Al-Qurtubi - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
واذ قال موسیٰ لفتہ لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین اوا مضی حقبا۔ ” اور یاد کرو جب کہا موسیٰ نے اپنے نوجوان (ساتھی) کو کہ میں چلتا رہوں گا یہاں تک کہ پہنچوں جہاں دو دریا ملتے ہیں (چلتے چلتے) گزار دوں گا مدت دراز۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ قال موسیٰ لفتہ لا ابرح۔ جمہورعلماء اور اہل تاریخ کا قول یہ ہے کہ اس موسیٰ سے حضرت موسیٰ بن عمران مراد ہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ قرآن میں ان کے علاوہ کسی موسیٰ کا ذکر نہیں ہے۔ ایک فرقہ نے کہا جن میں نوف بکالی بھی ہے کہ موسیٰ بن عمران نہیں ہے۔ یہ موسیٰ بن منشا بن یوسف بن یعقوب ہے۔ یہ موسیٰ بن عمران سے پہلے نبی تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے صحیح بخاری میں اس قول کا رد کیا ہے (1) فتاہ سے مراد حضرت یوشع ببن نون ہے۔ اس کا ذکر سورة المائدہ میں اور سورة یوسف کے آخر میں گزر چکا ہے اور جن علماء نے کہا یہ موسیٰ بن منشا ہے ان کے نزدیک فتاہ سے مراد یوشع بن نون نہیں ہے۔ لا ابرح ” میں ہمیشہ چلتا رہوں گا۔ “ شاعر نے کہا : وابرح ما ادام اللہ قومی بحمد اللہ منتطقا مجیدا بعض علماء نے فرمایا : لا ابرح کا معنی ہے میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا حتیٰ ابلغ مجمع البحرین دو دریائوں کے ملنے کی جگہ، قتادہ نے کہا : یہ فارس اور روم کے دریا ہیں (2) ، یہ مجاہد کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : اس سے مراد پانی کا وہ بازو ہے جو بحر محیط سے شمالی طرف سے جنوب کی طرف فارس کی زمین میں آذر بائیجان کے پیچھے سے نکلتا ہے (3) ۔ اس قول کی بناء پر وہ جگہ مجمع البحرین ہوگی جہاں دو دریا ملتے ہیں جو شام کی خشکی سے ملتی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ قلزم اور اردن کے دریا ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ طنجہ کے قریب مجمع البحرین ہے، یہ محمد بن کعب نے کہا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے : یہ افریقہ میں ہے۔ سدی نے کہا : اس سے مراد ارمینیہ میں الکر اور الرس دو نہریں ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا : یہ بحر اندلس اور ببحر محیط سے ہے، یہ نقاش نے حکایت کیا ہے۔ یہ زیادہ ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : دریائوں سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السللام ہیں۔ یہ ضعیف قول ہے، یہ حضرت اببن عبب اس ؓ سے حکایت کیا گیا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ احادیث سے بالکل واضح ثابت ہوتا ہے کہ وہ پانی کے دریا تھے۔ اس قصہ کا سبب وہ ہے جو امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو ان سے پوچھا گیا : لوگوں میں سے کون بڑا عالم ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کی نسببت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے جو تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : یا رب ! میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک ٹوکرے میں رکھ لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ وہاں ہوگا (4) یہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب حضرت موسیٰ علیہ السللام اور آپ کی قوم مصر کی زمین پر غالب آئی تو آپ نے اپنی قوم کو مصر میں اتارا جب وہ پوری طرح وہاں گھروں میں آباد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایام اللہ یاد کرنے کا حکم دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے جوان پر نعمت و خیر فرمائی تھی وہ انہیں یاد دلائی کہ اس نے فرعونیوں سے انہیں نجات دلائی اور ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور انہیں مصر کی زمین میں خلیفہ بنایا پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی سے کلام فرمائی اور اسے اپنی ذات کے لیے منتخب فرمایا اور اس نے مجھ پر محبت ڈالی اور تمہیں وہ سب کچھ عطا فرمایا جو تم نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تھا، اور تمہیں اپنے زمانہ کی افضل قوم بنایا، اس نے تمہیں ذلت کے بعد عزت بخشی، فقر کے بعد غنا عطا فرمائی، تم جاہ ل تھے اس کے بعد تمہیں تورات بخشی، بنی اسرائیل کے ایک شخص نے کہا : ہم جان چکے ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں کیا سطح زمین پر تم سے زیادہ کوئی عالم ہے ؟ اے اللہ کے نبی ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : نہیں ! اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عتاب فرمایا جب انہوں نے علم کی نسببت اللہ کی طرف نہ کی پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جبرئیل امین کو بھیجا (اور یہ پیغام دیا) کہ اے موسیٰ ! تجھے کیا معلوم کہ میں کہاں علم رکھتا ہوں ؟ ہاں میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ آگے مکمل حدیث ذکر کی۔ ہمارے علماء نے فرمایا : حدیث میں ہے ھو اعلم منک وہ تم سے زیادہ علم والا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مفصل واقعات کے احکام اور معین حادثات کے حکم کے جاننے کے اعتبار سے تم سے زیادہ علم والا ہے نہ کہ مطلقاً ، اس کی دلیل حضرت خضر (علیہ السلام) کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہنا ہے کہ تو ایسے علم پر ہے جو اللہ تعالیٰنے تجھے سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا اور میں ایسے علم پر ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا۔ اس بنا پر ہر ایک پر یہ صادق آتا ہے کہ وہ اپنے علم کے اعتبار سے دوسرے سے زیادہ علم والا تھا جو دوسرا نہیں جانتا تھا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارشاد سنا تو ان کے فاضل نفس میں شوق پیدا ہوا اور ان کی بلند ہمت میں جذبہ ابھرا تاکہ وہ علم حاصل کریں جو وہ نہیں جانتے اور ان کی ملاقات کا شوق ہوا جس کے متعلق کہا گیا کہ وہ تجھ سے زیادہ علم والا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارشاد سنا تو ان کے فاضل نفس میں شوق پیدا ہوا اور ان کی بلند ہمت میں جذبہ ابھرا تاکہ وہ علم حاصل کریں جو وہ نہیں جانتے اور ان کی ملاقات کا شوق ہوا جس کے متعلق کہا گیا کہ وہ تجھ سے زیادہ علم والا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عزم کیا اور پوچھا کہ اس تک کیسے پہنچنا ہے تو انہیں ہر حال پر چلنے کا حکم ملا۔ انہیں کہا گیا کہ تم اپنے ساتھ ایک نمکین مچھلی ایک زنبیل میں اٹھا لو جہاں وہ زندہ ہوجائے اور تم سے گم ہوجائے وہاں اس کا راستہ ہے۔ آپ اپنے نوجوان کو ساتھ لے کر پوری کوشش سے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ میں چلتا رہوں گا حتیٰ کہ میں مجمع البحرین تک پہنچ جائوں گا۔ اوامضی حقبا۔ حاء اور قاف کے ضمہ کے ساتھ۔ اس سے مراد زمانہ ہے اس کی جمع احقاب ہے۔ اور یہ اسی سال کا زمانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ زمانہ ہے اور جمع احقاب ہے، اور الحقبۃ حاء کے کسرہ کے ساتھ الحقب کا واحد ہے، اس سے مراد سال ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ عالم کو علم کی زیادتی کی خاطر سفر چاہیے اور اس پر خادم اور ساتھی سے مدد لینی چاہیے، فضلاء اور علماء کی ملاقات حاصل کرنی چاہیے اگرچہ اس کا سفر بہت دور بھی ہو، یہ سلف صالحین کی عادت تھی۔ اسی وجہ سے سفر کرنے والوں نے علم کا وافر حصہ پایا اور اس کوشش پر کامیابی حاصل کی ان کے قدم علوم میں راسخ ہوگئے، اور ان کے لیے اجر، فضل کی ساری اقسام صحیح ہیں۔ امام بخاری نے فرمایا : حضرت جابر بن عبداللہ نے عببداللہ بن انیس کی طرف ایک حدیث کی خاطر ایک مہینہ کا سفر کیا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ واذ قال موسیٰ لفتہ اس کے بارے میں عللماء کے تین اقوال ہیں : -1 وہ نوجوان آپ کی خدمت کرتا تھا، عرب کلام میں الفتیٰ نوجوان کو کہتے ہیں، اکثر خدمت کرنے والے نوجوان ہوتے ہیں، اس لیے خادم کو حسن ادب کی جہت سے فتی کہا جاتا ہے۔ شریعت نے ایسے لفظ کو پسند فرمایا ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا یقل احدکم عبدی ولا امتی ولیقل فتای وفتاتی (1) ” تم میں سے کوئی عبدی اور امتی نہ کہے بلکہ فتای اور فتاتی کہے “ یہ تواضع کے اعتبار سے بہتر ہے۔ اس بحث کا ذکر سورة یوسف میں گزر چکا ہے۔ ایت میں الفتی سے مراد خادم ہے اور وہ یوشع بن نون ببن افرائیم بن یوسف (علیہ السلام) تھے۔ کہا جاتا ہے، وہ حضرت موسیٰ علیہ اللسلام کے بھانجے تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کو فتی موسیٰ اس لیے کہا گیا کیونکہ وہ آپ سے چمٹے رہتے تھے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے علم حاصل کریں، اگرچہ وہ آزاد تھے، یہ پہلا معنی ہے۔ بعض علمائء نے فرمایا : کیونکہ وہ فتی (غلام) کے قائم مقام تھے اس لیے انہیں فتی موسیٰ کہا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقال لفتینہ اجعلوا بضاعتھم فی رحالھم (یوسف : 62) اور فرمایا تراودفتھا عن نفسہ (یوسف :30) ابن عربی نے کہا : قرآن کا ظہر اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اور حدیث میں ہے وہ یوشع بن نون تھا اور تفسیر میں ہے وہ آپ کا بھانجا تھا۔ ان اقوال میں کوئی بات قطعی نہیں اس لیے توقف میں سلامتی ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او امضی حقبا حضرت عبداللہ بن عمرونے فرمایا : الحقب اسی سال ہیں۔ مجاہد نے کہا : ستر سال ہیں (2) ۔ قتادہ نے کہا : ایک زمانہ ہے۔ نحاس نے کہا : اہل لغت جس کو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ الحقب اور الحقبۃ غیر محدود و مبہم زمانہ ہے جیسا کہ رھطا اور قوما مبہم غیر محدود ہیں اور اس کی جمع احقاب ہے۔
Top