Al-Qurtubi - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
(اے پیغمبر ﷺ اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے۔
فلعلک باخع نفسک علی اٰثارھم ان لم یومنوبھذا الحدیث اسفاً “ تو کیا آپ (فرط غم سے) تلف کردیں گے اپنی جان کو ان کے پیچھے اگر وہ ایمان نہ لائے اس قرآن کریم پر افسوس کرتے ہوئے۔” قولہ تعالیٰ : فلعلک باخع نفسک علیٰ اٰثارھم باخع اس کا معنی ہے ہلاک کرنے والا اور قتل کرنے والا اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اٰثارھم یہ اثر کی جمع ہے، اور کہا جاتا ہے : اثر ـ(پیچھے) اور اس کا معنی ہے آپ سے ان کے اعراض کرنے اور ان کے پیٹھ پھیرنے کے پیچھے (کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے) ۔ ان لم یومنو بھذا الحدیث اگر وہ اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے۔ اسفًا یعنی ان کے کفر پر افسوس اور غصہ کرتے ہوئے اور یہ تفسیر کی بنا پر منصوب ہے۔ انا جعلنا ما علی الا رض زینة لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً ۔ “ بشک ہم نے بنایا ان چیزوں کو جو زمین پر ہیں ان کے لئے باعث زینت و آرائش تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔” قولہ تعالیٰ : انا جعلنا ما علی الارض زینة لھا اس میں دو مسئلے ہیں : مسئله نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : انا جعلنا ما علی الارض زینة لھا، ما اور زینة یہ دونوں مفعول ہیں۔ اور الزینة سے مراد ہر وہ شے ہے جو سطح زمین پر ہے، پس یہ عام ہے، کیونکہ ہر شے اپنے خالق اور پیدا کرنے والے پر دلالت کرتی ہے۔ اور حضرت ابن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ آپ نے زینة سے مراد رجال لئے ہیں ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ اور عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ زینت سے مراد خلفاء اور امراء ہیں۔ اور ابن ابی نجیح نے حضرت مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری تعالیٰ : انا جعلنا ما علی الارض زینة لھا کے بارے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : علماء زمین کی زینت ہیں۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اس سے نعمتیں، لباس، پھل، سبزیاں، پانی اور اسی طرح کی اور چیزیں جو اس میں زینت کا باعث ہیں وہ مراد لی ہیں، اور اس میں بہرے پہاڑ اور ہر وہ شے جس میں زینت نہیں مثلاً سانپ اور بچھو وغیرہ وہ داخل نہیں ہیں۔ اور عموم کے بارے قول کرنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے، اور یہ کہ ہر وہ شے جو زمین پر ہے وہ اس میں اپنی خلقت، صنعت، اور پختگی کے اعتبار سے زینت ہے۔ اور آیت تسلی اور اطمینان دلانے کے لئے بیان کی گئی ہے، یعنی اے محمد ﷺ آپ دنیا اور اہل دنیا کے لئے غمزدہ اور پریشان نہ ہوں کیونکہ ہم نے اسے دنیا والوں کے لئے امتحان اور آزمائش بنا دیا ہے پس ان میں سے کچھ تدبر اور غورو فکر کر کے ایمان لے آئیں گے، اور ان میں سے کچھ کفر بھی کریں گے، پھر قیامت کے دن (وہ سب) ان کے سامنے ہوگا پس ان کا کفر اور انکار آپ پر گراں اور شاق نہ گزرے کیونکہ ہم انہیں ان کے کئے کی سزا اور بدلہ دیں گے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت کا معنی حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد میں دیکھا جاسکتا ہے :“ بیشک دنیا سر سبز و شریں ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ اور نائب بنانے والا ہے پس وہ دیکھتا ہے تم کیسے عمل کرتے ہو ؟” اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے :“ بیشک زیادہ خوف دلانے والی وہ شے جس کے بارے میں تم پر خوف اور اندیشہ محسوس کر رہا ہوں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے دنیا کی رونق و خوشحالی (زھرۃ الدنیا) کو ظاہر کر دے گا۔” پوچھا : زھرۃ الدنیا کیا ہے ؟ فرمایا :“ دنیا کی برکتیں ” ان دونوں روایتوں کو امام مسلم وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا اپنے ذائقہ میں بڑی لذیذ اور شیریں ہے اور اپنے دکھائی دینے میں بڑی عمدہ اور خوش کرنے والی ہے گویا یہ اس پھل کی طرح ہے جو بڑا میٹھا اور شیریں ہو اور دیکھنے میں بڑا خوبصورت ہو، پس اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے تاکہ وہ یہ دیکھے کہ ازروئے عمل کے حسین کون ہے ؟ یعنی کون اس میں زیادہ زہد اختیار کرنے والا اور اسے زیادہ چھوڑنے والا ہے اور بندوں کے لئے اس چیز سے بغض رکھنے اور اسے ناپسند کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مزین اور آراستہ کیا ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس بارے میں بندے کی مدد اور معاونت فرمائے ” اسی لئے حضرت عمر ؓ یہ کہتے تھے جیسا کہ امام بخاری نے ذکر کیا ہے : اے اللہ بیشک ہم استطاعت نہیں رکھتے مگر اس کی کہ ہم اس سے فرحت و سرور حاصل کریں جسے تو نے ہمارے لئے آراستہ اور مزین فرمایا ہے، اے اللہ ! بلاشبہ میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میں اسے اس کے حق میں خرچ کروں۔ تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ اسے اس کے حق میں خرچ کرنے پر آپ کی مدد فرمائے۔ اور یہی معنی آپ ﷺ کے اس ارشاد کا ہے :“ پس جس نے اسے طیب نفس کے ساتھ پا لیا اس کے لئے اس میں برکت رکھ دی جائے گی اور جس نے اسے نفس کی حرص اور طمع کے ساتھ لیا تو وہ اس کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا ” اور اسی طرح دنیا کو کثرت سے اکٹھا کرنے والا ہے کہ وہ اس پر قناعت نہیں کرتا جو اسے دنیا میں سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کا ارادہ اسے جمع کرنے کا ہوتا ہے، اور یہ چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کے ارشادات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ؛ کیونکہ فتنہ اور آزمائش اس کے ساتھ لاحق ہوجاتے ہیں اور محفوظ اور سلامت نہ ہونا غالب ہوتا ہے، تحقیق کامیاب اور فلاح پانے والا وہ ہے جس نے اسلام قبول کیا گزارے کے لائق روزی حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس پر قناعت عطا فرمادی جو اس نے اسے عطا کیا۔ اور ابن عطیہ نے کہا ہے : میرے والد محترم قول باری تعالیٰ : احسن عملاً کے بارے میں کہتے تھے : احسن عمل ایمان کے ساتھ حق کو پکڑنا اور حق میں خرچ کرنا ہے، فرائض کو ادا کرنا ہے اور محارم سے اجتناب کرنا ہے مندو بات کو کثرت سے کرنا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ قول اچھا ہے، اپنے الفاظ میں مختصر ہے اور اپنے معنی میں بلیغ ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے ایک لفظ میں جمع فرما دیا ہے اور وہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے جو آپ نے سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ کو اس وقت ارشاد فرمایا جب انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اسلام کے بارے میں مجھے ایسی بات ارشاد فرمائیے کہ میں آپ کے بعد اس کے بارے کسی سے سوال نہ کروں ؟۔۔۔۔ اور ایک روایت میں : غیرک (آپ کے سوا) کے الفاظ ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : قل اٰمنت باللہ ثم أستقم۔ کہو میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کرلے ؛ اسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔ اور حضرت سفیان ثوری (رح) نے کہا ہے : احسن عملاً کا معنی ہے ان میں سے دنیا میں زیادہ زاہد کون ہے ؟ اور اسی طرح ابو عصام عسقلانی نے کہا ہے : احسن عملاً کون اسے زیادہ چھوڑنے والا ہے ؟ اور زہد کے بارے میں علماء کی عبارات مختلف ہیں، پس ایک قوم نے کہا ہے : امید (اور خواہش) کو کم کرنا اور یہ خشک اور سخت کھانا کھانے اور گدڑی پہننے سے حاصل نہیں ہوتا ؛ یہ حضرت سفیان ثوری (رح) نے کہا ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور سچ کہا ہے کہ بیشک وہ جس کی امید اور آرزو کم ہوجائے وہ عمدہ اور اعلیٰ کھانوں کو تلاش نہیں کرتا۔ اور نہ وہ قسم قسم کے عمدہ لباس پہنتا ہے، وہ دنیا سے وہ کچھ لے لیتا ہے جو اسے میسر آئے، اور وہ اس میں سے اتنی چیز پر اکتفا کرتا ہے جو اسکے معاملات حیات کو جاری رکھ سکتی ہو۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : اس سے مراد محمدۃ (حمد) کو ناپسند کرنا اور ثنا (تعریف) کو پسند کرنا ہے۔ اور یہی قول امام اوزاعی اور ان کے پیروکاروں کا ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : دنیا کو مکمل طور پر چھوڑ زہد ہے۔ کیا اس نے اس کے چھوڑنے کو پسند کیا ہے یا ناپسند ؟ اور یہی فضیل کا قول ہے۔ اور بشر بن حارث نے کہا ہے : دنیا کی محبت سے مراد لوگوں کی ملاقات کو پسند کرنا ہے، اور دنیا میں زہد اور بےرغبی کا اظہار کرنے سے مراد لوگوں کی ملاقات سے دور رہنا ہے، اور حضرت فضیل (رح) سے یہ بھی منقول ہے : دنیا میں زہد کی علامت لوگوں سے دور رہنا ہے اور ان سے احتراز برتنا ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : کوئی زاہد زاہد نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ دنیا کو چھوڑ دینا اس کے نزدیک اسے لینے سے پسندیدہ ہو ؛ یہ حضرت ابراھیم بن ادھم نے کہا ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : زہد سے مراد موت کو پسند کرنا ہے۔ اور پہلا قول معنوی اعتبار سے ان تمام اقوال کو شا مل ہے پس وہی اولیٰ اور بہتر ہے۔ و انا لجعلون ما علیھا صعیدًا جررًا۔ “ اور ہم ہی بنانے والے ہیں ان چیزوں کو جو زمین پر ہیں (ویران کر کے) چٹیل میدان، غیر آباد۔” اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ اور ابو سہل نے کہا ہے : ایسی زمین جس میں نباتات اور سبزہ نہ ہو، گویا کہ اس کا سبزہ کاٹ دیا گیا ہو۔ اور الجرز کا معنی قطع کرنا، کاٹ دینا ہے اور اس سے سنةجرز (وہ سال جس میں بارش نہ ہو اور قحط سالی ہو) ہے۔ راجز نے کہا ہے : قد جرفتھن السنون الاجراز (قحط والے سالوں نے انہیں ختم کردیا) اور الارض الجرزوہ زمین ہے جس میں نباتات نہ ہو اور نہ اس میں آبادی وغیرہ میں سے کوئی شے ہو، گویا کہ اسے مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہو اور زائل کردیا گیا ہو۔ مراد قیامت کا دن ہے، کیونکہ اس دن زمین ہموار ہوگی اس میں کوئی چیز چھپی نہ ہوگی۔ نحاس نے کہا ہے : لغت میں الجرز سے مراد وہ زمین ہے جس میں سبزہ نہ ہو۔ کسائی نے کہا ہے : جرزت الارض تجرز اور جرزھا القوم یجرزونھا جب وہ زمین میں اگنے والی ہر شے سبزہ اور کھیتی وغیرہ کھا جائیں تو یہ کہا جاتا ہے پس وہ زمین مجروزۃ اور جرز کہلاتی ہے۔ ام حسبت ان اصحٰب الکھف والرقیم کانو من اٰیٰتنا عجباً ۔ “ کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں جو تعجب خیز ہیں ”۔ سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ جب ام مذکورہ ہو اور اس سے پہلے ہمزہ استفہام نہ ہو تو وہ بمعنی بل اور ہمزہ استفہام کے ہوتا ہے، اور ام منقطعہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ ام کا عطف استفہام کے اس معنی پر ہے جو لعلک میں پایا جارہا ہے، یا یہ ہمزہ استفہام انکاری کے معنی میں ہے۔ علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : یہ حضور نبی مکرم ﷺ کو اپنے خیال پر پختہ کرنا ہے کہ اصحاب کہف تعجب خیز تھے، اس معنی میں کہ وہ واقعہ اتنا بڑا اور عظیم نہیں ہے جتنا سوال کرنے والے کافروں نے آپ پر اسے بڑا قرار دیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ساری نشانیاں ان کے قصہ کی نسبت بڑی، عظیم اور عام ہیں، یہ قول حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد، قتادہ اور ابن اسحاق ؓ کا ہے۔ اور خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے، کیونکہ مشرکین نے آپ ﷺ سے ان نوجوانوں کے بارے میں پوچھا جو گم ہوئے تھے، اور ذی القرنین اور روح کے بارے پوچھا اور اللہ تعالیٰ نے وحی مؤخر فرما دی جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پس جب وحی نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا : اے محمد ! ﷺ تم نے گمان کیا ہے کہ غار اور رقیم والے ہماری تعجب خیز نشانیوں میں سے ہیں ؟ یعنی وہ ہماری تعجب خیز نشانیوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ ہماری نشانیوں میں سے ایسی ہیں جو ان کے واقعہ اور خبر سے زیادہ تعجب خیز ہیں۔ کلبی (رح) نے کہا ہے : آسمانوں اور زمین کی تخلیق کرنا ان کے واقہ سے زیادہ تعجب خیز ہے۔ ضحاک (رح) نے کہا ہے : میں نے غیب میں سے جس پر آپ کو اطلاع دی ہے وہ زیادہ تعجب خیز ہے، حضرت جنید (رح) نے کہا ہے : سفر معراج میں آپ کی شان اس سے زیادہ تعجب خیز ہے۔ ماوردی نے کہا ہے : کلام کا معنی نفی ہے، یعنی آپ یہ خیال نہ کرتے اگر ہم خبر نہ دیتے۔ ابو سہل نے کہا ہے : استفہام برائے تقریر ہے، یعنی آپ یہ خیال کرتے ہیں کیونکہ وہ تعجب خیز ہیں۔ اور الکھف سے مراد پہاڑ میں کھلا سوراخ ہے اور جو وسیع اور کھلا نہ ہو تو وہ غار کہلاتا ہے۔ نقاش نے حضرت انس بن مالک ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : الکھف سے مراد پہاڑ ہے اور یہ لغت میں مشہور نہیں۔ لوگوں نے الرقیم کے بارے میں اختلاف کیا ہے، پس حضرت ابن عباس نے کہا ہے : قرآن میں موجود ہر شے کے بارے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے سوائے چار کے، یعنی غسلین، حنان، الاوہ اور الرقیم۔ حضرت مرہ سے الرقیم کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : کعب کا خیال ہے کہ یہ وہ گاؤں ہے جس سے وہ اصحاب نکلے تھے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وادی ہے۔ اور حضرت سدی (رح) نے کہا ہے الرقیم سے مراد چٹان ہے جو اس غار پر تھی۔ اور ابن زید نے کہا ہے : الرقیم وہ کتاب ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہم پر غالب کردیا، لیکن اس کے واقعہ کی ہمارے سامنے وضاحت نہ کی اور ایک گروہ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وہ تحریر ہے جو تانبے کی تختی میں لکھی ہوئی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : تانبے کی ایک تختی میں قوم کفار نے ان نوجوانوں کا واقعہ لکھا تھا جو ان سے بھاگے تھے اور انہوں نے اسے ان کی تاریخ بنا دیا، انہوں نے نے ان کے گم ہونے کا وقت ذکر کیا، ان کی تعداد ذکر کی کہ وہ کتنے تھے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ کون تھے ؟ اور اسی طرح فراء نے کہا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے : رقیم تانبے کی ایک تختی ہے جس میں ان کے اسماء ان کے نسب، ان کا دین اور جس سے وہ بھاگے تھے سب لکھا ہوا تھا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسی قوم تھے جو واقعات اور حوادث کی تاریخ لکھتے تھے، اور یہ مملکت کی فضیلت ہے اور یہ مفید کام ہے۔ اور یہ اقوال الرقیم سے ماخوذ ہیں اور اسی سے “ کتاب مرقوم ”( لکھی ہوئی کتاب) ہے۔ اور اسی سے الارقم (زہریلے سانپ) وہ اپنے اوپر سیاہ وسفید نشانات اور لکیروں کی وجہ سے کہلاتا ہے۔ اور اسی سے رقمه الوادی ہے، یعنی وہ جگہ جہاں پانی چلے اور وہ اس میں اکٹھا ہوجائے۔ اور جو حضرت ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے وہ متناقض نہیں، کیونکہ پہلا قول انہوں نے حضرت کعب سے سنا ہے، اور دوسرے قول میں یہ جائز ہے کہ انہوں نے اس کے رقیم کو پہچان لیا ہو۔ اور حضرت سعید بن جبیر نے ان سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اصحاب کہف کا ذکر کیا اور فرمایا : بیشک یہ چند نوجوان تھے جو گم ہوگئے، مفقود ہوگئے تو ان کے گھر والوں نے انہیں تلاش کیا لیکن وہ انہیں نہ پا سکے تو انہوں نے اسے بادشاہ وقت کے پاس پیش کردیا تو اس نے کہا : یقیناً ان کی کوئی خبر ہوگی اور اس نے تانبے کی ایک تختی منگائی اور اس میں ان کے نام لکھ لئے اور اسے اپنے خزانہ (ریکارڈ) میں رکھ دیا، پس وہی تختی ہی رقیم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک بادشاہ کے گھر میں دو مومن تھے پس ان دونوں نے ان نوجوانوں کی حالت، ان کے اسماء اور ان کے انساب تانبے کی تختی میں لکھے اور پھر اسے تانبے کے ایک تابوت میں رکھ دیا اور اسے عمارت میں رکھ دیا۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے : الرقیم لکھی ہوئی کتاب ہے جو ان کے پاس تھی اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں سے وہ شریعت تھی جس پر عمل پیرا تھے اور اسے تھامے ہوئے تھے۔ اور نقاش نے حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ الرقیم سے مراد ان کے در اہم ہیں۔ اور حضرت انس بن مالک اور شعبی (رح) نے کہا ہے کہ الرقیم سے مراد ان کا کتا ہے۔ اور عکرمہ نے کہا ہے : الرقیم دوات ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ الرقیم سونے کی وہ تختی ہے جو اس دیوار کے نیچے تھی جسے حضرت خضر (علیہ السلام) نے سیدھا کیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرقیم سے مراد غار والے ہیں جن پر وہ بند ہوگئی تھی، پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے اصلح عمل کا ذکر کیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس بارے میں معروف خبر ہے جسے صحیحین نے ذکر کیا ہے، اور اسی طرف امام بخاری بھی مائل ہیں۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے تو خبر دی ہے، اور اصحاب رقیم کے بارے کسی شے کا ذکر نہیں کیا۔ اور ضحاک (رح) نے کہا ہے : الرقیم روم کا ایک شہر ہے اس میں ایک غار ہے اس میں اکیس آدمی داخل ہوئے گویا وہ اصحاب کہف کی ہئیت پر سو گئے پس اس قول کی بنا پر وہ دوسرے جوان تھے جن کو وہی کچھ پیش آیا جو اصحاب کہف کو پیش آیا۔ واللہ اعلم اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرقیم فلسطین کے قریب ایک وادی ہے اور اس میں ایک وسیع غار ہے، اور یہ رقمة الوادی سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد پانی جمع ہونے کی جگہ ہے : کہا جاتا ہے : علیک بالرقمة و دع الضفة (جہاں پانی جمع ہے اس کو لازم پکڑو اور کنارہ کو چھوڑو) اسے غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : شام میں ایک غار ہے جیسا کہ میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے اور اس میں مروے ہیں، اس کے پڑوس والے خیال کرتے ہیں کہ یہی اصحاب کہف ہیں اور وہاں مسجد اور عمارت بنی ہوئی ہے اور اس عمارت کو الرقیم کہا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ایک بوسیدہ کتا بھی ہے۔ اور اندلس میں غرناطہ کی طرف اس کے قریب ایک گاؤں ہے اس کا نام گوشہ ہے اس میں ایک غار میں مردے ہیں اور ان کے ساتھ ایک بوسیدہ (ہڈیوں والا) ایک کتا بھی ہے، اور ان میں سے اکثر کا گوشت اتر چکا ہے اور بعض آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں حالانکہ کئی صدیاں گزر چکی ہیں اور ہم نے ان کی شان اور حالت جاننے کے بارے کوئی آثار نہیں پائے۔ اور لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ اصحاب کہف ہیں، میں ان کے پاس داخل ہوا اور میں نے ان کے پاس 504 لکھا ہوا دیکھا اور وہ اسی حالت میں تھے، اور وہاں ایک مسجد ہے، اور ان کے قریب ایک رومی عمارت ہے اس کا نام الرقیم ہے، گویا وہ ایک پرانا اور بوسیدہ محل ہے اس کی بعض دیواریں باقی ہیں، اور وہ زمین کے ایک جنگل میں ایک کھنڈر سا ہے، اور غرناطہ کے اوپر کی جانب جو کہ قبلہ کے ساتھ ملتی ہے پرانے رومی شہر کے آثار ہیں اس کو مدینہ دقیوس کہا جاتا ہے، ہم نے اس کے آثار میں عجیب و غریب قبریں اور اس طرح کی چیزیں دیکھی ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو اندلس میں ان کے متعلق دیکھنے کا ذکر کیا گیا ہے بلاشبہ وہ ان کے سوا ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف کے حق میں فرماتا ہے : لواطلعت علیھم لو لیت منھم فرارًا ومنھم رعباً ۔ (الکہف) (اگر تو جھانک کر انہیں دیکھتے تو ان سے منہ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوا اور تو بھر جائے ان کے (منظر) کو دیکھ کر ہئیت سے) اور حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کو اس وقت کہا جب انہوں نے انہیں دیکھنے کا ارادہ کیا : تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کو اس سے منع کیا ہے جو تم سے بہتر ہے عنقریب قصہ کے آخر میں اس کا ذکر آئے گا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے قول باری تعالیٰ : کانو من اٰیٰتنا عجباً کے بارے میں کہا ہے : وہ تعجب خیز ہیں (ھم عجب) اسی طرح ابن جریح نے ان سے روایت کیا ہے، آپ اس طرف جا رہے ہیں کہ یہ حضور نبی مکرم ﷺ پر اس بات کا انکار نہیں کہ آپ کے نزدیک وہ تعجب خیز ہیں۔ اور ابن نجیح نے ان سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : وہ کہہ رہا ہے کہ وہ ہماری آیات سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے۔ اذ اوی الفتیة الی الکھف فقالو ربنا اٰتنا من لدنک رحمة و ھیئ لنا من امرنا رشدًا۔ “ (یاد کرو) جب پناہ لی ان نوجوانوں نے غار میں پھر انہوں نے دعا مانگی اے ہمارے رب ! ہمیں مرحمت فرما اپنی جناب سے رحمت اور مہیا فرما ہمارے لئے اس کام میں ہدایت۔” اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : اذ اوی الفتیة الی الکھف روایت ہے کہ شہر دقیوس کے اشراف کی اولاد میں سے ایک قوم اور جماعت تھی اس شہر کا حاکم کافر تھا، (اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دقلیوس تھا) اور اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دقنیوس تھا۔ اور روایت ہے کہ انہیں پگھلائے ہوئے سونے کا طوق اور کنگن پہنائے گئے تھے، وہ رومیوں میں سے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین کی اتباع اور پیروی کرتے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تھے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : بادشاہوں میں ایک بادشاہ تھا جس کو دقیانوس کہا جاتا ہے اس نے روم کے شہروں میں سے ایک شہر پر غلبہ پا لیا، قبضہ کرلیا اس کو افسوس کہا جاتا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے وہ طرسوس ہے اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے بعد ہوا ہے چناچہ اس نے بتوں کی پر ستش کا حکم دیا اور اس شہر کے باسیوں کو بتوں کی پوجا کی دعوت دی، اور وہاں سات نوجوان تھے جو چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے، پس ان کی خبر بادشاہ کے پاس پہنچا دی گئی اور انہیں اس کا خوف لاحق ہوا تو وہ رات کے وقت بھاگ نکلے، اور ان کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا اس کے ساتھ کتا تھا پس اس نے بھی ان کی اتباع کی اور انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ پس بادشاہ ان کے پیچھے غار کے منہ تک پہنچ گیا، پس اس نے ان کے اندر داخل ہونے کے نشانات تو پائے لیکن باہر نکلنے کا کوئی نشان نہ پایا، پس وہ اندر (تلاش کے لئے) داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور انہیں کوئی شے نظر نہ آئی، تو باوشاہ نے کہا : تم ان پر غار کا دروازہ بند کردو یہاں تک کہ وہ اندر ہی بھوکے پیاسے مر جائیں گے۔ اور حضرت مجاہد ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ وہ جوان ایک ایسے بادشاہ کے دین میں تھے جو بتوں کی پوجا کرتا تھا اور ان کے لئے جانور ذبح کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا تھا، اور اس بارے میں اہل شہر اس کی پیروی کرتے تھے، اور ان جوانوں کو بعض حواریوں کی جانب سے کچھ علم ہوا تھا۔۔۔۔ جیسا کہ نقاش نے ذکر کیا ہے، یا ان سے پہلی امتوں کے مومنین کی طرف سے۔۔۔۔ پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے اور نے اپنی بصیرت کے ساتھ لوگوں کے افعال کی قباحت کو دیکھ لیا، پس انہوں نے اپنے آپ کو دین اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ لازم کرلیا، اس کا پابند بنا لیا، پس ان کا معاملہ بادشاہ کے پاس پیش کیا گیا، اور اس کو بتایا گیا کہ یہ جوان تیرے دین سے الگ ہوگئے ہیں اور یہ تیرے معبودوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ کفر کرتے ہیں، پس بادشاہ نے انہیں اپنی مجلس میں حاضر کیا اور انہیں اپنے دین کی پیروی کرنے اور اپنے الہوں کے ذبح کرنے کا حکم دیا، اور علیحدہ ہونے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی، تو انہوں نے اسے کہا جیسا کہ روایت کیا گیا ہے : ربنا رب السمٰوٰت والارض لن ندعو من دونه الھا لقد قلنا اذًا شططا۔ ھؤلاء قومنا اتخذوا من دونه الھة لولا یاتون علیھم بسلطٰن بین فمن اظلم ممن افترٰی علی اللہ کذبا۔ واذاعتزلتموھم۔ اور روایت ہے کہ انہوں نے اس کلام کی طرح کہا نہ کہ یہ کلام کیا، تو بادشاہ نے انہیں کہا : بلا شبہ تم نوجوان ہو، نا تجربہ کار اور جاہل ہو، تمہاری عقل سمجھ نہیں ہے اور میں تمہارے بارے میں کوئی جلدی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ میں مہلت دیتا ہوں تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور اپنے نظریہ میں تدبر کرو، خوب غور و فکر کرو اور میرے حکم کی طرف لوٹ آؤ (میرے دین کی طرف رجوع کرلو) اور اس نے اس بارے میں انہیں معین وقت دے دیا، پھر وہ اس مدت کے دوران سفر پر چلا گیا اور ان نوجوانوں نے اپنے دین سمیت بھاگنے کا مشورہ کیا، اور ان میں سے ایک نے انہیں کہا : بیشک میں فلاں پہاڑ میں ایک غار پہچانتا ہوں، میرا باپ اس میں ریوڑ لے جاتا تھا پس ہمیں چاہیئے کہ ہم اس میں جائیں اور وہاں چھپ جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کوئی راستہ کھول دے، پس روایت ہے کہ ہا کی اور گیند کھیلتے ہوئے نکلے، اور وہ اسے اپنے راستے کی طرف لڑھکاتے چلے گئے تاکہ لوگ ان کے بارے محسوس نہ کریں۔ اور روایت ہے کہ ان پر غلبہ پا لیا گیا تھا پس ان کا ایک میلہ آگیا وہ اس کی طرف نکلے اور وہ بھی تمام لوگوں میں سوار ہو کر گئے، پھر وہ ہا کی اور گیند کے ساتھ کھیلنے میں لگ گئے یہاں تک کہ وہ ان سے الگ ہوگئے۔ اور وہب بن منبہ نے بیان کیا ہے کہ ان کے معاملے کا آغاز یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا ایک حواری اصحاب کہف کے شہر کی طرف آیا وہ اس میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا تھا پس اس نے اپنے آپ کو ایک حمام والے کے پاس اجرت پر دے دیا اور اس میں کام کرتا رہا، اور حمام کے مالک نے اس کے کاموں میں بڑی برکت دیکھی پس اس نے اپنا سارا کام اس کے سپرد کردیا، اور اس آدمی کو اہل شہر میں سے چند نوجوانوں نے پہچان لیا۔ پس اس نے انہیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائی اور وہ اس کے ساتھ ایمان لے آئے اور اس کے دین پر اس کی اتباع و پیروی کرنے لگے، اور ان کی اس کے ساتھ ملاقات اور میل جول مشہور ہوگیا پس ایک دن بادشاہ کا بیٹا ایک عورت کو ساتھ لے کر اس حمام کی طرف آیا اور اس نے اس کے ساتھ خلوت کا ارادہ کیا تو اس حواری نے اسے منع کیا اور وہ باز آگیا، پھر دوسری مرتبہ وہ آیا تو اس نے اسے منع کیا لیکن اس نے اسے گالی گلوچ دیں، اور اس نے حمام میں بدکاری کے ساتھ داخل ہونے کا اپنا عزم پورا کیا اور وہ دونوں اکٹھے اس میں مر گئے اور اس حواری اور اس کے ساتھیوں پر ان دونوں کے قتل کی تہمت لگائی گئی، نتیجتاً وہ سارے کے سارے بھاگ گئے یہاں تک کہ ایک غار میں داخل ہوگئے۔ ان کے نکلنے کے بارے علاوہ ازیں بھی کئی اقوال کہے گئے ہیں اور رہا کتا ! تو اس کے بارے روایت ہے کہ ان کا یہ شکاری کتا تھا، اور یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے اپنے راستے میں ایک چرواہے کو پایا اس کا کتا بھی تھا پس چرواہے نے ان کی رائے پر ان کی اتباع اور پیروی کی اور کتا بھی ان کے ساتھ چلا گیا ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور کتے کا نام حمران تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام قطمیر تھا۔ اور رہے اہل کہف کے اسماء تو عجمی تھے، اور ان کی معرفت کی سند انتہائی کمزور اور ضعیف ہے۔ اور وہ جو علامہ طبری نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے : مکسلمینا یہ ان میں سے بڑا تھا اور ان کی طرف سے بات کرتا تھا، محسیملنینا، یملیخا اور یہ وہ ہے جو چاندی لے کر شہر گیا تھا جس وقت وہ اپنی نیند سے اٹھے، مرطوس، کشوطوش، دینموس، یطونس اور بیرونس۔ مقاتل نے کہا ہے کتا مکسلمینا کا تھا، اور یہ ان میں سے عمر کے لحاظ سے بڑا اور بکریوں کا مالک تھا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ آیت دین کے لئے فرار اختیار کرنے اور گھر والوں، اولاد رشتہ داروں، دوستوں، اوطان اور اموال کے چھوڑنے کے بارے صریح ہے جبکہ فتنہ کا خوف ہو اور آدمی کو مشقت اور تکلیف میں سے پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ دین کی خاطر اپنے شہر سے ہجرت فرما ہوئے، اور اسی طرح آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور غار میں جا کر بیٹھ گئے جیسا کہ سورة النحل میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے سورة برأۃ میں اس پر نص بیان کی ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور انہوں نے اپنے اوطان سے ہجرت کی اور اپنی زمین، اپنے گھر، اہل خانہ، اولاد، اپنے رشتہ دار اور اپنے بھائی سب دین کی سلامتی کی امید پر اور کافروں کے فتنہ سے نجات پانے کی خاطر چھوڑ دئیے۔ اور پہاڑوں میں سکونت اختیار کی، غاروں میں داخل ہوئے، مخلوق سے علیحدگی اختیار کی اور خالق کے ساتھ انفرادی طور پر خلوت میں رشتہ جوڑا اور ظالم سے راہ فرار اختیار کرنے کا جواز تو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات اور اولیاء کی سنت اور ان کا طریقہ ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے تنہائی کو فضیلت دی ہے، اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اسے ٖفضیلت دی ہے بالخصوص جس وقت فتنے اور لوگوں کے درمیان فساد ظاہر ہو رہا ہو، اور اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی کتاب میں نص بیان کی ہے اور فرمایا ہے : فاوا الی الکھف۔ علماء نے کہا ہے : لوگوں سے جدائی اور علیحدگی کبھی پہاڑوں اور گھاٹیوں میں ہوتی ہے، اور کبھی سواحل اور سرحدوں کے قریب اور کبھی گھروں میں ہوتی ہے، تحقیق حدیث میں ہے :“ جب فتنہ برپا ہو تو اپنے رہنے کی جگہ کو مخفی رکھو اور اپنی زبان کو روک لو ”۔ اور یہ کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں۔ اور علماء کی ایک جماعت نے عزلت اور تنہائی کو شر اور برائی سے علیحدگی قرار دیا ہے (اس طرح) کہ تو شر پھیلانے والوں سے اپنے عمل کے ساتھ علیحدہ اور جدا رہے اگرچہ تو ان کے درمیان رہ رہا ہو۔ اور ابن المبارک نے عزلت کی تفسیر میں کہا ہے کہ تو قوم کے ساتھ ہو پس جب وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مستغرق ہوں تو تو بھی ان کے ساتھ ذکر میں لگ جا، اور اگر وہ اس کے سوا کسی اور کام میں مصروف ہوجائیں تو تو خاموش رہ۔ اور علامہ بغوی نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :“ وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور ان کی اذیت اور تکلیف رسانی پر صبر کرتا ہے اس مومن سے افضل ہے جو ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتا اور ان کی اذیت رسانی پر صبر نہیں کرتا ” اور نبی مکرم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :“ مومنوں کے رہنے کی جگہیں ان کے گھر کتنے اچھے ہیں ”۔ یہ حسن وغیرہ کی مرسل روایات میں سے ہے۔ اور حضرت عقبہ بن عامر نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ نجات کس میں ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :“ اے عقبہ ! اپنی زبان کو اپنے پاس روک کر رکھ، چاہیے کہ تیرا گھر تیرے لئے وسیع ہو اور تو اپنے گناہ اور خطا پر رویا کر۔” اور آپ ﷺ نے فرمایا :“ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا مسلمان آدمی کا بہترین مال ریوڑ ہوگا وہ ان کے پیچھے پہاڑوں گی گھاٹیوں اور بارش کی جگہوں کی طرف جائے گا اور اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے گا ” اسے امام بخاری (رح) نے روایت کیا ہے۔ اور بن سعد نے حسن بن واقد سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :“ جب 180 ھ؁ ہوگا تو میری امت کے لئے (شہروں سے) دور پہاڑوں کی چوٹیوں میں خلوت گزینی اور رہبانیت اختیار کرنا حلال ہوگا ”۔ اور علی بن سعد ہی عبداللہ بن مبارک سے انہوں نے مبارک بن فضالہ سے اور انہوں نے حضرت حسن سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ تک مرفوع روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :“ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا اس میں کسی دیندار کا دین سلامت نہیں رہے گا سوائے اس کے جو اپنا دین لے کر ایک بلندجگہ سے دوسری بلند جگہ کی طرف یا ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف چلا گیا، فرار ہوگیا۔ پس جب ایسا ہوا تو معیشت نہیں پائی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت کے ساتھ۔ پس جب ایسا ہوا تو ( شہروں سے) دور بھاگنا حلال ہوگا ”۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ دور بھاگنا کیسے حلال ہوگا حالانکہ آپ تو ہمیں ترویج اور اشاعت کا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :“ جب ایسا ہوگا تو آدمی کا فساد اور اس کی بربادی اس کے والدین کے سامنے ہوگی اور اگر اس کے والدین نہ ہوئے تو اس کی ہلاکت اس کی بیوی کے سامنے ہوگی اور اگر اس کی بیوی نہ ہوئی تو اس کی ہلاکت اس کی اولاد کے سامنے ہوگی اور اگر اس کی اولاد نہ ہوئی تو اس کی ہلاکت رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے سامنے ہوگی۔” انہوں نے عرض کی یہ کیسے ہوگا یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا : وہ اسے معیشت کی تنگی کی مار دلائیں گے اور اسے ایسی چیز کا مکلف اور پابند بنائیں گے جس کی اس میں طاقت نہ ہوگی تو اس وقت اپنے آپ کو ایسی جگہوں میں لے آئے گا جہاں وہ ہلاک ہوجائے گا ”۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : لوگوں کے احوال اس باب میں مختلف ہوتے ہیں، پس کتنے لوگ ہوتے ہیں جن میں پہاڑوں کی غاروں اور کھوؤں میں سکونت اختیار کرنے کی قوت اور طاقت ہوتی ہے، اور یہ احوال میں سے سب سے ارفع اور اعلیٰ ہے کیونکہ یہ وہ حالت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لئے آپ کی نبوت کے آغاز اور شروع میں پسند فرمایا، اور اس پر جوانوں کے بارے خبر دیتے ہوئے اپنی کتاب میں نص بیان فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا : واذ اعتزلتموھم وما یعبدون الا اللہ فاوا الی الکھف (اور جب تم الگ ہوگئے ہو ان (کفار) سے اور ان معبودوں سے جن کی یہ پوجا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا تو اب پناہ لو غار میں۔ ) اور کئی لوگ ہوتے ہیں جن کے لئے اپنے گھر میں عزلت اور علیحدگی اختیار کرنا زیادہ آسان اور سہل ہوتا ہے، اہل بدر میں سے کتنے لوگ تھے جنہوں نے حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد اپنے گھروں کو لازم پکڑ لیا اور پھر وہ اپنی قبروں کی طرف جانے سے پہلے اپنے گھروں سے نہیں نکلے۔ اور کچھ لوگ ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ان میں اتنی قوت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ لوگوں کے ساتھ ملتے جلتے بھی ہیں اور ان کی اذیت رسائی پر صبر بھی کرتے ہیں۔ پس وہ بظاہر ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور باطن میں ان کے مخالف ہوتے ہیں اور ابن مبارک نے ذکر کیا ہے کہ وہیب بن الورد نے ہمیں بیان کیا ہے کہ ایک آدمی حضرت وہب بن منبہ ؓ کے پاس آیا اور کہا : بیشک لوگ اس میں واقع ہوگئے ہیں جس میں وہ واقع ہوگئے ہیں ! اور میں نے اپنے دل میں خیال کیا ہے کہ میں ان سے نہیں ملوں گا۔ تو آپ نے فرمایا : تو ایسا نہ کر۔ بلاشبہ تیرے لئے لوگوں سے کوئی چارہ نہیں ہے، اور نہ ہی ان کا تجھ سے کوئی چارہ ہے تیری ان کے ساتھ حاجات و ضروریات ہیں، اور ان کی تجھ سے حاجات ہیں، لیکن تو ان میں اس طرح رہ کہ تو سننے سے بہرہ ہو، دیکھنے سے اندھا ہو، اور بولنے کے اعتبار سے ساکن اور خاموش ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک ہر جگہ جس میں آدمی لوگوں سے دور ہوتا ہے وہ پہاڑوں اور گھاٹیوں کے معنی ہے مثلاً مساجد میں اعتکاف کرنا، ساحلوں کو رہائش اور ذکر کے لئے لازم پکڑنا، اور لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے گھروں میں بیٹھ رہنا وغیرہ۔ اور احادیث میں گھاٹیوں، پہاڑوں، اور ریوڑ کے پیچھے جانے کا جو ذکر آیا ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔ وہ اس لئے ہی ہے کہ یہ اغلباً وہ جگہیں ہیں جن میں خلوت اور علیحدگی اختیار کی جاتی ہے، پس ہر وہ جگہ جو لوگوں سے دور رکھتی ہے تو وہ اس معنی میں داخل ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ واللہ الموفق و به العصمة۔ اور حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :“ تیرا رب اس سے راضی اور خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چراتا ہے، نماز کے لئے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : دیکھو میرے بندے کی طرف وہ اذان کہہ رہا ہے، اور نماز قائم کر رہا ہے، وہ مجھ سے ڈرتا ہے تحقیق میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور میں نے اسے جنت میں داخل کرلیا۔” اسے نسائی نے نقل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : وھیئ لنا من امرنا رشدًاجب وہ اس سے بھاگ نکلے جو انہیں تلاش کر رہا تھا وہ دعا میں مشغول ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پناہ لی اور عرض کی : ربنا اٰتنا من لدنک رحمةً یعنی اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنی جناب سے مغفرت اور رزق عطا فرما۔ و ھیئ لنا من امرنا رشدا اور ہمیں ہدایت کی تو فیق عطا فرما۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ہمیں سلامتی کے ساتھ غار سے نکلنے کی راہ عطا فرما۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہمارے اس کام میں درست (سمت) عطا فرما۔ اور اسی معنی کے مطابق جب حضور نبی مکرم ﷺ کو کوئی پریشان کن اور غمزدہ کردینے والا امر پیش آتا، تو آپ نماز کی طرف متوجہ ہوتے اور (اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا کرتے۔ ) فضربنا علٰی اٰذانھم فی الکھف سنین عددًا۔ “ پس ہم نے بند کر دئیے ان کے کان (سننے سے) اس غار میں کئی سال تک جو گنے ہوئے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کے نیند مسلط کردینے سے عبارت ہے۔ اور قرآن کریم کی ان فصیح آیات میں سے ہے جن کی مثل لانے سے قاصر ہونے کے بارے میں عربوں نے اقرار کیا۔ زجاج نے کہا ہے : یعنی ہم نے انہیں اس سے روک دیا کہ وہ کوئی آواز سنیں، کیونکہ سونے والا جب کوئی سنتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : ہم نے ان کے کان نیند کے ساتھ بند کر دئیے، یعنی ہم نے ان کے کان بند کردیئے اس سے کہ ان تک آوازیں پہنچیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے فضربنا علیٰ اٰذانھم یعنی ہم نے ان کی دعا قبول کرلی، اور ان سے ان کی قوم کا شر پھیر دیا اور ہم نے انہیں سلادیا۔ اور یہ تمام معنی باہم قریب قریب ہیں۔ اور قطرب نے کہا ہے : عر بوں کے اس قول کی طرح ہے ضرب الامیر علی ید الرعیة (یہ تب کہا جاتا ہے) جب وہ انہیں فساد اور بگاڑ سے روک دے، اور ضرب السید علی ید عبدہ الماذون له فی التجارة (یہ تب کہا جاتا ہے) جب وہ اسے تصرف سے روک دے۔ اسود بن یعفر نے کہا ہے اور وہ اندھا تھا : و من الحوادث لا ابالک أننی ضربت علی الا رض بالاسداد اور وہی کانوں کے ذکر کے ساتھ تخصیص تو یہ وہ عضو ہے جس کے ساتھ نیند میں بہت بڑا فساد اور خر ابی لازم آتی ہے، اور اکثر اوقات سونے والے کی نیند اس کے کان کی جہت سے ہی ختم ہوتی ہے، اور نیند مستحکم اور پختہ نہیں ہوتی مگر اسی کی جس کا آواز کو سننا معطل اور بند ہوجائے۔ اور نیند میں کانوں کے ذکر کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے ذاک رجل بال الشیطان فی اذنه (وہ آدمی ہے جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا) اسے صحیح نے نقل کیا ہے، آپ ﷺ نے اس سے طویل نیند سونے والے آدمی کی طرف اشارہ کیا ہے، جو رات کو نہیں اٹھتا۔ اور عددًا یہ سنین کی صفت اور نعت ہے، یعنی سال گنے ہوئے ہیں۔ اور اس سے مقصود کثرت کو بیان کیا ہے، کیونکہ قلیل تو عدد کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ وہ مصروف ہے اور العد مصدر ہے، اور العدد معدود کا اہم ہے جیسا کہ النفض اور الخبط ہیں۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : عددًا مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ پھر ایک قوم نے کہا ہے : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سالوں کی تعداد بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا : ولبثو فی کھفھم ثلث مائةسنین وازدادواتسعاً ۔ (الکہف) (اور (اہل کتاب کہتے ہیں کہ) ٹھہرے رہے اپنے غار میں تین سو سال اور زیادہ کئے انہوں نے ( اس پر) نو سال۔
Top