Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الصِّيَامُ
: روزے
كَمَا
: جیسے
كُتِبَ
: فرض کیے گئے
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
مِنْ قَبْلِكُمْ
: تم سے پہلے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
آیت نمبر
183
تا
184
اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام۔ جب مکلفین پر قصاص اور وصیت کے فرض ہونے کا ذکر کیا تو ان پر روزوں کے فرض ہونے کا ذکر کیا تو ان پر روزوں کے فرض ہونے کا بحی ذکر کیا اور ان پر روزوں کو بھی لازم کیا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ اس حدیث کو حضرت ابن عمر نے روایت کیا ہے۔ صوم کا لغوی معنی رکنا اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل نہ ہونا ہے۔ خاموشی کو بھی صوم کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کلام سے رکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا : انی نذرت للرحمن صوما (مریم :
26
) یعنی کلام نہ کرنے کی میں نے نذر مانی ہے۔ الصوم کا معنی ہوا کا رک جانا بھی ہے، ہوا کا چلنے سے رک جانا، گھوڑا اپنی رسی پر ٹھہرا رہے یعنی وہ ٹھہر جائے اور چارہ نہ کھائے۔ صام النھار کا معنی ہے : دن کا معتدل ہونا۔ مصامہ الشمس، نصف النہار کے وقت میں سورج کا برابر ہونا۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : خیل صیام وخیل غیر صائمۃ تحت العجاج و خیل تعلک اللجما یعنی گھوڑے کھڑے ہوئے ہیں چلنے سے اور حرکت کرنے سے رکے ہوئے ہیں۔ امراو القیس نے کہا : کان الثریا علقت فی مصامھا گویا ستارے اپنی جگہوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں منتقل نہیں ہوتے ہیں۔ ایک اور کا قول ہے : والبکرات شرھن الصائمۃ جوان اونٹنیاں ان کی برائی یہ ہے کہ وہ چلتی اور گھومتی نہیں ہیں۔ امرو القیس نے کہا : فدعھا وسل الھم عنک بجسرۃ ذمول اذا صام النھار وھجرا یعنی سورج منتقل ہونے سے اور چلنے سے سست پڑگیا۔ پس سستی کی وجہ سے وہ رکنے والے کی طرح ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : حتی اذا صام النھار واعتدل وسال للشمس لعاب فنزل جب دن درمیان میں تھا اور سورج کے لئے لعاب ٹپکا تو وہ ڈھل گیا۔ ایک اور نہ کہا : نعما بوجرۃ صفر الخدو وما تطعم النوم الا صیاما شرھ میں روزہ کا معنی، طلوع فجر سے سورج کے غروب ہونے تک نیت کے ساتھ روزہ کو توڑنے والی چیزوں سے روکنا ہے اور اس کا تمام اور کمال ممنوعہ چیزوں سے اجتناب کرنا اور محرمات میں واقع نہ ہونا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ۔ (جو جھوٹ کے قول کو اور اس پر عمل کو ترک نہ کرے تو اللہ کو اس کے کھانے، پینے کے چھوڑنے کی ضرورت نہیں) ۔ مسئلہ نمبر
2
: روزہ کی عظیم فضیلت اور بڑا ثواب۔ اس کے متعلق کثرت سے صحیح اور حسن احادیث آئی ہیں جن کا ذکر ائمہ نے اپنی اپنی مسانید میں کیا ہے بعض کا ذکر آگے آئے گا۔ تیرے لئے اب اتنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے جس طرح نبی کریم ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے، نبی کریم ﷺ نے رب کریم کی طرف سے خبر دیتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے یہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔ (الحدیث) روزے کو خاص فرمایا کہ وہ اس کے لئے ہے اگرچہ تمام عبادات اس کے لئے ہیں۔ دو امور کی وجہ سے روزے کا مرتبہ باقی تمام عبادات سے بلند ہے۔ پہلا امر یہ ہے کہ روزہ نفس کو لذتوں اور شہوات سے روکتا ہے جبکہ ان چیزوں سے دوسری عبادات اتنا نہیں روکتی ہیں۔ دوسرا امر یہ ہے کہ روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان راز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر ظاہر نہیں ہوتا اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ مختص ہے اور دوسری عبادات ظاہر ہیں۔ بعض اوقات انسان اسے تصنع اور ریا کاری کے طور پر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے روزے کو دوسرے عبادات سے خاص فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی روزے کے عظمت کے متعلق اقوال ہیں۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کما کتب کاف صفت کے اعتبار سے محل نصب میں ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے : کتابا کما یا صوما کما۔ یا یہ صیام سے حال کی بنا پر منصوب ہے یعنی روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے، بعض نحویوں نے فرمایا : کاف صیام کی صفت ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے کیونکہ اس کی تعریف محض نہیں ہے اس اجمال کی وجہ سے جو اس میں ہے جس کے ساتھ شریعت نے تفسیر بیان کی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی کما کے ساتھ صفت جائز ہے کیونکہ صفت ہمیشہ نکرہ کی لگائی جاتی ہے۔ یہ کتب علیکم الصیام کے قائم مقام ہے اس قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ ما محل جر میں ہے اور اس کا صلہ کتب علی الذین من قبلکم ہے۔ اور کتب میں ضمیر ما کی طرف راجع ہے۔ اہل تاویل کا تشبیہ کے مقام پر اختلاف ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: شعبی اور قتادہ وغیرہ نے کہا : تشبیہ روزے کے وقت اور روزے کی قدر کی طرف لوٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی قوم پر رمضان کے روزے فرض کئے پھر انہوں نے اس میں تبدیلی کی۔ ان کے علماء نے ان پر دس ایام زیادہ کر دئیے۔ پھر ایک عالم بیمار ہوا تو اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دی تو وہ دس روزوں کا اضافہ کرے گا تو اس نے ایسا ہی کیا۔ نصاریٰ کے روزے پچاس دن ہوگئے۔ پھر گرمی میں روزے رکھنا ان پر مشکل ہوئے تو انہوں نے اپنے روزوں کو موسم بہار کی طرف منتقل کردیا۔ اس قول کو نحاس نے اختیار کیا ہے اور فرمایا : یہ آیت کے مفہوم کے مشابہ ہے۔ اس کے متعلق ایک حدیث ہے جو اس کی صحت پر دلالت کرتی ہے، حضرت دغفل بن حنثلہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : نصاریٰ پر ایک مہینہ کے روزے فرض تھے، ان کا ایک شخص مریض ہوا تو لوگوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ اسے شفا دے گا تو ہم دس دنوں کا اضافہ کریں گے پھر دوسرا ایک شخص تھا جس نے گوشت کھایا اور اس کے منہ کو تکلیف ہوئی۔ انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ اسے شفاء دے گا تو ہم سات دنوں کا اضافہ کریں گے پھر ایک اور بادشاہ کا دور آیا۔ لوگوں نے کہا : ہم ان سات ایام کو مکمل کریں گے اور ہم روزے موسم بہار میں رکھیں گے۔ فرمایا : پس پچاس روزے ہوگئے۔ مجاہد نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر رمضان کے مہینہ کے روزے فرض کئے تھے۔ بعض نے فرمایا : انہوں نے عہد کیا کہ تیس دنوں سے پہلے ایک دن اور ایک دن بعد ہر سال روزہ رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ ان کے پچاس دن مکمل ہوجائیں گے پھر گومیوں میں ان پر مشکل ہوئی تو انہوں نے روزوں کو موسم بہار کی طرف منتقل کردیا۔ اس کے بارے میں حضرت و غفل بن حنظلہ، حسن بصری اور سدی سے حدیث مروی ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی وجہ سے حقیقت حال اللہ بہتر جانتا ہے۔۔ شک والے دن (انتیس شعبان کے بعد والے دن) کا روزہ اور عید الفطر کے متصل چھ روزوں کو مکروہ کیا گیا ہے۔ شعبی نے کہا : اگر میں پورا سال روزہ رکھتا تو شک والے دن پھر بھی افطار کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نصاریٰ پر رمضان کے مہینہ کے روزے فرض کئے گئے تھے جس طرح ہم پر فرض کئے گئے ہیں۔ پس انہوں نے موسم بہار کی طرف روزوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ روزے کبھی گرمیوں میں آجاتے تھے۔ پھر انہوں نے تیس دن شمار کئے۔ پھر اس کے بعد ان پر ایک زمانہ آیا انہوں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ تیس دنوں سے پہلے اور بعد ایک ایک دن روزہ رکھیں گے پھر حتیٰ کہ ان کے روزے پچاس ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے : کتب علی الذین من قبلکم بعض علماء نے فرمایا : تشبیہ اصل وجوب کی طرف راجع ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے نہ وقت میں تشبیہ ہے نہ کیفیت میں۔ بعض علماء نے فرمایا : تشبیہ اس روزے کی صفت میں واقع ہے جو ان پر فرض تھا کہ کھانا، پینا، حقوق زوجیت ادا کرنا منع تھا۔ جب افطار کا وقت ہوتا تو جو سو جاتا وہ یہ کھانا، پینا بھی نہیں کرتا تھا۔ نصاری بھی ابتدا میں اسی طرح تھے اور ابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد سے پہلا حکم منسوخ کردیا۔ فرمایا : احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم۔ (البقرہ :
187
) جیسا کہ آگ اس کا بیان آئے گا یہ سدی، ابو العالیہ اور ربیع کا قول ہے۔ حضرت معاذ بن جبل اور عطا نے کہا : تشبیہ صرف روزے پر واقع ہے نہ صفت میں ہے نہ تعداد میں ہے۔ اگرچہ دونوں روزے زیادہ اور کمی میں مختلف تھے۔ کتب علیکم الصیام کا معنی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر مہینہ میں تین دن اور عاشوراء کے دن کا روزہ فرض تھا کما کتب علی الذین من قبلکم۔ یعنی جس طرح یہود پر روزہ فرض تھا۔ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق تین دن اور عاشوراء کا روزہ ان پر فرض تھا پھر اس امت میں رمضان کے مہینہ کے ساتھ یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ حضرت معاذ بن جبل نے کہا اس کو ایاما معدودت کے ساتھ منسوخ کیا گیا پھر ایام کو رمضان کے ساتھ منسوخ کیا گیا۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لعلکم تتقون، لعل ان کے حق میں ترجی (امید) کے لئے ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ تتقون بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی یہاں کمزور ہوتا ہے کیونکہ جب کم کھایا جاتا ہے تو شہوت کم ہوتی ہے، جب شہوت کم ہوتی ہے تو گناہ کم ہوتے ہیں۔ یہ خوبصورت وجہ مجاز ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تاکہ تم گناہوں سے بچ جاؤ۔ بعض نے فرمایا : یہ عموم پر ہے کیونکہ روزہ، نبی کریم ﷺ کے ارشاد الصیام جنۃ ووجاء (روزہ ڈھال ہے اور شہوت کو ختم کرتا ہے) کے مطابق تقویٰ کا سبب ہے کیوں یہ شہوات کو مار دیتا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ایاما معدودت، ایاما، کتب کا مفعول ثانی ہے یہ فراء کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کتب کی ظرف کی بنا پر منصوب ہے یعنی تم پر روزے ایام میں فرض کئے گئے ہیں۔ اور ایاما معدودٰت سے مراد رمضان کا روزہ ہے۔ یہ حضرت معاذ سے جو مروی ہے اس کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن کان منکم۔۔۔۔۔۔۔ ایام اخر اس میں سولہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مریضا مریض کی دو حالتیں ہیں : ایک یہ کہ وہ کسی حال میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر تو افطار کرنا واجب ہے دوسری حالت یہ ہے کہ وہ ضرر اور مشقت کے ساتھ روزہ پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لئے افطار مستحب ہے اور ایسی صورت میں صرف جاہل ہی روزہ رکھتا ہے۔ ابن سیرین نے کہا : جب انسان کو ایسی حالت لاحق ہو جس کی وجہ سے وہ مریض کہا جاسکتا ہو تو اس کے لئے افطار کرنا صحیح ہے اس کو مسافر پر قیاس کیا گیا ہے کیونکہ اس میں سفر کی علت کی وجہ سے افطار کرنا صحیح ہے اگرچہ افطار کی ضرورت نہ بھی ہو۔ طریف بن تمام العطاردی نے کہا : میں رمضان میں محمد بن سیرین کے پاس گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا : میری اس انگلی میں تکلیف ہے۔ جمہور علماء نے فرمایا : جب اسے کوئی ایسی مرض ہو جو اسے تکلیف دیتی ہو یا اس کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے افطار کرنا صحیح ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ اصحاب مالک کے ماہر علماء کا مذہب ہے، اس کے ساتھ وہ مناظرے کرتے تھے۔ رہے امام مالک کے الفاظ کہ وہ مرض جو آدمی کو تکلیف دیتی ہو اور اسے انتہا تک پہنچاتی ہو۔ ابن خویز منداد نے کہا : امام مالک سے ایسی مرض کے بارے میں اختلاف ہے جو افطار کو مباح کرتی ہے۔ کبھی فرمایا : روزے سے تلف ہونے کا خوف ہو، کبھی فرمایا : شدت مرض اور مرض میں زیادتی، سخت مشقت۔ یہ صحیح مذہب ہے اور ظاہر کا مقتضا ہے کیونکہ کوئی مرض خاص نہیں ہے۔ یہ ہر مرض میں مباح ہے مگر جس کو دلیل خاص کرے جیسے سردرد، تھوڑا سا بخار یا کوئی تھوڑی سی مرض جس کے ہوتے ہوئے روزے میں تکلیف نہ ہو۔ حسن نے کہا : ایسی مرض جس میں کھڑے ہو کہ نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو وہ روزہ افطار کرے۔ یہ نخعی کا قول ہے۔ ایک فرقہ نے کہا : کسی مرض میں افطار نہ کرے مگر ایسی مرض جس کی ضرورت افطار کی داعی ہو، جب اس مرض کے ساتھ ضرورت کا احتمال ہو تو افطار نہ کرے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : اس باب میں ابن سیرین کا قول زیادہ مناسب ہے۔ امام بخاری نے فرمایا : میں رمضان میں تھوڑا سا بیمار تھا، اسحاق بن راہو یہ اپنے ساتھیوں کی معیت میں میری عبادت کے لئے آئے۔ انہوں نے مجھے فرمایا : اے ابو عبد اللہ ! تو نے افطار کیا ہے ؟ میں نے کہا : انہوں نے کہا : تجھے اندیشہ تھا کہ تو رخصت کے قبول کرنے سے کمزور ہوجائے گا۔ میں نے کہا : ہمیں عبدان نے بتایا انہوں نے ابن المبارک سے روایت کیا انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا، فرمایا : میں نے عطا سے پوچھا میں کس مرض کی وجہ سے افطار کروں ؟ انہوں نے فرمایا : جو بھی مرض ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن کان منکم مریضا۔ بخاری نے فرمایا یہ حدیث اسحاق کے پاس نہ تھی۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جب انسان کو اپنے نفس پر خوف ہو جبکہ وہ روزہ سے ہوا گر وہ افطار نہیں کرے گا تو اس کی آنکھ کی تکلیف بڑھ جائے گی یا بخار شدید ہوجائے گا تو وہ افطار کرے۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او علی سفر علماء کا اس سفر کے بارے اختلاف ہے جس میں افطار اور قصر جائز ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ وہ سفر اطاعت ہو جیسے حج اور جہاد۔ ان دونوں سفروں کے ساتھ صلہ رحمی کا سفر، ضروری معاش کی طلب کا سفر متصل ہے، رہا تجارت کا سفر اور مباحات کا سفر اس میں منع اور اجازت کا اختلاف ہے، جواز کا قول ارجح ہے اور رہا سفر گناہ اس کے متعلق بھی علماء کا جواز و منع میں اختلاف ہے۔ منع کا قول راجح ہے۔ یہ ابن عطیہ کا قول ہے۔ سفر کی مسافت امام مالک کے نزدیک وہی ہے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ علماء کا اس مقدار میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے پھر انہوں نے رجوع کیا اور فرمایا : اڑتالیس میل کی مسافت ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ امام مالک کا ظاہر مذہب ہے۔ کبھی فرمایا : بیالیس میل ہے، کبھی فرمایا : چھتیس میل ہے، کبھی فرمایا : ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے۔ ان سے دو دن بھی مروی ہیں۔ یہ امام شافعی کا قول ہے۔ کبھی خشکی اور سمندری سفر کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ فرمایا : سمندری راستہ میں ایک دن اور ایک رات ہے اور خشکی کے راستہ میں اڑتالیس میل ہے اور مذہب میں تیس میل ہے اور غیر مذہب میں تین دن ہیں۔ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور ثوری نے کہا : افطار تین دنوں کے سفر میں ہے۔ یہ ابن عطیہ نے حکایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : بخاری میں ہے حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس چار برد کے سفر میں افطار کرتے تھے اور یہ چار برد، سولہ فرسخ ہیں۔ مسئلہ نمبر
3
: علماء کا اختلاف ہے کہ رمضان میں سفر کرنے والے کے لئے فطر کی نیت کرنا جائز نہیں کیونکہ مسافر نیت کے ساتھ مسافر نہیں ہوتا بخلاف مقیم کے۔ مسافر عمل کرنے اور اٹھ ہوجاتا ہے کیونکہ اقامت عمل کی محتاج نہیں ہوتی۔ پس یہ دونوں جدا جدا ہیں اس میں بھی علماء کا اختلاف نہیں کہ جو سفر کی امید رکھتا ہے تو اس کے لئے نکلنے سے پہلے افطار جائز نہیں اگر افطار کرتے تو ابن حبیب نے کہا : اگر وہ سفر کے لئے تیاری کرچکا تھا اور سفر کے اسباب لے چکا تھا تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں۔ یہ اصبح اور ماجشون سے حکایت کیا گیا ہے۔ اگر سفر سے اسے کوئی عارضہ روک لے تو اس پر کفارہ ہوگا اور اگر سفر کرے تو کفارے سے بچ جائے گا۔ عیسیٰ نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے : اس پر ایک دن کی قضا لازم ہے کیونکہ وہ فطر میں تاویل کرنے والا تھا۔ اشہب نے کہا : اس پر کوئی کفارہ نہیں خواہ سفر کرے یا نہ کرے۔ سحنون نے کہا : اس پر کفارہ ہے خواہ سفر کرے یا نہ کرے یہ اس عورت کی طرح ہے جو کہتی ہے کل مجھے حیض آجائے گا اس لئے وہ افطار کردیتی ہے۔ پھر سحنون نے عبد الملک اور اصبع کے قول کی طرف رجوع کرلیا اور فرمایا : عورت کی طرح نہیں ہے کیونکہ مرد جب چاہتا ہے سفر کرتا ہے اور عورت حیض خود نہیں لاتی۔ میں کہتا ہوں : ابن القاسم اور اشہب کا قول کفارہ کی نفی میں بہتر ہے کیونکہ اس نے وہ فعل کیا جو اسے کرنا جائز تھا اور ذمہ بری ہے اور اس میں کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی مگر یقین کے ساتھ اور اختلاف کے ہوتے ہوئے یقین نہیں ہوتا۔ پھر او علیٰ سفر کے ارشاد کا یہی مقتضا ہے۔ ابو عمر نے کہا یہ اس مسئلہ میں صحیح ترین قول ہے۔ کیونکہ وہ روزے کی حرمت کو توڑنے والا نہیں تھا اس نے اس کا قصد اور ارادہ کیا ہوا تھا۔ پس متاؤل تھا۔ اگر کھانا سفر کی نیت کے ساتھ ہو تو اس پر کفارہ واجب ہے کیونکہ یہ سفر کی طرف نکلنے سے پہلے تھا ابھی تک خروج نے اس سے اس کو ساقط نہیں کیا تھا۔ پس تو اس میں غور کرے گا تو تو بھی اسی طرح پائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ دار قطنی نے روایت کیا ہے، حضرت محمد بن کعب سے مروی ہے انہوں نے کہا : میں رمضان میں حضرت انس بن مالک کے پاس آیا، وہ سفر کا ارادہ کئے ہوئے تھے اور انکی سواری بھی تیار کردی گئی تھی اور وہ سفر والا لباس پہن چکے تھے اور مورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ انہوں نے کھانا منگوایا اور اس سے کھایا پھر سوار ہوگئے۔ میں نے پوچھا : کیا یہ سنت ہے : انہوں نے فرمایا : ہاں۔ حضرت انس سے مروی ہے، فرمایا : مجھے حضرت ابو موسیٰ نے کہا : کیا میں تجھے نہ بتاؤں جب تو نکلے گا تو روزہ سے نکلے گا اور جب تو داخل ہوگا تو روزہ سے داخل ہوگا اور جب تو داخل ہوگا تو روزہ سے داخل ہوگا۔ جب تو سفر پر نکلے تو افطار کرکے نکل جب تو گھر میں داخل ہو تو افطار کرتے ہوئے داخل ہو۔ حسن نے کہا : جس دن سفر کا ارادہ ہو اس دن گھر میں اگر چاہے تو افطار کرے۔ احمد نے کہا جب وہ گھروں سے نکل جائے تو افطار کرے۔ اسحاق نے کہا : نہیں۔ بلکہ جب سواری پر کجاوہ رکھے تو افطار کرے۔ ابن منذر نے کہا : احمد کا قول صحیح ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں جو حالت صحت میں صبح کرے پھر بیمار ہوا تو وہ بقیہ دن افطار کرے۔ اسی طرح جب حضر میں صبح کرے پھر سفر کی طرف نکلے تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : اس دن افطار نہ کرے اگرچہ سفر شروع بھی کر دے۔ اسی طرح زہری، مکحول اور یحییٰ انصاری، امام اوزاعی، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب رائے کا یہی قول ہے۔ اگر وہ افطار کر دے تو اس میں اختلاف ہے۔ پھر تمام کہتے ہیں کہ وہ قضا کرے گا اور کفارہ نہیں دے گا۔ امام مالک نے فرمایا : سفر چونکہ طاری عذر ہے۔ یہ مرض کی طرح ہے جو انسان کو لاحق ہوجاتی ہے۔ بعض اصحاب مالک سے مروی ہے کہ وہ قضا کرے اور کفارہ بھی دے۔ یہ ابن کنانہ اور مخزومی کا قول ہے۔ الباجی نے امام شافعی سے حکایت کیا ہے، ابن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے اور یہی کہا ہے۔ فرمایا : سفر عذر ہے جو عبادت کے لزوم کے بعد لاحق ہوا ہے۔ یہ مرض اور حیض کے مخالف ہے کیونکہ مرض اس کے لئے افطار کو مباح کرتی ہے۔ حیض اس پر روزے کو حرام کردیتا ہے اور سفر یہ اس کے لئے مباح نہیں کرتا اس پر روزے کی حرمت توڑنے کی وجہ سے کفارہ واجب ہے۔ ابو عمر نے کہا : یہ کچھ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت میں اس کے لئے افطار کو مباح کیا ہے۔ رہا علماء کا یہ قول کہ وہ افطار نہ کرے یہ اس کا استحباب ہے جس کا اس نے عہد کیا تھا۔ اگر وہ اللہ کی رخصت کو لے گا تو اس پر قضا ہوگی۔ رہا کفارہ تو اس کی کوئی وجہ نہیں، جس نے کفارہ واجب کیا ہے اس نے اس چیز کو واجب کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول نے واجب نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر سے اس مسئلہ میں مروی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس دن افطار کرے جب وہ سفر پر نکلے۔ یہ شعبی، امام احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : امام بخاری نے اس مسئلہ پر یہ باب باندھا ہے : من اطفرفی السفر لیراہ الناس اور حضرت ابن عباس سے حدیث نقل کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے مکہ کی طرف نکلے تو روزہ رکھے رہے، حتیٰ کہ عسفان تک پہنچ گئے پھر پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا تاکہ لوگوں کو دکھائیں کہ آپ نے افطار کیا ہے حتیٰ کہ مکہ مکرمہ آئے اور یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ مسلم نے بھی یہ حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے، اس میں فرمایا : پھر برتن منگوایا جس میں مشروب تھا دن کے وقت وہ مشروب پیا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں پھر آپ نے افطار کیا تاکہ مکہ میں داخل ہوجائیں۔ یہ اس باب میں نص ہے۔ پس مخالف قول ساقط ہوا۔ وباللہ التوفیق۔ اس میں جو یہ کہتا ہے کہ روزہ سفر میں منعقد نہیں ہوتا، حضرت عمر، حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے۔ حضرت ابن عمر نے کہا : جو سفر میں روزہ رکھے تو حضر میں قضا کرے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف سے مروی ہے سفر میں روزہ رکھنے والا حضر میں افطار کرنے والے کی طرح ہے۔ اہل ظواہر کی ایک قوم نے یہی کہا ہے اور انہوں نے اس قول سے حجت پکڑی ہے فعدۃ من ایام اخر اس کا بیان آگے آئے گا۔ حضرت کعب بن عاصم سے روایت ہے، فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ اس میں اس کے قول کی حجت ہے جو کہتا ہے : جو سفر میں رات کو روزہ کی نیت کرے تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے اگرچہ عذر نہ بھی ہو۔ مطرف کا خیال بھی یہی ہے۔ یہ امام شافعی کا ایک قول ہے اور یہی اہل ظواہر کی ایک جماعت کا قول ہے۔ امام مالک ایسے شخص پر قضا اور کفارہ واجب کرتے تھے۔ امام مالک سے یہ بھی مروی ہے کہ اس پر کفارہ نہیں ہے یہ عبد الملک کے سوا اکثر اصحاب کا قول ہے۔ عبد الملک نے کہا : اگر جماع کے ساتھ افطار کرے گا تو کفارہ دے گا کیونکہ اس میں سفر پر نہ قوت حاصل کرتا ہے اور نہ اسے کوئی عذر ہے، مسافر کے لئے افطار اس لئے مباح ہوتا ہے تاکہ اپنے سفر پر قوت حاصل کرے، عراق اور حجاز کے تمام فقہاء نے کہا : اس پر کفارہ نہیں۔ ان میں سے ثوری، امام اوزاعی، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور تمام کوفہ کے فقہاء ہیں۔ یہ حضرت ابو عمر کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: اس میں علماء کا اختلاف ہے سفر میں افطار افضل ہے یا روزہ افضل ہے ؟ امام مالک اور امام شافعی نے بعض روایات میں فرمایا : روزہ افضل ہے جو روزہ کی طاقت رکھتا ہو اور امام مالک کا مذہب اختیار کا ہے۔ اسی طرح امام شافعی کا مذہب ہے۔ امام شافعی اور دوسرے ان کے متبعین علماء نے کہا : اسے اختیار ہے اور انہوں نے کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ اسی طرح ابن علیہ نے کہا : کیونکہ حضرت انس کی حدیث ہے، فرمایا : ہم نے رمضان میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر کیا تو روزہ دار نے افطار کرنے والے پر عیب نہیں لگایا اور افطار کرنے والے نے روزہ دار پر عیب نہیں لگایا۔ اس حدیث کو بخاری، مسلم اور مالک نے مالک نے روایت کیا ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی اور حضرت انس بن مالک رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے کہا : سفر میں روزہ افضل ہے اس کے لئے جو اس پر قدرت رکھتا ہو۔ یہ امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کا قول ہے۔ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رخصت افضل ہے۔ حضرت سعید بن مسیب، شعبی، عمر بن عبد العزیز، مجاہد، قتادہ، اوزاعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ یہ تمام علماء کہتے ہیں : افطار افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یرید اللہ۔۔۔۔ العسر (البقرہ :
185
) مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فعدۃ من ایام اس کلام میں حذف ہے یعنی تم میں سے جو مریض یا مسافر ہو وہ افطار کرے اور قضا کرے۔ جمہور علماء فرماتے ہیں : اہل شہر جب انتیس دن روزے رکھیں اور شہر میں کوئی مریض آدمی ہو اور صحیح نہ ہو تو وہ انتیس دن روزے رکھے۔ ایک قوم نے کہا : ان میں سے حسن بن صالح بن حی ہے۔ انہوں نے کہا : ایک مہینہ کے بدلے میں ایک مہینہ روزے رکھے ایام کی تعداد کا اعتبار کئے بغیر۔ ال کیا طبری نے کہا : یہ بعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فعدۃ من ایام اخر۔ یہ نہیں فرمایا کہ دوسرے ایام سے ایک مہینہ روزے رکھو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد فعدۃ جو اس نے افطار کیا ہے اس کی تعداد پوری کرنے کا تفاضا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کچھ دن رمضان کے افطار کیا ہو تو ان کی تعداد کے مطابق قضا کرنا واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح پورا مہینہ افطار کیا ہو تو اس کا اعتبار ہوگا۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فعدۃ اس کو رفع مبتدا کی خبر کے اعتبار سے ہے اس کی تقدیر الحکم بالواحب عدۃ ہے۔ فعلیہ عدۃ بھی صحیح ہے۔ کسائی نے کہا : فعدۃ بھی جائز ہے یعنی فلیصم عدۃ من ایام۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے اس پر روزوں کی تعداد ہے۔ مضاف کو حذف کو حذف کیا گیا ہے اور عدۃ کو اس کی جگہ رکھا گیا ہے۔ عدۃ۔ یہ العد سے فعلۃ کے وزن پر ہے یہ بمعنی معدود ہے جیسے طحن بمعنی مطحون ہوتا ہے تو کہتا ہے : اسمع جعجعۃ ولا اریٰ طحنا (یہ اس شخص کی مثال دی جاتی ہے جو کثرت سے کلام کرتا ہے اور عمل نہیں کرتا) اسی سے عورت کی عدت ہے۔ من ایام اخر، اخر سیبویہ کے نزدیک غیر منصرف ہے کیونکہ یہ الف لام سے پھیرا گیا ہے۔ کیونکہ اس باب سے فعل کے وزن پر الف لام کے ساتھ آتا ہے جیسے الکبر، الفضل۔ کسائی نے کہا : یہ آخر سے معدول ہے۔ جیسے تو کہتا ہے حمراء، حمر، اسی وجہ سے یہ غیر منصرف ہے۔ بعض نے فرمایا یہ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ جمع کے وزن پر ہے، یہ ایام کی صفت ہے اخری نہیں آیا تاکہ یہ شبہ نہ ہو کہ یہ عدۃ کی صفت ہے۔ بعض نے فرمایا : اخر یہ اخریٰ کی جمع ہے گویا ایام اخری پھر کثرت کی وجہ سے ایام اخر کہا گیا۔ بعض نے فرمایا : اگر یہ ایام کے صفت ہوتا تو مونث ہوتا اسی وجہ سے اخر کے ساتھ نعت لگائی گئی ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: لوگوں کا قضا روزے متواتر رکھنے کے متعلق اختلاف ہے۔ اس کے بارے میں دو قول ہیں : دونوں دار قطنی نے اپنی سنن میں ذکر کئے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے فرمایا فعدۃ من ایام اخر متشابھات نازل ہوا ہے پھر متشابھات ساقط ہوگیا اور یہ فرمایا : یہ اسناد صحیح ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس پر رمضان کے روزے ہوں وہ متواتر رکھے اور ان میں انقطاع نہ کرے۔ اس کی سند میں عبد الرحمن بن ابراہیم ضعیف الحدیث ہے۔ حضرت ابن عباس سے قضا روزوں کے متعلق مروی ہے، صمہ کیف شئت۔ تو جیسے چاہے روزے رکھ۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : صمہ کما افطرتہ۔ جیسے تو نے افطار کئے اس طرح روزے رکھ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عمرو بن عاص سے مسند امروی ہے۔ محمد بن منکدر نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے رمضان کے (قضا) روزے علیحدہ علیحدہ قضا کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ تجھ پر منحصر ہے تم تاؤ اگر تم میں سے کسی پر قرض ہو ایک درہم، وہ دو درہم ادا کرے تو کیا وہ ادائیگی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور بخشنے کا زیادہ حقدار ہے۔ اس کی سند حسن ہے مگر مرسل ہے اور متصل ثابت نہیں ہے۔ مؤطا امام مالک میں نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے تھے : رمضان کے متصل روزے رکھے جو مرض یا سفر کی وجہ سے متواتر افطار کرے۔ الباجی نے ” المنتقیٰ “ میں فرمایا یہ احتمال ہے کہ وجوب کے متعلق خبر ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ استحباب کے متعلق خبر ہو، جمہور کا قول استحباب پر ہے۔ اگر وہ جدا جدا بھی رکھے تب بھی جائز ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ اس قول کی صحت پر دلیل یہ ارشاد ہے فعدۃ من ایام اخر۔ یہاں متفرق اور متواتر کی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔ جب متفرق رکھے گا تو دوسرے دونوں کی گنتی پوری کردی پس اس کا جائز ہونا واجب ہے۔ ابن عربی نے کہا : (رمضان کے) مہینہ میں تواتر واجب ہے کیونکہ وہ معین ہے اور قضا میں تعیین واجب نہیں۔ پس تفریق جائز ہے۔ مسئلہ نمبر
8
: جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فعدۃ من ایام اخر یہ قضا کے وجوب پر بغیر زمانہ کی تعیین کی دلیل ہے کیونکہ لفظ زمانہ کے متعلق عام ہے بعض، بعض نے ساتھ خاص نہیں ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ سے مروی ہے، فرمایا : مجھ پر رمضان کے روزے ہوتے تھے میں شعبان سے پہلے قضا نہیں کرسکتی تھی رسول اللہ ﷺ سے مشغولیت کی وجہ سے۔ ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ کے خیال سے۔ یہ نص ہے اور آیت کا بیان ہے۔ یہ داؤد کے قول کا رد کرتی ہے۔ اس پر دو شوال سے قضا واجب ہے تو جس نے دو شوال کو روزہ نہ رکھا پھر وہ مرگیا تو ان کے نزدیک وہ گنہگار ہے اور انہوں نے اس پر بنیاد رکھی ہے کہ جس پر غلام کا آزاد کرنا واجب تھا پھر اس نے غلام پایا جو ثمن کے ساتھ بیچا جاسکتا تھا تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس سے تجاوز کرے اور کوئی دوسرا خریدے کیونکہ اس پر پہلا غلام آزاد کرنا واجب تھا جو اس نے پایا تھا دوسرا غلام جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس غلام ہو تو اس کے لئے دوسرا خریدنا جائز نہیں اگر وہ مرجائے جو اس کے پاس ہے تو عتق باطل نہ ہوگا جس طرح اس کے حق میں عتق باطل ہوجاتا ہے جو معین غلام کو آزاد کرنے کی نذر مانے پھر وہ مر جائے تو اس کی نذر باطل ہوجائے گی اور یہ اس کے قول کو فاسد کرتا ہے۔ بعض اصولی علماء نے کہا : جب شوال کے دوسرے دن کے گزرنے کے بعد وہ مر جائے تو عزم کی شرط پر گنہگار نہ ہوگا۔ صحیح یہ ہے کہ اس صورت میں وہ نہ تو گنہگار ہوگا اور نہ وہ کوتاہی کرنے والا شمار ہوگا۔ یہ جمہور کا قول ہے لیکن جلدی قضا کرنا مستحب ہے تاکہ کہیں اسے موت نہ آجائے اور اس پر فرض باقی ہو۔ مسئلہ نمبر
9
: جس پر رمضان کے قضا روزے ہوں اور اس پر عید الفطر کے بعد اتنے ایام گزر گئے جن میں اس کا روزے رکھنا ممکن تھا اس نے روزوں کو موخر کیا پھر اس کو کوئی مانع لاحق ہوا جس نے اسے دوسرے رمضان تک قضا کرنے سے روکے رکھا تو اس پر کوئی کھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ تاخیر کے جواز کی وجہ سے کوتاہی کرنے والا نہیں ہے۔ یہ مالکیوں میں سے بغدادی علماء کا قول ہے اور وہ ” المدونہ “ میں ابن قاسم کا قول روایت کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
10
: اگر آئندہ شعبان تک بھی قضا روزے نہ رکھے تو کیا اس وجہ سے اس پر کوئی کفارہ واجب ہے یا نہیں ؟ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق نے کہا : ہاں، اس پر قضا ہے۔ امام ابو حنیفہ، حسن، نخعی اور داؤد نے کہا : نہیں۔ میں کہتا ہوں : امام بخاری کا خیال بھی یہی ہے کیونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس سے مرسلا مروی ہے کہ وہ کھانا کھلائے اور اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا فعدۃ من ایام اخر۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ سے مسند اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو رمضان کے قضا روزوں میں کوتاہی کرتا ہے حتیٰ کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے۔ فرمایا : وہ لوگوں کے ساتھ اس رمضان کے روزے رکھے اور جن روزوں میں کوتاہی کی ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اس کو دار قطنی نے نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ سند صحیح ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے رمضان کے مہینہ کے روزے کسی مرض کی وجہ سے نہیں رکھے پھر وہ صحیح ہوگیا اور پھر بھی روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ اس رمضان کے روزے رکھے پھر اس مہینہ کے روزے رکھے جس کے روزے افطار کئے تھے یا یہ ہر دن کے لئے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اس کی سند میں ابن نافع اور ابن وجیہ دو ضعیف راوی ہیں۔ مسئلہ نمبر
11
: اگر کسی کا مرض لمبا ہوگیا اور وہ صحیح نہ ہوا حتیٰ کہ دوسرا رمضان آگیا تو دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو ایک مد گندم کھلائے پھر اس پر قضا نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا : جب دو رمضانوں کے درمیان صحیح نہ ہو تو اس رمضان کے روزے رکھے اور دوسرے رمضان کی طرف سے کھانا کھلائے اور اس پر قضا نہیں ہے۔ جب صحیح ہو اور روزہ نہ رکھا حتیٰ کہ دوسرا رمضان آجائے تو اس رمضان کے روزے رکھے اور گزشتہ رمضان کی طرف سے کھانا کھلائے جب افطار کرے تو قضا کرے۔ اس کی سند صحیح ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : صحابہ کے اقوال سے قیاس کے خلاف حجت پکڑی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور پوچھا : میں دو رمضان بیمار رہا۔ اسے حضرت ابن عباس نے فرمایا : تمہاری مرض متواتر رہی ہے یا درمیان میں تو صحیح بھی ہوا تھا ؟ اس شخص نے کہا : میں صحیح ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : دونوں رمضانوں کے روزے رکھ اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا۔ یہ حضرت ابن عباس کے اس قول کا بدل ہے : اگر اس کے ساتھ مرض بڑھ جائے تو اس پر قضا نہیں ہے۔ یہ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں ان کے وہب کے مشابہ ہے کہ وہ کھانا کھلانا کھلائیں اور ان پر قضا نہیں ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر
12
: پھر جن علماء نے کھانا کھلانا واجب کیا ہے، اس کھانے کی مقدار میں اختلاف ہے۔ حضرت ابوہریرہ ، قام بن محمد، امام مالک، امام شافعی فرماتے ہیں : ہر دن کی طرف سے ایک مد کھلائے۔ ثوری نے کہا : ہر دن کے بدلے نصف صاع کھلائے۔ مسئلہ نمبر
13
: پھر اس شخص کے بارے اختلاف ہے جو رمضان کے قضا روزوں میں افطار کرے یا جماع کرے اس پر کیا واجب ہے ؟ امام مالک نے فرمایا : جس نے بھول کر رمضان کے قضا روزوں میں سے کوئی روزہ توڑ دیا تو اس پر بغیر قضا کے کچھ واجب نہیں ہے۔ اس کے لئے مستحب ہے کہ اختلاف کی وجہ سے اس روزے کو پورا کرے پھر اس کی قضا کرے اور اگر جان بوجھ کو افطار کیا تو گنہگار ہوگا اور اس پر اس دن کی قضا کے علاوہ کچھ نہ ہوگا اور اس روزہ کی پابندی نہ کرے کیونکہ اس کو ان چیزوں سے روکنے کا اب کوئی معنی نہیں جن سے روزہ دار رکتا ہے کیونکہ جان بوجھ کر توڑنے کی وجہ سے علماء کے نزدیک وہ روزہ دار نہیں رہا۔ رہا کفارہ تو امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک اس میں کفار واجب نہیں ہے۔ یہی جمہور کا قول ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جس نے بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرکے یا اس کے علاوہ کسی طرح رمضان کا قضا روزہ توڑا تو اس پر کفارہ نہیں ہے، اس پر اس دن کی قضا ہے۔ قتادہ نے کہا : جس نے رمضان کا قضا روزے میں جماع کیا اس پر قضا اور کفارہ ہے۔ ابن القاسم نے مالک سے روایت کیا ہے کہ جس نے رمضان کا قضا روزہ توڑ دیا تو اس پر دو دن کی قضا ہے۔ ابن القاسم پہلے بھی فتویٰ دیتے تھے پھر اس سے رجوع کرلیا تھا پھر فرمایا : اگر قضا کی قضا میں جان بوجھ کر افطار کیا تو اس کی جگہ دو دنوں کے روزے رکھے گا، جیسے جس نے اپنا حج اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرنے کے ساتھ فاسد کردیا، پھر اس نے آئندہ سال حج کیا پھر اسے اپنی بیوی سے جماع کرنے کے ساتھ فاسد کردیا تو اس پر دو حج ہوں گے۔ ابو عمرو نے کہا : ابن وہب اور عبد الملک نے حج میں اس کی مخالفت کی ہے۔ مختلف فیہ میں اصل پر قیاس واجب نہیں ہے۔ میرے نزدیک۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ صحیح یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں ایک دن کی قضا واجب ہے کیونکہ یہ ایک دن تھا اس نے اسے دو مرتبہ فاسد کیا۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ کے ارشاد فعدۃ من ایام اخر کا یہی مقتضا ہے جب اس نے قضار مضان میں افطار کی وجہ سے ایک پورا دن روزہ رکھ لیا تو اس نے واجب ادا کردیا اس پر اس کے علاوہ کچھ واجب نہیں ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
14
: جمہور علماء کا قول ہے کہ جو کسی بیماری کی وجہ سے رمضان کا روزہ توڑ دے پھر وہ اسی بیماری کی وجہ سے مر جائے یا وہ سفر کرے اور اسی سفر میں مر جائے تو اس پر کچھ واجب نہیں۔ طاؤس اور قتادہ نے اس مریض کے بارے میں فرمایا جو صحیح ہونے سے پہلے مرجائے کہ اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے۔ مسئلہ نمبر
15
: اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جس پر رمضان کے روزے تھے اور ابھی قضا نہیں کئے تھے۔ امام مالک، امام شافعی اور ثوری نے کہا : کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔ امام احمد، اسحاق، ابو ثور، لیث، ابوعبیدہ اور اہل ظواہر نے کہا : اس کی طرف سے روزہ رکھا جائے مگر انہوں نے اس کو نذر کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اسی طرح امام شافعی سے مروی ہے۔ امام احمد اور اسحاق نے رمضان کے قضا روزوں کے متعلق بتایا کہ اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے۔ جنہوں نے روزہ رکھنے کا قول کیا ہے انہوں نے مسلم کی حضرت عائشہ ؓ کی مروی سے حجت پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مرجائے اور اس پر روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے مگر یہ ارشاد روزہ میں عام ہے اور مسلم کی حضرت ابن عباس سے روایت اس کی خاص کرتی ہے۔ فرمایا : ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کا روزہ تھا۔ ایک روایت میں ہے کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم بتاؤ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو تو اسے ادا کرتی تو کیا وہ اس کی طرف سے ادا ہوجاتا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ۔ امام مالک اور ان کے ہم مذہب لوگوں نے اس قول سے حجت پکڑی ہے : ولا تزروا زرۃ وزر اخری (فاطر :
18
) (کوئی کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان لیس للانسان الا ما سعی (النجم) (انسان کے لئے نہیں ہے مگر جو اس نے کوشش کی) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تکسب کل نفس الا علیھا (انعام :
164
) ۔ اور اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو نسائی نے حضرت ابن عباس سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے، فرمایا : کوئی کسی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے بلکہ اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مدگندم کھلائی جائے۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث عام ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ لا یصوم احد عن احد سے مراد رمضان کا روزہ ہو۔ رہا نذر کا روزہ تو وہ جائز ہے۔ حضرت ابن عباس وغیرہ کی حدیث کی دلیل کی وجہ سے۔ صحیح مسلم میں حضرت بریدہ کی حدیث حضرت ابن عباس کی حدیث کی طرح ہے اور اس کے بعض طرق میں سے دو مہینوں کے روزے تھے۔ کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی طرف سے روزہ رکھو۔ پھر اسی عورت نے کہا : اس نے کبھی حج نہیں کیا تھا، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طرف سے حج کر۔ اس عورت کا قول کہ دہ مہینے کے روزے تھے، یہ رمضان کے روزے ہونے کی نفی کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ سب سے قوی دلیل جو امام مالک کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ اہل مدینہ کا عمل ہے اور قیاس جلی اس کی تائید کرتا ہے اور یہ عبادت بدنی ہے اس میں مال کا کوئی دخل نہیں ہے پس جس پر بدنی عبادت جیسے نماز واجب ہو تو دوسرا اس کی طرف سے ادا نہیں کرے گا اور یہ قول، حج کرنے کے قول سے نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس میں مال کا دخل ہے۔ مسئلہ نمبر
16
: اس آیت میں ان علماء نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ منعقد ہی نہیں ہوتا اس پر ہمیشہ قضا ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن کان۔۔۔۔۔ ایام اخر۔ یعنی اس پر تعداد ہے کلام میں نہ حذف ہے، نہ اضمار ہے اور اس حدیث سے استدلال کیا ہے سفر میں روزہ نیکی میں سے نہیں ہے۔ فرمایا : جو نیکی میں سے نہ ہوگا وہ گناہ ہوتا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ رمضان کا روزہ سفر میں جائز نہیں۔ جمہور علماء کہتے ہیں : فافطر محذوف ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ حضرت انس کی حدیث میں ہے ہم نے رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا کسی روزہ دار نے افطار کرنے والے پر اور کسی افطار کرنے والے نے روزہ دار پر عیب نہ لگایا۔ اس کو مالک نے حمید الطویل سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے اس کو مسلم نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نے رسول اللہ ﷺ سے مل کر ایک جنگ میں شرکت کی رمضان کے سولہ دن گزر گئے تھے ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا تھا اور بعض نے افطار کیا تھا۔ روزہ دار نے افطار کرنے والے پر اور افطار کرنے والے نے روزہ دار پر عیب نہیں لگایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلی الذین۔۔۔۔۔۔ ان کنتم تعلمون اس میں پانچ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: وعلی الذین یطیقونہ جمہور علماء نے طا کے کسرہ اور یا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اس کی اصل یطوقونہ تھی کسرہ کو طا کی طرف نقل کیا گیا اور واو کو ماقبل کسرہ کی وجہ سے کسرہ سے بدلا گیا۔ حمید نے اصل پر بغیر اعلال کے پڑھا ہے اور قیاس اعلال ہے۔ حضرت ابن عباس کی مشہور قراءت یطوقونۃ طاء مخففہ کے فتحہ اور واو کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کا معنی ہے وہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ مجاہد سے یطیقونہ طاء کے بعد یاء کے ساتھ یکیلونہ کے لفظ پر پڑھا ہے۔ یہ باطل اور محال ہے کیونکہ فعل طوق سے ماخوذ ہے اس میں واو لازم اور واجب ہے اس مثال میں یا کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا : احمد بن یحییٰ نحوی نے ابن ذوئب کا یہ شعر پڑھا ہے : فقیل تحمل فوق طوقک انھا مطبعۃ من یا تھا لا یضیرھا طوق میں واو کو ظاہر کیا، اس کی وجہ سے صحیح یہ ہے کہ واو کی جگہ یا کو رکھنے والا صواب (صحیح رائے) سے دور ہے۔ ابن انباری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، یطیقونہ یا کے فتحہ، طا کے تشدید اور فتحہ کے ساتھ، پھر یا کی تشدید اور فتحہ کے ساتھ بمعنی یطیقونہ کہا جاتا ہے طاق، اطاق، اطیق سب کا ایک معنی ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ، حضرت طاؤس اور حضرت عمرو بن دینار سے یطوقونہ یا مفتوحہ، طا مشددہ مفتوحہ کے ساتھ مروی ہے۔ لغت میں یہ درست ہے کیونکہ اس کی اصل لیتطوقونہ ہے تا کو ساکن کرکے طا میں ادغام کیا گیا تو طامشدوہ ہوگی اور یہ قرآن سے نہیں ہے خلاف اس کے جس نے اس قراءت کو قرآن ثابت کیا ہے۔ یہ تفسیر کی بنا پر قراءت ہے۔ اہل مدینہ اور شام نے۔ فدیۃ طعام مضاف کرکے پڑھا ہے اور مساکین جمع پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس نے طعام مسکین، مفرد پڑھا ہے جیسا کہ بخاری، ابو داؤد اور نسائی نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ یہ عمدہ قراءت ہے کیونکہ اس نے ایک دن میں جو حکم تھا اس کو بیان کیا۔ ابو عبیدہ نے اس کو اختیار کیا یہ ابو عمرو، حمزہ اور کسائی کی قرأت ہے۔ ابو عبید نے کہا اس قرأت نے بیان کیا کہ ہر دن کے لئے ایک شخص کو کھانا کھلانا ہے اور واحد جمع کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ جمع، واحد کی ترجمانی نہیں کرتی۔ مساکین جمع ہو تو معلوم نہیں ہوتا ان میں سے کتنے ایک دن میں مگر کسی دوسری آیت سے اور مساکین میں جمع کی قراءت اس کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ الذین یطیقونہ جمع اور ان میں سے ہر ایک کو ایک مسکین لازم تھا پس اس کا لفظ جمع لایا گیا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : و الذین یرمون۔۔۔۔ جلدۃ (النور :
4
) یعنی ہر ایک کو اسی کوڑے لگاؤ۔ اسی کوڑے ان تمام میں متفرق طور پر نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کے لئے اسی کوڑے ہیں۔ ابو علی نے یہ معنی بیان کیا۔ جمع کی قراءت نحاس نے اختیار کی۔ فرمایا : ابو عبید نے جو اختیار کیا وہ مردود ہے کیونکہ یہ دلالت سے پہچانی گئی ہے۔ اور علی الذین یطیقونه فدیة طعام مسکین کا معنی یہ ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مسکین ہے اس قراءت کا اختیار جمع پر جمع کو رد کرتا ہے۔ نحاس نے کہا : ابو عبید نے فدیة طعام پڑھنا پسند کیا ہے فرمایا : طعام سے مراد فدیہ ہے پس طعام کا صفت ہونا جائز نہیں کیونکہ یہ جوہر ہے لیکن بطور بدل جائز ہے۔ فدیۃ طعام اضافت کے ساتھ پڑھنا اس سے زیادہ واضح ہے کیونکہ فدیة مبہم ہے طعام وغیرہ کے لئے واقع ہوتا ہے۔ پس یہ تیرے قول ھذا ثوب خر کی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: آیت کی مراد میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ منسوخ ہے۔ بخاری نے روایت کیا ہے، ابن نمیر نے فرمایا : ہمیں اعمش نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں عمرو بن مرہ نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں ابن ابی لیلیٰ نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں اصحاب محمد ﷺ نے بتایا کہ رمضان کا حکم نازل ہوا تو لوگوں پر گراں گزرا۔ پس جس نے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلایا اس نے روزہ چھوڑ دیا ان لوگوں میں سے جو روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتے تھے۔ پہلے ان کو اس کی رخصت دی گئی تھی پھر اس کو وان تصوموا خیر لکم نے منسوخ کردیا۔ اسی پر جمہور کی قراءت یطیقونہ ہے یعنی وہ روزہ کی طاقت رکھتے تھے۔ کیونکہ روزے کا فرض اسی طرح تھا جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا مسکین کو کھانا کھلاتا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ آیت شیوخ اور بوڑھے لوگوں کے لئے رخصت تھی جب کہ وہ افطار کرنا چاہیں اگرچہ وہ روزے کی طاقت بھی رکھتے ہوں۔ پھر یہ آیت اس قول فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ (البقرہ :
185
) سے منسوخ ہوگئی۔ پس یہ رخصت ختم ہوگئی مگر اس کے لئے باقی ہے جو ان میں سے روزہ رکھنے سے عاجز ہے۔ فراء نے کہا : یطیقونه میں ضمیر کا مرجع صیام ہونا بھی جائز ہے۔ یعنی ان پر جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ جب افطار کریں تو کھانا کھلائیں پھر یہ وان تصوموا کے ساتھ منسوخ ہوگیا اور یہ بھی جائز ہے کہ ضمیر کا مرجع فدیہ ہو یعنی جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں اور وہی یطوقونہ کی قراءت اس کا معنی ہے : وہ مشقت جو ان کو لاحق ہوئی ہے اس کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں جیسے مریض اور حاملہ عورت وہ دونوں اس پر قدرت رکھتے ہیں لیکن مشقت کے ساتھ جو انہیں لاحق ہوئی ہے، اگر وہ روزہ رکھ لیں تو بھی جائز ہے اور اگر وہ فدیہ دیں تو یہ بھی ان کے لئے جائز ہے۔ حضرت ابن عباس نے یطیقونہ کی تفسیر یتکلفونہ سے بیان فرمائی ہے۔ اگر ان سے اسناد صحیح ہو۔ بعض نقل کرنے والوں نے اسے قرآن میں داخل کردیا۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، وعلی الذین یطیقونه فرمایا یہ حبلی (حاملہ عورت) اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے ثابت ہے اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ وعلی الذین۔۔۔ مسکین بوڑھے اور بوڑھی عورت کے لئے رخصت تھی حالانکہ وہ روزہ رکھ سکتے تھے وہ افطار کریں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اور حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی اولاد پر خوف ہو تو وہ افطار کریں اور کھانا کھلائیں۔ دار قطنی نے حضرت ابن عباس سے یہ بھی روایت کیا ہے، فرمایا : بوڑھے آدمی کے لئے رخصت دی گئی ہے کہ وہ افطار کرے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور اس پر قضا نہیں ہے۔ یہ صحیح سند ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے، فرمایا : وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام یہ منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہر دن کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آپ نے اپنی ام ولد کو فرمایا جو حاملہ تھی یا دودھ پلانے والی تھی، تو ان لوگوں میں سے ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تم پر جزا ہے، قضا نہیں ہے۔ یہ اسناد صحیح ہے۔ ایک روایت میں ہے، آپ کی ام ولد دودھ پلاتی تھی (بغیر شک کے ہے) اس کو تکلیف ہوئی تھی تو آپ نے اسے افطار کرنے کا حکم دیا اور قضا نہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس سے صحیح اسانید کے ساتھ ثابت ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ یہ جن کا ذکر کیا گیا ہے ان کے حق میں محکم ہے۔ پہلا قول بھی صحیح ہے مگر یہ احتمال ہے کہ نسخ وہاں تخصیص کے معنی میں ہو۔ متقدمین اکثر تخصیص کے معنی میں نسخ کو استعمال کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرات حسن بصری، عطا طب ابی رباح، ضحاک، نخعی، زہری، ربیعہ، اوازعی اور اصحاب رائے نے فرمایا : حاملہ اور دودھ پلانے والی دونوں روزہ افطار کریں اور ان پر کھانا نہیں ہے۔ یہ مریض کی طرح ہیں وہ افطار کرتا ہے اور قضا کرتا ہے۔ یہ ابو عبید اور ابو ثور کا قول ہے۔ یہ ابو عبید نے ابو ثور سے حکایت کیا ہے۔ ابن منذر نے اس کو اختیار کیا ہے۔ یہ امام مالک کا قول حاملہ کے بارے میں ہے اگر وہ افطار کرے۔ رہی دودھ پلانے والی اگر وہ افطار کرے تو اس پر قضا اور کھانا کھلانا ہے۔ امام شافعی اور امام احمد نے فرمایا : وہ افطار کریں گے اور کھانا کھلائیں گی اور قضا کریں گی۔ اور اس پر اجماع ہے کہ بوڑھے مرد اور عورتیں جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے اور سخت مشقت کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں وہ افطار کریں اور جوان پر واجب ہے اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ ربیعہ اور مالک نے کہا : ان پر کچھ واجب نہیں ہے۔ لیکن امام مالک نے کہا : اگر وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں تو میرے نزدیک محبوب ہے۔ حضرت انس، حضرت ابن عباس، حضرت قیس بن السائب اور حضرت ابوہریرہ نے کہا : ان پر فدیہ ہوگا۔ یہ امام شافعی اور اصحاب الرائے کا مسلک ہے۔ انہوں نے تمام صحابہ کے قول کی اتباع کرتے ہوئے کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن کان۔۔۔۔۔ اخر پھر فرمایا وعلی الذین۔۔۔ مسکین یہ لوگ نہ مریض ہیں اور نہ مسافر ہیں ان پر فدیہ واجب ہے اور امام مالک کے قول کی دلیل ہے کہ یہ عذر کی وجہ سے افطار کرنے والا ہے جو اس میں موجود ہے اور وہ بوڑھا ہونا ہے اور بڑی عمر کا ہونا ہے۔ پس کھانا کھلانا لازم نہ ہوگا جیسے مسافر اور مریض پر کھانا کھلانا نہیں ہے۔ یہ ثوری، مکحول سے مروی ہے، ابن منذر نے اس کو اختیار کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: علماء کا فدیہ کی مقدار میں بھی اختلاف ہے۔ امام مالک نے کہا ہر دن کے بدلے ایک مد نبی کریم ﷺ کے مد کے برابر دے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : ہر دن کا کفارہ ایک صاع کھجور یا نصف صاع گندم ہے۔ حضرت ابن عباس سے نصف صاع گندم مروی ہے۔ یہ دار قطنی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، فرمایا : جو بوڑھا ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر ہر دن کے لئے ایک مد گندم ہے۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ وہ ایک سال روزہ رکھنے سے کمزور ہوگئے تو آپ نے کھانے کا ایک تھال تیار کیا پھر تیس مساکین کو بلایا اور انہیں سیر کرکے کھلایا۔ مسئلہ نمبر
4
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ ابن شہاب نے فرمایا : جو روزے کے ساتھ کھانا کھلانے کا ارادہ کرے اور مجاہد نے کہا : جو کھانے میں مد پر زیادتی کرے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا فمن تطوع خیرا دوسرے مسکین کو کھلائے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ یہ دار قطنی نے ذکر کیا ہے اور کہا : اس کی سند صحیح ثابت ہے اور دوسرا خیر، اسم تفضیل ہے اسی طرح تیسرا اور پہلا بھی۔ عیسیٰ بن عمر اور یحییٰ بن وثاب، حمزہ اور کسائی نے یطوع خیراً مشدد پڑھا ہے اور عین کو جزم دی ہے یتطوع کے معنی میں اور باقی قراء نے تطوع تا اور طا کی تخفیف اور عین کے فتحہ کے ساتھ ماضی کا صیغہ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان تصوموا یعنی روزہ تمہارے لئے بہتر ہے اسی طرح ابی نے پڑھا ہے یعنی فدیہ کے ساتھ افطار سے روزہ رکھنا بہتر ہے یہ نسخ سے پہلے تھا۔ بعض نے فرمایا وان تصوموا یعنی سفر اور مرض میں بغیر تکلیف کے روزہ رکھنا، واللہ اعلم۔ یہ روزے رکھنے پر ابھارنے کا تقاضا کرتا ہے یعنی تم یہ جان لو اور روزہ رکھو۔
Top