Al-Qurtubi - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
مسئلہ نمبر 14: ملک یوم الدین۔ محمد بن سمیع نے مالک کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس میں چار لغات ہیں : 1۔ مالک، 2۔ ملک، 3۔ ملک۔۔۔ ملک سے مخففہ۔۔۔۔ 4۔ ملیک۔ شاعر نے کہا : وایام لنا غر طوال عصینا الملک فیھا ان ندینا ہمارے لئے روشن لمبے دن تھے۔ ان میں ہم نے بادشاہ کی اطاعت کرنے میں نافرمانی کی۔ اور ایک شاعر نے کہا : فاقنح بما قسم الملیک فانما قسم الخلائق بیننا علامھا میں اس پر قناعت کرتا ہوں جو مالک نے تقسیم فرمایا اور طباع کو ان کے جاننے والے نے ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔ اس شعر میں الخلائق سے مراد وہ فطرت ہے جس پر انسان پیدا کیا جاتا ہے، نافع سے ملک میں کسرہ کا اشباع مروی ہے۔ اس شخص کی لغت پر جو حرکات میں اشباع کرتا ہے ملکی پڑھا گیا ہے۔ یہ بھی عربوں کی ایک لغت ہے، جس کو مہدوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 15: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ملک زیادہ بلیغ ہے یا مالک۔ دونوں قراءتیں نبی کریم ﷺ ، حضرات ابوبکر اور عمر رضی للہ عنہما سے مروی ہیں۔ امام ترمذی نے ان کو ذکر فرمایا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ملک، یہ مالک سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ہر ملک مالک ہوتا ہے اور ہر مالک، ملک نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک کا امر، ہر مالک میں اس کی ملک میں نافذ ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ مالک، ملک کی تدبیر سے ہی تصرف کرتا ہے۔ ابو عبیدہ اور مبرد نے یہ کہا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : مالک زیادہ بلیغ ہے کیونکہ وہ انسانوں اور دوسری چیزوں کا مالک ہوتا ہے۔ پس مالک ازروئے تصرف کے زیادہ بلیغ اور عظیم ہے کیونکہ شرع کے قوانین کا اجراء اس کی طرف سے ہوتا ہے پھر مالک کے پاس تملک میں زیادتی ہوتی ہے۔ ابو علی نے کہا : ابوبکر بن سراج نے ان لوگوں سے حکایت کیا ہے جنہوں نے ملک کی قراءت کو پسند کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رب العلمین کے ساتھ اپنی توصیف فرمائی کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ اس لئے مالک کی قراءت کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو تکرار ہوجائے گا۔ ابو علی نے کہا : اس میں کوئی حجت نہیں کیونکہ قرآن حکیم میں اس انداز میں بہت سی اشیاء آئی ہیں عام مقدم ہوتا ہے پھر خاص کا ذکر ہوتا ہے جیسے ھو اللہ الخالق البارئ المصور۔ خالق عام ہے۔ پھر المصور کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں صنعت اور حکمت کے وجود پر تنبیہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وبالاخرۃ ھم یوقنون (البقرہ) یہ الذین یؤمنون بالغیب (البقرہ :3) کے بعد ذکر فرمایا، جبکہ غیب کا کلمہ آخرت اور دوسری غائب چیزوں کو شامل تھا لیکن آخرت کی عظمت اور اس کے اعتقاد کے وجوب پر تنبیہ اور منکرین کفار کا رد کرنے کے لئے پھر ذکر فرمایا۔ اسی طرح فرمایا : الرحمن الرحیم ہے۔ پہلے الرحمن ذکر فرمایا جو عام ہے اس کے بعد الرحیم ذکر فرمایا کیونکہ وکان بالمومنین رحیما کے ارشاد میں مومنین کے ساتھ اس کی رحمت تخصیص ہے (1) ۔ ابو حاتم نے کہا : مالک۔ خالق کی مدح میں ملک سے زیادہ بلیغ ہے اور ملک مخلوق کی مدح میں مالک سے زیادہ بلیغ ہے۔ ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ مخلوق میں سے مالک کبھی ملک نہیں ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ مالک ہوگا تو ملک بھی ہوگا۔ یہ قول قاضی ابوبکر بن عربی نے پسند کیا ہے اور انہوں نے اس کی تین وجوہ ذکر فرمائی ہیں : 1۔ تو مالک کو خاص اور عام کی طرف مضاف کرتا ہے اور تو کہتا ہے : مالک الدار والارض والثوب (گھر کا مالک، زمین کا مالک، کپڑے کا مالک) جس طرح تو کہتا ہے : مالک الملوک (بادشاہوں کا مالک) ۔ 2۔ مالک کا اطلاق زیادہ اور تھوڑی ملکیت والے پر ہوتا ہے۔ جب تو ان دونوں قولوں میں غوروفکر کرے گا تو دونوں کو ایک پائے گا۔ 3۔ تو کہتا ہے : مالک الملک، جبکہ تو ملک الملک نہیں کہتا۔ ابن حصار نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک سے مراد ملک پر دلالت ہے اور یہ ملک کو متضمن نہیں ہے اور ملک دونوں امروں کو شامل ہے پس مبالغہ کی وجہ سے اولیٰ ہے۔ اور یہ کمال کو بھی متضمن ہے اسی وجہ سے وہ دوسرے تمام بادشاہوں پر ملک کا مستحق ہے۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ملاحظہ نہیں فرمایا : ان اللہ اصطفہ علیکم وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم (البقرہ : 247) ( بیشک اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے اسے تمہارے مقابلہ میں اور زیادہ دی ہے اسے کشادگی علم میں اور جسم میں) اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الا مامۃ فی قریش (1) ۔ اور قریش، عرب قبائل میں سے افضل ہیں اور عرب، عجم سے افضل و اشرف ہیں۔ اقتدار اور اختیار کو متضمن ہیں۔ یہ الملک میں ضروری امر ہے اگر وہ قادر، مختار نہ ہو اور اس کا حکم اور امر نافذ نہ ہو تو دشمن اس پر جبر کرے گا اور غیر اس پر غالب آجائے گا اور اس کی رعیت ذلیل ورسوا ہوجائے گی اور یہ سخت پکڑ، امر، نہی، وعدہ، وعید کو بھی متضمن ہے۔ آپ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول ملاحظہ نہیں فرمایا : وما لی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین لا عذبتہ عذابا شدیدا (النمل) اس کے علاوہ بھی امور عجیبہ عمدہ معانی ملک میں پائے جاتے ہیں جو مالک میں نہیں پائے جاتے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے حجت پکڑی ہے کہ ملک زیادہ بلیغ ہے کیونکہ مالک میں ایک حرف زائد ہے اور اس کے قاری (پڑھنے والے) کے لئے دس نیکیاں زیادہ ہوں، جبکہ ملک کے پڑھنے والے کے لئے دس نیکیاں کم ہوں گی۔ میں کہتا ہوں : یہ صیغہ کے اعتبار سے ہے نہ کہ معنی کے اعتبار سے ہے۔ ملک کے ساتھ قرأت ثابت ہے، اور ملک میں جو معنی پایا جاتا ہے وہ مالک میں نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 16: کسی کا یہ نام نہیں رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے گا۔ بخاری اور مسلم نے “ حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا : میں الملک ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں گئے ” (2) اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین نام اس شخص کا ہے جسے مالک الاملاک کہا جائے (3) ۔ مسلم میں یہ زائد ہے۔ “ اللہ کے سوا کوئی مالک نہ ہوگا ” (4) ۔ سفیان نے کہا : ملک الاملاک شاھان شاہ کی مثل ہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : میں نے ابو عمر وشیبانی سے اخنع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس کا معنی اوضع (گھٹیا) ہے۔ ان سے ہی مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز اللہ کی بارگاہ میں باعث ناراضگی اور برا ترین شخص وہ ہوگا جسے ملک الاملاک کہا جاتا ہوگا، اللہ کے سوا کوئی ملک نہیں ہے (5) ۔ ابن حصار نے کہا اسی طرح ملک یوم الدین اور مالک الملک ہے اس میں تو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ تمام مخلوق پر یہ نام رکھنا حرام کیا گیا ہے جس طرح ملک الاملاک حرام کیا گیا ہے، اور رہا مالک اور ملک بطور وصف ذکر کرنا۔ مسئلہ نمبر 17: ان کے ساتھ اس کو موصوف کرنا جائز ہوگا جو ان دونوں مفہوموں کے ساتھ متصف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے تمہارے لئے طالوت کو اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ناس من امتی عرض علی غذاۃ فی سبیل اللہ یرکبون ثبج ھذا البحر ملوکا علی الاسرۃ او مثل الملوک علی الاسرۃ (1) یعنی میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے تھے وہ اس سمندر کے وسط پر سوار تھے (جیسے) تختوں پر بادشاہ ہوتے ہیں یا فرمایا بادشاہوں کی مثل تختوں پر سوار تھے۔ مسئلہ نمبر 18: اگر کوئی یہ کہے کہ ملک یوم الدین کیسے فرمایا جبکہ یوم الدین ابھی آیا ہی نہیں اور اپنی ایسی چیز کی ملکیت سے صفت بیان کرنا کیسے صحیح ہے جس کو اس نے ابھی پایا ہی نہیں ؟ اسے کہا جائے گا کہ مالک اسم فاعل کا صیغہ ہے ملک یملک سے۔ اور اسم فاعل عرب کلام میں اپنے مابعد کی طرف مضاف کیا جاتا ہے اور وہ فعل مستقبل کے معنی میں ہوتا ہے اور عربوں کے نزدیک یہ کلام معقول، پختہ اور صحیح ہوتی ہے۔ جیسے تو کہتا ہے : ھذا ضارب زید غداً یعنی وہ کل زید کو مارے گا اور اسی طرح ھذا حاج بیت اللہ فی العامل المقبل، اس کا مطلب ہے آئندہ سال وہ حج کرے گا۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ فعل اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے حالانکہ اس نے ابھی وہ فعل کیا نہیں اور اس سے مراد استقبال لیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ملک یوم الدین استقبال کی تاویل پر ہے یعنی وہ مالک ہوگا روز جزا کا یا وہ روز جزا کا مالک ہوگا جب وہ دن آئے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مالک کی تاویل قدرت کی طرف لوٹنے والی ہوگی یعنی وہ روز جزا میں قادر ہوگا، یا یہ معنی کہ وہ روز جزا پر قادر ہوگا اور اسے پیدا کرنے پر قادر ہے کیونکہ کسی شے کا مالک اسی شے میں تصرف کرنے والا اور اس پر قادر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کا مالک ہے اور اپنے ارادہ کے مطابق انہیں پھیرنے والا ہے اس پر اسے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ پہلی وجہ عربی زبان کے اصول سے زیادہ مس کرنے والی ہے اور اس کے ضابطہ کے مطابق زیادہ جاری ہونے والی ہے۔ یہ ابو القاسم الزجاجی کا قول ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر کہا جائے کہ یہاں یوم الدین کی ملکیت کی تخصیص کیوں کی گئی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اور دوسری چیزوں کا بھی مالک ہوگا۔ جواباً کہا جائے گا کہ لوگ دنیا میں ملک میں جھگڑا کرنے والے تھے جیسے فرعون، نمرود وغیرہما، لیکن اس دن اس کی ملک میں کوئی اس سے جھگڑا کرنے والا نہ ہوگا تمام لوگ سر جھکائے ہوئے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لمن الملک الیوم (غافر :16) آج بادشاہی کس کے لئے ہے، ساری مخلوق جواب دے گی : للہ الواحد القھار اللہ واحد قہار کی ہے۔ اسی لئے فرمایا : ملک یوم الدین یعنی اس دن میں نہ کوئی مالک ہوگا، نہ قاضی ہوگا، نہ کوئی جزا دینے والا ہوگا سوائے اللہ تعالیٰ کے، پاک ہے وہ ذات کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس کے۔ مسئلہ نمبر 19: اگر اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی جائے کہ وہ ملک ہے تو یہ اس کی ذات کی صفات سے ہوگی۔ اگر مالک کے ساتھ صفت بیان کی جائے تو یہ اس کے فعل کی صفات سے ہوگی۔ مسئلہ نمبر 20: الیوم سے مراد طلوع فجر سے لے کر غروب شمس تک وقت ہے پھر یہ عاریۃً یا مجازاً قیامت کے آغاز سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے تک اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے لئے بولا جاتا ہے کبھی الیوم پورے دن کی ایک گھڑی کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :3) یوم کی جمع ایام ہے۔ اصل میں ایوام تھا پھر ادغام کیا گیا بعض اوقات، شدت کو الیوم سے تعبیر کرنے میں کہا جاتا ہے۔ یوم الیوم، جیسے کہا جاتا ہے : لیلۃ لیلاء۔ راجز نے کہا : نعم اخو الھیجاء فی الیوم الیمی۔ ہیجا کا بھائی شدت میں کتنا اچھا تھا۔ اس مصرعہ میں الیمی میں قلب کیا گیا ہے۔ واؤ کو مؤخر کیا گیا ہے اور میم کو مقدم کیا گیا ہے۔ پھر واؤ کو یاء سے قلب کیا گیا ہے کیونکہ وہ طرف کلمہ میں ہے جیسا کہ عرب دلو کی جمع میں ادل کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 21: الدین۔ اس کا مطلب اعمال پر جزا اور اعمال کا حساب ہے۔ حضرات ابن مسعود، ابن عباس، ابن جریج اور قتادہ وغیرہم نے اسی طرح فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے بھی یہ مروی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : یومئذ توفیھم دینھم الحق (النور : 25) اس آیت میں دین سے مراد حساب ہے۔ فرمایا : الیوم تجزی کل نفس بما کسبت (غافر : 17) اور فرمایا الیوم تجزون ما کنتم تعملون (الجاثیہ : 28) اور فرمایاء انا لمدینون (صافات) یعنی ہم جزا دئیے جائیں گے اور ہمارا محاسبہ کیا جائے گا۔ لبید نے کہا : حصادک یوماً ما زرعت وانما یدان الفتی یوما کما ھودائن تو اس دن وہی کاٹے گا جو تو نے بویا، جو ان کو جزا دی جائے گی جو وہ کرنے والا ہوگا۔ ایک اور نے کہا : اذا ما رمونا رمیناھم ودنا ھم مثل ما یقرضونا جب انہوں نے ہم پر تیر پھینکے تو ہم نے ان پر تیر پھینکے اور ہم نے انہیں جزا دی جیسا انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ ایک اور نے کہا : واعلم یقینا ان ملکک زائل واعلم بان کما تدین تدان جان لو کہ تمہاری حکومت ختم ہونے والی ہے اور جان لو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اہل لغت نے بیان کیا ہے : دنتہ بفعلہ دینا (مصدر) دال کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے۔ اس کا معنی ہے : میں نے اسے جزا دی، اسی سے ہے : الدیان۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یعنی جزا دینے والا ہے۔ حدیث شریف میں ہے : الکیس من دان نفسہ (1) (عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے) بعض نے فرمایا : الدین سے مراد فیصلہ ہے۔ یہ بھی حضرات ابن عباس سے مروی ہے۔ اسی معنی میں طرفہ کا قول ہے۔ لعمرک ما کا نت حمولۃ معبد علی جدھا حربا لدینک من مضر تیری عمر کی قسم معبد کے اونٹ کنویں پر تیرے فیصلہ کی وجہ سے مضر قبیلہ سے جنگ کرنے کے لئے نہیں تھے۔ دین کے یہ تینوں معانی قریب قریب ہیں۔ الدین کا معنی طاعت بھی ہے۔ اس معنی میں عمرو بن کلثوم کا شعر ہے۔ وایام لنا غر طوال عصینا الملک فیھا ان ندینا ہمارے لئے روشن لمبے دن تھے۔ ہم نے ان میں بادشاہ کی اطاعت کرنے میں نافرمانی کی۔ پس یہ دین کا لفظ مشترک ہے۔ مسئلہ نمبر 22: ثعلب نے کہا : دان الرجل کا مطلب ہے اس نے اطاعت کی اور دان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے نافرمانی کی۔ دان اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی عزت پائے اور اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی ذلیل ہو اور اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی غالب آئے۔ پس یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ الدین کا اطلاق عادت اور شان پر بھی ہوتا ہے جیسا ہے کہ ایک شاعر نے کہا : کدینک من ام الحویرث قبلھا جیسا کہ تیری شان ام الحویرث کی طرف سے ہے۔ مثقب نے اپنی اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا : تقول اذا درأت لھا وفینی اھذا دینہ ابدا ودینی وہ اونٹنی کہتی ہے جب میں اس کا تنگ زمین پر بچھا دیتا ہوں یہ اس کی اور میری ہمیشہ کی عادت ہے۔ الدین بادشاہ کی عملداری کو بھی کہتے ہیں۔ زہیر نے کہا : لئن حللت بجو فی بنی اسد فی دین عمرو وحالت بیننا فدک اگر تو بنی اسد میں جو کے مقام پر عمرو کی عملداری میں اترے گا تو ہمارے درمیان فدک کا مقام حائل ہوگا۔ شاعر نے عمرو کی طاعت کی جگہ مراد لی ہے۔ الدین سے مراد بیماری بھی ہے۔ لحیانی سے مروی ہے، اس نے کہا : یا دین قلبک من سلمی وقد دینا اس میں دین بمعنی مرض استعمال کیا ہے۔
Top