Al-Qurtubi - Al-Kahf : 25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا
وَلَبِثُوْا : اور وہ رہے فِيْ : میں كَهْفِهِمْ : اپنا غار ثَلٰثَ مِائَةٍ : تین سو سِنِيْنَ : سال وَ : اور ازْدَادُوْا : اور ان کے اوپر تِسْعًا : نو
اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے
آیت نمبر 25 یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت کے بارے خبر ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں وقالوا لبثوا ہے۔ علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : بیشک نبی اسرائیل نے اس مدت میں اختلاف کیا جو مدت ان پر ان کے اظہار کے بعد سے لے کر حضور نبی مکرم ﷺ کی تشریف آوری کی مدت تک گزر چکی تھی، پس ان میں سے بعض نے کہا : بیشک وہ تین سو نو سال تک ٹھہرے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو اطلاع دی کہ یہ مدت ان کے سوئے رہنے کی ہے، اور وہ جو اس کے بعد ہے وہ آدمی کیلئے مجہول ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اس کا علم اس کی طرف لوٹا دے۔ (یعنی یہ کہ اس مدت کے بارے رب کریم بہتر جانتا ہے) ۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : پس اس بنا پر قول باری تعالیٰ میں پہلا لبثوا غار میں سونے کی مدت بیان کرنے کے لئے ہے۔ اور دوسرے لبثوا سے مراد اظہار کے بعد سے لے کر حضور نبی مکرم ﷺ کے ظہور کی مدت تک کا بیان ہے، یا اس وقت تک جب تک وہ بوسیدہ ہو کر معدوم نہیں ہوئے۔ حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : نزول قرآن کے وقت تک۔ حضرت ضحاک نے کہا ہے : ان کے فوت ہونے کی مدت تک۔ اور ان میں سے بعض نے کہا ہے : بیشک جب فرمایا وازداود تسعا لوگوں کو معلوم نہ ہوا کہ یہ نو ساعتیں ہیں یا دن ہیں یا جمعے ہیں یا مہینے ہیں یا نو سال ہیں۔ اور بنی اسرائیل نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اس نو کے بارے میں علم اپنی طرف لوٹانے کا حکم ارشاد فرمایا، پس یہ اس بنا پر مبہم ہے۔ اور ظاہر کلام عرب کے مطابق جو اس سے سمجھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سال ہیں۔ اور ان کے معاملے میں سے ظاہر یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تھوڑا بعد غار میں داخل ہوئے درآنحالیکہ حواریوں میں سے ابھی کچھ باقی تھے۔ اور اس کے علاوہ بھی اقوال بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : التسع سے نوراتیں اور نو ساعتیں نہیں سمجھی جا سکتیں اس لئے کہ اس سے پہلے سنین (سالوں) کا ذکر ہے، جیسا کہ تو کہتا ہے : عندی مائۃ درھم وخمسۃ (میرے پاس ایک سو درہم اور پانچ ہیں) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سو پانچ درہم (یعنی پانچ سے مراد بھی درہم ہی ہیں) ۔ اور ابو علی نے کہا ہے : وازدادوا تسعا یعنی إزداد و الیث تسع (انہوں نے ٹھہرنے میں نو زیادہ کئے) پس یہ (لبث) حذف کردیا گیا۔ اور ضحاک نے کہا ہے : جب آیت : ولبثوا فی کھفھم ثلث مائۃ نازل ہوئی تو انہوں نے کہا : یہ تین سو سال ہیں یا مہینے ہیں یا جمعے ہیں (مراد ہفتے ہیں) یا دن ہیں تب اللہ تعالیٰ نے سنین نازل فرمایا (یعنی یہ تین سو سال ہیں) ۔ نقاش نے بیان کیا ہے : اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ دنوں کے حساب سے تین سو شمسی سال ٹھہرے رہے، کیونکہ جب یہاں عربی نبی ﷺ کو خبر دی جا رہی ہے اور تسع (نو) کا ذکر کیا گیا ہے، تو آپ کے نزدیک سنین سے بھی قمری سال ہی سمجھے گئے اور یہ زیادتی وہ ہے جو دو حسابوں (شمسی اور قمری سالوں) کے درمیان واقع ہے، اسی طرح غزنوی نے ذکر کیا ہے، یعنی شمسی سال اور قمری سال کے اختلاف کے سبب کیونکہ ہر تینتیس سال اور ایک سال کے ثلث میں ایک سال کا فرق بنتا ہے پس تین سو سال میں نو سال کا فرق ہوجائے گا اور جمہور نے ثلث مائۃ سنین، مائۃ کو تنوین کے ساتھ اور سنین کو نصب کے ساتھ تقدیم و تاخیر کی بنا پر پڑھا ہے، ای سنین ثلثمائۃ پس صفت کو موصوف پر مقدم کیا گیا، تو اس بنا پر سنین بدل یا عطف بیان بن جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تفسیر اور تمیز کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور سنین، سنۃ کے محل میں ہے۔ اور حمزہ اور کسائی نے مائۃ کو سنین کی طرف مضاف کرکے پڑھا ہے، اور تنوین کو ترک کردیا ہے، گویا انہوں نے سنین کو بمنزلہ سنۃ کے بنایا کیونکہ دونوں کا معنی ایک ہے۔ ابو علی نے کہا ہے : یہ وہ اعداد ہیں جو مشہور روایت کے مطابق آحاد کی طرف مضاف ہوتے ہیں، جیسے ثلثمائۃ رجل وثوب اور کبھی جمع کی طرف بھی مضاف ہوتے ہیں۔ اور مصحف عبد اللہ میں ثلثمائۃ سنۃ ہے۔ اور ضحاک نے ثلثمائۃ سنون واؤ کے ساتھ قرأت کی ہے۔ اور ابو عمرو نے اس کے خلاف تسعا کو تا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور جمہور نے اسے تا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور فراء، کسائی اور ابو عبیدہ نے کہا : تقدیر کلام ہے ولبثوا فی کھفھم سنین ثلثمائۃ۔
Top