Al-Qurtubi - Al-Kahf : 43
وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ مَا كَانَ مُنْتَصِرًاؕ
وَلَمْ تَكُنْ : اور نہ ہوتی لَّهٗ : اس کے لیے فِئَةٌ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : اس کی مدد کرتی وہ مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَمَا : اور نہ كَانَ : وہ تھا مُنْتَصِرًا : بدلہ لینے کے قابل
(اس وقت) خدا کے سواء کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا
آیت نمبر 43 قولہ تعالیٰ : ولم تکن۔۔۔۔ من دون اللہ، فئۃ یہ تکن کا اسم ہے اور لہ اس کی خبر ہے۔ ینصرونہ یہ صفت کے محل میں ہے، ای فئۃ ناصرۃ (مدد کرنے والی جماعت) ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ ینصرونہ خبر ہو۔ اور پہلی وجہ سیبویہ کے نزدیک اولیٰ اور بہتر ہے کیونکہ لہ مقدم ہے۔ اور ابو العباس ان کی مخالفت کرتے ہیں، اور اللہ عزوجل کے اس ارشاد سے استدلال کرتے ہیں : ولم یکن لہ کفوا احد۔ (الاخلاص) اور سیبویہ نے دوسری وجہ کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ اور ینصرونہ، فئۃ کے معنی کی وجہ سے (جمع کا صیغہ) ہے، کیونکہ اس کا معنی اقوام ہے، اور اگر لفظ کی بنا پر ہوتا تو فرماتا ولم تکن لہ فئۃ تنصرہ، یعنی ایسا گروہ اور ایسی جماعت جس کے پاس وہ پناہ لے سکتا ہو (وہ نہیں رہی) وما کان منتصرا یعنی اور نہ وہ روکنے والا تھا ؛ یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اور نہ وہ اس کا بدل لوٹانے والا ہے جو اس سے ضائع ہوگیا ہے (جو اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے) اور الفئۃ کا مادہ اشتقاق سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ اور اس میں ھا اس یا کے عوض ہے جو اس کے درمیان سے کم ہوئی، اس کی اصل فیئ ہے جیسا کہ فیع ہے کیونکہ یہ فا سے ہے، اور اس کی جمع فئون اور فئات آتی ہے، جیسے شیات، لذات اور مئات وغیرہ یعنی اس کے پاس کوئی ایسی جماعت نہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کی حفاظت کرسکتی ہو، اور اس کے خدام اور اولاد میں سے وہ اس سے مفقود اور گم ہوگئے جن کے سبب وہ فخر کرتا تھا۔
Top