Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Kahf : 19
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ١ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ١ؕ فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
بَعَثْنٰهُمْ
: ہم نے انہیں اٹھایا
لِيَتَسَآءَلُوْا
: تاکہ وہ ایکدوسرے سے سوال کریں
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
قَالَ
: کہا
قَآئِلٌ
: ایک کہنے والا
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
كَمْ لَبِثْتُمْ
: تم کتنی دیر رہے
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
لَبِثْنَا
: ہم رہے
يَوْمًا
: ایک دن
اَوْ
: یا
بَعْضَ يَوْمٍ
: ایک دن کا کچھ حصہ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِمَا لَبِثْتُمْ
: جتنی مدت تم رہے
فَابْعَثُوْٓا
: پس بھیجو تم
اَحَدَكُمْ
: اپنے میں سے ایک
بِوَرِقِكُمْ
: اپنا روپیہ دے کر
هٰذِهٖٓ
: یہ
اِلَى
: طرف
الْمَدِيْنَةِ
: شہر
فَلْيَنْظُرْ
: پس وہ دیکھے
اَيُّهَآ
: کون سا ان میں سے
اَزْكٰى
: پاکیزہ تر
طَعَامًا
: کھانا
فَلْيَاْتِكُمْ
: تو وہ تمہارے لیے لے آئے
بِرِزْقٍ
: کھانا
مِّنْهُ
: اس سے
وَلْيَتَلَطَّفْ
: اور نرمی کرے
وَ
: اور
لَا يُشْعِرَنَّ
: اور وہ خبر نہ دے بیٹھے
بِكُمْ
: تمہاری
اَحَدًا
: کسی کو
اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تم اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کونسا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔
آیت نمبر
19
تا
20
قولہ تعالیٰ : وکذلک بعثنھم لیتساء لوا بینھم، البعث سے مراد سکون سے حرکت دینا ہے۔ اور اس کا معنی ہے : جیسا کہ ہم نے ان کے کان سننے سے بند کر دئیے، اور ہم نے ان کے لئے نور ہدایت میں اضافہ کیا، اور ہم نے ان کی کروٹیں بدلیں (اسی طرح) ہم نے انہیں ان کی نید سے بیدار بھی کردیا۔ درآنحالیکہ وہ اپنے کپڑوں اور دیگر احوال میں اپنی پہلی حالت پر ہی تھے۔ شاعر نے کہا ہے : وفتیان صدق قد بعثت بسحرۃ فقاموام جمیعا بین عاث ونشوان یعنی میں نے بیدار کردیا۔ اور قول باری تعالیٰ : لیتساء لوا میں لام ضرورت ہے اور یہی لام عاقبت ہے، جیسا کہ اس ارشاد میں لام عاقبۃ ہے : لیکون لھم عدوا وحزنا (القصص :
8
) (تاکہ (انجام کار) وہ ان کا دشمن اور باعث رنج و الم بنے) ۔ پس اس کا بیدار ہونا باہم ایک دوسرے سے سوال کرنے کیلئے نہ تھا۔ قولہ تعالیٰ : قالوا بعثنا یوما او بعض یوم اور وہ یہ کہ وہ صبح کے وقت اس میں داخل ہویئ اور دن کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بیدار کردیا، تو ان کے رئیس تملیخا یا مکسلمینا نے کہا : مدت کے بارے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : فابعثوا احدکم۔۔۔۔ الی المدینۃ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : ان کا سکہ موسم ربیع میں پیدا ہونے والے اونٹ کے پاؤں کی مثل تھا، اسے نحاس نے ذکر کیا ہے، اور ابن کثیر، نافع، ابن عامر، کسائی اور حفص نے حضرت عاصم (رح) سے بورقکم را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو عمر و حمزہ اور ابوبکر نے عاصم سے بورقکم را کے سکون کے ساتھ قرأت کی ہے، انہوں نے ثقل کی وجہ سے کسرہ کو حذف کردیا ہے، اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ اور زجاج نے بورقکم واؤ کو کسرہ اور را کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور روایت کی جاتی ہے کہ وہ اس حال میں بیدار ہوئے کہ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی، اور جسے (شہر کی طرف) بھیجا گیا تھا وہ تملیخا تھا، اور یہی ان میں (عمر کے اعتبار سے) چھوٹا تھا، جیسا کہ غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ اور وہ شہر افسوس تھا۔ اور کہا جاتا ہے : کہ وہ طرسوس تھا، زمانہ جاہلیت میں اس کا نام أفسوس تھا اور جب اسلام آیا تو انہوں نے اس کا نام طرسوس رکھ دیا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : ان کے پاس دراہم تھے ان پر اس بادشاہ کی تصویر تھی جو ان کے زمانے میں تھا۔ مسئلہ نمبر
2
: قولہ تعالیٰ : فلینظر ایھا ازکی طعاما حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ ذبیحہ کو حلال قرار دے، کیونکہ ان کے شہر والے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور ان میں ایک قوم تھی جو اپنا ایمان چھپا کر رکھتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان میں سے عام مجوسی تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ازکی طعاما یعنی جس میں برکت زیادہ ہو، کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسے حکم دیا کہ وہ اتنی مقدار میں خریدے جسے یہ خیال کیا جاسکتا ہو کہ یہ دو یا تین آدمیوں کا کھانا ہے تاکہ وہ ان پر اطلاع نہ کرسکے، پھر جب اسے پکایا جائے تو وہ جماعت کو کافی ہوجائے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ کھانا چاول تھے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ کشمش تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ وہ کھجوریں تھیں۔ فاللہ اعلم۔ اور کہا گیا ہے کہ ازکی بمعنی اطیب (زیادہ پاکیزہ) ہے اور یہ قول بھی ہے کہ یہ بمعنی أرخص (سستا) ہے۔ فلیاتکم برزق منہ پس چاہئے کہ وہ تمہارے لئے خوراک لے آئے۔ ولیتلطف اور چاہئے کہ وہ شہر میں داخل ہونے اور کھانا خریدنے میں خوش خلقی سے پیش آئے۔ ولا یشعرن بکم احدا یعنی وہ قطعا تمہارے بارے میں کسی کو خبر نہ ہونے دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اگر اس پر غلبہ پا لیا جائے (یعنی اگر اسے پکڑ لیا جائے) تو وہ اپنے بھائیوں کو اس آزمائش میں واقع نہ کرے جس میں وہ خود واقع ہوا ہے۔ انھم ان یظھروا علیکم یرجعوکم زجاج نے کہا ہے : اس کا معنی پتھر ہے، اور یہ خبیث ترین اور انتہائی قبیح قتل کی صورت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ تمہیں سب وشتم، گالی گلوچ دیں گے ؛ اور یہ پہلا معنی زیادہ صحیح ہے (یعنی وہ تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے) ، کیونکہ وہ ان کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا جیسا کہ ان کے واقعہ میں گزر چکا ہے۔ اور رجم جیسا کہ گزر چکا ہے یہ ایک سزا ہے جو لوگوں کے دین (اور رائے) کے خلاف تھی۔ جب کہ یہ اس دین کے ماننے والے تمام لوگوں کیلئے مناسب تھی اس حیثیت سے کہ وہ اس میں شریک تھے مسئلہ نمبر
3
: سکہ دے کر اسکو بھیجنے میں وکالت اور اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہے۔ تحقیق حضرت علی بن طالب ؓ نے اپنے بھائی حضرت عقیل ؓ کو حضرت عثمان ؓ کے پاس وکیل بنا کر بھیجا اور اس میں فی الجملہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور وکالت جاہلیت اور اسلام میں معروف ہے، کہا آپ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی طرف نہیں دیکھتے کہ انہوں نے امیہ بن خلف کو کیسے مکہ مکرمہ میں اپنے اہل خانہ اور اپنے رشتہ داروں کے لئے وکیل مقرر کیا، یعنی وہ ان کی حفاظت کرے گا۔ اور امیہ مشرک تھا، اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے امیہ کیلئے اس کا انتظام کیا جو مدینہ طیبہ میں اس کے رشتہ داروں کی اسی طرح حفاظت کرے گا اور یہ اس کے عمل کی جزا اور بدلہ ہوگا۔ امام بخاری (رح) نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں رحمن کو نہیں پہچانتا ! میری طرف اپنا وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا، چناچہ میں نے عبد عمرو لکھا۔۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ اصمعی نے کہا ہے : صاغیۃ الرجل سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس کے پاس آتے ہیں اور یہ صغا یصگوا اور یصغی سے ماخوذ ہے۔ جب وہ مائل ہو، اور ہر وہ جو کسی شے کی طرف مائل ہو یا اس کے ساتھ ہو (تو اسی کیلئے کہا جائے گا) صغا الیہ وأصغی، یہ کتاب الافعال سے ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: وکالت عقد نیابت ہے، اللہ سبحابہ وتعالیٰ نے حاجت اور ضرورت کے تحت اس کی اجازت دی ہے اور اس میں مصلحت رکھ دی ہے، کیونکہ ہر ایک اپنے امور سر انجام دینے پر قادر نہیں ہوتا مگر دوسرے کی معاونت کے ساتھ یا راحت اور سہولت دینے کے ساتھ پس وہ اسے اپنا نائب طبا لیتا ہے جو اسے راحت و سکون پہنچا سکتا ہے۔ تحقیق ہمارے علماء نے اس کے صحیح ہونے پر کتاب اللہ کی کئی آیات سے استدلال کیا ہے، ان میں سے ایک یہ آیت ہے، اور قول باری تعالیٰ والعملین علیھا (التوبہ :
60
) اور اذھبوا بقمیصی ھذا (یوسف :
93
) (لے جاؤ میرا یہ پیراہن) ہیں۔ اور رہی سنے ! تو وہ کثیر احادیث ہیں۔ ان میں سے عروہ البارقی کی حدیث ہے، اور وہ سورة الانعام کے آخر میں گزر چکی ہے۔ اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے خیبر کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کی : میں خیبر کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب تو میرے وکیل کے پاس پہنچے تو اس سے پندرہ وسق لے لینا اور اگر وہ تجھ سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھنا “۔ اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔ اور اس معنی میں کثیر احادیث ہیں، اور اس کے جواز کے بارے اجماع امت ہونا ہی کافی ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: ہر اس حق میں وکالت جائز ہے جس میں نیابت جائز ہوتی ہے، پس اگر غاصب نے کسی کو وکیل بنایا تو یہ جائز نہیں، حالانکہ وہ وکیل ہے، کیونکہ ہر وہ کام جسے کرنا حرام قرار دیا گیا ہے اس میں نیابت جائز نہیں ہوتی۔ مسئلہ نمبر
6
: اس آیت میں ایک عمدہ نکتہ ہے کہ وکالت بچاؤ کے ساتھ ساتھ خوف بھی ہے کہ کوئی انہیں اس کے بارے احساس دلاتا ہے جو انہیں اپنی جانوں پر خوف نہیں ہے۔ اور صاحب عذر کیلئے کسی کو وکیل بنانے کا جواز تو متفق علیہ ہے اور رہا وہ جس کو کوئی عذر نہیں تو جنہور اس کے جواز کے قائل ہیں۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور سحنون نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : گویا سحنون نے اسے اسد بن فرات سے لیا ہے اور اس نے اپنے ایام قضا میں اس کا فیصلہ کیا، اور شاید وہ ظلم و جبر کرنے والوں کے ساتھ ایسا کرتے تھے، ان سے انصاف لینے کیلئے اور ان کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے، اور یہی حق ہے ؛ کیونکہ وکالت تو معاونت اور مدد کرنا ہے اور یہ اہل باطل کیلئے نہیں ہوسکتی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ اچھا ہے، پس جہاں تک اہل دین اور اہل فضل کا تعلق ہے تو ان کیلئے جائز ہے کہ وہ وکیل بنائیں اگرچہ وہ حاضر اور صحت مند ہوں۔ اور وکالت کے جواز کے صحیح ہونے پر دلیل وہ شاہد صحیح ہے جسے صحیحین وغیرہما نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی کا حضور نبی مکرم ﷺ کے ذمہ ایک سال کا اونٹ تھا پس وہ آیا اور اس کا تقاضا کرنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے عطا کرو “۔ پس انہوں نے اس کے لئے ایک سال کا اونٹ تلاش کیا لیکن انہوں نے نہ پایا مگر وہ جس کی عمر اس سے زیادہ تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے دے دو “۔ تو اس نے کہا : آپ نے میرا حق پورا کردیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کا حق پورا کر دے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” بیشک تم میں سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو تم میں سے قضا کے اعتبار سے اچھا اور حسین ہو “۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ پس یہ صحیح حدیث صحیح البدن حاضر آدمی کے وکیل بنانے کے جواز پر دلیل ہے کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ آپ کی طرف سے اس عمر کا اونٹ دے دیں جو آپ پر لازم ہے اور یہ آپ کی طرف سے ان کو اس پر وکیل بنانا ہی ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ مریض تھے نہ مسافر۔ اور یہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور سحنون کے ان دونوں کے بارے میں اس قول کو رد کرتی ہے کہ صحیح البدن حاضر آدمی کے لیے اپنے خصم کی رضا کے بغیر کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں ہے اور یہ حدیث ان دونوں کے قول کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت شرکت کے جواز کو متضمن ہے کیونکہ وہ سکہ ان تمام کا تھا۔ اور وکالت کے جواز کو بھی متضمن ہے کیونکہ انہوں نے اسے بھیجا جسے انہوں نے خریدنے کیلئے وکیل بنایا اور یہ ساتھیوں کے کھانے اور ان کا ایک ساتھ اپنے کھانے کو ملانے اور جمع کرنے کو متضمن ہے، اگرچہ ان میں سے بعض دوسروں سے زیادہ کھانا کھائیں ؛ اور اس کی مثل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وان تخالطوھم فاخوانکم (البقرہ :
220
) (اور اگر (کاروبار میں) تم انہیں ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں) جیسا کہ اس کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ اسی لئے ہمارے اصحاب نے مسکین کے بارے میں کہا ہے اس پر صدقہ کیا جاتا ہے پھر وہ اسے غنی کے کھانے کے ساتھ ملا دیتا ہے پھر اسکے ساتھ مل کر کھاتا ہے، بلاشبہ یہ جائز ہے۔ اور انہوں نے مضارب کے بارے میں کہا ہے جو اپنا کھانا دوسرے کے کھانے کے ساتھ ملا دیتا ہے پھر اس کے ساتھ مل کر کھاتا ہے : بیشک یہ جائز ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے اسے وکیل بنایا جس نے آپ کے لئے قربانی کا جانور خریدا۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : آیت میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ انفرادی طور پر دیا ہو تو پھر اس میں اشتراک نہیں ہوگا۔ اور اس مسئلہ میں تعویل نہیں کی جاسکتی مگر دو حدیثوں کی بنا پر : ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ایک قوم کے پا سے گزرے۔ وہ کھجوریں کھا رہے تھے تو آپ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اس طرح اقتران اور ملنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ آدمی اپنے بھائی سے اجازت طلب کرے اور دوسری یہ ہے ابو عبیدہ کی جیش الخبط کے بارے میں حدیث ہے۔ اور یہ ظہور میں پہلی سی کم ہے، کیونکہ اس میں احتمال ہو سکتا ہے کہ ابو عبیدہ انہیں اس خوراک میں سے حاجت اور ضرورت کے مطابق دیتا ہو اور وہ انہیں اس پر جمع نہ کرتا ہو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : کتاب اللہ میں سے جو اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : وان تخالطوھم فاخوانکم (البقرہ :
220
) اور قول باری تعالیٰ ہے : لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا (النور :
61
) (نہیں ہے تم پر کوئی حرج اگر تم کھاؤ سب مل کر یا الگ الگ) ۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top