Al-Qurtubi - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں
آیت نمبر 46 قولہ تعالیٰ : المال والبنون زینۃ الحیوۃ الدنیا اس میں رینتا بھی جائز ہے اور یہ تثنیہ اور مفرد (دونوں حالتوں) میں مبتدا کی خبر ہے۔ اور بلاشبہ مال اور فرزند دنیوی زندگی کی زینت ہیں، کیونکہ مال میں حسن و خوبصورتی اور منافع ہیں، اور بیٹوں میں قوت اور دفاع ہے، تو اس طرح یہ دونوں دنیوی زندگی کے لئے زیب وزینت ہیں، لیکن اس کے ساتھ صفت کا قرینہ مال اور فرزندوں کیلئے ہے، کیونکہ اسکا معنی ہے : المال والبنون زینۃ ھذہ الحیاۃ المحتقرۃ فلا تتبعوھا نفوسکم (یعنی مال اور فرزند اس حقیر زندگی کیلئے زیب وزینت ہیں پس تم اپنے آپ کو اس کا تبع نہ بناؤ) ۔ اور یہ عینیہ بن حصن اور اس جیسے دیگر لوگوں کا رد ہے جب انہوں نے دولت اور ظاہری شرف پر فخر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ یہ جو دنیوی زندگی کے لئے زینت ہے تو یہ ایسا غرور (اور فخر) ہے جو گزر جائے گا، ختم ہوجائے گا اور باقی نہیں رہے گا، جیسا کہ خشک ٹوٹی ہوئی گھاس ہوتی ہے کہ ہوا اسے اڑالے جاتی ہے، بلاشبہ جو شے باقی رہتی ہے وہ زاد قبر اور آخرت کی تیاری ہے۔ اور کہا جاتا ہے : مال کے ساتھ اپنا دل نہ لگاکیون کہ یہ ختم ہوجانے والے سائے (کی طرح) ہے، اور نہ عورتوں کے ساتھ دل لگا، کیونکہ یہ آج تیرے ساتھ ہیں اور کل کسی دوسرے کے ساتھ ہیں، اور نہ سلطان کے ساتھ کیونکہ وہ آج تیرا ہے اور کل کسی اور کا۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول کافی ہے : الما اموالکم۔۔۔ فتنۃ (الانفال : 28) (بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد بڑی آزمائش ہیں) ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان من ازواجکم۔۔۔۔ فاحذروھم (التغابن : 14) (بےشک تمہاری کچھ بیبیاں اور تمہارے بچے تمہارے دشمن ہیں، پس ہوشیار رہو ان سے) ۔ قولہ تعالیٰ : والبقیت الصلحت مراد طاعات کا وہ عمل ہے جو حضرت سلمان، حضرت صہیب اور دیگر مسلمان فقراء ؓ کر رہے ہیں۔ خیر عند ربک ثوابا تیرے رب کے ہاں ثواب کے اعتبار سے افضل ہے۔ وخیر املا یعنی ازروئے امید کے صاحب مال اور فرزندوں سے افضل ہیں نہ کہ عمل صالح سے، اور دنیوی زیب وزینت میں خیر اور بھلائی نہیں ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے محل میں ہے : اصحب الجنۃ یومئذ خیر مستقرا (الفرقان : 24) (اہل جنت کا اس دن اچھا ٹھکانا ہوگا) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ فی الحقیقت اس سے بہتر ہیں جسے جاہل لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ ان کے گمان میں بہتر ہے۔ اور والبقیت الصلحت کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے ؛ پس حضرت ابن عباس ؓ، ابن جبیر، ابو میسرہ، اور عمرو بن شرحبیل نے کہا ہے : ان سے مراد پانچ نمازیں ہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آدمی کے قول و فعل میں سے ہر عمل صالح ہے جو آخرت کے لئے باقی رہے گا۔ اور یہ ابن زید نے بھی کہا ہے اور علامہ طبری نے اسے ترجیح دی ہے۔ اور یہی صحیح ہے ان شاء اللہ، کیونکہ ہر وہ عمل جس کا ثواب باقی رہے جائز ہے کہ اس کے لئے یہ کہا جائے۔ اور حضرت علی ؓ نے بیان فرمایا ہے : کھیتی دو قسم کی ہے پس دنیا کی کھیتی مال اور فرزند ہیں اور آخرت کی کھیتی باقیات صالحات (باقی رہنے والی نیکیاں) ہیں، تحقیق اللہ تعالیٰ انہیں اقوام کے لئے جمع فرما دے گا۔ اور جمہور نے کہا ہے : ان سے مراد وہ کلمات ہیں جن کی فضیلت حدیث طیبہ میں مروی ہے : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اسے امام مالک نے اپنی موطا میں عمارہ بن صیاد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ان کو البقیت الصلحت کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا : بیشک ان سے مراد بندے کا یہ کہنا ہے : اللہ اکبر وسبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ، اسے نسائی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مسند بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : البقیت الصلحت کی کثرت کرو۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ ! ﷺ وہ کیا ہیں۔ فرمایا : ” تکبیر کہنا، لا الہ الا اللہ کہنا، سبحان اللہ کہنا اور الحمد للہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ، اسے ابو محمد عبد الحق (رح) تعالیٰ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور حضرت قتادہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹہنی پکڑی اور اسے جھنجھوڑا یہاں تک کہ اس کے پتے گر گئے اور فرمایا : ” بیشک جب مسلمان یہ کہتا ہے سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر تو اس کے گناہ گر جاتے ہیں جیسا کہ یہ پتے گر گئے ہیں اے ابا الدرداء ! انہیں اپنے پاس محفوظ کرلو۔ اس سے پہلے کہ تیرے اور ان کے درمیان کوئی حائل ہو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں اور عمدہ اور خالص کلام میں سے ہیں اور یہ المقیت الصلحت (باقی رہنے والی نیکیاں) ہیں “۔ اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے، اور اسے ابن ماجہ نے اسی معنی میں حضرت ابو الدرداء ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تجھ پر سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھنا لازم ہے کیونکہ یہ گناہوں کو اس طرح گرا دیتے ہیں جس طرح درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔ اور ترمذی نے اسے اعمش کی حدیث سے حضرت انس بن مالک ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خشک پتوں والے درخت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اسے چھڑی ماری تو پتے گرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک سبحان اللہ والحمد للہ ولا اللہ الا اللہ واللہ اکبر آدمی کے گناہوں کو اس طرح گرادیتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے گر رہے ہیں “۔ فرمایا : یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اعمش کا سماع حضرت انس ؓ سے نہیں جانتے، مگر یہ کہ انہوں نے انہیں دیکھا ہے اور انہوں نے ان کی طرف دیکھا ہے۔ ترمذی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں شب معراج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا تو انہوں نے کہا : اے محمد ! ﷺ اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں یہ خبر دینا کہ جنت کی مٹی بڑی پاکیزہ اور زرخیز ہے، پانی بڑا عمدہ اور میٹھا ہے اور یہ کہ وہ بڑی ہموار اور نرم ہے اور اس کے پودے اور درخت سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں “۔ فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ماوردی نے اسی معنی میں بیان کیا ہے۔ اور اسمیں ہے۔۔۔ تو میں نے کہا : جنت کے درخت اور پودے کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : لا حوال ولا قوۃ الا باللہ۔ ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ پودے لگا رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے ابا ہریرہ ! ؓ تم کیا لگا رہے ہو ؟ “ تو میں نے کہا : پودے لگا رہا ہوں، فرمایا : کیا میں تمہاری راہنمائی ایسے پودوں پر نہ کروں جو ان سے بہتر ہیں، سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ہر ایک کے بدلے تیرے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے “۔ تحقیق کہا گیا ہے : بیشک باقیات صالحات ہی نیتیں اور عزم و ارادے ہیں، کیونکہ انہیں کے ساتھ اعمال قبول کئے جاتے ہیں اور بلند ہوتے ہیں ؛ یہ حسن نے کہا ہے۔ اور عبید بن عمیر نے کہا ہے : کہ ان سے مراد بیٹیاں ہیں، آیت کا اول حصہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : المال والمنون زینۃ الحیوۃ الدنیا پھر فرمایا : والبقیت الصلحت یعنی صالح اور نیک بیٹیاں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے آباء کیلئے اجر وثواب ہیں، اور بہتر ہیں آخرت میں جن سے امید وابستہ کی جاتی ہے اس آدمی کے لئے جس نے ان کے ساتھ احسان اور نیکی کی، اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے روایت کیا ہے انہوں نے بیان فرمایا : میرے پاس ایک مسکین عورت آئی۔ الحدیث، تحقیق ہم نے اسے سورة النحل میں قول باری تعالیٰ : یتواری من القوم الآیہ (النحل : 59) میں بیان کیا ہے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ” تحقیق میں نے اپنی امت سے ایک آدمی دیکھا اسے جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دیا گیا تو اس کی بیٹیاں اس کے ساتھ چمٹ گئیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں اور کہنے لگیں : اے ہمارے رب ! بلاشبہ یہ دنیا میں ہمارے ساتھ احسان اور نیکی کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے وسیلہ سے اس پر رحم فرما دیا “۔ اور حضرت قتادہ نے قول باری تعالیٰ : فاردنا ان یبدلھما۔۔۔۔۔ اقرب رحما۔ (کہف) (پس ہم نے چاہا کہ بدلہ دے انہیں ان کا رب (ایسا بیٹا) جو بہتر ہو اس سے پاکیزگی میں اور (ان پر) زیادہ مہربان ہو) کے تحت کہا ہے : ان کو اس کے بدلے بیٹی عطا فرمائی اور اس سے نبی (علیہ السلام) نے شادی کی اور اس نے بارہ بچوں کو جہنم دیا اور وہ تمام انبیاء ہوئے۔
Top