Tibyan-ul-Quran - Al-Baqara : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی
[ يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ : اے لوگو ! جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ الْخَمْرُ : شراب ] [ وَالْمَيْسِرُ : اور جوا ] [ وَالْاَنْصَابُ : اور استھان ] [ وَالْاَزْلَامُ : اور فال کے تیر ] [ رِجْسٌ : (ہر ایک ) نجاست ہے ] [ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ : شیطان کے عمل میں سے ] [ فَاجْتَنِبُوْهُ : پس تم لوگ دور رہو اس سے (یعنی ہر ایک سے ) ] [ لَعَلَّكُمْ : شائد کہ تم لوگ ] [ تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ] رج س (س۔ ک ) رجاسۃ قبیح کام کرنا ۔ رجس ۔ اسم ذات ہے ۔ گندگی ۔ نجاست ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ترکیب : الخمر سے والازلام تک چاروں مبتداء ہیں ۔ رجس ان کی خبر جمع کے بجائے واحد لا کر اسے ہر مبتدا پر عطف کیا گیا ہے یعنی اصل بات اس طرح تھی ۔ [ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ] آیت میں خبر کو جمع کے بجائے واحد لا کر ان چار جملوں کے تاکیدی مفہوم کو ایک جملے میں سمودیا گیا ہے ۔ اجتناب کے حکم میں اسی تاکیدی مفہوم کو برقرار رکھنے کے لیے ضمیر مفعولی بھی واحد آئی ہے ویصد کی نصب بتارہی ہے کہ یہ ان یوقع کے ان پر عطف ہے ۔ واحذروا کا مفعول محذوف ہے ۔ اس وجہ سے اس حکم کا مفہوم وسیع ہو کر اطاعت کے پورے دائرے پر محیط ہوگیا ہے ۔ نوٹ :1 ۔ عربی میں کھانے کے لیے اکل اور پینے کے لیے شرب کے الفاظ ہیں ۔ جبکہ طعم کا اصل مفہوم ہے ” چکھنا “ اب کسی چیز کو کھا کر بھی چکھا جاسکتا ہے اور پی کر بھی ۔ اس طرح طعم میں کھانے اور پینے ، دونوں کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے ۔ مثلا آیت نمبر ۔ 2 :249 میں یہ لفظ پینے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 93 میں یہ لفظ اپنے جامع مفہوم میں آیا ہے جس کو ہم نے ترجمے میں ظاہر کیا ہے ۔ نوٹ : 2 ۔ شراب اور جوئے کے متعلق سب سے پہلے آیت نمبر ۔ 2:219 میں بتایا جا چکا تھا کہ ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے ۔ اس کے بعد آیت نمبر ۔ 4 :43 میں نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ۔ پھر زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 90 میں ان کو مطلق حرام قرار دے دیا گیا ۔ اس حکم کے آنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ میں لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے ۔ لہذا جس کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردے۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جس کے پاس شراب ہے وہ نہ تو اسے پی سکتا ہے اور نہ ہی فروخت کرسکتا ہے ۔ بلکہ وہ اسے ضائع دے ۔ چناچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دوا کے طور پر استعمال کرنے کی تو اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے ۔ آپ ﷺ نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے بھی منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو ۔ (تفیہم القرآن ) اب اس کے بعد بھی کوئی دانشور اگر اس زعم میں مبتلاء ہوجائے کہ وہ قرآن کو نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ سمجھتا ہے اور دعوی کرے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ، تو پھر کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ۔ اکثر دانشور بڑے مہذب اور انتہائی نفاست پسند ہوتے ہیں ۔ انسانی عمل کی نجاستوں کے ذکر سے بھی ان کو گھن آتی ہے ۔ فقہہ کی کتابوں میں ایسی چیزوں کے تذکرے پر یہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ اور شیطان کے عمل کی نجاستوں کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنی وحشت کو دانش وری سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ ۔ وحشت میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظرآتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے ۔
Top