Al-Qurtubi - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے
آیت نمبر 30 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل للمئومنین یغضوا من ابصارھم اللہ تعالیٰ نے پردے کے ساتھ نظر کے امر کو ملایا۔ کہا جاتا ہے : غض بصرہ یغضہ غضاً ۔ شاعر نے کہا : اغض طرفی مابداث لی جارتی حتی یواریَ جارتی ماواھا اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہیں کیا جس سے نظر کو بچانا ہے اور فرج کی حفاظت کرنی ہے لیکن یہ معلوم و معروف ہیں اس سے مراد محرم ہے محلل نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں سعید بن ابی حسن نے حسن کو کہا : عجمیوں کی عورتیں اپنے سینے اور اپنے سر کھلے رکھتی ہیں (1) ؟ تو آپ نے فرمایا : تو اپنی نظر کو پھیر لے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجہم۔ قتادہ نے کہا : یعنی ان کے لیے جو حلال نہیں اس سے آنکھیں نیچے رکھیں اور اس سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ و قل للمومنت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فرو جھن۔ یعنی خیانت کرنے والی نظروں سے اور ممنوعہ چیزوں کے ذریعے دیکھے سے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من ابصار ھم من زائدہ ہے جیسے اس ارشاد میں من زائدہ ہے۔ فما منکم من احد عنہ حجزین۔ (الحاقہ) بعض نے کہا : یہ من تبعیضیہ ہے کیونکہ کچھ دیکھنا مباح ہوتا ہے۔ بعض نے کہا : الغض کا معنی نقصان ہے کہا جاتا ہے : غض فلان من فلان، یعنی اس سے کمی کردی۔ آنکھوں کو جب عمل سے روک دیا گیا ہو تو وہ نیچے کی گی ہے اور اس میں کمی کی گئی ہے پس من الغض کے متعلق ہوگیا نہ تبعیض کے لیے ہوگا اور نہ زائدہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ آنکھ، دل کی طرف بہت بڑا دروازہ ہے اور حواس کے طرق کو اس کی طرف بہت زیادہ پہنچاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کی بنا پر سقوط بہت زیادہ ہوتا ہے اس سے بچنا بہت ضروری ہے اور تمام محرکات سے آنکھ کا جھکانا واجب ہے اور ہر اس چیز سے آنکھوں کو نیچا کرنا ضروری ہے جس سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” راستوں پر بیٹھنے سے بچو “ (1) ، صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ان مجالس پر بیٹھنا ہماری مجبوری ہے ہم یہاں آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کروں “ (2) صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ راستے کا حق کیا ہے ؟ فرمایا : ” آنکھ کا جھکانا، اذیت سے رکنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا “ (3) ۔ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری نے روایت کیا ہے۔ اس کو بخاری و مسلم نے تخریج کیا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت علی ﷺ سے فرمایا : غیر محرم کی طرف متواتر نہ دیکھو پہلی نظر معاف ہے، دوسری نظر تجھے معاف نہیں “ (4) ۔ اوزاعی نے روایت کیا ہے فرمایا مجھے ہاروں بن رئاب نے بیان کیا کہ غزوان اور حضرت ابو موسیٰ اشعری دونوں کسی جنگ میں تھے ایک عورت کا ستر کھل گیا تو غزاون نے اس کی طرف دیکھا پھر اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی آنکھ پر زور سے طمانچہ مارا حتی کہ آنکھ سوج گئی اور کہا : تو ایسی چیز کی طرف دیکھتی ہے جو تجھے نقصان دیتی ہے نفع نہیں دیتی ہے۔ پھر غزوان، حضرت موسیٰ سے ملے اور ان سے انکے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : تو نے اپنی آنکھ پر ظلم کیا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو اور استغفار کرو کیونکہ پہلی نظر دیکھنا اس کے لیے جائز تھا اور اس کے بعد ممنوع تھا۔ اوزاعی نے کہا : غزوان نے اپنے نفس پر ضبط کیا اور کبھی نہ ہنسے حتی کہ وصال ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حجرت جریربن عبداللہ سے مروی ہے فرمایا : میں نے نبی پاک ﷺ سے اچانک اٹھنے والی نظر کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے اپنی آنکھ پھیرنے کا حکم دیا۔ یہ اس کے قول کے توقیت دیتی ہے جو کہتے ہیں کی من تبعیض ہے کیونکہ پہلی نظر پر کنٹرول نہیں ہوتا وہ خطاب تکلیف میں داخل نہیں کیونکہ اس کا وقع قصداً نہیں ہوتا اور نہ اس میں انسان کا کسب ہوتا ہے نہ اس کے روکنے کا مکلف ہوتا ہے پس اس لیے تبعٰض واجب ہے۔ یہ فرج کے بارے میں نہیں فرمایا کیونکہ اس ضبط نہیں ہوتا۔ شعبی نے اپنی بیٹی یا اپنی ماں یا اپنی بہن کو متواتر دیکھنے کو مکروہ کہا ہے۔ ان کا زمانہ ہمارے اس زمانہ سے بہتر تھا اور کسی محترمہ عورت کے طرف بار بار شہوت کی نظر سے دیکھنا حرام ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویحفظوا فروجہم یعنی اپنی شرمگاہوں کو اس سے چھپائو جس کا دیکھنا حلال نہیں ہے۔ بعض نے فرمایا اس سے مراد ہے زنا سے بچائو۔ اس قول کی نا پر من فرو جھم ہوتا تو بھی جائز ہوتا۔ صحیح یہ ہے کہ تمام مفہوم مراد ہیں لفظ عام ہے۔ بہزبن حکیم بن معاویہ قشیری نے اپنے باپ سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا فرمایا : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اپنی شرمگاہوں میں سے کس کو چھپائیں اور کس کو کھلا چھوڑیں۔ نبی پاک ﷺ نے فریایا : ” اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو مگر اپنی زوجہ اور کنیز اس سے مستشنٰی ہیں “ (5) ۔ اس شخص نے پوچھا : ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ” اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ شرمگاہ کو کوئی نہ دیکھے تو ایسا ضرور کر “ (6) ۔ میں نے عرض کی : کبھی انسان تنہا ہوتا ہے۔ فرمایا : ” اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کیا جائے “۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ اپنی حالت کا ذکر کیا اور فرمایا : میں نے آپ کی شرمگاہ دیکھی اور نہ آپ نے میری شرمگاہ دیکھی۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اس آیت کی وجہ سے علماء نے بغیر ازار کے حمام میں داخل ہونے کو حرام قرار دیا ہے۔ حالانکہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو انسان خرچ کرتا ہے اس میں بہتر وہ درہم ہے جو وہ خلوت میں حمام کے لیے دیتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے ؓ مروی ہے کہ وہ حمام میں داخل ہوئے جبکہ وہ حجفہ میں محرم تھے۔ پس مردوں کے لیے حمام میں زار کے ساتھ داخل ہونا جائز ہے اسی طرح عورتوں کے لیے ضرورت کے لیے داخل ہونا جائز ہے۔ جیسے حیض و نفاس سے غسل کے لیے یا ایسی مرض کے لیے جو عورتوں کو لاحق ہوتی ہیں عورتوں کے لیے افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ اپنے گھروں میں غسل کریں۔ احمد بن منعی نے روایت کیا ہے انہوں نے کہا حسن بن موسیٰ نے ہمیں بتایا انہوں نے کہا ہمیں ابن لہیعہ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں زیان نے بتایا انہوں نے حضرت سہل بن معاذ سے روایت کیا انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت ام ورداء سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت ام دراداء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے نبی پاک ﷺ ملے جبکہ میں حمام سے نکلی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ” ام الدرداء کہاں سے آرہی ہے “۔ (1) انہوں نے کہا : حمام سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو عورت اپنے گھر کے علاوہ کسی گھر میں کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور حمن کے درمیان ہر پردے کو پھاڑنے والی ہوتی ہے “ ابوبکر بزار نے طاوئوس سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” اس گھر سے بچو جس کو حمام کہا جاتا ہے “ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ وہ میل کو صاف کرتا ہے۔ فرمایا : ” پردہ کرو “ ابو محمد عبدالحق نے کہا : یہ اس باب میں سند کے اعتبار سے اصح حدیث ہے لوگ اس کو طاوئوں سے مرسل روایت کرتے ہیں اور ابو دائود نے جو اس بارے میں حظر و اباحت سے روایت کیا ہے اسانید کے ضعیف ہونے کی وجہ سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے، اسی طرح جو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس زمانہ میں حمام میں داخل ہوتا اہل فضل اور اہل دین پر حرام ہے کیونکہ لوگوں پر جہالت کا غلبہ ہے اور لوگ اسے سہل سمجھنے لگے ہیں جب وہ حمام کے درمیان میں ہوتے ہیں تو اپنے ازارہ پھینک دیتے ہیں حتی کہ ہر ایک خوش شکل بزرگ آدمی حمام کے وسط میں کھڑا نظر آتا ہے اس کے باہر والا حصہ اس کی شرمگاہ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اسے اپنی رانوں کے درمیان سمیٹے ہوئے ہوتا ہے اور کوئی بھی اسے منع نہیں کرتا یہ معاملہ مردوں میں ہے عورتوں کی کیا حالت ہوگی خصوصاً مصری شہروں میں کیونکہ ان کیحکام تو ان پاکیزہ عورتوں سے خالی ہوتے ہیں جو لوگوں کی نظرو وں سے چھپتی ہیں۔ لا حولل ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ اگر وہ حمام میں ستر کے ساتھ داخل ہو تو دس شرائط کے ساتھ داخل ہو۔ 2 ۔ خلوت اور لوگوں کے کم ہونے کے وقت داخل ہو۔ 3 ۔ اپنی شرمگاہ کو موٹے کپڑے سے ڈھانپے۔ 4 ۔ اس کی نظر زمین کی طرف ہو یا سامنے والی دیوار کی طرف ہو تاکہ کسی ممنوع چیز پر نظر نہ پڑے۔ 5 ۔ کسی برائی کو دیکھے تو نرمی سے منع کرے وہ کہے : پردہ کرو اللہ تجھ پر پردہ ڈالے۔ 6 ۔ اگر کوئی شخص اس کے جسم کو مل رہا ہو تو اسے شرمگاہ پر قدرت نہ دے مرد کی شرمگاہ ناف سے گھٹنے تک ہے ہاں بیوی یا کنیزہ ہو تو ان سے ستر کی صفائی کرا سکتا ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ ران شرمگاہ ہے یا نہیں۔ 7 ۔ اجرت معلومہ جو شرط کے ساتھ معلوم ہو یا لوگوں کی عادت کے ساتھ معلوم ہو اس کی ادائیگی کے ساتھ داخل ہو۔ 8 ۔ ضرورت کی مقدار پانی انڈیلے۔ 9 ۔ اگر وہ تنہا حمام میں داخل ہونے پر قادر نہ ہو تو اس قوم کے ساتھ اتفاق کرے جو اپنے ادیان کی حفاظت کرتے ہیں اپنے کپڑے پر۔ 10 ۔ جہنم کو یاد کرے اگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو تو اسے پردہ کرنا چاہیے اور آنکھوں کو نیچا رکھنے میں کوشش کرے۔ امام ترمذی ابو عبداللہ نے نوادر الاصول میں طاؤس عن عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : اس مکان سے بچو جس کو حمام کہا جاتا ہے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ ۔ وہ میل کو دور کرتا ہے اور آگ کو یاد دلاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم ضرور ایسا کرنے والے ہو تو ستر ڈھانپ کر داخل ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : بہتر گھر جس میں مسلمان مرد داخل ہوتا ہے وہ حمام ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ وہ جب اس میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہے اور آگ سے پناہ مانگتا ہے اور برا گھر وہ ہے جس میں مرد داخل ہوتا ہے وہ بیت العروس ہے کیونکہ وہ اسے دنیا کی رغبت دیتا ہے اور اسے آخرت بھلا دیتا ہے۔ ابو عبداللہ نے کہا : یہ اہل غفلت کے لیے ہے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اس کے ساتھ جو اس میں ہے اہل غفلت کی تذکیر کا سبب بنایا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی آخرت کو یاد کریں۔ رہے اہل یقین تو آخرت ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہے، نہ انہیں حمام اچھا لگتا ہے اور نہ بیت عروس انہیں اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا وما فیہا بہت حقیر ہے حتی کہ دنیا کی تمام نعمتیں ان کی آنکھوں میں ایک بڑے دستر خوان بکھرے ہوئے کھانے کی طرح ہیں اور دنیا کی تمام تکالیف ان کی آنکھوں میں اس قتل کی مانند ہیں جس کے اس اس مجرم یا گنہگار کو سزا دی جاتی ہے جو اہل دنیا کی تمام عقوبات میں سے قتل یا سولی چڑھانے کا مستحق ہوتا ہے۔
Top