Al-Qurtubi - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم نے ان لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے ایسوں پر خدا اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں
آیت نمبر 159 اس میں مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو نازل شدہ بینات اور ہدایت کو چھپاتا ہے وہ ملعون ہے۔ اس کی مراد میں اختلاف ہے بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد یہود اور عیسائی راہب ہیں جو حضرت محمد ﷺ کے امر کو چھپاتے تھے۔ یہود نے رحم کے امر کو چھپایا۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس نے حق کو چھپایا یہ ہر شخص میں عام ہے (خواہ) جس نے دین کے علم کو چھپایا جبکہ اسکے پھیلانے کی ضرورت تھی۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد میں اس کی تفسیر کی گئی ہے جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی جس کو وہ جانتا تھا پھر اس نے اسے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز آگ کی لگام سے لگام دے گا۔ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عمرو بن العاص نے روایت کیا ہے۔ اسے ابن ماجہ سے روایت کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول اس کے معارض ہے : تو کسی قوم کے سامنے ایسی حدیث بیان کرے جن تک ان کی عقول نہیں پہنچیں گی تو وہ بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو وہ بیان کرو جس کو وہ سمجھتے ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ بعض علوم پر محمول ہے۔ جس طرح علم کلام ہے یا ایسا علم جس کے سمجھنے میں تمام لوگ برابر نہ ہوں۔ عالم کا حکم یہ ہے کہ وہ وہ چیز بیان کرے جو سمجھی جائے اور ہر انسان کو اس کے مرتبہ کے مطابق ڈیل کرے۔ واللہ تعالیٰ اعلم مسئلہ نمبر 2: حضرت ابوہریرہ ؓ نے اسی آیت کا ارادہ فرمایا تھا جب آپ نے فرمایا تھا : اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ اس سے علماء نے علم حق کی تبلیغ کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ عمومی طور پر علم کو بیان کرنا اس پر اجرت لئے بغیر کیونکہ اس پر اجرت لینے کا مستھق نہیں ہوتا جس کا اس پر کرنا لازم ہو۔ جس طرح اسلام پر اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس پر کلام گزر چکی ہے۔ آیت کی تحقیق یہ ہے کہ عالم جب علم کو چھپانے کا قصد کرے گا تو نافرمان ہوگا اور جب علم چھپانے کا قصد نہ کرے تو تبلیغ لازم نہیں۔ جب اسے معلوم ہو کہ حیر کے پاس یہ علم ہے اور سج سے کوئی بات پوچھی جائے تو اس آیت اور حدیث کی وجہ سے اس پر تبلیغ کرنا واجب ہے اور کافر کو قرآن اور علم سکھانا جائز نہیں حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ اسی طرح جھگڑا لو بدعتی اور جھگڑالو آدمی کو تعلیم دینا جائز نہیں تاکہ اہل حق سے جھگڑے۔ اور کسی خصم کو ایسی حجت نہ سکھائی جائے جس کے ذریعے مال ظلماً لے لے۔ اور بادشاہ کو ایسی تاویل نہ سکھائے جس کے ذریعے وہ رعیت کو تکلیف دے اور بیوقوف لوگوں میں ایسی رخصت نہ پھیلائے کہ وہ اس کو ممنوعات کے ارتکاب اور واجبات کے ترک کا راستہ بنائے۔ نبی کریم ﷺ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : حکمت کو اس کے اہل سے مت روکو ورنہ تم ان پر ظلم کرو گے اور غیر اہل لوگوں کو حکمت نہ سکھاؤ ورنہ تم حکمت پر ظلم کرو گے۔ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے، فرمایا : (موتیوں کو خنازیر کی گردنوں میں نہ لٹکاؤ) یعنی فقہ کی تعلیم ایسے شخص کو نہ دو جو اس کا اہل نہیں۔ سحنون نے کہا : حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمرو بن العاص کی حدیث شہادت کے بارے میں ہے۔ ابن عربی نے کہا : اس کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں ہے ” جس سے علم کے متعلق پوچھا گیا “ یہ نہیں فرمایا جس نے شہادت کو بیان نہیں کیا۔ ظاہر پر باقی رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ اس پر کوئی ایسی چیز وارد ہو جو اس کو زائل کر دے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من البیت والھدی یہ منصوص علیہ اور مستنبط کو شامل ہے کیونکہ ھدی کا اسم تمام کو شامل ہے۔ اس میں ایک شخص کے قول کے عمل کے وجوب پر دلیل ہے کیونکہ اس پر بیان واجب نہیں مگر اس کے قول کا قبول کرنا واجب ہے۔ فرمایا : الا الذین تابوا واصلحوا وبینوا (البقرہ : 160) ان کی خبر کے ساتھ بیان کے وقوع کا حکم لگایا۔ اگر کہا جائے کہ یہ جائز ہے کہ ہر ایک کو علم چھپانے سے منع کیا گیا ہو اور بیان کا حکم دیا گیا ہو تو کہ خبر دینے والے کثیر ہوں اور ان کی خبر مواتر ہو۔ ہم کہتے ہیں : یہ غلط ہے کیونکہ کتمان سے منع کیا گیا مگر انہیں جن پر اتفاق جائز ہو اور جن کو کتمان پر اتفاق جائز ہے ان کی خبر علم کا موجب نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم مسئلہ نمبر 4: جب من البیت والھدی فرمایا : تو یہ دلیل ہے کہ بنیات اور ہدایت کے علاوہ جو علم ہے اس کا چھپانا جائز ہے۔ خصوصا جب اس کے اظہار میں خوف ہو تو اس کا چھپانا مزید مؤکد ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس کو ترک فرمایا جب انہوں خوف تھا۔ فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو برتن (علم کے ( یاد کئے۔ ایک برتن کو میں نے پھیلا دیا اور دوسرا برتن اگر میں اسے پھیلاؤں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔ اس روایت کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابو عبد اللہ نے فرمایا : بلعوم، کھانے والی نالی کو کہتے ہیں۔ ہمارے علماء نے فرمایا : یہ وہ علم تھا جس کو حضرت ابوہریرہ نے نہیں پھیلایا اور انہیں اس کے پھیلانے میں فتنہ اور قتل کا خوف تھا۔ یہ علم فتنوں کے امر کے متعلق تھا منافقین اور مرتدین کی شخصیات پر نص کے متعلق تھا۔ ہر وہ علم کہ بینات اور ھدی کے متعلق نہ ہو اس کا یہی حکم ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من بعد ما بینہ، بینہ میں ضمیر کا مرجع بینات اور ہدایت ہیں۔ الکتب اسم جنس ہے اور اس سے مراد تمام کتب منزلہ ہیں۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولئک یلعنھم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے بری ہوتا ہے اور ان کو ثواب سے دور رکھتا ہے اور انہیں کہتا ہے تم پر میری لعنت ہو جس طرح شیطان لعین کو کہا وان علیک لعنتی۔ لغت میں لعن کا معنی دور کرنا اور دھتکارنا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویلعنھم اللعنون قتادہ اور ربیع نے کہا : الاعنون (لعنت کرنے والے) سے مراد فرشتے اور مومنین ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ واضح اور کلام کے مقتضیٰ پر جاری ہے۔ مجاہد اور عکرمہ نے کہا : اس سے مراد حشرات الارض اور جانور ہیں جنہیں علماء سو جو علم کو چھپانے والے ہوتے ہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے خشکی اور قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس وہ انہیں لعنت کرتے ہیں۔ زجاج نے کہا : درست قول ان علماء کا ہے جو کہتے ہیں کہ الاعنون سے مراد فرشتے اور مومنین ہیں۔ اور رہا یہ کہ اس سے مراد زمین ہیں اس کی حقیقت پر آگاہی صرف نص یا خبر لازم سے ہو سکتی ہے اور ان میں سے ہم کوئی چیز نہیں پاتے۔ میں کہتا ہوں : اس کے متعلق ایک خبر وارد ہے جسے حضرت براء بن عازب نے روایت کیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد یلعنھم اللہ ویلعنھم اللعنون کے تحت فرمایا : دواب الارض یعنی الاعنون سے مراد زمین کے جانور ہیں۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے محمد بن الصباح سے روایت کیا ہے ہمیں عمار بن محمد نے لیث سے انہوں نے ابو المنہال سے انہوں نے زاذان سے انہوں نے حضرت براء سے روایت کی ہے۔ اس کی سند حسن ہے۔ اگر کہا جائے کہ عقول اور غیر عقول کو کیسے جمع کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر عقول کی طرف عقول والوں کا فعل منسوب کیا جیسا کہ ارشاد فرمایا : رایتھم لی سجدین (یوسف :4) یہاں ساجدات نہیں فرمایا۔ فرمایا : لم شھدتم علینا۔ اور فرمایا : وترھم ینظرون الیک (اعراف :198) اس کی مثالیں کثیر ہیں۔ انشاء اللہ آگے وضاحت آئے گی۔ حضرت براء بن عازب اور حضرت ابن عباس نے کہا اللعنون سے مراد جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق ہے۔ یہ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کافر کو جب قبر میں مارا جاتا ہے تو وہ چیختا ہے اس کی چیخ جن و انس کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے اور ہر سننے والا اس کو لعنت کرتا ہے۔ حضرت ابن مسعود اور سدی نے کہا : ایک شخص اپنے ساتھی کو لعنت کرتا ہے پھر وہ لعنت آسمان کی طرف بلند ہوجاتی ہے پھر وہ نیچے آتی ہے تو وہ اس شخص میں اس کی اہلیت نہیں پاتی تو وہ پھر لعنت کرنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے اسے بھی اس کا ہل نہیں پاتی تو وہ ان یہود پر واقع ہوتی ہے جنہوں نے نازل شدہ کلام کو چھپایا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یلعنھم اللعنون سے ہی مراد ہے۔ پس ان میں سے جو مر جاتا ہے اس سے لعنت اٹھ جاتی ہے اور جو باقی یہود ہوتے ہیں ان میں موجود رہتی ہے۔
Top