Al-Qurtubi - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
لوگو ! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
آیت نمبر 168 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یایھا الناس بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت ثقیف، خزاعہ اور بنی مدلج کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنے اوپر جانوروں میں سے کچھ حرام کئے تھے۔ لفظ عام ہے اور یہاں طیب سے مراد حلال ہے یہ لفظ کے اختلاف کی وجہ سے تاکید ہے۔ یہ طیب کے بارے میں امام مالک کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : طیب سے مراد ہے جس سے لذت حاصل کی جائے۔ یہ تنویع ہے اسی وجہ سے گندے حیوان کے کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا بیان سورة انعام اور سورة اعراف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حللا طیبا، حللا حال ہے۔ بعض نے فرمایا : مفعول ہے حلال کو حلال کہنے کی وجہ یہ ہے اس سے منع کی گرہ کھل جاتی ہے ت۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے کہا : نجات تین چیزوں میں ہے : حلال کھانا، فرائض ادا کرنا اور نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنا، ابو عبد اللہ ساجی نے کہا : اس کا نام سعید بن زید تھا۔۔۔ پانچ خصال کے ساتھ علم مکمل ہوتا ہے : (1) اللہ تعالیٰ کی معرفت (2) حق کی معرفت (3) اللہ تعالیٰ کے لئے عمل میں اخلاص (4) سنت پر عمل (5) حلال کھانا۔ اگر ان میں سے ایک خصلت بھی نہ پائی جائے تو عمل بلند نہیں ہوتا۔ حضرت سہل نے کہا : حلال کھانا ہو ہی نہیں سکتا مگر علم کے ساتھ۔ اور مال حلال نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ چھ چیزوں سے پاک ہو : سود، حرام، السحت یہ مجمل اسم ہے۔۔۔ خیانت، مکروہ اور شبہ۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تتبعوا یہ نہی ہے۔ خطوت الشیطن، خطوت جمع ہے خطوۃ اور خطوۃ کی، دونوں کا معنی ایک ہے۔ فراء نے کہا الخطوات خطوۃ کی (خاء کے فتحہ کے ساتھ) جمع ہے خطوۃ (خاء کے ضمہ کے ساتھ) دو قدموں کے درمیان کے فاصلہ کو کہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : جمع قلت خطوات اور خطوات ہے اور جمع کثرت خطا ہے اور الخطوۃ (خاء کے فتحہ کے ساتھ) مصدر ہے۔ جمع خطوات اور خطاء ہے جیسے رکوۃ اور رکاء ہے۔ امرء القیس نے کہا : لھا وثبات کو ثب الظباء فواد خطاء و واد مطر ابو السماء العدوی اور عبید بن عمیر نے خطوات (خا اور طا کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب، قتادہ، اعرج، عمرو بن میمون اور اعمش نے خطؤات خا اور طا کے ضمہ اور واؤ پر ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اخفش نے کہا : قراءت کرنے والوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ خطیئۃ کی جمع ہے یہ الخطاء سے ہے الخطو سے نہیں ہے۔ جنہور کی قراءت پر معنی یہ ہوگا : شیطان کے پیچھے نہ چلو اور اس کے اعمال پر نہ چلو۔ اور جس عمل کے بارے شرع کا حکم وارد نہیں وہ شیطان کی طرف منسوب ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : خطوات الشیاطین سے مراد شیطانی اعمال ہیں۔ مجاہد نے کہا : شیطان کی خطائیں ہیں۔ سدی نے کہا : اس سے مراد شیطان کی اطاعت ہے۔ ابو مجلز نے کہا : یہ گناہوں کی نذریں ہیں۔ میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے کہ یہ لفظ عام ہے۔ سنن اور شرائع کے علاوہ تمام بدعات اور گناہوں کو شامل ہے۔ شیطان کے بارے تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہ لکم عدو مبین اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ شیطان دشمن ہے اور اللہ تعالیٰ کی خبرحق اور سچ ہے۔ عقلمند پر واجب ہے کہ وہ اس دشمن سے بچے جس کی عداوت حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے ظاہر ہے۔ اس نے اپنی پوری عمر انسان کے احوال کے خراب کرنے میں خرچ کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم فرمایا۔ ارشاد فرمایا : ولا تتبعوا۔۔۔۔ مبین۔ اور نہ پیروی کرو شیطان کے قدموں کی بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ انما یامرکم۔۔۔۔۔ مالا تعلمون۔ (البقرہ) ” وہ تو حکم دیتا ہے تمہیں فقط برائی اور بےحیائی کا اور یہ کہ بہتان باندھو اللہ پر جو تم جانتے ہی نہیں “۔ اور فرمایا : الشیطن یعدکم۔۔۔۔ بالفحشاء (البقرہ : 268) شیطان ڈراتا ہے تمہیں تنگ دستی سے اور حکم کرتا ہے تم کو بےحیائی کا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ویرید الشیطن۔۔۔ بعیدا۔ (النساء) ” چاہتا ہے شیطان کہ بہکا دے انہیں بہت دور تک “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما یرید الشیطن۔۔۔۔۔ منتھون۔ (المائد) ” یہی تو چاہتا ہے شیطان کہ ڈال دے تمہارے درمیان عداوت اور بعض شراب اور جوئے کے ذریعے اور روک دے تمہیں یاد الٰہی سے اور نماز سے “۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انہ عدو مضل مبین۔ (القصص) ” وہ دشمن کھلا گمراہ کرنے والا ہے “۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان الشیطن لکم عدو۔۔۔۔ السعیر۔ (فاطر) ” یقینا شیطان تمہارا ! دشمن ہے تم بھی اسے (اپنا) دشمن سمجھا کرو وہ فقط اس لئے (سرکشی کی) دعوت دیتا ہے اپنے گروہ کو تاکہ وہ جہنمی بن جائیں “۔ یہ ڈرانے میں حد ہے۔ اس کی مثالیں قرآن میں کثیر ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا : شیطان نچلی زمین میں باندھا ہوا ہے جب وہ حرکت کرتا ہے تو زمین میں پر دو شخصوں یا زیادہ کے درمیان شر اس کے تحرک سے ہوتا ہے۔ ترمذی نے حضرت ابو مالک اشعری کی حدیث نقل کی ہے، اس میں ہے : میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کیونکہ اس کی مثال اس شخص کی مثل ہے جس کے پیچھے دشمن جلدی سے نکلتا ہے حتیٰ کہ وہ شخص ایک محفوظ قلعہ میں آتا ہے اور دشمنوں سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ اسی طرح بندہ شیطان سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا مگر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
Top