Al-Qurtubi - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر 195 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: بخاری نے حذیفہ سے روایت کیا ہے : وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة۔ کا ارشاد خرچ کے بارے میں نازل ہوا۔ یزید بن ابی حبیب نے اسلم ابو عمران سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نے قسطنطنیہ کی جنگ لڑی اور مسلمانوں کی جماعت کے جرنیل عبدالرحمن بن ولید تھے اور رومیوں نے اپنی پیٹھیں شہر کی دیوار سے لگائی ہوئی تھیں۔ ایک شخص نے دشمن پر حملہ کیا تو لوگوں نے کہا : رک جارک کا لآالٰه الا اللہ، یہ خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری نے کہا : سبحان اللہ۔ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کی مدد فرمائی تھی اور دین کو غالب کیا تھا تو ہم نے کہا : آؤ اب ہم اپنے اموال کی دیکھ بھال کریں اور ان کی اصلاح کریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وانفقوا فی سبیل اللہ۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اموال کی طرف متوجہ ہوں ان کی اصلاح کریں اور جہاد کو چھوڑدیں۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓ اللہ کے راستہ میں ہمیشہ جہاد کرتے رہے حتیٰ کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے ان کی قبر مبارک بھی وہاں ہے۔ حضرت ابوایوب نے کہا : القاء بالیدالی التھلکة کا مطلب اللہ کے راستہ میں جہاد کو ترک کرنا ہے۔ آیت اس کے متعلق نازل ہوئی۔ اس کی مثل حضرات حذیفہ، حسن، قتادہ، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے۔ میں کہتا ہوں : ترمذی نے یزید بن ابی حبیب سے انہوں نے اسلم ابوعمران سے یہ خبر اس کے ہم معنی روایت کی ہے۔ فرمایا : ہم روم کے شہر میں تھے، رومیوں نے ہماری طرف ایک بڑا لشکر نکالا مسلمانوں میں سے ان کے مقابلہ میں اتنے ہی لوگ نکلے یا ان سے بھی زیادہ تھے۔ اور اہل مصر پر عقبہ بن عامر امیر تھے اور جماعت پر فضالہ بن عبید۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رومیوں کے لشکر پر حملہ کردیا حتیٰ کہ وہ ان کے اندر داخل ہوگیا۔ لوگ چیخنے اور کہا : سبحان اللہ۔ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری کھڑے ہوئے اور کہا : اے لوگو ! تم اس آیت کی یہ تاویل کررہے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے گروہ کے بارے نازل ہوئی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ کو بتائے بغیر ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ کہنے لگے ہمارے مال ضائع ہوگئے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی ہے اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے ہیں۔ اگر اب ہم اپنے اموال کی دیکھ بھال کریں اور جو ضائع ہوچکا ہے اس کی اصلاح کریں تو بہتر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ پر ہماری بات کا رد نازل فرمایا۔ وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة۔ آیت میں التھلکة سے مراد اموال کی دیکھ بھال کرنا اور ان کی اصلاح کرنا اور جہاد کو ترک کرنا ہے۔ حضرت ابوایوب اللہ کے راستہ میں لڑتے رہے حتیٰ کہ روم کی زمین میں دفن ہوئے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت ابن عباس، عکرمہ، عطاء، مجاہد اور جمہور لوگوں کا قول ہے کہ اس آیت کا ق مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کو ترک دینا اور اہل و عیال کا خوف کرنا۔ ایک شخص کہتا : میرے پاس تو کوئی ایسی چیز ہی نہیں ہے جسے میں خرچ کروں۔ اس معنی کی طرف امام بخاری گئے ہیں جبکہ کسی دوسرے نے ذکر نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : تم اللہ کے راستہ میں خرچ کرو اگرچہ تمہارے پاس تیروغیرہ نہ بھی ہو، تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : میں تو کوئی چیز نہیں پاتا۔ سدی سے اسی طرح مروی ہے تم خرچ کرو اگرچہ رسی ہی ہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اور تم کہو کہ میرے پاس کچھ ہے۔ تیسرا قول حضرت ابن عباس کا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو جہاد کی طرف نکلنے کا حکم دیا تو مدینہ طیبہ کے کچھ بدولوگ ٹھہرگئے۔ انہوں نے کہا : ہم کیا تیاری کریں ؟ اللہ کی قسم ! ہمارے پاس تو نہ زادراہ ہے اور نہ ہمیں کوئی کھلائے گا تو یہ ارشاد نازل ہوا : وانفقوا فی سبیل اللہ۔ یعنی اے خوشحال لوگو ! اللہ کے راستہ میں یعنی اللہ کی اطاعت میں خرچ کرو۔ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة یعنی اپنے ہاتھوں کو صدقہ سے نہ روکو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اسی طرح مقاتل نے کہا : حضرت ابن عباس کے قول کا معنی یہ ہے کہ صدقہ سے نہ رکو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے یعنی کمزور لوگوں پر خرچ کرنے سے نہ رکو۔ کیونکہ جب وہ تم سے پیچھے رہ جائیں گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت براء بن عازب سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا کیا اس مراد وہ شخص ہے جو لشکر پر تنہا حملہ کرتا ہے ؟ حضرت براء نے کہا : نہیں بلکہ ایک شخص گناہ کرتا تھا پھر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا تھا۔ وہ کہتا تھا : میں گناہوں میں حد کو پہنچ چکا ہوں توبہ کا کوئی فائدہ نہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجاتا تھا اور اس کے بعد وہ گناہوں میں مستغرق ہوجاتا تھا۔ یہاں ہلاکت سے مراد اللہ تعالیٰ سے مایوس ہونا ہے۔ یہ عبیدہ سلمانی کا قول ہے۔ حضرت زید بن اسلم نے کہا : اس کا معنی ہے جہاد میں بغیر زادراہ کے سفر نہ کرو۔ کچھ لوگوں نے ایسا کیا تھا تو اس عمل نے انہیں راستہ میں کاٹ دیا تھا یا وہ لوگوں پر بوجھ بن گئے تھے۔ یہ پانچ اقوال ہیں : سبیل اللہ سے یہاں جہاد مراد ہے اور لفظ راستوں کو شامل ہے۔ بایدیکم میں زائدہ ہے۔ تقدیر عبارت تلقوا ایدیکم ہے۔ اس کی مثال الم یعلم بان اللہ یری اللہ یری اس میں بازائدہ ہے۔ مبرد نے کہا : بایدیکم سے مراد نفوس ہیں۔ بعض سے کل مراد لیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : فبما کسبت ایدیکم (الشوری :30) بماقدمت یدٰک (الحج :10) ان آیات میں ایدی اور ید سے مراد پوری ذات ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ ضرب المثل ہے تو کہتا ہے : فلان القی بیدہ فی امر کذا۔ جب کوئی امر کو تسلیم کرے۔ قتال میں شکست تسلیم کرنے والا اپنے ہتھیار اپنے ہاتھ سے پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح ہر عاجز کرتا ہے خواہ وہ کسی فعل میں عاجز ہو۔ اسی سے عبدالمطلب کا قول ہے : واللہ ان القاء نابایدینا للموت لعجز۔ اللہ کی قسم ! موت کے لئے ہمارا اپنے آپ کو ڈال دینا عجز ہے۔ بعض علماء نے کہا : تقدیر عبارت اس طرح ہے : لاتلوا انفسکم بایدیکم جیسے تو کہتا ہے : لاتفسد حالک بر ایک۔ اپنے حال کو اپنی رائے کے ساتھ خراب نہ کر۔ التھلکة لام کے ضمہ کے ساتھ۔ یہ ھلک یھلک ھلاکا وھلکا وتھلکىة کا مصدر ہے۔ یعنی اس عمل میں نہ پڑو جو تمہیں ہلاک کردے۔ یہ زجاج وغیرہ کا قول ہے یعنی اگر تم خرچ نہیں کرو گے تو تم اللہ کی نافرنی کرو گے اور تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ بعض علماء نے فرمایا : آیت کا معنی ہے اپنے اموال کو نہ روکو کہ تم سے تمہارے علاوہ اس کے وارث بنیں ورنہ تم اپنے اموال کی منفعت سے محروی کے ساتھ ہوجاؤ گے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ خرچ سے باز نہ آؤ ورنہ دنیا میں البدل اور آخرت میں ثواب چلا جائے گا۔ کہا جاتا ہے لاتلوا بایدیکم الی التھلکة یعنی حرام مال سے خرچ نہ کرو، وہ تم پر لوٹا دیا جائے گا اور تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ اسی طرح حضرت عکرمہ سے مروی ہے، فرمایا : ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة۔ فرمایا ولا تیموا الخبیث منه، تنفقون، اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (یعنی) اس سے خبیث مال خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو۔ طبری نے کہا : ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة عام ہے، ہر صورت جو ذکر کی گئی ہے اس کو ذکر کی گئی ہے اس کو شامل ہے کیونکہ لفظ اس کا احتمال رکھتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو جنگ میں گھس جاتا ہے اور اکیلا دشمن پر حملہ کردیتا ہے، قاسم مخیمرہ، قاسسم بن محمد اور عبدالملک (جو ہمارے علماء سے ہیں) نے فرمایا : تنہا ایک شخص کا بڑے لشکر پر حملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس میں طاقت ہو اور نیت خالص اللہ کے لئے ہو، اگر قوت نہ ہو تو یہ تھلکة (ہلاکت) سے ہوگا۔ بعض علماء نے فرمایا : جب اسے شہادت مطلوب ہو اور نیت خالص ہو تو اسے حملہ کرنا چاہئے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا یہی مقصود ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بیان میں فرمایا : ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ (البقرہ :207) (لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو بیچ ڈالتا ہے اپنی جان (عزیز) بھی اللہ کی خوشنودیاں حاصل کرنے کے لئے ) ۔ ابن خویز منداد نے کہا : جو تنہا سو آدمیوں پر یا ایک لشکر پر یا چوروں کے گروہ پر یا محاربین پر یا خوارج پت حملہ کرتا ہے اس کی دو حالتیں ہیں : اگر اسے غالب گمان ہے کہ جس پر وہ حملہ کرے گا اسے قتل کردے گا اور خود نجات پائے گا تو یہ بہتر ہے اسی طرح اگر اسے غالب گمان ہو کہ وہ شہید ہوجائے گا لیکن وہ دشمن نقصان پہنچائے گا یا وہ انہیں آزمائش میں ڈال دے گا یا وہ کوئی ایسا اثر چھوڑے گا جس سے مسلمان نفع پائیں گے تو یہ بھی جائز ہے۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کے لشکر کا جب ایرانیوں سے مقابلہ ہوا تو مسلمانوں کے گھوڑے ایرانیوں کے ہاتھیوں سے ڈر گئے۔ تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مٹی کا ایک ہاتھی بنایا اور اس نے اپنے گھوڑے کو مانوس کیا حتیٰ کہ وہ اس سے مانوس ہوگیا۔ جب صبح ہوئی تو اسکا گھوڑا ہاتھی سے نہ بھاگا، اسنے اس ہاتھی پر حملہ کردیا جو آگے آگے تھا۔ اسکو کہا گیا : یہ تجھے قتل کردے گا، اس مسلمان نے کہا : میرا قتل ہونا کوئی نقصان نہیں جبکہ مسلمانوں کو فتح مل جائے۔ اسی طرح جنگ یمامہ میں ہوا۔ جب بنوحنیفہ ایک باغ میں محفوظ ہوگئے تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا : تم مجھے چمڑے کی ڈھال میں رکھو اور مجھے دشمنوں کے پاس پھینکو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اسنے تنہا انسے جہاد کیا اور انکے قلعہ کا دروازہ کھول دیا میں کہتا ہوں : اسی قسم سے ہے جو روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی : آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میں صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے اللہ کے راستہ میں شہید ہوجاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تیرے لئے جنت ہے۔ وہ دشمن کی صفوں میں گھس گیا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنگ احد میں سات انصاریوں اور دو قریش میں تنہا تھے۔ جب دشمن قریب آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو ان کو ہم سے دور کرے گا اس کے لئے جنت ہے یا فرمایا : وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ ایک انصاری آگے بڑھا اس نے جہاد کیا حتیٰ کہ وہ شہید ہوگیا پھر دشمن قریب آئے تو فرمایا : جو ان کو ہم سے دور کرے گا اس کے لئے جنت ہے فرمایا : وہ جنت میں میرا ساتھی ہے پھر ایک انصاری آگے بڑھا جہاد کیا حتیٰ کہ وہ شہید ہوگیا۔ آپ اسی طرح فرماتے رہے حتیٰ ساتوں آدمی شہید ہوگئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ماانصفنا اصحابنا (ہم نے اپنے ساتھیوں کی قتال پت رہنمائی نہیں کی حتیٰ کہ وہ شہید ہوگئے) (انصفنا اصحابنا) میں ایک روایت فا کے سکون اور اصحابنا با کے فتحہ کے ساتھ ہے اور دوسری روایت میں فا کے فتحہ اور با کے رفع کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت لوٹ جائے گی اس کی طرف جو آپ کے ساتھیوں میں سے بھاگ گیا تھا۔ محمد بن حسن نے کہا : اگر ایک مسلمان شخص ہزار مشرکوں پر حملہ کرے تو اس میں حرج نہیں جبکہ اسے نجات کی غالب امید ہو یا دشمن کو قتل کرنے کی امید ہو۔ اگر ایسی صورت نہ ہو تو یہ عمل مکروہ ہے کیونکہ اس نے اپنے آہ کو ضائع کرنے کے لئے پیش کیا جبکہ اس میں مسلمانوں کا کوئی نفع نہیں ہے اور اگر اس کا مقصد مسلمانوں کو کفار پر اجرأت دلانا ہے تاکہ وہ بھی اس کی طرح عمل کریں تو اس کا جواز بعید نہیں کیونکہ اس میں بعض وجو و کے اعتبار سے مسلمانوں کا فائدہ ہے۔ اگر اس کا قصد دشمن کو ڈرانا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے دین میں صلابت کو جان لیں۔ پس اس کا جواز بھی بعید نہیں ہے اور جب اس میں مسلمانوں کا نفع ہو اور وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے دین کے اعزاز کے لئے اور کفر کی توہین کے لئے اپنی جان دیتا ہے تو یہ وہ مقام ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے مومنین کی مدح کی ہے۔ فرمایا : ان اللہ اشترٰی من المؤمنین النفسھم الآیۃ (توبہ :111) یہ آیت اور دوسری آیات جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جان قربان کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسی بنیاد پر ہونا چاہئے جب اسے دین کے نفع کی امید ہو وہ اس میں جان دے دے حتیٰ کہ وہ شہید کردیا جائے تو وہ شہداء کے اعلی درجات میں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وامر بالمعروف وانه عن المنکر واصبر علیٰ مآ اصابک ان ذٰلک من عزم الامور۔ (لقمان) (حکم دو نیکی کا اور منع کرو برائی سے اور صبر کیا کرو ہر مصیبت پر جو تمہیں پہنچے یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ) ۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : شہداء میں سئ افضل حمزہ بن عبدالمطلب ہے اور وہ شخص ہے جس نے ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق ادا کیا اور اس نے اسے شہید کردیا۔ مزید تفصیل انشاء اللہ سورة آل عمران میں آئے گی۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واحسنوا طاعت میں خرچ کرنے میں اور اللہ تعالیٰ کے متعلق بہتر بدل عطا کرنے میں اچھاگمان کرو بعض علماء نے فرمایا : طاعات کی پیروی کرنے کے ساتھ اپنے اعمال میں اچھائی کرو یہ مفہوم بعض صحابہ سے مروی ہے۔
Top