Al-Qurtubi - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
آیت نمبر 23 تا 24 قولہ تعالیٰ : ولا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غدا۔ الا ان یشاء اللہ اس میں دو مسلئے ہیں : مسئلہ نمبر 1: علماء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس وقت عتاب فرمایا جب کفار نے آپ سے روح، نوجوانوں اور ذوالقرنین کے بارے سوال کیا تو آپ نے انہیں فرمایا : میں تمہارے سوالات کے جوابات کے بارے کل تمہیں آگاہ کروں گا اور آپ نے اس میں انشاء اللہ تعالیٰ نہ کہا۔ پس پندرہ دن تک آپ سے وحی رک گئی یہاں تک کہ آپ پر یہ شاق اور گراں گزرا اور کفار بھی آپ کے بارے باتیں کرکے آپ کو پریشان کرنے لگے، پس اس اضطراب اور پریشانی کو دور کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ اور اس آیت میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ کسی کام کے بارے یہ نہ کہا کریں کہ میں کل اس اس طرح کر دوں گا، مگر یہ کہ آپ اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کریں تاکہ آپ خبر کے حکم کو ثابت کرنے والے نہ ہوں، کیونکہ جب کوئی یہ کہے : میں یہ ضرور کروں گا اور پھر وہ نہ کرے تو وہ جھوٹا ہوتا ہے، اور جب وہ یہ کہے میں ضرور اس طرح کروں گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ مخبر عنہ کو ثابت کرنے کے حکم سے نکل گیا۔ پس قول باری تعالیٰ : لشایء میں لام قائم مقام فی کے ہے یا گویا کہ یہ کہا لأجل شئ۔ مسئلہ نمبر 2: ابن عطیہ نے کہا ہے : اس آیت میں لوگوں نے قسم میں انشاء اللہ کہنے کے بارے گفتگو کی ہے، حالانکہ یہ آیت قسم کے بارے نہیں ہے بلکہ یہ قسم کے سوا عام کلام میں انشاء اللہ کہنے کے بیان میں ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : الا ان یشآء اللہ اس کلام میں حذف ہے ظاہر اس کا تقاضا کرتا ہے اور ایجاز (اختصار) اسے حسین بنا رہا ہے، تقدیر کلام یہ ہے : الا ان تقول الا ان یشآء اللہ یا إلا ان تقول إن شاء اللہ۔ پس اس کا معنی یہ ہے : مگر یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ذکر کریں۔ پس الا ان یشآء اللہ اس قول سے نہیں ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جسے ابن عطیہ نے اختیار اور پسند کیا ہے وہی کسائی، فراء، اور اخفش کا قول ہے۔ بصریوں نے کہا ہے : اس کا معنی ہے الا بمشیۃ اللہ۔ پس جب کوئی انسان کہے أنا أفعل ھذا إن شاء اللہ تو اس کا معنی ہوتا ہے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ یہ کام کروں گا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اور ایک جماعت نے کہا ہے : الا ان یشآء اللہ یہ قول باری تعالیٰ : ولا تقولن سے استثنا ہے۔ انہوں نے کہا : اس قول کو علامہ طبری نے بیان کیا ہے اور اس کا رد بھی کیا گیا ہے، اور یہ فساد میں سے ہے اس حیثیت سے یہ لازم ہے کہ اسے بیان نہ کیا جائے۔ اور استثناء فی الیمین اور اس کے حکم کے بارے بحث سورة المائدہ میں گزر چکی ہے۔ قولہ تعالیٰ : واذکر ربک : انسیت اس میں ایک مسئلہ ہے، اور وہ ہے نسیان کے بعد ذکر کا امر اور مامور بہ کے ذکر میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : وقل عسیٰ ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشدا، محمد الکوفی مفسر نے کہا ہے : بیشک یہ اپنے الفاظ کے ساتھ ان میں سے ہے جس کے بارے حکم دیا گیا ہے کہ ہر وہ انہیں کہے جو انشاء اللہ نہ کہے، اور بلاشبہ یہ انشاء اللہ بھول جانے کا کفارہ ہے۔ اور جمہور نے کہا ہے : یہ دعا ہے جس کے بارے حکم دیا گیا ہے نہ کہ یہ تخصیص ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اس کا قول وہ انشاء اللہ ہے جسے قسم کے وقت وہ بھول گیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ انشاء اللہ بھول گیا پھر اسے یاد آگیا اگرچہ سال بعد تو وہ حانث نہیں ہوا اگر وہ قسم اٹھانے والا تھا، اور یہی حضرت مجاہد کا قول ہے۔ اور اسماعیل بن اسحاق نے اسے ابو العالیہ سے قول باری تعالیٰ : واذکر ربک اذا نسیت کے تحت بیان کیا ہے۔ فرمایا : وہ انشاء اللہ کہہ دے جب اسے یاد آجائے۔ حسن (رح) نے کہا ہے : (وہ کہہ دے) جب تک وہ مجلس ذکر میں ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : دو سال (بعد تک کہہ سکتا ہے) ؛ اسے غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا : پس اسے گناہ سے خلاصی پانے کے لئے انشاء اللہ کے ساتھ برکت حاصل کرنے کے تدارک پر محمول کیا جائے گا۔ اور رہا وہ انشاء اللہ کہنا جو حکما مفید ہو تو وہ صرف متصل کہنا ہی صحیح ہوتا ہے۔ سدی نے کہا ہے : مراد ہر وہ نما زہے جسے آدمی بھول جائے جب وہ اسے یاد آجائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تو اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ استثنا کرتا کہ تو نہ بھولے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا ذکر کرو جب تک تم اسے بھول نہ جاؤ۔ اور یہ قول بھی ہے : جب تو کسی شے کو بھول جائے تو تو اس کا ذکر کر وہ تجھے اس کی یاد دلا دے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تو اس کا ذکر کر جب تو اس کے غیر کو بھول جائے یا تو اپنے آپ کو بھول جائے، پس وہی ذکر کی حقیقت ہے۔ اور اس آیت میں خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے، اور اصح قول کے مطابق یہ استفتاح کلام (آغاذ کلام) ہے، اور استثناء فی الیمین میں سے اس میں کوئی شے نہیں ہے، اور یہ اس کے بعد آپ کی تمام امت کو عام ہے، کیونکہ یہ ایسا حکم ہے جو اپنے کثرت سے واقع ہونے کے سبب لوگوں میں مترود رہتا ہے۔ واللہ الموفق۔
Top