Al-Qurtubi - Al-Kahf : 26
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا١ۚ لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِعْ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ١٘ وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا
قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا لَبِثُوْا : کتنی مدت وہ ٹھہرے لَهٗ : اسی کو غَيْبُ : غیب السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَبْصِرْ بِهٖ : کیا وہ دیکھتا ہے وَاَسْمِعْ : اور کیا وہ سنتا ہے مَا لَهُمْ : نہیں ہے ان کے لئے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّلِيٍّ : کوئی مددگار وَّلَا يُشْرِكُ : اور شریک نہیں کرتا فِيْ حُكْمِهٖٓ : اپنے حکم میں اَحَدًا : کسی کو
کہہ دو کہ چتنی مدت وہ رہے اسے خدا ہی خوب جانتا ہے اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے اس کے سوا انکا کوئی کارساز نہیں اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے
آیت نمبر 26 قولہ تعالیٰ : قل اللہ اعلم بما لبثوا کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اس مدت کے بارے میں جو ان کی موت کے بعد سے لے کر ان کے بارے میں قرآن کریم نازل ہونے تک ہے، یہ حضرت مجاہد (رح) کے قول کی بنا پر ہے یا ان کے فوت ہونے تک کی مدت مراد ہے، یہ حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے یا بوسیدہ ہو کر ان کے متغیر ہونے کے وقت تک کی مدت مراد ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مدت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے جتنی مدت وہ غار میں ٹھہرے رہے۔ اور یہ وہ مدت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یہود کی جانب سے کیا ہے اگرچہ انہوں نے زیادہ یا کم ذکر کی، یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے سوا جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے، اس کے بارے کوئی نہیں جانتا، لہ غیب السموت والارض (اس کیلئے آسمانوں اور زمین کا علم غیب ہے) ۔ قولہ تعالیٰ : ابصر بہ واسمع یعنی وہ کتنا دیکھنے والا اور کتنا سننے والا ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ سے زیادہ نہ کوئی دیکھنے والا ہے اور نہ سننے والا ہے۔ یہ ادراک سے متعلقہ عبارات ہیں۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ابصر بہ کا معنی ہو یعنی آپ دیکھیں اس کی وحی کے ساتھ اور اس کی راہنمائی کے ساتھ جو اس نے آپ کی طرف فرمائی اور آپ کی دلائل اور حجتیں عطا فرمائیں اور امور کے حقائق سے آپ کو آگاہ کیا، اور اسی کے ساتھ عالم کو سنائیں، تو اس صورت میں یہ دونوں امر کے صیغے ہوں گے نہ کہ یہ صیغہ تعجب ہوں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے آپ انہیں دکھائیں اور انہیں وہ سنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے۔ مالھم من دونہ من ولی یعنی اصحاب کہف کیلئے کوئی ولی نہیں سوائے اللہ ے تعالیٰ کے جو ان کی حفاظت کا ولی اور نگران ہو۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ لھم کی ضمیر حضور نبی مکرم ﷺ کے ہمعصر کفار کی طرف لوٹ رہی ہو، اور اس کا معنی ہو : ان کے ٹھہرنے کی مدت میں ان اختلاف کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی نہیں جو ان کے معاملے کی تدبیر کرسکتا ہو، پس وہ اس سے زیادہ عالم کیسے ہو سکتے ہیں، یا اس کے انہیں سکھائے بغیر وہ اسے کیسے جان سکتے ہیں۔ قولہ تعالیٰ : ولا یشرک حکمہ احدا اسے یا اور کاف کے رفع کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر کے معنی پر ہے۔ اور ابن عامر، حسن، ابورجا، قتادہ اور جحدی رحمہم اللہ تعالیٰ نے ولا تشرک تا کے ساتھ اور کاف کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے، اور اس کا قول ولا تشرک کا ابصر بہ واسمع پر عطف ہوگا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے یشرک یا اور جزم کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعقوب نے کہا ہے : میں اس کی وجہ نہیں جانتا۔ مسئلہ : اصحاب کہف کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ کیا وہ فوت ہوگئے اور فناہ ہوگئے یا وہ سوئے پڑے ہیں اور ان کے جسم محفوظ ہیں، پس حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے کسی غزوہ میں لوگوں کے ساتھ اصحاب کہف کی جگہ اور ان کے پہاڑ کے پاس سے گزرے، تو لوگ آپ کی معیت میں اس کی طرف چل کر گئے تو انہوں نے وہاں ہڈیاں پائیں تو انہوں نے کہا : یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ تو حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں کہا : وہ تو ایسی قوم ہے جو طویل مدت سے فناہ اور معدوم ہوگئے ہیں، پس یہ بات ایک راہب نے سنی تو اس نے کہا : میں عربوں میں سے کسی کے بارے میں یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اسے جانتا ہو، تو اس کو بتایا گیا کہ یہ ہمارے نبی ﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں۔ اور ایک گروہ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ضرور حج کریں گے اور ان کے ساتھ اصحاب کہف ہوں گے کیونکہ انہوں نے ابھی تک حج ادا نہیں کیا “۔ اسے ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور یہ کہ آپ حج یا عمرہ کرنے کیلئے روحاء سے گزریں گے یا اللہ تعالیٰ آپ کیلئے ان (دونوں) کو جمع کر دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ اصحاب کہف اور رقیم کو آپ کا حواری بنا دے گا، پس وہ حج کرتے ہوئے گزریں گے کیونکہ نہ انہوں نے حج کیا ہے اور نہ وہ فوت ہوئے ہیں اور ہم نے یہ روایت مکمل طور پر کتاب ” التذکرہ “ میں ذکر کی ہے۔ پس اس بنا پر تو وہ سوئے پڑے ہیں اور یوم قیامت تک نہیں مریں گے، بلکہ قیامت سے تھوڑا پہلے انہیں موت آئے گی۔
Top