Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Kahf : 17
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۠ ۧ
وَتَرَى
: اور تم دیکھو گے
الشَّمْسَ
: سورج (دھوپ)
اِذَا
: جب
طَلَعَتْ
: وہ نکلتی ہے
تَّزٰوَرُ
: بچ کر جاتی ہے
عَنْ
: سے
كَهْفِهِمْ
: ان کا غار
ذَاتَ الْيَمِيْنِ
: دائیں طرف
وَاِذَا
: اور جب
غَرَبَتْ
: وہ ڈھل جاتی ہے
تَّقْرِضُهُمْ
: ان سے کترا جاتی ہے
ذَاتَ الشِّمَالِ
: بائیں طرف
وَهُمْ
: اور وہ
فِيْ
: میں
فَجْوَةٍ
: کھلی جگہ
مِّنْهُ
: اس (غار) کی
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اٰيٰتِ اللّٰهِ
: اللہ کی نشانیاں
مَنْ
: جو۔ جسے
يَّهْدِ
: ہدایت دے
اللّٰهُ
: اللہ
فَهُوَ الْمُهْتَدِ
: پس وہ ہدایت یافتہ
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
يُّضْلِلْ
: وہ گمراہ کرے
فَلَنْ تَجِدَ
: پس تو ہرگز نہ پائے گا
لَهٗ
: اس کے لیے
وَلِيًّا
: کوئی رفیق
مُّرْشِدًا
: سیدھی راہ دکھانے والا
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو خدا ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کردے تو تم اسکے لیے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔
آیت نمبر
17
تا
18
قولہ تعالیٰ : وتری الشمس اذا طلعت تزورعن کھفھم ذات الیمین یعنی اے مخاطب ! تو سورج کو دیکھے گا کہ وہ اپنے طلوع کے وقت ان کی غار سے جھک کر اور ہٹ کر گزرتا ہے۔ اور اس کا معنی یہ ہے : بلاشبہ اگر تو انہیں دیکھے تو یقیناً تو انہیں اسی طرح دیکھے نہ یہ کہ مخاطب نے انہیں فی الحقیقت دیکھا۔ اور تزور کا معنی دور ہٹ جانا اور مائل ہونا، جھک جانا ہے، یہ الازورار سے ماخوذ ہے۔ اور الزور کا معنی جھکنا ہے۔ اور الأزور فی العین نظر سے ایک طرف ہٹ جانے والا، اور غیر عین میں بھی یہ استعمال ہو سکتا ہے، جیسا کہ ابن ابی ربیعہ نے کہا ہے : عجنبی خیفۃ القوم ازور (میرا پہلو قوم کے خوف سے ایک طرف جھک گیا ہے) ۔ اور عشرۃ کے قول کے لفظ ہیں : فازور من وقع القنا بلبانہ (وہ اپنے سینے کے بل گر پڑے جسے نیزہ لگا) اور غزوہ موتہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کی چار پائی کو حضرت جعفر اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کی چارپائی سے دور ہٹا ہوا (ایک طرف پڑا ہوا) دیکھا۔ ان رسول اللہ ﷺ رأی فی سریر عبد اللہ بن رواحہ ازورارا عن سریر جعفر وزید بن حارثہ۔ اہل حرمین اور ابو عمر نے تز اور تا کو زاء میں ادغام کرکے پڑھا ہے، اور یہ اصل میں تتز اور ہے۔ اور عاصم، حمزہ اور کسائی نے تز اور زا کو مخفف پڑھا ہے۔ اور ابن عامر نے تزوز، تحمر کی مثل پڑھا ہے۔ اور فراء نے تزوار، تحمار کی مثل بیان کیا ہے، تمام ایک ہی معنی میں ہیں۔ واذا غربت تقرضھم جمہور نے اسے تا کے ساتھ تترکھم کے معنی میں پڑھا ہے (اور جب وہ غروب ہوتا ہے تو وہ انہین چھوڑ دیتا ہے) ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : بمعنی تدعھم (وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے) نحاس نے کہا ہے : یہی معنی لغت میں معروف ہے، بصریوں نے بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : قرضہ یقرضہ جب وہ اسے ترک کر دے اور اس کا معنی ہے کہ اس کی عزت و تکریم کے لئے انہیں دھوپ بالکل نہیں پہنچتی، اور یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، یعنی سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ان کی غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے، اور جب غروب ہوتا ہے تو غار کے بائیں جانب سے ہو کر ان سے گزر جاتا ہے، پس انہیں دھوپ نہیں لگتی نہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور نہ دن کے آخری حصہ میں اور ان کی گار سر زمین روم میں بنات نعش (قطب شمالی کے قریب سات ستارے) کے سامنے تھی۔ پس سورج طلوع و غروب اور چلتے وقت ان سے ہٹ جاتا تھا ان تک نہ پہنچتا تھا کہ انہیں اپنی گرمی اور حرارت سے اذیت پہنچائے، ان کے رنگوں کو متغیر کرے اور ان کے کپڑوں کو بوسیدہ کرے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک ان کی غار کے لئے ایک پردہ جنوب کی جانب سے تھا اور ایک پردہ دبور (پچھوائی ہوا) کی جہت سے تھا اور وہ اس کے کونے میں تھے۔ اور زجاج اس طرف گئے ہیں کہ سورج کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نشانی ہے، نہ یہ کہ غار کا دروازہ اس جانب تھا جو یہ ثابت کرتی ہے۔ اور ایک گروہ نے ہقرضھم یا کے ساتھ قرأت کی ہے اور یہ القرض سے ماخوذ ہے اور اسکا معنی قطع کرنا، کاٹنا ہے، یعنی غار اپنے سائے کے ساتھ سورج کی روشنی سے انہیں بچاتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : واذا غربت تقرضھم یعنی جب وہ ڈوبتا ہے تو اسکی تھوڑی سی دھوپ انہیں لگتی ہے، یہ قراضۃ الذھب والفضۃ (سونے اور چاندی کے ریزے) سے ماخوذ ہے، یعنی سورج اپنی تھوڑی سی شعائیں انہیں پہنچاتا ہے۔ اور انہوں نے کہا : شام کے وقت دھوپ کے ان کو مس کرنے اور پہنچنے میں ان کے بدنوں کی اصلاح تھی۔ المختصر اس میں آیت اور علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی غار میں پناہ دی جس کی کیفیت اور حالت یہ تھی نہ کہ کسی دوسری غار میں جس میں بڑے دنوں میں سورج کی شعاعیں پڑنے سے وہ اذیت اور تکلیف محسوس کرتے۔ اور اس پر یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ سورج کا ان سے پھرنا، ایک طرف ہٹنا بادلوں کے سایہ کرنے یا کسی دوسرے سبب سے ہو، اور مقصود ان تک کسی بلا اور مصیبت کے راہ پانے، بدنوں اور رنگوں کے متغیر اور تبدیل ہونے، اور گرمی یا سردی کے ساتھ اذیت پہنچنے سے انہیں بچانے اور ان کی حفاظت کرنے کا بیان ہے۔ وھم فی فجوۃ منہ اور وہ غار کی ایک کشادہ جگہ میں سو رہے ہیں۔ اور الفجوۃ کا معنی وسیع اور کھلی جگہ ہے، اور اس کی جمع فجوات اور فجاء ہے، جیسا کہ رکوۃ کی جمع رکاء اور رکوات ہے۔ اور شاعر نے بھی کہا ہے : ونحن ملأنا کل واد و فجوۃ رجالا وخیلا غیر میل ولا عزل یعنی وہ ایسی جگہ تھے جہاں انہیں بادنسیم لگتی تھی۔ ذلک من ایت اللہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کا لفط و کرم ہے، اور یہ معنی زجاج کے قول کو تقویت دیتا ہے۔ اور اہل تفسیر نے کہا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی تھیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے، پس اسی طرح انہیں دیکھنے والا بیدار گمان کرسکتا ہے۔ اور کہا گیا ہے : تحسبھم ایقاظا کثرت سے ان کے کروٹ بدلنے کے سبب (تو انہیں بیدار خیال کرے گا) جیسا کہ بیدار آدمی اپنے بستر پر پہلو بدلتا ہے۔ اور ایقاظا، یقظ اور یقظان کے جمع ہے، اور اس سے مراد بیدار ہونے والا ہے وھم رقود (حالانکہ وہ سو رہے ہیں) اور یہ ان کے اس قول کی طرح ہے : وھم رکوع و سجود وقعود (درآنحالیکہ وہ رکوع، سجود اور قعدہ میں تھے) ۔ پس مصدر کے ساتھ جمع کی صفت بیان کی گئی۔ و نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تاکہ زمین ان کے گوشت کو نہ کھائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : ہر سال میں دو بار ان کی کروٹ بدلی جاتی رہی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ ہر سال میں ایک بار۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ہر سات سال میں ایک بار کروٹ بدلی جاتی تھی۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : بلاشبہ آخری نو سالوں میں اس کی کروٹ بدلی گئی، اور رہے تین سو سال تو ان میں کروٹ نہیں بدلی گئی۔ اور مفسرین کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ کروٹ بدلنا اللہ تعالیٰ کے فعل میں سے ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی فرشتہ مقرر ہو، اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جا رہی ہو۔ قولہ تعالیٰ : وکلھم باسط ذراعیہ بالوصید اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: قولہ تعالیٰ : وکلبھم حضرت عمر وبن دینار نے کہا ہے : بیشک اس میں سے جو بچھو کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچائے تو (چاہیے کہ) وہ اپنی رات یا دن کے وقت یہ کہے : صلی اللہ علی نوح اور بیشک جو کتے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کتا اسے نقصان نہ پہنچائے جو اس پر حملہ آور ہو تو (چاہئے کہ) وہ یہ کہے : وکلبھم باسط زراعیہ بالوصید۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ حقیقتاً کتا تھا، اور وہ ان میں سے کسی ایک کے شکار یا کھیتی کی حفاظت یا اس کے ریوڑ کے لئے تھا ؛ جیسا کہ مقاتل نے کہا ہے۔ اور اس کے رنگ میں بہت سا اختلاف کیا گیا ہے، اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے، اس کا ماحصل یہ ہے : جو رنگ بھی تو ذکر کر دے وہی صحیح ہے، یہاں تک کہ کیا گیا ہے : وہ پتھر کے رنگ کا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ آسمان کے رنگ کا تھا۔ اور اس کے نام میں بھی اختلاف کیا گیا ہے، پس حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ اسکا نام ریان تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قطمیر تھا۔ امام اور زاعی (رح) نے کہا : مشیر تھا، حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے کہا : بسیط تھا، حضرت کعب (رح) نے کہا : صہیا تھا، حضرت وہب (رح) نے کہا : نقیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام قطفیر تھا ؛ اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ اور ان کے وقت میں کتا رکھنا جائز تھا، جیسا کہ ہمارے نزدیک آج ہماری شریعت میں جائز ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : وہ رات کے وقت بھاگ کر نکلے اور وہ سات آدمی تھے وہ ایک چروا ہے کے پاس سے گزرے اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا پس اس نے بھی ان کے دین میں ان کی اتباع کی۔ اور حضرت کعب ؓ نے بیان کیا ہے : وہ ایک کتے کے پاس سے گزرے اور وہ انہیں بھونکنے لگا تو انہوں نے اسے بھگایا وہ پھر لوٹ آیا تو انہوں نے اسے بار بار بھگایا، تو کتا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے ہاتھ دعا مانگنے والے کی طرح آسمان کی طرف اٹھا دئیے، اور بول پڑا، اس نے کہا : تم مجھ سے نہ ڈرو ! بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں سے محبت کرت اہوں پس تم سو جاؤ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ (لا تخافوا منی ! أنا احب احباء اللہ تعالیٰ فنا مواحتی أحرسکم) مسئلہ نمبر
2
: صحیح میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کتا رکھا سوائے شکاری کتے کے یا جانوروں کی حفاظت والے کتے کے تو ہر روز اس کے اجر سے دو قیراط کم ہوجائیں گے “۔ اور صحیح میں ہی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کوئی کتا رکھا سوائے جانوروں کی حفاظت یا شکار یا کھیتی کی نگرانی والے کتے کے تو ہر روز اسکے اجر سے ایک قیراط کم کردیا جائے گا “۔ زہری نے کہا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے سامنے حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوہریرہ پر رحم فرمائے ! وہ کھیت کے مالک تھے، تحقیق شکار، کھیتی، اور جانوروں کی حفاظت کے لئے کتا رکھنے پر سنت ثابتہ دلالت کرتی ہے۔ اور جس نے اس کے سوا کسی منفعت کے لئے کتا رکھا انہوں نے اس کے اجر میں کمی رکھ دی ہے ؛ یہ تو کتے کے مسلمانوں کو ڈرانے اور ان پر بھونکنے کے سبب ان کی پریشانی اور تشویش میں مبتلا کرنے کی وجہ سے ہے یا ملائکہ کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ سے یا پھر اسکی نجاست کی وجہ سے، جیسا کہ امام شافعی (رح) کی رائے ہے یا اس نہی کی وجہ سے ہے جو بغیر کسی منفعت کے اسے رکھنے کے بارے ہے۔ واللہ اعلم۔ اور آپ نے دوروایتوں میں سے ایک میں دو قیراط اور دوسری میں ایک قیراط ذکر کیا ہے۔ اور اس میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ یہ کتوں کی دو قسموں کے بارے میں ہو ان میں سے ایک دوسری کی نسبت زیادہ اذیت رساں ہو، جیسا کہ وہ سیاہ (کتا) جسے آپ ﷺ نے قتل کردینے کا حکم دیا اور اسے استثنا میں داخل نہیں کیا جس وقت ان کے قتل سے منع فرمایا جیسا کہ حضرت جابر ؓ کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے ؛ اسے صحیح نے نقل کیا ہے اور فرمایا : ” تم پر دو نقطوں والے سخت سیاہ جانور کو (قتل کرنا) لازم ہے کیونکہ وہ شیطان ہے “۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جگہوں کے اختلاف کی وجہ سے ہو، پس جو اسے مدینہ طیبہ یا مکہ مکرمہ میں روکے رکھے گا اس کے دو قیراط کم ہوں گے اور ان کے سوا دوسرے شہروں میں ایک قیراط کم ہوگا۔ اور رہیں وہ صورتیں جن میں اسے رکھنا مباح ہے تو ان میں کچھ کم نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ گھوڑا اور بلی وغیرہ۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
3
: اور جانوروں کے لئے کتا رکھنا امام مالک (رح) کے نزدیک مباح ہے وہ وہ ہے جو ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، نہ کہ وہ ہے جو گھروں میں چوروں سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اور کھیتی کا کتا وہ ہے جو رات یا دن کے وقت وحشی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے نہ کہ چوروں سے۔ اور امام مالک (رح) کے سوا دوسروں نے جانروں اور کھیتی کی چوروں سے حفاظت کے لئے بھی کتا رکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ سورة المائدہ میں کتوں کے احکام پہلے گزر چکے ہیں جو کافی ہیں، والحمہ للہ۔ مسئلہ نمبر
4
: ابن عطیہ نے بیان کیا ہے : میرے باپ ؓ نے مجھے بتایا انہوں نے کہا میں نے
1464
ھ میں جامع مصر میں ابو الفضل جوہری کو منبر پر وعظ کرتے ہوئے سنا : بیشک جس نے اہل خیر سے محبت کی اس نے ان کی برکت کو پالیا، ایک کتے نے اہل فضل سے محبت کی اور ان کی سنگت اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی محکم کتاب میں ذکر فرمایا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جب کتوں میں سے بعض نے صلحاء و اولیاء کے ساتھ ملنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے سبب اتنا بلند درجہ پالیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب جل و علا میں اس کی خبر دی ہے تو ان موحد مومنین کے بارے تیرا کیا خیال ہے جو اولیاء اور صالحین سے ملتے اور ان سے محبت کرتے ہیں، بلکہ اس میں درجہ کمال سے قاصر رہنے والے مومنین اور حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے بہترین آل سے محبت کرنے والوں کے لئے تسلی اور انس (کا پیغام) ہے۔ صحیح نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اس اثنا میں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ مسجد سے باہر نکلے تو مسجد کے دروازے کے پاس ہمیں ایک آدمی ملا اور اسنے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ قیامت کب آئے گی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تو نے اس کے لئے کیا تیار کی ہے ؟ “ راوی نے کہا : تو گویا وہ آدمی ساکن سا ہوگیا، پھر عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں نے اس کے لئے کوئی زیادہ نمازیں، روزے اور صدقہ وغیرہ تیار نہیں کیا، لیکن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : فأنت مع من أحببت (پس تو اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تو محبت کرتا ہے) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا : ہم اسلام کے بعد حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد سے زیادہ کبھی کسی سے خوش نہیں ہوئے : فأنت مع من أحببت۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا : پس میں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول مکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر ؓ سے محبت کرتا ہوں ت و میں امید رکھتا ہوں کہ میرا انجام ان کے ساتھ ہوگا اگرچہ میں نے ان کے اعمال کی مثل عمل نہیں کیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور یہ جو حضرت انس ؓ نے اس سے استدلال کیا ہے یہ مسلمانوں میں سے ہر ذی روح کو شامل ہے، پس اسی لئے ہماری حرص اور طمع اس کے ساتھ متعلق ہے اگرچہ ہم کوتاہی کرنے والے اور کمزور ہیں، اور ہم رحمن کی رحمت کے امیدوار ہیں اگرچہ ہم اس کی اہلیت نہیں رکھتے، ایک کتے نے ایک قوم سے محبت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ان کے ساتھ کیا ! تو ہمارے ساتھ اس کا کیسا سلوک ہوگا جبکہ ہمارے پاس ایمان کا معاہدہ اور کلمہ اسلام، اور حضور نبی مکرم ﷺ کی محبت بھی ہے : ولقد کرمنا بنی ادم۔۔۔۔۔۔۔ ممن خلقنا تفصیلا۔ (الاسراء) (اور بیشک ہم نے بڑی عزت بخشی اولاد آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں (مختلف سواریوں پر) خشی میں اور سمندر میں اور رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت سی انہیں بہت سی چیزوں پر جن کو ہم نے پیدا فرمایا نمایاں فضیلت) ۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : وہ حقیقی کتا نہ تھا، بلکہ وہ ان میں سے ایک تھا (یعنی اصحاب کیف میں سے) وہ ان کی حفاظت کی خاطر غار کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا تھا، جیسا کہ جوزاء کے پیچھے آنے والے ستارے کو کلب کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ وہاں انسانوں میں سے کتے کی مثل تھا اور اس کو کہا جاتا ہے : کلب الجبار۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : پس اسے اس حیوان کا نام دے دیا گیا ہے جو اس جگہ کو لازم پکڑنے والا ہے، لیکن اس قول کو بازوؤں کے پھیلا دینے کا ذکر کمزور کرتا ہے کیونکہ عرف میں یہ حقیقی کتے کی صفت میں ہے۔ اور اس سے حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد بھی ہے : ولا یبسط أحدکم زراعیہ انبساط الکلب (تم میں سے کوئی اپنے بازو کتے کے پھلانے کی طرح نہ پھیلائے) ۔ ابو عمر مطرز نے کتاب الیواقیت میں بیان کیا ہے کہ اسے اکالبھم باسط زراعیہ بالوصید پڑھا گیا ہے۔ پس اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ کالب سے مراد وہ آدمی ہو جیسا کہ روایت کیا گیا ہے، جب اس نے بازو پھیلا دئیے اور زمین کے ساتھ چمٹ گیا اس کے ساتھ ساتھ چہرے کو اٹھائے رکھا اطلاع پانے کے لئے اور یہی حالت اس مشکوک کی ہوتی ہے جو اپنے آپ کو چھپانے والا ہوتا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ کالب سے مراد کلب (کتا) ہو اور جعفر بن محمد صادق ؓ نے وکالبھم پڑھا اور مراد کتے کا مالک لیا۔ قولہ تعالیٰ : باسط ذراعیہ اسم فاعل عمل کر رہا ہے اور یہ ماضی کے معنی میں ہے، کیونکہ یہ حکایت حال ہے۔ کتے کے فعل کے بارے خبر دینا مقصود نہیں ہے۔ اور الذراع سے مراد کہنی کی طرف سے لے کر درمیانی انگلی کے کنارے تک کا حصہ اور مقدار ہے پھر کہا گیا ہے : اس نے طویل مدت کے لئے اپنا بازو پھیلائے رکھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کتا سو گیا، اور وہ بھی علامات میں سے تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ آنکھیں کھول کر سو یا رہا۔ اور الوصید سے مراد فناء (صحن) ہے ؛ یہ حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد اور حضرت ابن جبیر نے کہا ہے۔ مراد غار کا صحن ہے، اور اس کی جمع وصائد اور وصد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الوصید سے مراد دروازہ ہے۔ اور یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور شعر بھی ہے : بأرض فضاء لا یسد وصیدھا علی و معروفی بھا غیر منکر اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور حضرت عطا نے کہا ہے : الوصید سے مراد دروازے کی دہلیز ہے، اور الباب الموصد سے مراد بند دروازہ ہے۔ اور أوصدت الباب وآصدتہ کا معنی ہے میں نے دروازہ بند کردیا، اور الوصید سے مراد ایسی بوٹیاں بھی ہیں جن کی جڑیں باہم قریب قریب ہوں، پس یہ لفظ مشترک ہے۔ واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : لو اطلعت علیھم جمہور نے واؤ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اعمش اور یحییٰ بن وثاب نے اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ لو لیت منھم فرارا یعنی اگر تو ان پر جھانک کر دیکھے تو تو یقیناً ان سے بھاگ آئے۔ ولملئت منھم رعبا یعنی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رعب سے گھیر رکھا ہے اور ہیبت اور خوف سے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ان کی جگہ کی وحشت کی وجہ سے (تو بھاگ آئے) گویا اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی جگہ میں پناہ دی ہے جو بظاہر وحشت ناک ہے تاکہ لوگ وہاں سے دور بھاگیں۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے : لوگوں کو ان سے رعب کے ساتھ روک دیا گیا تھا، ان میں سے کوئی بھی ان کے قریب جانے کی جسارت نہ کرتا تھا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ ان سے فرار ان کے بالوں اور ان کے ناخنوں کے بڑھنے اور لمبا ہونے کی وجہ سے تھا ؛ اسے مہدوی، نحاس، زجاج اور قشیری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بعیداز حقیقت ہے، کیونکہ وہ جب بیدار ہوئے تو ان میں سے بعض نے بعض کو کہا : ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ ان کے بال اور ان کے ناخن اپنی حالت پر تھے، مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ناخنوں اور اپنے بالوں کی طرف دیکھنے سے پہلے یہ کہا ہو۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ان کے معاملہ میں صحیح یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کی اسی حالت پر حفاظت فرمائی جس پر وہ سوئے تھے تاکہ وہ ان کے لئے اور ان میں دوسروں کے لئے علامت اور نشانی ہوجائے۔ پس نہ ان کے کپڑے بوسیدہ اور پرانے ہوئے اور نہ ان کی کوئی حالت تبدیل ہوئی، اور شہر کی طرف اٹھ کر جانے والے نے زمین اور عمارتوں کے نشانات کے سوا کسی چیز کا انکار نہیں کیا (اور نہ اس پر تعجب کیا) اور اگر اس کی ذات میں کوئی ایسی حالت ہوتی جس کا وہ انکار کرتا (اور اسے عجیب سمجھتا) تو یقیناً یہ اس پر زیادہ اہم تھا۔ نافع، ابن کثیر، حضرت ابن عباس اور اہل مکہ و مدینہ نے ملئت منھم مبالغہ و مضاعف کی بنا پر لام کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی ملئت ثم ملئت (تجھے بھر دیا جائے پھر تجھے بھر دیا جائے) اور باقیوں نے لملئت تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اور لغت میں تخفیف زیادہ مشہور ہے۔ اور مخبل سعدی کے قول میں بھی تثقیل (تشدید) آئی ہے۔ وإذ فتک النعمان بالناس محرما فملی من کعب بن عوف سلاسلہ اور جمہور نے رعبا عین کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو جعفر نے اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے : یہ دونوں نعتیں ہیں۔ اور فرارا حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور رعبا مفعول ثانی یا تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
Top