن احمد عسقلانی نے ، انہیں بقیہ نے سلیمان بن ارقم سے، سلیمان نے حسن سے اور حسن نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! میرے ذمہ رمضان کے کچھ روزے ہیں آیا میں انہیں متفرق دنوں میں رکھ لوں آپ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ” تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے ذمہ قر ہو اور تم وہ قر ض تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کر دو تو کیا اس طرح ادائیگی ہوجائے گی ؟ اس شخص نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا :” پھر اللہ تعالیٰ عفو و در گزر کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے “۔ یہ تمام روایات اس بات کی خبر دے رہی ہیں کہ قضاء رمضان کے امکان کے اول وقت سے اسے موخر کر کے رکھنا جائز ہے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا میں اگلے سال تک تاخیر کردی تو اس پر فدیہ لازم آئے گا ۔ ان میں سے ایک حضرت ابن عباس ؓ ہیں ۔ یزید بن ہارون سے روایت ہے ۔ انہوں نے عمرو بن میمون ابن مہران سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں دو رمضان بیمار رہا ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس سے پوچھا کہ دونوں رمضان کے درمیان تمہاری بیماری جا رہی یابیچ میں تمہیں صحت ہوگئی تھی ؟ اس نے جواب دیا کہ بیچ میں صحت ہوگئی تھی ۔ آپ نے پھر پوچھا کہ کیا اتنی صحت ہوگئی تھی آپ کا اشارہ صحت کے ایک خاص درجے تک تھا اس نے نفی میں جواب دیا ، آپ نے فرمایا کہ روزہ نہ رکھو جب تک کہ اتنی صحت حاصل نہ ہوجائے۔ وہ شخص اپنے دوستوں کے پاس گیا اور انہیں ساری بات بتائی ۔ دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ جا کر حضرت ابن عباس ؓ کو بتائو کہ اب تمہیں اتنی صحت حاصل ہوگئی ہے چناچہ وہ شخص پھر حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے پھر وہی سوال کیا ۔ اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے اسے فرمایا کہ دونوں رمضان کی قضاء کرو اور تیس مسکینوں کو کھلا کھلا دو ۔ روح بن عبادہ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کی قضا میں اتنی سستی کرے کہ اس پر اگلا رمضان آ جائے تو وہ نئے رمضان کے روزے رکھے گا اور گزشتہ رمضان کے روزوں کا فدیہ دے گا ۔ ہر دن کے بدلے میں ایک مد گندم اور روزے قضا نہیں کرے گا ۔ آپ کا یہ قول حاملہ کی قضا کے متعلق آپ کے مسلک کے مشابہ ہے کہ وہ مسکینوں کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلاوے گی اس کے ساتھ روزے قضا نہیں کر دے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی طرح روایت ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے اس سلسلے میں ایک اور قول مروی ہے۔ حماد بن سلمہ نے ایوب سے اور حمید نے ابو زید مدنی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص پر سکرات موت طاری ہوگئی اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھ پر اللہ کا ایک قرض ہے اور لوگوں کا بھی ایک قر ض ہے۔ سب سے پہلے اللہ کا قرض ادا کردینا پھر لوگوں کا قرض ۔ میں نے دو رمضان کے روزے نہیں رکھے تھے اس شخص کے بھائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ قربانی کے دو اونٹ جن کے گلے میں قلاوہ پڑاہو یعنی جنہیں حرم میں لے جا کر ذبح کیا جائے۔ اس شخص نے حضرت ابن عباس ؓ سے مسئلہ پوچھا اور ساتھ ہی ساتھ حضرت ابن عمر ؓ کے جواب کی بھی انہیں اطلاع دی ، یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن ( ابن عمر ؓ ) پر رحم کرے قربانی کے اونٹ کا روزے کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ جائو اپنے بھائی کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو “ ۔ راوی ایوب کہتے ہیں کہ وہ شخص دونوں رمضان کے درمیان تندرست ہوگیا تھا۔ طحاوی نے ابن عمر سے ذکر ہے کہ انہوں نے کہا کہ ” میں نے یحییٰ بن اکثم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے یہ بات یعنی مسکینوں کو کھانا کھلانا ، چھ صحابیوں سے سنی ہے اور مجھے ایک صحابی بھی ایسا نہیں ملا جس نے ان صحابیوں سے اختلاف کیا ہو ، یہ بات جائز ہے اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ وہ شخص قضاء رکھنے سے پہلے ہی فوت ہوچکا ہو۔ ارشادباری فعدۃ من ایام اخر متفرق طور پر قضاء روزے رکھنے اور موخر کر کے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے ، نیز اس پر بھی کہ ایسے شخص پر کوئی فدیہ نہیں ۔ اس لیے کہ قضا کے ساتھ فدیہ واجب کردینا دراصل نص کتاب اللہ میں اضافہ ہے اور نفص میں اضافہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ اس کے لیے کوئی اور نص موجود ہو ۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ سال کے آخر تک وہ قضا کو موخر کرسکتا ہے اور اس پر کوئی فدیہ واجب نہیں ہوگا ۔ آیت نے تو قضا شدہ روزوں کی دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا واجب کیا ہے، فدیہ واجب نہیں کیا ، اب یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگلے سال میں بھی ان دنوں کی گنتی پوری کرنا اس آیت سے واجب ہے جبکہ اگلے سال سے پہلے پہلے کوتاہی کی بنا پر اس نے قضا نہ رکھے ہوں اس لیے یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ آیت سے یہ مراد ہو کہ بعض حالتوں میں تو قضا واجب ہو اور فدیہ نہ ہو اور بعض میں قضا اور فدیہ دونوں واجب ہوجائیں جبکہ دونوں حالتیں ایک ہی شکل سے آیت کے تحت داخل ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ چوری کے سلسلے میں یہ بات درست نہیں ہے کہ آیت سرقہ سے مراد یہ ہو کہ بعض چوروں کے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور ان پر جرمانہ بھی کیا جائے ، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ بعض کے تو دس درہم کی مالیت کی چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور ان پر جرمانہ بھی کیا جائے ، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ بعض کے تو دس درہم کی مالیت کی چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور بعض کے اس سے کم کی مالیت پر ، ٹھیک اسی طرح یہ درست نہیں ہے کہ قول باری ( فعدۃ من ایام اخر) سے بعض تو وہ مراد ہیں جو وجوب قضا کے ساتھ خاص ہوں اور ان پر فدیہ نہ ہو اور بعض وہ مراد ہوں جن پر قضا اور فدیہ دونوں واجب ہیں۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کفارات کا اثبات دو طریقوں سے ہوتا ہے یا تو شریعت کی طرف سے توقیف یعنی رہنمائی ہوتی ہے یا پھر اتفاق امت ہوتا ہے اب زیر بحث مسئلے میں یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہیں اس بنا پر قیاس سے کفارہ کا اثبات جائز نہیں ہوگا نیز کفارہ ہمیشہ کسی چیز کی جگہ پر کرنے والا اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے اور یہ اس شخص کے حق میں مخصوص ہوتا ہے جس پر قضا واجب نہیں ہوتی ، مثلاً شیخ کبیر یا وہ شخص جس نے قضا کرنے میں کوتاہی کی اور قضا کرنے سے پہلے وفات پا گیا ۔ رہا قضا اور فدیہ دونوں کا اجتماع تو یہ ان وجوہات کی بنا پر ممتنع ہے جو ہم حاملہ اور مرعہ کے باب میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس لیے حضرت ابن عمر کا مسلک اس معاملے میں ان لوگوں کے مسلک سے زیادہ واضح ہے جنہوں نے قضا اور فدیہ دونوں لازم کردیئے ہیں جبکہ حضرت ابن عمر ؓ نے فدیہ واجب قرار دیا ہے نہ کہ قضا ۔ حضور ﷺ سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں وہ جوہ سے اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ تاخیر قضا سے فدیہ واجب نہیں ہوتا ۔ اول یہ کہ متفرق دنوں میں قضا کے ذکر کے ساتھ فدیہ کے وجوب کا ذکر نہیں ہو ۔ اگر اس کی تاخیر فدیہ واجب کردیتی تو حضور ﷺ اس کا ضرور ذکر کرتے۔ دوم یہ کہ آپ نے قضا کو قرض کے ساتھ تشبیہ دی اور یہ ظاہر ہے کہ قرض کی ادائیگی میں تاخیر سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی سوائے اس کے قرض کی ادائیگی ہوجائے۔ اس لیے جس چیز کو اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے یعنی قضاء ررضان اس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ہمارا اس پر اتفاق ہے کہ رمضان کی قضا کرنے والے کو اگلے سال تک قضا کی تاخیر سے روکا گیا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو ضروری ہے کہ اسے مفرط یعنی کوتاہی کرنے والا قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس پر فدیہ لازم ہوگا جیسے کہ وہ اگر قضا کرنے سے پہلے مرجاتا تو اس پر تفریط یعنی کوتاہی کی بنا پر فدیہ لازم ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تفریط کی بنا پر فدیہ لازم نہیں ہوتا بلکہ اس بنا پر لازم ہوتا ہے کہ اس کے لیے قضا کرنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد موت کی وجہ سے قضا کا موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس نے رمضان میں جان بوجھ کر کھالیا ہوتا تو وہ مفرط شمار ہوتا اور اگر وہ اسی سال اس کی قضا کرلیتا تو سب کے نزدیک اس پر فدیہ لازم نہ آتا ۔ اس لیے اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فدیہ واجب کرنے کے لیے تفریط کا پایا جانا علت نہیں ہے۔ علی بن موسیٰ قمی نے نقل کیا ہے کہ دائود اصفہانی کا قول ہے کہ جو شخص کسی عذر کی بنا پر رمضان کے ایک دن کا روزہ نہیں رکھتا اس پر شوال کی دوسری تاریخ کو روزہ رکھنا واجب ہے ، اگر اس نے روزہ نہیں رکھا تو وہ گناہ گار ہوگا اور مفرط قرار پائے گا ۔ دائود اپنے اس قول کی وجہ سے زیر بحث مسئلہ میں سلف اور خلف دونوں کے متفقہ موقف اور ظاہر آیت فعدۃ من ایام اخر اور آیت ولتکملوا لعدۃ کی مخالفت کا مرتکب ہوگیا، نیز اس نے ان آثار کی بھی خلاف ورزی کی جن کی ہم نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ علی بن موسیٰ کا کہنا ہے کہ ایک روز میں نے دائود سے اس کی اس قول کی وجہ پوچھی تو جواب میں کہنے لگا کہ اگر وہ شوال کی دوسری تاریخ کی روزہ نہ رکھے اور اس کی وفات ہوجائے تو اس کے متعلق تمام اہل علم کا یہی قول ہے کہ وہ گناہ گار ہو کر اور مفرط بن کر مرا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شوال کی دوسری تاریخ کو ہی روزہ رکھ لینا اس پر واجب تھا اس لیے کہ اگر اس کے لیے اس کی گنجائش ہوتی کہ وہ دوسری تاریخ کے بعد بھی رکھ سکتا تو اسی رات موت کی وجہ سے وہ مفرط قرار نہ پاتا ۔ علی بن موسیٰ نے اس پر اس سے یہ پوچھا کہ اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جس کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا ہو اسے ایک غلام برائے فروخت مل جائے جس کی قیمت بھی اس کے حسب منشاء ہو تو آیا اس کے لیے یہ جائز ہوگا کہ وہ اسے چھوڑ کر کوئی اور غلام خرید لے ؟ دائود نے نفی میں جواب دیا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ” اس پر فرض یہ ہے کہ جو پہلا غلام اسے مل جائے تو وہ اسے آزاد کر دے ، جب اسے کوئی غلام مل جائے گا تو اس کے فرض کا لزوم اس کے ساتھ ہی ہوجائے گا اور جب فرض کا لزوم ہوجائے گا تو پھر اسے چھوڑ کر کسی اور غلام کی طرف جانا اس کے لیے جائز نہیں ہوگا “ میں نے پھر پوچھا کہ اگر اس نے ایک غلام ملنے کے باوجود اسے چھوڑ کر دوسرا غلام خرید کر کے اسے آزاد کردیا تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ اس نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ہوگا ۔ میں نے پھر کہا کہ اگر اس شخص کے پاس ایک غلام موجود ہو اور اس پر غلام آزاد کرنا واجب ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کے لیے کوئی اور غلام خرید ناجائز ہوگا ؟ دائود نے نفی میں اس کا جواب دیا ۔ میں نے کہا کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ اس پر غلام آزاد کرنے کی جو ذمہ داری عائد ہوئی ہے اس ذمہ داری کا تعلق اس کے پاس موجود غلام کے ساتھ ہوگیا ، کسی اور غلام کے ساتھ نہیں ہوا ؟ دائود نے اثبات میں اس کا جواب دیا ۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ غلام مرجائے تو آیا غلام آزاد کرنے کی ذمہ داری اس شخص سے ختم ہوجائے گی جس طرح کہ ایک شخص کسی معین غلام کو آزاد کرنے کی نذر مان لے اور پھر وہ غلام مرجائے تو اس کی نذر باطل ہوجاتی ہے۔ دائود نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس شخص سے غلام آزاد کرنے کی ذمہ داری ختم نہیں ہوگی بلکہ وہ اس غلام کی جگہ کوئی اور غلام لے کر آ زاد کرے گا اس لیے کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ اسی طرح جس شخص پر بالا جماع کوئی غلام آزاد کرنا واجب ہو اس کے لیے جائز ہے کہ کوئی اور غلام آزاد کردے اور صرف وہی غلام آزاد نہ کرے جو سب سے پہلے مل جائے اس پر دائود نے پوچھا کہ تم لوگوں سے یہ اجماع نقل کررہے ہو ؟ میں نے کہا کہ تم کن لوگوں سے پہلا اجماع جس کا تم نے ابھی حوالہ دیا ہے نقل کررہے ہو ؟۔ اس نے جواب دیا کہ اجماع منقول نہیں ہوتا میں نے ا س پر یہ کہا کہ دوسرا اجماع ( جس کا میں نے حوالہ دیا ہے) بھی منقول نہیں ہوا ، یہ سن کر دائود خاموش ہوگیا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دائود نے جو کچھ کہا ہے کہ شوال کی دوسری تاریخ کو اس پر قضالازم ہے اور یہ کہ جس کے ذمہ کوئی غلام آزاد کرنا ہو اور اسے غلام مل جائے تو وہ اس غلام کو چھوڑ کر کسی اور غلام کو آزاد نہیں کرسکتا یہ سب باتیں اجماع امت کے خلاف ہیں ۔ پھر اس کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا ایک قضا روزہ شوال کی دوسری تاریخ کو نہیں رکھتا اور اس کی وفات ہوجاتی ہے تو اہل علم کے نزدیک وہ مفرط کہلائے گا اس کے اس دعوے کی بطلان کی وجہ یہ ہے کہ جن فقہاء نے ایسے شخص کو سال کے آخر تک قضا مؤخر کردینے کی اجازت دی ۔ ان کے نزدیک بھی ایسا شخص موت کی بنا پر مفرط نہیں قرار پائے گا اس لیے کہ اگلا رمضان آنے تک پورا سال قضا کے لیے وقت ہے جس میں تاخیر کی گنجائش ہے۔ جس طرح کہ نماز کا وقت ہے کہ اس میں اول وقت سے آخر وقت تک تاخیر کی گنجائش ہے اور اگر وقت گزر جانے سے پہلے اس شخص کی وفات ہوجائے تو وہ نماز کی ادائیگی مؤخر کرنے کی بنا پر مفرط قرار نہیں پائے گا۔ رمضان کی قضا کے متعلق بھی قضاء کا یہی قول ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ایسا شخص اگر مفرط نہ ہوتا تو سال گزرنے سے پہلے قضاء رمضان کے بغیر اس کی وفات کی صورت میں اس پر فدیہ لازم نہ ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لزوم فدیہ تفریط کی علامت نہیں ہے اس لیے کہ شیخ کبیر پر فدیہ لازم ہوتا ہے لیکن اس میں تفریط نہیں پائی جاتی اور دائود کا قول کہ اجماع نقل نہیں کیا جاتا ۔ غلط ہے ، کیونکہ اجماع اسی طرح نقل ہوتا ہے جس طرح نصوص نقل ہوتے ہیں اور جس طرح اختلاف آراء نقل ہوتا ہے۔ اگر ابو دائود کی مراد اپنے اس قول سے یہ ہو کہ اجماع کرنے والوں میں ہر ایک کو اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ ان کے اقوال کی حکایت کرے جبکہ ان میں سے ایک گروہ کا قول مجلس میں نشر ہو اور بقیہ تمام لوگ وہاں موجود ہوں اور وہ قول سن کر اس کی مخالفت نہ کریں تو اس کی یہ مراد درست ہے لیکن اس کے باوجود بھی مطلقاً یہ کہنا درست نہیں کہ اجماع نقل نہیں ہوتا ۔ اس لیے بعض اجماع میں پوری جماعت کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں اس صورت میں ان کا اجماع صحیح طریقے سے منقول ہوتا ہے اور بعض اجماع میں ایک گروہ کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں جو پوری طرح پھیل جاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں کے کانوں تک بھی یہ اقوال پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کی طرف سے ان کی مخالفت نہیں ہوتی ، یہ بھی ایسا اجماع ہے جو منقول ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں باقی ماندہ لوگوں کی طرف سے مخالفت کا نہ ہونا یہ موافقت کے قائم مقام ہوجاتا ہے اس لیے اجماع کی یہ دونوں قسمیں جو خواص اور فقہاء کا اجماع کہلاتی ہیں ان کی دوسروں تک نقل کی جاتی ہے۔ اجماع کی ایک اور صورت بھی ہے یہ وہ اجماع ہے جس میں عوام الناس اور خواص دونوں شامل ہوں مثلاً زنا اور سود کی حرمت پر اجماع یا جنابت کی وجہ سے وجوب اغتسال یا نما ز پنجگانہ وغیرہ پر اجماع۔ یہ ایسے امور ہیں جن پر اہل اسلام کا اتفاق معلوم ہے ، اگرچہ ہر ایک سے اس کے اعتقاد اور اس کی دینداری کے متعلق کوئی بات نقل نہیں ہوئی ہے۔ اگر اجماع کی یہ قسم مراد لی جائے تو اس کے متعلق یہ کہنا بھی درست ہے کہ اسے آگے نقل نہیں کیا جاتا ہے اور یہ کہنا بھی کہ یہ آگے منقول ہوتا ہے اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ تمام اہل الصلاۃ اس کا عقیدہ رکھتے اور اسے دین سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر یہ جائز ہے کہ ان کے اس اعتقاد اور دینداری اور اس پر ان کے اجماع کو آگے نقل کیا جائے جس طرح کہ ایک شخص کا اسلام ہم پر ظاہرہو جائے اور ایمان پر اس کے عقیدے کا بھی اظہار ہوجائے تو ایسی صورت میں یہ جائز ہوگا کہ اس کے مسلمان ہونے کی بات آگے نقل کی جائے۔ ارشاد باری ہے فان علمتو ھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار اگر تمہیں ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوجائے تو انہیں کافروں کو واپس نہ کرو وباللہ التوفیق۔ سفر میں روزہ ارشاد باری ہے ومن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر ید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اس آیت میں یہ واضح دلالت موجود ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا شریعت کی طرف سے ایسی رخصت ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے آسانی پیدا فرما دی ہے۔ اگر روزہ نہ رکھنا فرض ہوتا جس پر عمل ضروری ہوتا تو پھر اس قول بار یرید اللہ بکم الیسر کا فائدہ ختم ہوجاتا ۔ اس لیے آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسافر کو اختیار ہے کہ چاہے تو روزہ چھوڑ دے اور چاہے تو روزہ رکھ لے جیسے کہ ارشاد باری ہے ( فاقروا ما تیسر من القرآن) قرآن میں سے تمہیں جہاں سے میسر ہو اس کی قرأت کرلو اسی طرح ارشاد باری ہے فما استیسر من الھدی جو بھی ہدی یعنی قربانی کا جانور میسر آ جائے اس لیے قرآن میں جہاں کہیں بھی یسر یعنی آسانی اور سہولت کا ذکر آیا ہے وہاں تخییر یعنی بندے کو اختیار ملنے پر دلالت موجود ہ۔ عبد الرحیم الجرزی نے طائوس کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :” سفر میں جو شخص روزہ رکھ لے ا س پر ہم نکتہ چینی نہیں کریں گے اور جو نہ رکھے اس پر بھی نہیں کریں گے ، اس لیے کہ ارشاد باری ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے اس قول سے یہ بتایا کہ آیت میں جس یسر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد تخییر ہے ۔ اگر آیت میں اس معنی کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس آیت کی کبھی تفسیر بیان نہ کرتے نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ پھر اس کو عطف کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اللہ تعالیٰ نے مسافر پر نہ روزہ رکھنا واجب قرار دیا ہے اور نہ روزہ چھوڑ نا حالانکہ مسافر کو دو طرح سے شہود رمضان ہوگیا ۔ اول یہ کہ اسے اس کا علم ہوگیا ہے اور وہ اس میں موجود ہے۔ دوم ۔ یہ کہ وہ مکلفین میں سے ہے یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ اسے اس ماہ کے روزے کے حکم کا مخاطب بنایا گیا ہے ۔ لیکن اسے اسے کے باوجود بھی افطار کی رخصت دی گئی ہے ۔ اب اس ارشاد باری ( ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ روزہ نہ رکھے تو پھر دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے، جس طرح یہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ًاو بہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام اور جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں کا فدیہ دے اس کا مفہوم یہ ہے کہ سر میں جو ئوں وغیرہ کی تکلیف کی بنا پر خلق کرا لے یعنی سر کے بال صاف کرا لے تو پھر روزوں کی شکل میں فدیہ ادا کرے۔ سفر میں روزہ کے متعلق مسلمانوں کے مضر اتفاق پر یہ بات دلالت کر رہی ہے کہ مریض اگر روزہ رکھ لے تو اس کے لیے جائز ہوگا اور اس پر قضا واجب نہیں ہوگی ، قضا اس وقت واجب ہوگی جب روزہ نہ رکھے۔ یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ افطار یعنی روزانہ رکھنے کا مفہوم خود اس میں پوشیدہ ہے اور جب یہ بات اس طرح ثابت ہوگئی تو یہ پوشیدہ مفہوم بعینہٖ مسافر کے لیے بھی مشروط ہوگا ۔ جس طرح کہ مریض کے لیے ہے اس لیے کہ آیت میں عطف کے ذریعے ان دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے ۔ یعنی جب دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کے وجوب میں افطار مشروط ہے تو جس شخص نے مسافر پر قضا واجب کی ہے جبکہ وہ حالت سفر میں روزے رکھ لے تو اس نے گویا آیت کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ صحابہ کرام ، ان کے بعد تابعین عظام اور فقہاء امصار کا مسافر کے روزہ کے جواز پر اتفاق ہے البتہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جس شخص نے سفر میں روزہ رکھا اس پر اس کی قضا لازم ہے “ اس مسئلے میں چند ہی لوگوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا ساتھ دیا ہے جن کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جبکہ حضور ﷺ سے خبر مستفیض یعنی بکثرت روایات سے جو موجب علم ہے۔ یہ ثابت ہے کہ آپ نے سفر میں روزہ رکھا تھا۔ آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ سفر میں روزے کو آپ نے مباح قرار دیا ہے۔ ان میں ایک حدیث ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میں سفر روزے رکھتا ہوں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : ” اگر تمہارا دل چاہے تو روزہ رکھ لو اور اگر چاہو تو نہ رکھو “ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابو سعید الخدری ، حضرت انس بن مالک ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو الدرداء اور حضرت سلمہ بن المحبق نے حضور ﷺ سے سفر کی حالت میں روزے سے ہونے کی روایت کی ہے۔ جو لوگ مسافر کے روزہ کے جو از کے قائل نہیں ہیں بلکہ اس پر قضا واجب کرتے ہیں وہ ظاہر آیت ( ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) سے استدلال کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے دنوں میں قضا کی گنتی پوری کرنا دونوں حالتوں میں واجب ہے ۔ اس لیے کہ آیت میں روزہ رکھنے والے مسافر اور نہ رکھنے والے مسافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے حضرت کعب بن عاصم الاشعری ، حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : لیس من البر الصیام فی السفر سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ نیز اس حدیث سے بھی ان کا استدلال ہے جو ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت کی ہے انہیں محمد بن عبد اللہ الحضرمی نے ، انہیں ابراہیم مندر الحزامی نے اور انہیں عبد اللہ بن موسیٰ تیمی نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے۔ اسامہ نے زہری سے ، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد عبد الرحمن سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا الصائم فی السفر کا لمفطر فی الحضر سفر میں روزہ رکھنے والا حالت اقامت میں روزہ نہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ سے حضرت انس بن مالک قشیری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ان اللہ وضع عن المسافر شطر الصلاۃ والصوم وعن الحامل والمرضع اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدمی نماز اور روزہ معاف کردیا ہے اسی طرح حاملہ اور مرضعہ سے بھی ۔ جہاں تک آیت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی ایسا بات نہیں ہے جو ان لوگوں کے دعوے کی دلیل بن سکتی ہو بلکہ یہ تو مسافر کے روزے کے جو از پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں رہ گئی حضور ﷺ کی یہ حدیث کہ لیس من البرا الصیام فی السفر تو یہ ایسا کلام ہے جو ایک مخصوص حالت کے موقع پر فرمایا گیا اس بنا پر اس کا حکم صرف اسی حالت تک محدود رہے گا ۔ اسی حالت کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے اور انہیں شعبہ نے محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ سے ، محمد بن عبد الرحمن نے محمد بن عمرو بن الحسن سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سائبان کی طرح کوئی چیز تان کر سایہ کردیا ہے اور لوگوں کی ایک بھیڑ وہاں موجود ہے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا لیس من البر الصیام فی السفر اس روایت میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ جس کسی نے یہ روایت کی اس نے صرف حضور ﷺ کے اس موقع پر کہے ہوئے الفاظ نقل کردیئے ہیں جبکہ ان میں سے بعض نے سبب کا ذکر کیا ہے اور بعض نے اسے حذف کردیا ہے اور صرف حضور ﷺ کے الفاظ دہرا دیئے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ لوگوں نے فتح مکہ کے سال حضور ﷺ کے ساتھ روزہ رکھا۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو ، ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ تقویت کا باعث ہوگا اس لیے روزہ نہ رکھو یہ حضور ﷺ کی جانب سے عزیمت پر عمل تھا کسی مسئلے میں شریعت کی طرف سے دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کی بجائے اصل حکم پر عمل کرنا عزیمت کہلات ہے۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اس واقعہ سے پہلے اور اس واقعہ کے بعد میں حضور ﷺ کے کے ساتھ روزہ رکھتا رہا ۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے انہیں احمد بن صالح نے ، انہیں ابن وہب نے، انہیں معاویہ نے ربیعہ بن یزید سے اور ربیعہ نے قزعہ سے یہ روایت کی ۔ قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے سفر میں رمضان کے روزے رکھنے کے متعلق دریافت کیا ۔ اس کے بعد درج بالا روایت بیان کی ۔ اس حدیث میں حضرت ابو سعید خدری نے وہ وجہ بھی بیان کردی جس کی بنا پر حضور ﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں صحابہ کرام کو دشمنوں سے جنگ کرنے کی زیادہ قوت ہوتی اور وہ اس لیے کہ جہاد ان پر فرض تھا جبکہ سفر میں روزہ رکھنا فرض نہیں تھا۔ اس بنا پر ان کے لیے درست نہیں تھا کہ وہ فضلیت حاصل کرنے کی خاطر فرض کو ترک کردیں۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اپنے والد عبد الرحمن سے روایت کی ہے اس میں یہ کمزوری ہے کہ ابو سلمہ کا اپنے والد عبد الرحمن سے سماع ثابت نہیں ہے جس کی بنا پر یہ حدیث مقطوع ہے ۔ اس لیے جواز صوم کے سلسلے میں اخبار متواترہ کو ایک ایسی مقطوع حدیث کی بنا پر ترک نہیں کیا جاسکتا جس کا بہت سے لوگوں کے نزدیک کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ یہ ایسا کلام ہو جو کسی سبب کی بنا پر حضور ﷺ سے صادر ہوا ہو اور وہ تھا دشمنوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کا سبب جس کے متعلق سب جانتے ہیں کہ روزہ رکھ کر اسے سر انجام دینا مشکل ہوتا ہے اس لیے اس کلام کے حکم کو اسی حالت تک محدود رکھا جائے گا جس حالت میں یہ صادر ہوا تا کہ حضور ﷺ کے حکم کی مخالفت نہ ہو اور اس کی وجہ سے ترک جہاد لازم نہ آئے۔ رہ گیا حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ ان اللہ وضع عن المسافر شطر الصلاۃ والصوم وعن الحامل والمرضع تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رمضان کی آمد سے مسافر پر روزے کی فرضیت کا تعین نہیں ہوا ( یعنی یہ نہیں ہوا کہ وہ ضرور روزے رکھے) نیز یہ کہ اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن اس روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جس سے روزے کے جواز کی نفی ہوجائے اگر وہ روزہ رکھ لے جس طرح کہ حاملہ اور مرضعہ کے روزے کے جواز کی نفی نہیں ہوتی ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ اما م مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر مسافر کو روزے کی قوت ہو تو اس کا روزہ رکھ لینا زیادہ پسند یدہ ہوگا ۔ امام شافعی نے فرمایا کہ اگر سفر میں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ سفر میں روزے کی افضلیت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ایاما ً معدودا ت فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) تا قول باری وان تقوموا خیر لکم آیت کا آخری حصہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جن کا ذکر آیت میں آچکا ہے ، کیونکہ سلسلہ کلام اس طرح ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے کے ساتھ حرف عطف کے ذریعے منسلک ہے ۔ اس لیے کسی حصے کو بلا دلیل کسی حکم کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسافر کا روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کے آخری حصے کا تعلق اس کے متصل حصے کے ساتھ ہے نہ کہ اس سے ما قبل کے حصوں کے ساتھ اور وہ متصل حصہ یہ قول باری ہے و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری کتب علیکم الصیام میں تمام لوگوں کو خطاب ہے جن میں مقیم اور مسافر سب داخل ہیں ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان تصوموا خیر لکم کا خطاب بھی ان سب کو شامل ہے جو آیت کے ابتدائی خطاب میں داخل ہیں ۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ آیت کے آخری حصے کا خطاب ان میں سے بعض تک محدود ہو نیز ہمارے ما قبل کے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر سفر میں کسی نے روزہ رکھ لیا تو فرضیت ادا ہوجائے گی اور جس عبادت کی یہ حیثیت ہو اس کا تعلق الخیرات بھلائیوں سے ہوتا ہے جس کے متعلق ارشاد باری ہے فاستبقوا الخیرات بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کر جائو اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا انھم کانوا یسارعون یف الخیرات وہ لوگ بھلائیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاتے تھے ، اس لیے بھلائیوں کی انجام دہی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھانا اور سبقت لے جانا ، پیچھے رہ جانے سے افضل ہے ، نیز فرض عبادات کو ان کے مقررہ اوقات میں بجا لانا انہیں دوسرے اوقات تک موخر کرنے سے بہتر ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے کہ من ارادان یجح فلیعجل دجو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے جلدی کرنی چاہیے حضور ﷺ نے حج کی ادائیگی میں تعجیل سے کام لینے کا حکم دیا اس لیے ایسے تمام فرائض کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ انہیں ان کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا انہیں دوسرے اوقات تک موخر کرنے سے افضل قرار دیا جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائو د نے انہیں عقبہ بن مکرم نے ، انہیں ابو قتیبہ نے انہیں عبد الصمد بن حبیب بن عبد اللہ ازدی نے انہیں حبیب بن عبد اللہ نے روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سنان بن سلمہ المحبق کو اپنے والد سلمہ المحبق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ( من کانت لہ حمولۃ یاوی الی شبع فلیصم رمضان حیث ادر کہ) جس شخص کے پاس سواری کا جانور ہو اور پیٹ بھر کر اسے کھانے کو مل جاتا ہو تو اسے جہاں کہیں بھی رمضان کا مہینہ آ جائے وہ روزہ کھ لے۔ محمد بن بکر نے ہمیں یہ حدیث بیان کی ، انہیں ابو دئود نے انہیں نصر بن المہاجر نے انہیں عبد الصمد بن عبد الوارث نے انہیں عبد الصمد بن حبیب نے ، انہیں ان کے والد نے سنان بن سلمہ سے اور سنان بن سلمہ نے المحبق سے روایت کی کہ حضور ﷺ نے اشراد فرمایا من ادرکۃ رمضان فی السفر ۔۔۔۔ جس شخص پر سفر کی حالت میں رمضان آ جائے۔۔۔ سلمہ بن المحبق نے حدیث کا باقی ماندہ حصہ جو بیان کیا وہ درج بالا حدیث کے ہم معنی ہے۔ اس طرح حضور ﷺ نے سفر میں روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن یہ حکم افضلیت کی بنا پر دیا گیا نہ کہ وجوب کے طور پر ، اس لیے کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سفر میں روزہ کھنا واجب نہیں ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی اور حضرت انس بن مالک نے یہ روایت کی ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا افطار سے افضل ہے۔ واللہ اعلم ۔ سفر میں روزہ رکھ کر توڑ دینے والاشخص جس شخص نے سفر میں روزہ رکھ کے بغیر کسی عذر کے اسے توڑ دیا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ قضا کرے گا اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اسی طرح اگر اس نے روزے کی حالت میں صبح کی اور پھر سفر پر روانہ ہوگیا اور روزہ توڑ لیا ، یا سفر پر تھا اور روزہ رکھ لیا پھر گھر پہنچ کر روزہ توڑ لیا ، ان تمام صورتوں میں وہ اس روزے کی قضا کرے گا اور کفارہ نہیں دے گا ۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ رکھ کر توڑ دینے والا قضا بھی کرے گا اور کفارہ بھی دے گا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ کفارہ نہیں دے گا ۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ ایسے شخص پر کفارہ ہوگا ۔ امام مالک کا مزید قول ہے کہ اگر کسی نے حالت اقامت میں روزہ رکھ لیا پھر سفر پر چلا گیا اور روزہ توڑ لیا تو وہ صرف قضا کرے گا ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ مسافر اگر روزہ توڑ لے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اما م لیث کا قول ہے کہ اس پر کفارہ ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزے کا کفارہ شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی حیثیت حدود کی طرح ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا لزوم حدود کی طرح کسی خاص گناہ پر ہوتا ہے۔ اب جبکہ حدود کا شبہ کی بنا پر اسقاط ہوجاتا ہے۔ تو کفارہ رمضان بھی اسی طرح ہونا چاہیے ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم یہ کہیں گے کہ جب مسافر نے سفر کی حالت میں روزہ توڑ لیا تو اس حالت کا وجود کفارہ کے لزوم سے مانع ہوجائے گا اس لیے کہ حالت سفر روزہ نہ رکھنے کو مباح قرار دیتی ہے اس لیے اباحت وطی میں عقد نکاح اور ملک یمین کے مشابہ ہوجائے گا اگرچہ یہ دونوں چیزیں وطی حائض کو مباح نہیں کرتیں ۔ تا ہم تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ وطی کو مباح کرنے والا سبب اگر موجود ہو تو اصل میں یہی وجوب حد سے مانع بن جاتا ہے اگرچہ یہ سبب بعینہٖ اسی وطی کو مباح نہیں کرتا ( جیسا کہ حائضہ کی صورت میں ہوتا ہے اسی طرح سفر کی حیثیت ہے اگرچہ سفر روزے میں داخل ہوجانے کے بعد روزہ توڑ دینے کو مباح نہیں کرتا لیکن یہ وجوب کفارہ سے مانع بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ بنیادی طور پر افطار کی اباحت کے لیے اسے سبب بنایا گیا تھا۔ اسی بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر سفر کی حالت میں اس نے روزہ توڑ دیا تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت انس بن مالک وغیرھما نے یہ روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے سفر کے اندر روزہ رکھنے کے بعد روزہ توڑ دیا تھا اور یہ اس لیے کیا تھا تا کہ لوگوں کو سفر میں جواز افطار کی تعلیم دی جاسکے۔ اس بنا پر ایسی صورت میں روزہ توڑ دینے کی وجہ سے کفارہ واجب کرنا درست نہیں ہوگا ۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ سفر کی حالت میں چونکہ روزہ رکھنے کا فعل مسافر پر لازم نہیں ہوتا تو اس کی مشابہت رمضان کی قضا رکھنے والے یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھنے والے کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر روزہ تو دڑنے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس لیے کہ ابتدائی طور پر اس کے لیے روزہ رکھنا لازم نہیں تھا اور شروع کرنے کی وجہ سے اسے پورا کرنے کا لزوم ، روزہ توڑ دینے کی صورت میں ۔ اس پر کفارہ واجب نہیں کرتا تو یہی صورت مسافر کی بھی ہونی چاہیے اگر حالت سفر میں روزہ رکھ کے توڑ لے۔ اگر روزے کی حالت میں صبح کرے پھر سفر پر نکل جائے اور روزہ توڑ لے تو اس صورت میں بھی کفارہ اس لیے لازم نہیں آئے گا کہ افطار کو مباح کردینے والی حالت یہاں موجود ہے اور وہ حالت سفر ہے جس طرح کہ عقد نکاح اور ملک یمین اباحت وطی کا سبب ہیں اگرچہ اس سے حائضہ عورت کے ساتھ وطی مباح نہیں ہوتی ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ درج بالا صورت میں جبکہ کسی شخص نے روزے کی حالت میں صبح کی تو حالت اقامت کی وجہ سے اس کے لیے ترک صوم مباح نہیں تھا۔ اس لیے اس پر کفارہ واجب کردینا چاہیے اگر وہ دن کے کسی حصے میں سفر شروع کر کے اپنا روزہ توڑ دے ، اس لیے کہ دن کے شروع میں اس پر روزہ رکھنے کا فعل لازمی تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوگا اس لیے کہ اس پر ایسی حالت یعنی حالت سفر ، طاری ہوگئی ہے جو وجوب کفارہ سے مانع ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص حالت سفر میں ہو اور اس نے روزہ رکھ لیا پھر گھر پہنچ کر روزہ توڑ دیا تو اس پر کفارہ نہیں اس لیے کہ ابتداء ہی سے اس پر روزہ لازم نہیں تھا۔ اس بنا پر اس کی مشابہت رمضان کی تضاء رکھنے والے یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھنے والے کے ساتھ ہوگئی، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص نے روزہ نہ رکھا اور پھر اسی دن گھر واپس آگیا یا حائضہ عورت دن کے کسی حصے میں حیض سے پاک ہوگئی ۔ ہمارے اصحاب حسن بن صالح اور امام اوزاعی کا قول ہے کہ ان دونوں پر قضاء لازم ہے اور دن کا باقی ماندہ حصہ اسی طرح گزاریں گے جس طرح ایک روزہ دار گزارتا ہے۔ یہی عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے ابن شبرمہ نے کہا ہے کہ مسافر اگر گھر پہنچ جائے اور اس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو تو وہ بقیہ دن روزہ رکھے گا اور قضاء بھی کرے گا اور اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو وہ کھاپی سکے گی اور روزہ نہیں رکھے گی ۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے یا مسافر گھر پہنچ جائے جبکہ اس نے سفر میں روزہ نہیں رکھا تو وہ کھا پی سکے گا اور امساک نہیں کرے گا امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ جابر بن یزید سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ سفیان ثوری نے عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ” جس شخص نے دن کے اول حصے میں کچھ کھا پی لیا وہ دن کے آخری حصے میں بھی کھا پی لے ‘ ‘۔ سفیان ثوری نے خود بھی اس قول سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے روزہ نہ رکھنے کی نیت کے ساتھ صبح کی اور اسے پتہ نہ ہو کہ یہ رمضان کا دن ہے تو کھانے پینے سے باز رہے گا اور قضاء رکھے گا ۔ اگر اسے دن کے وقت رمضان شروع ہوجانے کا علم ہوگیا اور اس کے بعد اس نے کھا پی لیا تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا ، البتہ اگر اس نے دیدہ دلیری کے ساتھ کھانے پینے کا عمل کیا تو اس پر کفارہ بھی واجب ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا جب اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کسی رکاوٹ کی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہ آئے اور وہ اگلے دن کھا پی لے پھر اسے چاند ہوجانے کا علم ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ اسی طرح امساک کرے گا جس طرح روزہ دار کرتا ہے اور یہی مسئلہ حائضہ اور مسافر کا بھی ہے ان سب کے درمیان مشترک بات یہ ہے کہ کھا پی لینے کے بعد ان پر طاری ہونے والی حالت ، یعنی چاند کا علم ہوجانا ، اگر دن کی ابتداء میں موجود ہوتی تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم ہوتا ۔ اس لیے اگر کھا پی لینے کے بعد یہی حالت ان پر طاری ہوگئی تو انہیں امساک کا حکم دیا جائے گا ۔ اس استدلال کی صحت پر حضور ﷺ کا وہ حکم دلالت کرتا ہے جو آپ نے عاشورہ کے دن کھا پی لینے والوں کو دیا تھا کہ وہ باقی ماندہ دن کھانے پینے سے باز رہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے ان پر قضا واجب کردی تھی ۔ حضور ﷺ کا یہ حکم اپنے نظائر کے لیے اصل کا کام دیتا ہے۔ امام مالک کا یہ قول کہ اگر اس نے دیدہ دلیری کے ساتھ کھانے پینے کا عمل کیا تو اس پر کفارہ لازم آئے گا ۔ ایک بےمعنی قول ہے اس لیے کہ اس کفارے کا وجوب خاص حالت میں روزہ فاسد کردینے کے عمل کے ساتھ مختص ہے جبکہ اس قسم کے کھا پی لینے والے نے کھاپی کر روزہ فاسد نہیں کیا ۔ اس لیے اس پر اس کی وجہ سے کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ ایسا مسافر جو رمضان میں رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ رکھ لے اس مسافر کے متعلق اختلاف رائے ہے جو رمضان میں کوئی اور واجب روزہ رکھ لے ۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ وہ جس روزے کی نیت کرے گا وہی روزہ ہوجائے گا ۔ اگر اس نے نفلی روزہ رکھ لیا تو اس کے متعلق امام صاحب سے دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ اس کا یہ روزہ رمضان کا روزہ بن جائے گا اور دوسری روایت یہ ہے کہ یہ نفلی روزہ ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں یہ رمضان کا روزہ ہوگا ۔ ہمارے اصحاب کا متفقہ قول ہے کہ اگر کسی نے حالت قیام میں رمضان کے اندر کسی اور واجب یا نفلی روزے کی نیت کرلی تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا اور ادائیگی ہوجائے گی ۔ سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کسی عورت نے رمضان میں نفلی روزے رکھے پھر اسے اچانک رمضان کا علم ہوگیا تو اسے کے یہ رکھے ہوئے روزے رمضان کے روزوں کے لیے کفایت کر جائیں گے ۔ ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ جس شخص نے دشمن کی سر زمین میں نفلی روزے رکھے اور اس کا اسے علم ہی نہ ہو کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس کے یہ نفلی روزے رمضان کے روزوں کا کام دیئے جائیں گے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ جس شخص نے رمضان کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھا اور اسے رمضان کے دخول کا علم نہ ہو تو اس کا یہ روزہ رمضا ن کے روزے کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کسی شخص کو اس کی گنجائش نہیں ہے کہ رمضان میں وہ کوئی اور واجب یا کسی اور رمضان کا قضا روزہ رکھے ۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو نہ رمضان کے روزے کی ادائیگی ہوگیا اور نہ ہی کسی اور روزے کی۔ ابو بکر جصا ص کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے حالت اقامت کے اندر رمضان میں نفلی روزہ رکھنے والے کے مسئلے پر بحث کریں گے ۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر ظاہری طور پر سے کئی وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے ان میں سے ایک وجہ قول باری کتب علیکم الصیام تا قول باری وان تصوموا اخیر لکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی خاص روزے کا ذکر نہیں کیا بلکہ آیت کا لفظ ہر قسم کے روزے کو شامل ہے خواہ وہ نفلی ہو یا فرضی ، بہر صورت یہ روزہ فرض روزے کی کفایت کر جائے گا ۔ اس لیے کہ رمضان میں نفلی یا کوئی اور واجب روزہ رکھنے والے کا روزہ تو وہی روزہ قرار پائے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی یا وہ فضول قرار دیا جائے گا کہ گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں یا وہ رمضان کے روزے کی کفایت کرے گا ۔ پہلی دو صورتیں اس بات سے مانع بن جائیں گی کہ وہ روزہ اس روزہ دار کے لیے بہترہو بلکہ اس روزے کا رمضان کے روزے کی کفایت کرنا اس کے حق میں بہتر ہوگا اس لیے یہ ضروری ہوگا کہ اسے فضول قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کی نیت کا لحاظ کیا جائے جو اس نے رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی کرلی ہو بلکہ اس روزے کو رمضان کا ہی روزہ قرار دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ فمن شھمد منکم الشھر فلیصمہ اور سلسلہ کلام میں پھر یہ فرمایا ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام خر تمام فقہائے امصار کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ آیت کے آخری حصے میں افطار یعنی روزے نہ رکھنے کا مفہوم پوشیدہ ہے گویا مفہوم کلام یہ ہوا جو شخص بیمار یا مسافر ہو اور وہ روزہ نہ رکھے تو پھر ایسی صورت میں دوسرے دنوں کی گنتی پوری کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر پر قضا اسی وقت رکھی جب وہ روزہ نہ رکھیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قیام کی حالت میں جو شخص بھی روزہ رکھے گا اور افطار پر عمل پیرا نہیں ہوگا اس قضاء لازم نہیں ہوگی اس لیے کہ آیت کے ضمن میں ان تمام لوگوں کا روزہ آ جاتا ہے جنہیں روزہ رکھنے کے حکم کا مخاطب بنایا گیا ہے۔ البتہ ان میں وہ مریض اور مسافر داخل نہیں ہیں جنہوں نے افطار کی رخصت پر عمل کیا ہو۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد صوموا لرویتہ و افطروا لرئو یتہ فان عم علیکم فعدوا ثلاثین بھی دلالت کرتا ہے ۔ اس ارشاد کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے وہ شخص جس نیت سے بھی روزہ رکھے اس کے لیے جائز ہے ۔ خواہ وہ نفلی ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور نیز اس میں یہ نقطہ نظر بھی ہے کہ رمضان کا روزہ چونکہ رمضان کے دوران مستحق العین ہے یعنی یہ اس معین وقت میں فرض ہے اس لیے یہ یوم النحر یعنی دسویں ذوالحجہ کو طواف زیارت کے مشابہ ہوگیا ، کیونکہ اس روز طواف کرنے والا جس نیت سے بھی طواف کرے گا اس کا فرض پورا ہوجائے گا حتیٰ کہ اگر اس نے کسی اور کی طرف سے اس کی نیت کرلی تو پھر اس کا اپنا فرض ادا ہوگا اور دوسرے کی طرف سے اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ اگر اس صورت میں اس کا فرض ادا نہ ہوتا تو یہ ضروری ہوتا کہ اس کی نیت کے مطابق ادا ہوجائے جس طرح رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں رکھے ہوئے روزے روزہ دار کی نیت کے مطابق ادا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی شخص کو اگر صرف اتنا ہی وقت ملے جس میں وہ ظہر کی نماز ادا کرسکتا ہو تو ایسی صورت میں اس محدود وقت کے اندر ظہر کی نماز مستحق العین ہوگی یعنی صرف ظہر ہی کی نماز ادا کی جائے گی لیکن اس وقت اگر کسی نے نفل کی نیت سے ظاہر ادا کی تو یہ ناجائز ہوگا اس سے آپ کا بیان کردہ کلیہ ٹوٹ گیا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظہر کا وقت ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مستحق العین نہیں کیونکہ اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ایک شخص اس میں ظہر کی نماز اور اس کے علاوہ کوئی اور نمازادا کرلے۔ اس لحاظ سے اول وقت اور آخر وقت کے مابین کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر اول وقت میں نفل نماز پڑھنے سے جس طرح فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی اسی طرح آخر وقت میں بھی نفل پڑھ کرف رض نہیں ادا ہوگا ۔ نیز اگر اس نے آخر وقت میں نفل یا ظہر کے علاوہ کسی اور فرض کی نیت کر کے نماز پڑھ لی تو یہ نماز اس کی نیت کے مطابق قرار پائے گی ، جبکہ ہمارا اس امر پر اتفاق ہے کہ عین رمضان میں روزہ رکھنا کسی اور روزے کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا بلکہ یہ اسی رمضان کا ہی روزہ ہوگا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ مستحق العین ہے ۔ اس لیے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اور روزہ درست نہیں ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ رضمان کا وقت ایسا ہوتا ہے جو سارے کا سارا فرض کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے ۔ اس بنا پر اس فرض کی اس کے اس مقررہ وقت سے نہ تو تقدیم درست ہے اور نہ تاخیر لیکن نماز ظہر کے وقت کی یہ کیفیت نہیں ہے کہ اس کا سارا وقت اس نماز کی ادائیگی میں صرف ہوجائے ۔ اس لیے اگر اس نے یہ نماز موخر کر کے پڑھی تو پھر اس کی فرضیت سے وہ سبکدوش ہوجائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد الاعمال بالنیات وانما لکل امری مانوی تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا اس بات سے مانع ہے کہ کوئی شخص رمضان میں نفلی روزے کی نیت کرے اور پھر رمضان کا روزہ ادا ہوجائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد الاعمال بالنیات سے استدلال درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جو اگرچہ الفاظ میں مذکورہ نہیں ہے لیکن اس میں کئی معنی کا احتمال ہے۔ اس بنا پر اس فقرے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ” اعمال کے جو ازکا دارومدار نیتوں پر ہے “ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اعمال کی فضلیت کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اگر اس کے متعلق فریقین میں تنازعہ پیدا ہوگا تو اس صورت میں اس کے اثبات کے لیے کسی دلالت کی ضرورت ہوگی جس کی وجہ سے اس فقرے سے استدلا ل ہی ساقط ہوجائے گا۔ رہا حضور ﷺ کا ارشاد وانما لکل امری مانوی تو ہمارا فریق مقابل بھی اسی مسئلے میں ہم سے اتفاق کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان میں نفل یا کسی اور واجب روزے کی نیت کرے گا تو اس کی نیت درست نہیں ہوگی ۔ اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے سوا اور کسی فرض یا نفل کی ادائیگی نہیں ہوگی جبکہ فریق مخالفت کا قول ہے کہ ایسی صورت میں نہ رمضان کی ادائیگی ہوگی اور نہ اس روزے کی جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس بنا پر سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ یہ حدیث اپنے ظاہر کے لحاظ سے اس مسئلے میں قابل استدلا ل نہیں ہے ، نیز وانما لکل امری مانوی سب کے نزدیک اپنے حقیقی معنوں استعمال نہیں ہوتا اس لیے کہ الفاظ کے حقیقی معنوں کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص روزے کی نیت کرلے وہ صائم بن جائے اور جو نماز کی نیت کرلے وہ مصلی بن جائے خواہ اس نے نہ روزہ رکھنے کا عمل کیا ہوا ورنہ نماز پڑھنے کا جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ایک شخص افعال صلوٰۃ کی ادائیگی کے بغیر صرف نیت کی بنا پر مصلی نہیں بن سکتا ۔ یہی بات روزے اور دوسرے تمام فرائض اور عبادات کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔ اس پوری بحث سے یہ بات نکھر کے سامنے آ گئی کہ حدیث کے یہ الفاظ اپنے حکم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں جب تک کہ ان کے ساتھ قرینہ نہ پایا جائے اس بنا پر فریق مخالف کا اسے بطوراستدلال لانا دو وجوہ سے ساقط ہوگیا ۔ اول یہ کہ حکم کا تعلق ایسے معنی کے ساتھ ہے جو محذوف ہے اور جس کے اثبات کے لیے کسی دلالت کی ضرورت ہے اور جس فقرے کی یہ کیفیت ہو اس کے ظاہر س استدلا ل کرنا ساقط سمجھا جاتا ہے۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ( وانما لکل امری مانوی) اس کا متقاضی ہے کہ اس کا روزہ درست ہوجائے۔ جب وہ نفل کی نیت کر کے رکھے اور جب روزہ درست ہوجائے گا ۔ تو باوجود نفل کی نیت کے اس کا فرض ادا ہوجائے گا اس لیے کہ ہمارا اور فریق مخالف کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر اس کی نیت کی بنا پر فرض ادا نہ ہوگا تو وہ روزہ بھی درست نہیں ہوگا جس کی اس نے نیت کی ہے۔ اس لیے ولکل امری مانوی کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس چیز کی اس نے نیت کی ہے ۔ وہ اسے حاصل ہوجائے۔ بصورتدیگر ہم لفظ کے حکم کو سرے سے لغو اور بےفائدہ قرار دینے کے مرتکب ہوں گے درج بالا بیان سے ظاہر ہوگیا کہ حضور ﷺ کے ارشاد کو اس مسئلے کے سلسلے میں بطور استدلال پیش کیا جاسکتا ہے۔ نیز حضور ﷺ کے فحوائے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کی نیت کا جو مقتضی ہوگا وہی اسے فرض کے ثواب یا درجہ کی بلندی وغیرہ کی صورت میں ملے گا اور اسی کا وہ مستحق ٹھہرے گا اور اس سے وقوع فعل مراد لینا درست نہیں ہے ا س لیے کہ فعل تو موجود ہوتا ہے اور حاصل بھی ہوجاتا ہے خواہ نیت ہو یا نہ ہو ۔ نیت اس فعل کے احکام کو اپنے مقتضی اور موجب کے مطابق پھیردیتی ہے یہ مقتضی فرض کے ثواب یا فضلیت کا استحقاق ہوتا ہے یا تعریف یا مذمت کا استحقاق اگر نیت تعریف یا مذمت کا تقاضا کرتی ہو ۔ جب یہ بات اس طرح ثابت ہوگئی تو درج بالا حدیث میں نیت سے متعلق قول کے دو میں سے ایک معنی ہوں گے۔ یا تو یہ کہ روزے کے جواز یا بطلان پر لفظ کے حکم کی دلالتکا سرے سے اعتبار نہ کیا جائے اور اس صورت میں اسکے جواز یا بطلان پر کسی اور لفظ کی دلالت لانا واجب ہوجائے، یا یہ کہ لفظ کے حکم کو اس چیز میں قابل عمل سمجھا جائے جو اس کے مضمون کا مقتضی ہو اور وہ ہے اس حکم سے تعلق رکھنے والے ثواب یا تعریف یا مذمت کا افادہ جو اس لفظ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جب لفظ کا استعمال اس طریقے پر ضروری ٹھہرا اور اس کی نیت تقرب الٰہی کی کسی صورت کے حصول کی طرف متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے تقرب حاصل ہوجائے ۔ پھر اس میں کم سے کم درجہ یہی ہے کہ اگر نفل روزے کی نیت کرنے والے کا ثواب فرض روزے کی نیت کرنے والے کے ثواب کے برابر نہیں تو اس سے کم ضرو ر ہو لیکن ثواب کی کمی فرض کی ادائیگی کے جواز سے مانع نہیں ہوگی ۔ اس پر حضور ﷺ کا ارشاد ان الرجل لیصلی الصلاۃ فیکتب لہ نصفھاء بعھاخمسھا عشرھا ایک آدمی نماز تو پڑھ لیتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں اس کے ثواب کا نصف چوتھائی ، پانچواں یا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے ثواب کی کمی کی خبر کے ساتھ ساتھ جواز صلاۃ کی اطلاع بھی دے دی ۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ لفظ کے حکم کا تعلق ثواب یا عقاب یا حمد یاذم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی صحت پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے ولکل امری مانوی ، فمن کانت جھرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ ومن کانت جھرتہ الی دنیا یصیبھا او مراۃ یتزوجھا فھجوتہ الی ما ھا جرالیہ ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی پس جس شخص کی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اس کی نیت کردہ چیز کی طرف ہوگی۔ امام شافعی کا خیال یہ ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہو پھر وہ نفل حج کی نیت سے احرام باندھ لے تو حج کرنے کی صورت میں اس کا فرض ادا ہوجائے گا ۔ امام شافعی نفل کی نیت کو ساقط کر کے اسے فرض کی نیت قرار دے دیا حالانکہ ان کا قول یہ ہے کہ حج کی فرضیت فی الفور نہیں ہوتی بلکہ اس میں مہلت ہوتی ہے اور اسے وقت معین میں بجا لانا ضروری نہیں ہوتا ۔ امام شافعی کی یہ بات جو از کے لحاظ سے رمضان کے روزے کی بات سے بھی بڑھ کر ہے اس لیے کہ رمضان کا روزہ مستحق العین ہے یعنی ایک معین وقت میں اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس وقت سے نہ اس کی تقدیم جائز ہے اور نہ ہی تاخیر ۔ اس طرح امام شافعی نے الاعمال مالنیات ولکل امرعی مانوی کو اپنے قول کے لیے بنیاد اور اصل قرار دیا تھا اس کے ظاہر کو انہوں نے ترک کردیا اور انہوں نے اس میں وقت نظر سے کام نہیں لیا جس سے ان کے قول کی تائید ہوتی ، حالانکہ اپنے اصل کے لحاظ سے ان کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے جس کا وہ دعویٰ کرتے چلے آیت ہیں ۔ جہاں تک ہمارے اصل کا تعلق ہے تو ہم نے بیان کردیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں بلکہ ساقط ہے ہم نے اس حدیث کے معنی اور مقتضی کی پوری وضاحت کردی ہے اور یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ حدیث رمضان میں نفل روزے کی نیت کرنے والے کو فرض کی ادائیگی کا جواز فراہم کرتی ہے ۔ اس لیے ہم نے اس سے جو استدلال کیا تھا اور اس پر جو عقلی دلائل پیش کئے تھے وہ اپنی جگہ درست رہے اور اس حدیث کی بنا پر ان دلائل پر کوئی گرفت نہ ہوسکی ۔ اگر مسافر رمضان میں اس پر عائد شدہ کسی اور روزے کی نیت کرے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی نیت کے مطابق روزہ ادا ہوجائے گا ۔ اس لیے کہ سفر کی حالت میں اس پر روزہ رکھنے کا فعل ضروری نہیں ہوتا اور اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار ہوتا خواہ اسے کوئی ضر ر لاحق ہونے کا امکان نہ ہو تو یہ ایام غیر رمضان کے دوسرے تمام آیام کے مشابہ ہوگئے جب دوسرے تمام ایام میں اس کا رکھا ہوا روزہ اس کے حسب نیت درست ہوگا تو رمضان کے دنوں میں بھی اسی مسافر کے لیے یہی حکم ہوگا اس بنا پر یہ چاہیے کہ جب وہ نفل روزے کی نیت کرے تو اس روایت کے مطابق جو امام ابوحنیفہ سے منقول ہے اس کا یہ روزہ نفلی روزہ قرار پائے اور یہی روایت زیادہ قرین قیاس ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کی بیان کردہ وجہ کی بنا پر یہ لازم آتا ہے کہ اگر رمضان میں مریض جسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ۔ غیر رمضان یعنی نفل یا واجب روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت درست ہوجائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی اس لیے کہ یہاں وہ علت یا وجہ نہیں پائی جاتی جس کا ذکر ہم نے مسافر میں کیا ہے ۔ اس لیے کہ مسافر کی صورت حال جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ قول واجب ہوا، اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور باوجودیکہ اسے کسی ضرر کے لا حق ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حالت غیر رمضان کی حالت کے مشابہ ہوگئی لیکن مریض کی حالت یہ نہیں ہے کیونکہ اسے روزہ چھوڑنا صرف اسی صورت میں جائز ہوگا جبکہ روزہ رکھنے کی وجہ سے بیماری کے بڑھ جانے اور ضرر لا حق ہوجانے کا اندیشہ ہو، اب اگر مریض کو روزہ رکھنے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہوگا اور اگر روزہ کی وجہ سے ضرر لا حق ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا ۔ جب یہ صورت حال ہوگی تو یا تو اس پر روزے کا فعل ضرور ی ہوگا یا ترک فعل ضروری ہوگا ، اسے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیا حاصل ہوگا جیسا کہ مسافر کو حاصل ہوتا ہے اس بنا پر جب بھی وہ روزہ رکھے گا اس سے اس کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی کیونکہ روزہ نہ رکھنے کی اباحت کا تعلق اندیشہ ضرر سے ہے، اس لیے جب وہ روزہ رکھے گا اندیشہ ضرر زائل ہوجائے گا اور وہ تندرست کریم کے بمبزلہ قرار پائے گا ، اس لیے جس نیت سے بھی وہ روزہ رکھے گا ، وہ رمضان کا ہی روزہ شمار ہو کر اس کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گا ۔ واللہ اعلم ۔ قضاء رمضان میں دنوں کی تعدا د کا بیان ارشاد باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر بشربن الولید نے امام ابو یوسف سے اور ہشام نے امام محمد سے ہمارے اصحاب کا یہ متفقہ مسلک بیان کیا ہے کہ اگر ایک شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ کر انتیس دن کے روزے رکھے تو اس شہر میں رہنے والا مریض جس نے روزے نہیں رکھے تھے وہ بھی انتیس دنوں کی قضاء کرے گا ۔ اگر ایک شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ کر تیس دن کے روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے انتیس دن کے اور انہیں دوسرے شہروالوں کے تیس دن کے روزوں کا علم بھی ہوگیا تو انہیں ایک دن کا روزہ قضا کرنا پڑے گا اور مریض بھی تیس دن کے روزے قضا کرے گا ۔ امام مالک سے ان کے بعض اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ مریض چاند کے حساب سے روزوں کی قضا کرے گا ۔ اشہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ آپ سے ایک مریض کے متعلق پوچھا گیا جس کے ذمے کئی سالوں کے روزے قضاء تھے ، پھر قضا کئے بغیر اس کی وفات ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو فی مسکین ایک مد کے حساب سے خوراک دے دی جائے گی ۔ ثوری کا قول ہے کہ رمضان میں بیمار پڑجانے والا انسان انتیس روزوں کی صورت میں اتنے ہی روزے رکھے گا جتنے اس کے ذمہ ہیں ۔ حسن بن صالح سے اس مسئلے میں ذرا تفصیل منقول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص یکم رمضان سے لے کر آخر رمضان تک بیماررہا اور روزے نہیں رکھے ، پھر کسی مہینے کی ابتدا سے قضا رکھنے شروع کردے۔ یہ مہینہ انتیس کا نکلا تو اس کے لیے انتیس دنوں کے روزے کافی ہوں گے اگرچہ قضا ہونے والا رمضان تیس دنوں کا کیوں نہ ہو اس لیے کہ اس نے ایک مہینے کے بدلے میں ایک روزہ رکھ لیا ۔ اگر مہینے کی یکم تاریخ سے اس نے قضا شروع نہیں کی تو پھر تیس دن پورے کرے گا ۔ خواہ فضا شدہ رمضان انتیس دنوں کا کیوں نہ ہو، کیونکہ مہینہ انتیس دنوں کا نہیں ہوتا صرف وہی مہینہ انتیس دنوں کا شمار ہوگا جس کا یکم تاریخ سے آخری دن تک حساب کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مہینہ انتیس یا تیس دنوں کا ہو ، پھر مریض قضاء روزے رکھنے کا ارادہ کرلے تو وہ اتنے ہی دن روزے رکھے گا جتنے دنوں کا وہ رمضان تھا جس کی وہ قضا کر رہا ہے۔ خواہ اس نے قمری مہینے کی یکم تاریخ سے قضا کی ابتداء کی ہو یا درمیان سے ، کیونکہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر اس کا مفہوم ہے دوسرے دنوں کی تعداد۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثالثین یعنی تیس کی تعداد ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر دوسرے دنوں کی تعداد واجب کردی ہے تو اس پر نہ اضافہ جائز ہے اور نہ کمی ۔ خواہ وہ مہینہ جس کی وہ قضاکررہا ہے نا قص ہو یعنی انتیس دنوں کا ہو یا کامل تیس دنوں کا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قضا شدہ روزوں کی مدت ایک ماہ ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اور تیس دنوں کا بھی تو ہو انتیس یا تیس دنوں والے مہینوں میں سے جس مہینے میں بھی قضا کرے گا ۔ اس کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں مہینے کے بدلے مہینہ ہوجائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ اللہ تعالیٰ نے فعدۃ من ایام اخر فرمایا ہے ، فشھر من ایا اخر نہیں فرمایا ہے۔ یعنی قول باری کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دنوں سے قضا شدہ دنوں کی گنتی پوری کرو نہ کہ مہینہ پورا کرو۔ اس بنا پر جتنے دن اس نے روزے نہیں رکھے اتنے دنوں کی گنتی پوری کرنا واجب ہے ۔ اس لیے آیت کے ظاہر کی پیروی واجب ہے اور ظاہر سے تجاوز کر کے ایسیے معنی مراد لینا جس کی اس میں گنجائش ہے ، درست نہیں ہے۔ اس پر یہ قول باری والتکملوا العد ۃ بھی دلالت کر رہا ہے کیونکہ اس کا مفہوم ہے کہ تم گنتی یعنی تعداد پوری کرو ، اگر قضا شدہ رمضان کے تیس دن ہوئے تو اس پر دوسرے دنوں سے تیس کی تعداد پوری کرنا لازمی ہوگا ۔ اگر اس نے انتیس دن والے مہینے پر انحصار کیا تو وہ گنتی پوری کرنے والا قرار نہیں پائے گا ۔ اس استدلال سے ان لوگوں کے قول کا بطلان واضح ہوگیا جو مہینے کے بدلے مہینے کے قائل ہیں اور گنتی کا جنہوں نے اعتبار نہیں کیا ۔ اس پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں درمیان سے روزے چھوڑے ہوں تو اس پر چھوڑے ہوئے دنوں کی تعداد کے برابر قضالازم آئے گی ۔ اس لیے اگر کسی نے پورا مہینہ روزہ نہیں رکھا تو اس کے لیے بھی اسی اصول کا اعتبار ہونا چاہیے ۔ اگر کسی شہر والوں نے چاند دیکھ کر انتیس دن روزہ رکھا اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھ کر تیس دن رکھا تو ایسی صورت میں ہمارے اصحاب نے انتیس دن والوں پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم کردی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے کہ والتکملوا العدۃ اس میں اللہ تعالیٰ نے مہینے کی تکمیل کو واجب قرار دیا ہے اور ایک شہر والوں کی روایت کی بنا پر یہ ثابت ہوگیا کہ مہینہ تیس دنوں کا تھا اس بنا پر دوسرے شہر والوں پر اس کی تکمیل واجب ہو جاء گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل کے حکم کے ساتھ کسی خاص گروہ یا قوم کو خاص نہیں کیا بلکہ یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔ نیز قول بار ی فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ سے بھی اس کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں شہود رمضان مراد اس کا علم ہے ۔ اس لیے کہ جس شخص کو رمضان کی آمد کا علم نہیں ہوگا ۔ اس پر اس کا روزہ لازم نہیں ہوگا جب اسے صحیح طریقے سے معلوم ہوگیا کہ مہینہ تیس دنوں کا تھا اس لیے کہ دوسرے شہر والوں نے رویت کی بنا پر تیس دنوں کے روزے رکھے تھے تو اس پر بھی تیس دنوں کے روزے واجب ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ تیس دنوں کے روزے اس پر واجب ہوں گے جسے ابتداء ہی سے اس کا علم ہو ۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ تیس دنوں کے اس پر ہوں گے جسے ابتداء ہی سے اور جسے رمضان گزر جانے کے بعد علم ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کافروں کے علاقے دارالحرب میں ہو اور رمضان کی آمد کا اسے علم نہ ہو سکے پھر رمضان گزر جانے کے بعد اس کا علم ہو تو اس پر اس کی قضا واجب ہوجائے گی ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ امر سب کو شامل ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ ، فال غم علیکم فعدہ واثلاثین اب جن لوگوں نے انتیس دن کے روزے رکھے تو گویا ان کے لیے تیس دن روزے رکھنے والوں کی رویت آڑے آ گئی اور یہ بات ان کے اور رویت کے درمیان بمنزلہ حائل ہوگئی اس بنا پر اب انہیں تیس کی گنتی پوری کرنا ضروری ہوگیا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ ہر شہر والوں کی اپنی رویت کا اعتبار کیا جائے ان کے لیے دوسرے شہر والوں کی رویت کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اب جب ہر شہر والوں نے اپنے طور پرچاند دیکھا ہے تو روزہ رکھنے اور روزہ ختم کرنے میں ان کی اپنی رویت پر عمل کرنا فرض ہوگا ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( صوموالرویتہ وافطروالرویتہ) اس پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رویت کی بنا پر روزہ رکھیں اور اسی بنیاد پر روزہ ختم کردیں ان کے ذمے دوسرے علاقوں یا شہروں کی رویت کا انتظار کرنا نہیں ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان میں سے ہر شہر والے اپنے طور پر رویت ہلال کے حکم کے مخاطب ہیں جس میں دوسرے شہر والے ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ تمام آفاق والوں کو عام ہے اور یہ کسی ایک شہر والوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جب یہ بات ہے تو جس طرح ایک شہر والوں کی رویت کا روزہ رکھنے اور روزہ ختم کرنے میں اعتبار کیا جاتا ہے تو اسی طرح دوسرے شہروالوں کی رویت کا بھی اعتبار کرنا واجب ہوگا ۔ جب ایک شہر والوں نے رویت کی بنا پر انتیس دن کے روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے رویت کی بنا پر ہی تیس دن کے روزے رکھے تو پہلے شہر والوں پر ایک دن کی قضا واجب ہوگی اس لیے کہ انہیں بھی وہ رویت ہوگئی ہے جو تیس دن کے روزے واجب کرتی ہے۔ درج بالا اعتراض میں یہ جو استدلال کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آفاق میں پھیلے ہوئے شہروں میں سے ہر شہر والوں کی اپنی رویت کا اعتبار کیا جائے گا اور دوسروں کی رویت کا انتظار نہیں کیا جائے گا تو اس کے متعلق ہمارا مسلک یہ ہے کہ یہ بات اس شرط پر واجب ہوگی اگر عدد کے لحاظ سے ان کی رویت دوسروں کی رویت کے مخالف نہ ہو ۔ اس لیے ایک شہر والے تو فی الحال اسی بات کے مکلف ہوں گے جس کا اعتبار کرنا ان کے لیے ممکن ہوگا اور اس وقت جس چیز کی معرفت کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا اس کے وہ مکلف ہی نہیں ہوں گے۔ لیکن جس وقت اصل صورت حال ان کے سامنے آ جائے گی انہیں اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شہر والوں کو بادل یا کہر کی وجہ سے رویت ہلال نہیں ہوسکی ۔ لیکن ان کے سوا کچھ دوسرے لوگوں نے آ کر اس بات کی گواہی دی کہ انہیں اس سے قبل رویت ہلال ہوچکی ہے۔ اس خبر کے ملتے ہی ان کے لیے اس پر عمل لازم ہوجائے گا اور ان کے پاس عدم رویت کا جو حکم ہے وہ کالعدم ہوجائے گا ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے جسے فریق مخالف اپنے دعوے کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے ، انہیں اسماعیل بن جعفر نے ، انہیں محمد بن ابی حرملہ نے رویت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے کریب نے بتایا کہ انہیں ام الفضل بنت الحرث نے حضرت معاویہ کے پاس شام بھیجا۔ شام پہنچ کر انہوں نے ام الفضل کا کام سر انجام دے دیا ۔ ابھی وہ شام میں تھے کہ رمضان کا چاند ہوگیا ۔ جمعہ کی رات سب نے چاند دیکھا، پھر کریب رمضان کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ ان کی حضرت ابن عباس ؓ سے گفتگو ہوئی جس میں چاند دیکھنے کا بھی ذکر آیا ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کریب سے پوچھا کہ تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا۔ کریب نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو ، اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے پوچھا کہ آیا تم نے خود چاند دیکھا تھا ، کریب نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے بھی دیکھا تھا اور چاند دیکھ کر سب نے بشمول حضرت معاویہ روزہ رکھا تھا۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہم نے ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا اور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا اس سے پہلے ہمیں شوال کا چاند نظر آ جائے۔ اس پر کریب نے پوچھا کہ کیا ہمارے لیے حضرت معاویہ کی رویت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ ” نہیں ، ہمیں حضور ﷺ نے اسی طرح حکم دیا ہے “ لیکن یہ حدیث اس بات پر دلالت نہیں کرتی جو فریق مخالف نے کہی ہے اس لیے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے حضور ﷺ کا جواب نقل نہیں کیا جبکہ حضور ﷺ سے بعینہٖ یہی سوال کیا گیا تھا۔ اور آپ نے اس کا جواب دیا تھا حضرت ابن عباس ؓ نے تو بس اتنا ہی فرمایا کہ ہمیں حضور ﷺ نے اسی طرح حکم دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حضور ﷺ کے قول صوموا الردیتہ وافطروالرویتہ سے وہی مفہوم اخذ کیا ہے جو فریق مخالف نے کیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس حدیث سے ہمارے دعوے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ۔ اس لیے اس اختلاف میں اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا ۔ حسن بصری سے ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے انہیں عبد اللہ بن معاذ نے انہیں ان کے والد معاذ اور انہیں اشعث نے حسن بصری سے کی ہے کہ ایک شخص کسی شہر میں رہتا تھا اس نے سوموار کا روزہ رکھا۔ دو شخصوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے ۔ حسن بصری نے فرمایا کہ اتوار کے روزے کی قضا نہ تو یہ شخص کرے گا اور نہ ہی اس کے شہر والے ، البتہ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ کسی شہر والوں نے اتوار کا روزہ رکھا ہے تو پھر یہ لوگ اس دن کی قضاکر لیں ۔ حضرت حسن بصری کی اس روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ انہوں نے رویت کی بنا پر بابغیر رویت کے روزہ رکھا تھا جبکہ ہمارے مسئلے کا تعلق دو شہروں کے مکینوں سے ہے کہ ان میں ہر شہر کے مکینوں نے اس رویت کی بنا پر روہ رکھا جو دوسرے شہر کے مکینوں کی رویت سے الگ تھی ۔ ہم سے اختلاف رکھنے والا کبھی اس حدیث سے استدلال کرتا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ۔ انہیں ابو دائود نے انہیں محمد بن عبید نے ، انہیں حماد نے ایوب کی حدیث میں بیان کی جو ایوب نے انہیں محمد بن المنکدر سے ، اور محمد بن المنکدر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنائی تھی۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے اراشد فرمایا وفطرکم یوم تفطرون وضحاکم یوم تضحون وکل عرفۃ موقف و کل منی منحر ، وکل فجاج مکۃ منحر، وکل جمع موقف عید الفطر تمہارے لیے وہ دن ہے جن دن تم رمضان ختم کر کے عید پڑھو ، جس دن تم قربانی کرو وہ تمہارے لیے عید الاضحی کا دن ہے اور عرفات کا سارا حصہ موقف ہے۔ یعنی عرفات میں ہر جگہ نو دذی الحجہ کو وقوف عرفہ میں ہوسکتا ہے اور منی کا سارا حصہ قربانی کی جگہ ہے ، مکہ کی تمام گھاٹیاں قربانی کی جگہیں ہیں اور عرفات کا سارا حصہ موقف ہے۔ ابو خثیمہ نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ روایت محمد بن الحسن مدنی نے نہیں ، انہیں عبد اللہ بن جعفر نے عثمان بن محمد سے بیان کی ہے ، عثمان بن محمد نے المقربی سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا الصوم یوم تصومون والفطریوم تفطرون والاضحی یوم تضحون جس دن تم روزہ رکھو وہ تمہارے روزے کا دن ہوگا جس دن تم روزہ ختم کرلو وہ فطر کا دن ہوگا جس دن تم قربانی کرو وہ اضحی کا دن ہوگا ۔ ہم سے اختلاف رکھنے والے کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ واجب ہوجاتا ہے کہ ہر قوم یعنی علاقے کے لوگوں کا روزہ اسی دن ہوگا جس دن وہ روزہ رکھیں گے اور ان کے فطر یعنی عید کا دن وہ ہوگا جس دن وہ روزہ ختم کرلیں گے ۔ بہرحال اس میں گنجائش ہے ۔ اس سے ہمارا مخالف وہ معنی اخذ کرے جو دوسرا کوئی اخذ نہیں کر رہا ہے۔ تا ہم اس کے باوجود اس حدیث میں کسی ایک قوم یا علاقے کے لوگوں کی تخصیص نہیں ہے۔ اگر لزوم صوم کے لحا ظ سے اس حدیث سے ان لوگوں کے روزوں کا اعتبار کرنا واجب ہے جنہوں نے کم رکھے ہیں ، یعنی انتیس دن تو اس حدیث سے یہ بھی واجب ہو رہا ہے کہ ان لوگوں کے روزوں کا اعتبار کیا جائے جنہوں نے زیادہ رکھے ہیں یعنی تیس دن ، اس بنا پر یہی تیس دن کا روزہ سب کے کے لیے لازم ہوگا ، جنہوں نے ایک دن کم رکھا ہے ان پر ایک دن کے روزے کی قضا لازم آئے گی ۔ اس حدیث کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ روایت کے لحاظ سے اس کی صحت کے بارے میں محدثین میں اختلاف رائے ہے، بعض کے نزدیک یہ ثابت ہے اور بعض کے ہاں غیر ثابت ، اس کے معنی میں بھی لوگوں کو کلام ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تمام لگو کسی دن کے روزے پر اتفاق کرلیں تو وہ ان کا روزہ ہوگا اور اگر لوگوں میں اختلاف پڑجائے تو انہیں کسی اور دلیل کی ضرورت ہوگی اس لیے کہ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا اس دن ہوگا جس د ن تم میں سے بعض روہ رکھیں گے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ تمہارا روہ اس دن ہوگا جس دن تم روزہ رکھو گے اور یہ الفاظ اس معنی کے مقتضی ہیں کہ تمام لوگ روزہ رکھیں ۔ اس حدیث کے معنی کے متعلق کچھ دوسروں کا قول ہے کہ یہ شخص کو اس کی ذات کے لحاظ سے خطاب ہے اور اسے یہ خبر دی گئی ہے کہ جو کچھ اس کے علم میں سے اس کے مطابق وہ عبادت کا پابند ہے ۔ وہ دوسرے کے علم کے مطابق عبادت کا پابند نہیں ، اس لیے جس شخص نے رمضان سمجھ کر ایک دن روزہ رکھ لیا اور اس نے اپنے اوپر عائد شدہ فرض کی ادائیگی کردی ، اس کے متعلق دوسرا کیا کہتا ہے اس سے اسے کوئی غرض نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ نے اسے اس چیز کا مکلف کیا ہے جو اسی کے پاس ہے یعنی اس کے علم میں ہے ۔ جو چیز دوسرے کے پاس ہے اس کا وہ مکلف نہیں ۔ اسی طرح وہ ان مغیبات کا مکلف نہیں جن کا علم اللہ کو ہے۔ قول باری ہے یرید اللہ بکمالیسر ولا یرید بکم العسر ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ ، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ الیسر سے مراد سفر میں روزہ نہ رکھنا اور العسر سے مراد سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا ہے ۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کے ذکر کا تعلق اس شخص سے ہو جو روزہ رکھ کر انتہائی نڈھال ہوجاتا ہے اور روزہ اس کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top