Al-Qurtubi - Al-Kahf : 66
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو مُوْسٰي : موسیٰ هَلْ : کیا اَتَّبِعُكَ : میں تمہارے ساتھ چلوں عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ تُعَلِّمَنِ : تم سکھا دو مجھے مِمَّا : اس سے جو عُلِّمْتَ : جو تمہیں سکھایا گیا ہے رُشْدًا : بھلی راہ
موسیٰ نے ان سے (جس کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا اس میں دو مسئلے ہیں مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشا اد ہے : قال لہ موسیٰ ھل اتبعک یہ سوال ایک ملا اطف کا سوال ہے اور مخاطب حسن ادب میں مبالغہ کرتے ہوئئے اپنے مقام سے اتر کر سوال کر رہا ہے، مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے ایسا اتفاق ہوگا اور آپ پر آسانی ہوگی ؟ یہ اس طرح ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :” کیا تو مجھے دکھا سکتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کیسے وضو کرتے تھے “ (1) ۔ بعض تاویلات پر یہ آئے گا اسی طرح یہ ارشاد ہے : ھل یستطیع رببک ان ینزل علینا مآئدۃ من السماء (المائدہ :112) اس کا بیان سورة مائدہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ شاگرد، استاد کے تابع ہوتا ہے اگرچہ مراتب مختلف ہوں، اس سے یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حضرت خضر (علیہ السلام) سے سیکھنے میں دلیل ہے کہ حضرت حضرت خضر (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل تھے، کبھی فاضل کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جس کا مفضول کو علم ہوتا ا ہے، فضیلت اسے حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ فضیلت دیتا ہے۔ خضرت خضر (علیہ السلام) اگر ولی تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سے افضل ہوں گے، کیونکہ وہ نبی تھے اور نبی، ولی سے افضل ہوتا ہے۔ اور وہ نبی تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت کے ساتھ فضیلت دی گئی تھی۔ واللہ اعلم۔ رشداً یہ تعلمن کا دوسرا مفعول ہے۔ قال، حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا : انک لن تستطیع معی صبراً یعنی اے موسیٰ ! آپ میرے علم کو دیکھ کر صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے کیونکہ ظواہر جو آپ کا علم ہے وہ اس علم کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا (2) ۔ آپ جس کو خطا دیکھیں گے اس پر کیسے صبر کریں گے ؟ اور اس میں حکمت کی وجہ تم پر منکشف نہ ہوگی تو کیسے ضبط کرسکیں گے ؟ و کیف تصبر علی مالم تحط بہ خبراً کا یہی معنی ہے۔ انبیاء کرام کسی پر منکر خاموش نہیں رہتے اور ان کے لیے خاموش ہونا جائز ہوتا ہے، تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا : آپ اپنی عادت اور حکم کی بناء پر خاموش نہیں رہ سکیں گے۔ خبراً کی نصب تمیز کی بنا پر ہے جو فاعل سے منقول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : مصدر کی بنا پر ہے جو معنی میں متصل ہے۔ کیونکہ لم تحط کا معنی ہے لم تخبرہ گویا فرمایا : لم تخبرہ خبراً ، اسی کی طرف مجاہد نے اشارہ کیا ہے۔ خبیر بالأمور وہ ہوتا ہے جو امور کے بواطن کو جانتا ہو اور امور میں سے جن سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
Top