Al-Qurtubi - Al-Kahf : 42
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا
وَاُحِيْطَ : اور گھیر لیا گیا بِثَمَرِهٖ : اس کے پھل فَاَصْبَحَ : پس وہ رہ گیا يُقَلِّبُ : وہ ملنے لگا كَفَّيْهِ : اپنے ہاتھ عَلٰي : پر مَآ اَنْفَقَ : جو اس نے خرچ کیا فِيْهَا : اس میں وَھِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گرا ہوا عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتریاں وَيَقُوْلُ : اور وہ کہنے لگا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش لَمْ اُشْرِكْ : میں شریک نہ کرتا بِرَبِّيْٓ : اپنے رب کے ساتھ اَحَدًا : کسی کو
اور اس کے میوؤں کو (عذاب نے) آن گھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر (حسرت سے) ہاتھ ملنے لگا اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا
آیت نمبر 42 قولہ تعالیٰ : واحیط بثمرہ اس میں اسم مالم یسم فاعلہ مضمر ہے، اور وہ مصدر ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اس میں اسم مجرور محل رفع میں ہو۔ اور احیط بثمرہ کا معنی ہے اسکا سارے کا سارا مال ہلاک کردیا گیا۔ اور یہ وہ پہلی چیز ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کے بھائی کے ڈراوے کو ثابت کردیا اور حقیقت بنا دیا۔ فاصبح یقلب کفیہ یعنی کافر ندامت کے سبب اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارنے لگا کیونکہ یہ فعل نادم سے صادر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ اپنی ملکیت الٹ پلٹ کرتا ہے اور جو کچھ اس نے خرچ کیا ہے اس کا عوض اور بدلہ اس میں نہیں دیکھتا، اور یہ اس اعتبار سے ہے کیونکہ یہ فعل نادم سے صادر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ اپنی ملکیت الٹ پلٹ کرتا ہے اور جو کچھ اس نے خرچ کیا ہے اس کا عوض اور بدلہ اس میں نہیں دیکھتا، اور یہ اس اعتبار سے ہے کیونکہ ملک کو لفظ ید سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے قول میں سے ہے : فی یدہ مال، یعنی اس کی ملک میں مال ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول : فاصبح اس پر دلیل ہے کہ یہ ہلاک کرنے کا عمل رات کے وقت ہوا ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فطاف علیھا طآئف من۔۔۔۔۔ کالصریم۔ (القلم) (پس چکر لگا اس باغ پر ایک چکر لگانے والا آپ کے رب کی طرف سے درآنحالیکہ وہ سوئے ہوئے تھے چناچہ (لہلہاتا) باغ کٹے ہوئے کھیت کی مانند ہوگیا) ۔ اور کہا جاتا ہے : أنفقت فی ھذہ الدار کذا وأنفقت علیھا (میں نے اس گھر میں اتنا خرچ کیا اور میں نے اس پر اتنا خرچ کیا) وھی خاویۃ علیٰ عروشھا یعنی وہ خالی ہے تحقیق وہ بعض بعض پر گرگیا ہے) یہ خوت النجوم تخوی خیا امحلت سے ماخوذ ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب وہ گر جائے اور کسی بھی سبزے پر بارش نہ بردائے۔ اور أخوت بھی اس کی مثل ہے۔ اور خوت الدار خواء أقوت (گھر گرگیا اور اپنے مکینوں سے خالی ہوگیا) ، اور اسی طرح ہے جب وہ گر جائے) اور اسی سے قول باری تعالیٰ ہے : فتلک بیوتھم خاویۃ بما ظلموا (النمل : 52) (پس یہ ان کے گھر ہیں جو اجڑے پڑے ہیں ان کے ظلم کے باعث) ۔ اور کہا جاتا ہے : ساقطۃ (گرنے والا) جیسا کہ کہا جاتا ہے : فھی خاویۃ علی عروشھا یعنی وہ اپنی چھت پر گرنے والا ہے، پس اسے پھل اور اصل کی تباہی اور بربادی کے درمیان جمع کیا گیا ہے، اور یہ بہت شدید اور بڑی آفتوں میں سے ہے، درآنحالیکہ یہ اس کے ظلم اور نافرمانی کے مقابلہ میں ہے۔ ویقول یلیتنی لم اشرک بربی احدا یعنی اے کاش ! میں نے ان نعمتوں کو پہچانا ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرمائی ہیں اور میں نے یہ پہچانا ہوتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہیں اور میں اس کے ساتھ کفر نہ کرتا۔ اور یہ اس کی طرف سے اس وقت ندامت کا اظہار ہے جس وقت ندامت اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی تھی۔
Top