Al-Qurtubi - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے
آیت نمبر 47 قولہ تعالیٰ : ویوم نسیر الجبال وتری الارض بارزۃ بعض نحویوں نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے والباقیات الصالحات خیر عند ربک یوم نسیر الجبال۔ نحاس نے کہا ہے : یہ واؤ کی وجہ سے غلط ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے : اور اس دن کو یاد کرو جب ہم پہاڑوں کو ہٹا دیں گے، یعنی ہم انہیں سطح زمین سے اپنی جگہوں سے زائل کردیں گے، اور ہم انہیں چلائیں گے جیسا کہ ہم بادلوں کو چلاتے ہیں، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وھی تمر مر السحاب (النمل :88) (حالانکہ وہ چل رہے ہوں گے بادل کی سی چال) پھر وہ ٹوٹ جائیں گے اور زمین کی طرف لوٹ آئیں گے، جیسا کہ فرمایا : وبست الجبال بسا۔ فکانت ھبآء منبثا۔ (الواقعہ) (اور ٹوٹ پھوٹ کر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر غبار بن کر بکھر جائیں گے) ابن کثیر، حسن، ابوعمرو اور ابن عامر نے ویوم تسیرتا کو ضمہ اور یا کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور الجبال کو فعل مجہول کی بنا پر مرفوع پڑھا ہے۔ ابن محیصن اور مجاہد نے یوم تسیر الجبال تا کو فتحہ کے ساتھ مخفف پڑھا ہے اور یہ سار سے ہے۔ اور الجبال مرفوع ہے۔ ابو عمرو کی قرأت کی دلیل واذا الجبال سیرت۔ (التکویر) ہے۔ اور ابن محیصن کی قرأت کی دلیل وتسیر الجبال سیرا۔ (الطور) ہے۔ اور ابو عبید نے پہلی قرأت کو نسیر یعنی نون کے ساتھ کو اختیار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وحشرنھم اور بارزۃ کا معنی ظاھرۃ ہے، (یعنی) اس پر پہاڑوں، درختوں اور عمارتوں میں سے ایسی کوئی شے نہ ہوگی جو اسے ڈھانپے ہوئے ہو، یعنی اس کے درخت جڑ سے اکھیڑ دئیے جائیں گے، اس کے پہاڑ بھی اکھیڑ دئیے جائیں گے، اور اس کی عمارتیں گرا دی جائیں گی، پس یہی اس کا ظاہر ہونا اور کھلا میدان بننا ہے۔ اہل تفسیر نے یہی قول کہا ہے۔ اور کہا گیا ہے : وتری الارض بارزۃ یعنی زمین میں جو مخفی خزانے اور مردے ہیں وہ سب ظاہر ہوجائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : والقت ما فیھا وتخلت۔ (الانشقاق) (اور باہر پھینک دے گی جو کچھ اسکے اندر ہے اور خالی ہوجائے گی) ۔ اور فرمایا : واخرجت الارض اثقالھا۔ (الزلزال) (اور باہر پھینک سے گی زمین اپنے بوجھوں (یعنی دفینوں کو) اور یہ قول حضرت عطا (رح) کا ہے۔ وحشرنھم اور ہم انہیں موقف کی طرف جمع کرکے لے جائیں گے۔ فلم نغادر منھم احدا یعنی ہم ان میں سے کسی کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔ کہا جاتا ہے : غادرت کذا یعنی میں نے اسے چھوڑ دیا۔ عشرہ نے کہا ہے : غادرتہ متعفرا اوصالہ والقوم بین مجرح ومجدل یعنی میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اور المغادرۃ کا معنی ترک کرنا اور چھوڑنا ہے، اور اسی سے الغدر ہے، کیونکہ اس کا معنی وفا کو ترک کرنا ہے۔ اور پانی کے تالاب کو غدیر کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ پانی اس میں جاتا ہے اور وہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اور اسی سے غدائر المرأۃ (عورتوں کی گندھی ہوئی چوٹی) ہے کیونکہ وہ اسے پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ وہ فرمارہا ہے : ہم ان کے نیکوں، فاجروں، جنوں اور انسانوں سبھی کو جمع کریں گے۔
Top