Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ
: اور چاہیے کہ بچے رہیں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَجِدُوْنَ
: نہیں پاتے
نِكَاحًا
: نکاح
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يُغْنِيَهُمُ
: انہیں گنی کردے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يَبْتَغُوْنَ
: چاہتے ہوں
الْكِتٰبَ
: مکاتبت
مِمَّا
: ان میں سے جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے دائیں ہاتھ (غلام)
فَكَاتِبُوْهُمْ
: تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو
اِنْ عَلِمْتُمْ
: اگر تم جانو (پاؤ)
فِيْهِمْ
: ان میں
خَيْرًا
: بہتری
وَّاٰتُوْهُمْ
: اور تم ان کو دو
مِّنْ
: سے
مَّالِ اللّٰهِ
: اللہ کا مال
الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ
: جو اس نے تمہیں دیا
وَلَا تُكْرِهُوْا
: اور تم نہ مجبور کرو
فَتَيٰتِكُمْ
: اپنی کنیزیں
عَلَي الْبِغَآءِ
: بدکاری پر
اِنْ اَرَدْنَ
: اگر وہ چاہیں
تَحَصُّنًا
: پاکدامن رہنا
لِّتَبْتَغُوْا
: تاکہ تم حاصل کرلو
عَرَضَ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَمَنْ
: اور جو
يُّكْرِھْهُّنَّ
: انہیوں مجبور کرے گا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِكْرَاهِهِنَّ
: ان کے مجبوری
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے انکو بھی دو اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بےشرمی سے) دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بےچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے
مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولیستعفف الذین یہ اسے خطاب ہے جو اپنے نفس کا خود مالک ہے نہ کہ اسے جس کی زمام دوسرے کے ہاتھ میں ہو کیونکہ وہ اسے اپنی مرضی سے چلاتا ہے جیسے محجور علیہ ہوتا ہے، یہ ایک قول ہے۔ اور جیسے لونڈی اور غلام علماء کے دوسرے قول کے مطابق۔ مسئلہ نمبر
2
۔ استعفف کا وزن استفعل ہے۔ اس کا معنی ہے اس نے پاکدامن ہونا طلب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہر شخص کو پاکدامن رہنے کا حکم دیا ہے جو نکاح نہیں کرسکتا اور کسی وجہ سے نکاح کو نہیں پاتا پھر جب نکاح کے موانع میں سے اغلب کا مال کا نہ ہونا ہے تو اپنے فضل سے غنی کرنے کا وعدہ فرمایا وہ اسے عطا فرمائے گا جس کے ساتھ وہ نکاح کرے گا یا وہ ایسی عورت پائے گا جو تھوڑے مہر پر راضی ہوجائے گی یا اس سے عورتوں کی خواہش زائل ہوجائے گی۔ نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تین آدمی ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ پر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والا۔ وہ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کا ارادہ کرتا ہے اور مکاتب جو زر کتابت کی ادائیگی کا ارادہ کرتا ہے “۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یجدون نکاحا یعنی نکاح کی طاقت نہیں رکھتے مضاف کو حذف کیا گیا ہے۔ بعض علماء فرمایا : یہاں نکاح سے مراد وہ چیز ہے جس کے ساتھ عورت سے نکاح کرتا ہے مثلاً مہر اور نفقہ وغیرہ جیسے لحاف اسم ہے اس کا جس کو لپیٹا جاتا ہے۔ لباس اسم ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس مفہوم پر آیت میں حذف نہ ہوگا، یہ مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ انہوں نے اس اس قول پر محمول کیا ہے : حتی یغنیھم اللہ من فضلہ اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جسے پاک دامن رہنے کا حکم دیا گیا ہے وہ شخص ہے جو وہ مال نہیں رکھتا جس کے ساتھ نکاح کرے۔ اس قول میں جن کو پاکدامن رہنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی تخصیص ہے اور یہ ضعیف قول ہے بلکہ پاکدامن رہنے کا حکم ہر اس شخص کی طرف متوجہ ہے جس پر نکاح کرنا مشکل ہو خواہ کوئی بھی وجہ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: جس نے نفس کو نکاح کا شوق ہو اگر وہ طاقت رکھتا ہو تو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو پاکدامن رہنا چاہیے اگر ممکن ہو اگرچہ روزے کے ساتھ ہوں کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے : ” اور جس کو نکاح کا شوق نہ ہو تو اس کے لیے عبادت الہٰی کے لیے خلوت اختیار کرنا بہتر ہے “۔ حدیث میں ہے ” حدیث میں ہے ” تم میں بہتر وہ خفیف آدمی ہے جس کے اہل اور اولاد نہ ہو “۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو لونڈیوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عفت اور نکاح کے درمیان کوئی درجہ نہیں بنایا۔ یہ دلیل ہے کہ ان کے علاوہ صورت حرام ہے اس میں ملک یمین داخل نہیں کیونکہ وہ دوسری نص سے مباح ہے وہ یہ ارشاد ہے ما ملکت ایمانھن اس میں زیادتی آئی ہے پس استمناء اپنی تحریم پر باقی ہے یہ امام احمد پر رد ہے اسی طرح نکاح متعہ اپنے نسخ کی وجہ سے اس سے خارج ہوگا۔ سورة المومنون کے آغاز میں یہ مفہوم گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین یبتغون الکتب۔ الذین محل رفع میں ہے۔ خلیل اور سیبویہ کے نزدیک فعل کے اضمار پر محل نصب میں ہے کیونکہ اس کے بعد امر ہے پہلے جب غلاموں اور لونڈیوں کا ذکر گزرا تو اس کے ساتھ یہ ملایا کہ غلام اگر کتابت طلب کرے تو اس کو مکاتب بنانا مستحب ہے۔ بعض اوقات الکتابۃ سے مراد مستقل ہونا، کمانا اور شادی کرنا ہوتا ہے جب وہ ارادہ کرے یہ اس کے لیے زیادہ پاکدامنی کا باعث ہوگا۔ بعض نے کہا : یہ آیت خویطب بن عبد العزی کے غلام کے بارے میں نازل ہوئی جس کو صبح کہا جاتا تھا۔ بعض نے کہا : صبیح کہا جاتا تھا اس نے اپنے آقا سے کہا مجھے مکاتب بنا دے تو اس نے انکار کردیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حویطب نے اسے سو دینار پر مکاتب بنا دیا اس نے اسے بتین دینار ہبہ کردیے باقی اس غلام نے ادا کردیا وہ جنگ جس میں شہید ہوا تھا۔ قشیری نے اس کو ذکر کیا ہے اور نقاش نے اس کو حکایت کیا ہے۔ مکی نے کہا : یہ صبیح قبطی، حاطب بن ابی بلتعتہ کا غلام تھا (
1
) ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے تمام مومنین کو حکم دیا کہ اپنے مملوک کو مکاتب بنا دیں جب مملوک کتابت کا مطالبہ کرے اور مالک اس میں خیر دیکھے۔ مسئلہ نمبر
2
: الکتب اور المکاتبۃ برابر ہیں۔ باب مفاعلہ دو شخصوں کے درمیان عمل کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں سردار اور غلام کا عقد ہوتا ہے کہا جاتا ہے : کاتب یکاتب کتابا و مکاتبۃ جیسے کہا جاتا ہے : قاتل قتالا و مقاتلۃ اس آیت میں الکتاب مصدر ہے جیسے قتال، جلاد اور دفاع مصدر ہیں۔ بعض علماء نے کہا : کتاب سے مراد یہاں وہ کتاب معروف ہے جس میں کوئی چیز لکھی ہوئی ہوتی ہے یہ اس لیے کیونکہ مطلب یہ ہے کہ وہ آذادی طلب کرتے تھے جس کے ساتھ کتاب لکھی جاتی تھی اور انہیں دی جاتی تھی۔ مسئلہ نمبر
3
: شرع میں مکاتبت کا معنی ہے مالک اپنے غلام کو مخصوص مال کی ادائیگی پر مکاتب بناتا ہے۔ جو وہ قسط وار رقم ادا کردے گا تو وہ آزاد ہوگا۔ اس کی دو حالتیں ہیں۔ غلام مطالبہ کرے اور اس کو قبول کرلے یہ آیت کا مطلق ہے اور اس کا ظاہر ہے۔ غلام مطالبہ کرے اور مالک انکار کر دے اس میں دو قول ہیں۔ پہلا قول عکرمہ، عطا، مسروق، عمروبن دینار، ضحاک بن مزاحم اور اہل ظاہر کی ایک جماعت کا ہے کہ سردار پر غلام کو مکاتب بنانا واجب ہے اور علماء امصار نے فرمایا : واجب نہیں ہے۔ جنہوں نے واجب کہا انہوں نے مطلق امر سے واجب کہا ہے۔ امر کا صیغہ مطلق و جوب کے لیے ہوتا ہے حتی کہ دلیل اس کے علاوہ پر آجائے، یہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ طبری نے اس کو پسند کیا ہے۔ دائود نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ سیر بن ابا محمد بن سیرین نے حضرت انس سے کتابت کے متعلق سوال کیا وہ حضرت انس کے غلام تھے حضرت انس نے انہیں مکاتب بنانے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر نے حضرت انس پر درہ اٹھایا اور تلاوت کی فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیراً حضرت انس نے ابن بی سیرین کو مکاتب بنا دیا۔ دائود نے کہا حضرت عمر کی یہ شان نہیں کہ وہ حضرت انس پر ایک مباح پر درہ اٹھاتے جس کا نہ کرنا ان کے لیے جائز تھا۔ اور جمہور علماء نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ اس پر اجماع منعقد ہے کہ اگر وہ اسے غیر سے بیچنے کا مطالبہ کرے تو اس سے بیچنا لازم نہیں ہے اور اسے اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس کو دوگنا قیمت دی جائے۔ اسی طرح اگر غلام مالک سے کہے کہ مجھے آزاد کر دے یا مجھے مدبر بنا دے یا میری شادی کر دے تو بالا جماع مالک پر ایسا کرنا لازم نہیں، اسی طرح مکاتبت بھی لازم نہیں کیونکہ وہ بھی معاوضہ ہے اور بغیر رضا کے صحیح نہیں۔ اور رہا ان کا قول کہ امر مطلق و جوب کا تقاضا کرتا ہے صحیح ہے لیکن جب ایسے قرینہ سے خالی ہو جو اسے وجوب سے پھیرنے کا تقاضا کرتا ہے اور یہاں اس میں خیر جاننے کی شرط کے ساتھ اس کو معلق کیا گیا ہے۔ پس وجوب ایک امر باطن پر معلق ہے وہ آقا کا اس میں خیر جاننا ہے۔ جب غلام کہے : مجھے مکاتب بنا دو ۔ آقا کہے : میں تجھ میں خیر نہیں جانتا۔ یہ امر باطن ہے تو اس میں مالک کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اس پر اعتماد کیا جائے گا۔ یہ اس باب میں قوی ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: علماء کا خیراً کے قول میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطا نے کہا : اس سے مراد مال ہے (
1
) مجاہد نے کہا : مال اور ادا ہے۔ حسن او نخعی نے کہا دین اور امانت ہے۔ امام مالک نے کہا : میں نے بعض اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے سے مراد کمانے اور کتابت ادا کرنے کی قوت ہے۔ لیث سے اسی طرح مروی ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔ عبیدہ سلمانی نے کہا : نماز کا قائم کرنا اور اعمال صالحہ ہیں۔ طحاوی نے کہا : جنہوں نے کہا اس سے مراد مال ہے ان کا قول صحیح نہیں ہے کیونکہ غلام کا مال اس کے آقا کا مال ہوتا ہے پس غلام کے لیے مال کیسے ہوگا ؟ ہمارے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ تم ان میں دین اور صدق جان لو اور تم جان لو کہ وہ تمہارے ساتھ اس بنا پر معاملہ کریں گے کو وہ وفا کرنے کے مکلف ہیں جو ان پر کتابت اور معاملہ میں سچائی لازم ہوگی۔ پس تم انہیں مکاتب بنا دو ۔ ابو عمر نے کہا : جس نے یہ کہا کہ خیر سے مراد یہاں مال ہے اور اس نے ان علمتم فیھم مالا کہنے سے انکار کیا ہے۔ کہا جاتا ہے : میں نے اس میں خیر، صلاح اور امانت جان لی، علمت فیہ المال نہیں کہا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے : علمت عندہ المال۔ میں کہتا ہوں بریرہ کی حدیث ان کا رد کرتی ہے جنہوں نے کہا : الخیر سے مراد مال ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر
5
: جس شخص کے پاس کوئی پیشہ نہیں اس کی کتابت کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ غلام کو مکاتب بنانا پسند کرتے تھے جب اس کے لیے کوئی پیشہ نہ ہو وہ کہتے : کیا تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں لوگوں کی میل کھائوں۔ اس طرح حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے۔ حکیم بن حزام نے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عمیر بن سعد کی طرف خط لکھا : اما بعد ! تجھ سے پہلے سلمان اپنے غلاموں کو لوگوں کے سوال کرنے پر مکاتب بناتے تھے۔ اوزاعی، امام احمد اور اسحاق نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ امام مالک، ابو حنفیہ اور امام شافعی نے اسمیں رخصت دی ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ابن التیاح ان کے موذن نے ان سے پوچھا : کیا میں مکاتب بن جائوں جبکہ میرے پاس مل نہیں ہے ؟ حضرت علی ؓ نے کہا : ہاں لوگوں کو ابھارا کہ مجھ پر صدقہ کریں لوگوں نے مجھے میرے زر مکاتبت سے زیادہ دیا میں حضرت علی ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : اس مال کو غلام آزاد کرانے پر خرچ کر دے۔ امام مالک سے اس کی کراہیت مروی ہے۔ وہ لونڈی جس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے مکاتب بننا مکروہ ہے کیونکہ یہ چیز اس کو فساد کی طرف لے جائے گیا۔ سنت میں حجت ہے اس کی مخالفت میں حجت نہیں ہے۔ آئمہ حدیث نے حضرت عائشہ ؓ سے حدیث روایت کی ہے فرمایا : بریرہ (لونڈی) میرے پاس آئی اور کہا میرے مالکوں نے مجھے نو (
9
) اوقیہ چاندی پر مکاتبہ بنا دیا ہے اور یہ میں نے نو سال میں ادا کرنی ہے ہر سال ایک اوقیہ چاندی دینی ہے آپ اس سلسلہ میں میری مدد فرمائیں (الحدیث) یہ دلیل ہے کہ آقا اپنے غلام کو مکاتب بنا سکتا ہے جبکہ غلام کے پاس کچھ بھی نہ ہو کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ بریرہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس یہ خبر دینے کے لیے آئی کہ اس نے مکاتبت طے کی ہے اور اس نے حضرت عائشہ ؓ سے مدد کا سوال کیا یہ اس نے اس وقت سوال کیا تھا جب اس نے کوئی چیز ادا نہیں کی تھی۔ ابن شہاب نے عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے انہیں بتایا کہ بریرہ زر کتابت کے سلسلہ میں مدد کرنے کے لیے آئی جبکہ ابھی تک اس نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا اس کو بخاری اور ابو دائود نے تخریج کیا ہے (
1
) ۔ اس میں لونڈی کا مکاتبہ بنانے کے جواز پر دلیل ہے یہ نہ تو کام کرنے والی تھی نہ کوئی ہنر رکھتی تھی اور نہ اس کے پاس کوئی مال تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے نہیں پوچھا تھا کہ کیا اس کو کمانے کی طاقت ہے یا کوئی متواتر کام کرتی ہے یا اس کے پاس مال ہے ؟ اگر یہ واجب ہوتا تو اس کے متعلق آپ ﷺ ضرور سوال کرتے تاکہ اس پر حکم واقع ہوتا کیونکہ آپ مبین اور معلم بنا کر مبعوث کیے گئے تھے۔ اس حدیث میں دلیل ہے جنہوں نے خیر کی تفسیر مال سے کی وہ عمدہ تاویل نہیں ہے بلکہ اس سے مراد کمانے کی قوت ہے ساتھ ساتھ امین بھی ہو۔ مسئلہ نمبر
6
۔ کتابت کبھی قلیل مال کے ساتھ اور کبھی کثیر مال کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ رقم قسط وار ادا کی جائے گی کیونکہ بریرہ کی حدیث ہے اس میں علماٗ کا کوئی اختلاف نہیں ہے اگر اس نے ہزار درہم پر مکاتب بنایا اور قسطوں کا ذکر نہیں کیا تو اس کی محنت کی مقدار قسط ہوگی اگرچہ مالک اسے پسند نہ بھی کرے۔ امام شافعی نے فرمایا : مدت کا ذکر ضروری ہے کم از کم تین اقساط ہیں۔ اس میں اس میں اختلاف ہے جب ایک قسط پر کتاب واقع ہو اثر اہل علم اس کو ایک قسط پر جائز قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : ایک قسط پر جائز نہیں اور اسی وقت ادا کرنے پر بھی جائز نہیں یہ اس طرح آزادی ہوگی گویا اس نے کہا : جب تو اتنا اتنا ادا کرے تو تو آزاد ہے۔ اور کتابت نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا : جب کتابت حالی (فورا رقم دینی ہو) ہو تو علماء کا کتابت میں اختلاف ہے ہمارے علماء کا دوسرے علماء کی طرح اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ کتابت موجل (موخر) ہے جیسا کہ حدیث بریرہ میں وارد ہے۔ جب اس نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت طے کی ہر سال ایک اوقیہ دینا تھا اسی طرح صحابہ کرام نے کہا : اسی وجہ سے اس کو کتابت کہا جاتا ہے کیونکہ اس کو لکھا جاتا ہے اور اس پر گواہ بنایا جاتا ہے اسم اور اثر جمع ہوگئے معنی بھی اس کی تائید کرتا ہے کو تنکہ مال اگر موقع پر ادا کرنا ہو جبکہ مال، غلام کے پاس ہو تو وہ مال مقاطعہ ہوگا اور یہ عقد مقاطعہ ہوگی عقد کتابت نہ ہوگی۔ ابن خویز منذاد نے کہا : جب فوری مال پر مکاتبت کرے گا تو وہ مال پر آزاد ہوگا کتابت نہ ہوگی۔ ہمارے اصحاب میں سے دوسروں نے کتاب حالی کو جائز قرار دیا ہے اور اس کو قطاعہ کا نام دیا ہے یہی قیاس ہے کیونکہ اس میں مدت، غلام کو کمانے میں وسعت دینا ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا اگر وہ قسط وقت سے پہلے لے آئے تو مالک پر واجب ہے کہ وہ رقم وصول کرے اور مکاتب کو جلدی آزاد کردے اور کتابت حالیہ جائز ہے۔ یہ کو فیوں نے کہا ہے۔ میں کہتا ہوں : کتابت حالی میں امام مالک سے کوئی نص وارد نہیں ہے بلکہ اصحاب کہتے ہیں یہ جائز ہے اور اس کو قطاعہ کا نام دیتے ہیں۔ رہا امام شافعی کا قول کہ کم از کم تین قسطوں پر جائز ہے صحیح نہیں ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو یہ کہنا بھی جائز ہوتا کہ پانچ قسطوں سے کم پر جائز ہے صحیح نہیں ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو یہ کہنا بھی جائز ہوتا کہ پانچ قسطوں سے کم پر جائز نہیں کیونکہ کم از کم اقساط جو نبی پاک ﷺ کے عہد میں بریرہ کے بارے میں تھیں وہ پانچ تھیں۔ نبی کریم ﷺ کو ان کا علم تھا اور آپ نے اس کا فیصلہ سنایا پس یہ اولی ہے۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ بریرہ پر پانچ اوقیہ تھے اور پانچ سال میں ادا کرنے تھے۔ ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا بریرہ آئی تو اس نے کہا میں نے نو اواق چاندی پر مالکوں سے مکاتبت کی ہے (الحدیث) دونوں روایت کے ظاہر میں تعارض ہے مگر ہشام کی حدیث اتصال کی وجہ سے اولی ہے اور یونس کی حدیث میں انقطاع ہے کیونکہ امام بخاری نے کہا لیث نے کہا مجھے یونس نے بتایا نیز ہشام نے اپنے باپ اور دادا کی حدیث میں جو ثابت کیا ہے دوسروں سے بھی ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
7
۔ مکاتب غلام ہوتا ہے جب تک اس پر مال کتابت میں سے کچھ ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مکاتب غلام ہے جب تک اس کی مکاتبت میں سے ایک درہم بھی باقی ہے۔
1
۔ اس حدیث کو ابوداود نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے روایت کی ہے ان سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس غلام نے سو دینار زر مکاتبت مقرر کیا دس دینار کے سوا سب ادا کردیا تو بھی وہ غلام ہے۔
2
۔ یہ امام مالک، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔ ثوری، احمد، اسحاق، ابو الثوری، داود اور طبری کا یہی قول ہے۔ یہ حضرت ابن عمر ؓ سے کئی وجوہ سے مروی ہے۔ حضرت زید بن ثابت، حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ ؓ سے روی ہے اس میں ان میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا یہی حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے یہی ابن مسیب، قاسم، سالم اور عطا کا قول ہے۔ امام مالک نے کہا : جن کو ہم نے اپنے شہر میں پایا وہ یہی کہتے ہیں اس میں دوسرا قول بھی ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب وہ نصف ادا کرلے گا تو وہ مقروض ہوگا، یہ نخعی کا قول ہے یہی حضرت عمر ؓ سے مروی ہے۔ ان سے سنداً مروی ہے کہ مکاتب غلام ہے جب تک ایک درہم بھی اس پر باقی ہے بہتر ہے ان سے مروی اس قول سے کہ جب نصف ادا کردے گا تو اس پر غلامی نہ ہوگی یہ ابو عمر کا قول ہے۔ حضرت علی ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو اس نے ادا کردیا اتنی مقدار آزاد ہوگیا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ آدمی اس میں سے پہلی قسط جو ادا کرتا ہے اس سے اس میں آزادی جاری ہوتی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : اگر وہ تہائی کتابت ادا کردے تو وہ آزاد مقروض ہے۔ یہی شریح کا قول ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اگر کتابت دو سو دینار ہو اور غلام کی قیمت بھی دو سو دینار ہو پھر غلام نے اپنی قیمت سے سو دینار ادا کردئیے جو اس کی قیمت ہے تو آزاد ہوگا، یہ نخعی کا بھی قول ہے۔ ساتواں قول یہ ہے جب تین بٹا چار اور ایک بٹا چار باقی ہو تو وہ مقروض ہے وہ کبھی غلام نہیں رہے گا۔ یہ عطاء بن ابی رباح کا قول ہے۔ ابن جریج نے ان سے روایت کیا ہے بعض سلف سے حکایت ہے کہ وہ کتابت کی عقد سے ہی آزاد ہے وہ کتابت کے ساتھ مقروض ہے وہ غلامی کی طرف کبھی نہیں لوٹے گا اس قول کا رد حدیث بریرہ کرتی ہے جو صحت سے نبی کریم ﷺ سے رموی ہے اس میں واضح دلیل ہے کہ مکاتب غلام ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بریرہ بیچی نہ جاتی اگر اس میں آزادی کی کوئی چیز ہوتی تو بیع جائز نہ ہوتی کیونکہ اس سنت پر اتفاق ہے کہ آزاد کو بیچا نہیں جائے گا اسی طرح حضرت سلمان اور حضرت جویریہ کی کتابت ہے نبی کریم ﷺ نے ان سب پر غلامی کا حکم لگایا حتی کہ انہوں نے کتابت ادا کردی، یہ جمہور کی حجت ہے کہ مکاتب غلام ہے جب تک اس پر کچھ بھی باقی ہے۔ حضرت زید بن ثابت نے مکاتب کے بارے میں حضرت علی ؓ سے مناظرہ کیا انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہا : کیا تو اسے رجم کرے گا اگر وہ زنا کرے یا اس کی شہادت کو جائز قرار دے گا اگر وہ شہادت دے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا نہیں۔ زید نے کہا وہ غلام ہے جب تک اس پر کوئی چیز باقی ہے۔ نسائی نے حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مکاتب سے اتنا حصہ آزاد ہوجاتا ہے جتنی مقدار وہ زر مکاتب ادا کرتا ہے اور اس پر حد قائم کی جائے گی اتنی مقدار جتنا وہ ادا کرچکا ہے اور جتنا اس سے آزاد ہوا ہے اتنی مقدار وارث ہوگا۔ اس کی سند صحیح ہے یہ اس کے لیے حجت ہے جو حضرت علی ؓ سے روایت کیا گیا ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے جو ابو داود نے تیہان مکاتب ام سلمہ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے ام سلمہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمیں نبی پاک ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا مکاتب ہو اور اس کے پاس وہ ہو جو وہ اسے ادا کرسکے تو اس سے پردہ کرنا چاہیے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے مگر اس میں احتامل ہے کہ یہ خطاب آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کے ساتھ ہو ان کے حق میں ورع اور احتیاط کو لیا ہو جیسے سودہ کو فرمایا تھا : اس سے پردہ کرو۔ حالانکہ اس کے بھائی ہونے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ کو فرمایا : کیا تم بھی نابینا ہو کیا تم اسے نہیں دیکھتی ہو یعنی ابن ام مکتوم کو۔ حالانکہ فاطمہ بنت قیس کو فرمایا تھا۔ تو ابن ام مکتوم کے پاس عدت گزار۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ علماء کا اجماع ہے کہ مکاتب پر جب ایک قسط یا دو قسطیں یا تمام قسطوں کی ادائیگی کا وقت آجائے پھر مالک اس سے قسط کا مطالبہ نہ کرے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے تو کتابت فسخ نہ ہوگی جب تک وہ اس حال پر باقی رہیں گے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ امام مالک نے فرمایا : غلام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو عاجز ظاہر کرے جبکہ اس کے پاس ظاہر مال ہو اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس کے لیے اپنے آپ کو عاجز ظاہر کرنا جائز ہے اس کے لیے اپنے آپ کو عاجز بنانا جائز نہیں جبکہ وہ اقساط کی ادائیپن پر طاقت رکھتا ہو۔ امام شافعی نے فرمایا : اس کے لیے اپنے آپ عاجز بنانا جائز ہے خواہ اس کے لیے مال معلوم ہو یا زر کتابت پر طاقت ہو یا یہ معلوم نہ ہو جب وہ کہے گا : میں عاجز آگیا ہوں (قسط ادا کرنے سے) تو کتابت باطل ہوجائے گی۔ امام مالک نے فرمایا : جب مکاتب عاجز ہوجائے گا تو جو اقساط مالک اس سے پہلے وصول کرچکا ہوگا وہ بھی مالک کے لیے حلال ہوجائیں گی خواہ وہ غلام کی محنت سے تھیں یا اس پر صدقہ کی گئی تھیں اور جو مال اے اپنی گردن آزاد کرنے کے لیے دیا گیا تھا اور وہ اس نے کتابت میں نہ لگایا تو جنہوں نے وہ مال دیا تھا وہ اپنا واپس لے سکتے ہیں خواہ کسی نے اسے خود دیا ہو اور مکاتب نے اسے معاف کرایا ہو۔ اگر لوگوں نے اس کی بطور صدقہ مدد کی تھی گردن چھڑانے کی غرض سے نہیں دیا تھا۔ اگر وہ غلام قسط ادا کرنے سے عاجز آگیا تو وہ صدقہ کا مال آقا کے لیے حلال ہوگا اگرچہ اس کے ساتھ اس کی آزادی مکمل ہوئی ہو اور اس سے کچھ مال بچ بھی جا ات ہو۔ اگر وہ آزادی کی غرض سے تھا تو وہ انہیں حصص کے ساتھ واپس کرے گا یا وہ اس کو معاف کریں گے۔ یہ امام مالک کا مذہب جو ابن قاسم نے ذکر کیا ہے۔ اکثر اہل علم نے کہا : اگر وہ مال جس پر مالک نے زر کتابت میں سے قبضہ کرلیا اور جو مال اس کے عاجز آنے کے بعد بچ گیا صدقہ وغیرہ میں سے تو وہ مالک کے لیے ہوگا اور اس کے لیے یہ تمام مال لینا جائز ہے۔ یہ امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد بن حنبل کا قول ہے اور ایک روایت شریح سے بھی یہی مروی ہے۔ ثوری نے کہا : جو اس نے اس کو دیا ہے آقا اسے گردن چھڑانے میں خرچ کرے، یہ مسروق اور نخعی کا قول ہے اور ایک روایت شریح سے یہ بھی ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : جو مالک نے اس سے قبضہ کیا ہے وہ اس کا ہے اور عاجز آنے کے بعد جو اس کے قبضہ میں بچا ہوا ہے وہ گلام کا اپنا ہے مالک کے لیے نہیں ہے۔ یہ ان علماء کا قول ہے جو کہتے ہیں غلام مالک ہوتا ہے۔ اسحاق نے کہا : جو اسے کتابت کی حالت میں عطا کیا گیا وہ جنہوں نے دیا تھا ان پر لوٹایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
10
۔ حدیث بریرہ اپنے طرق اور الفاظ کے اختلاف کے باوجود اس بات کو متضمن ہے کہ اس میں بیع کتابت کا معاملہ طے ہونے کے بعد واقع ہوئی تھی۔ اس سبب سے مکاتب ی بیع میں لوگوں کا اختلاف ہے امام بخاری نے اییک عنوان ذکر کیا ہے۔ (باب بیع المکاتب اذا رضی) اور آزادی کے لیے اس کی بیع کا جواز ہے جب مکاتب بیع پر راضی ہو اگرچہ عاجز نہ بھی ہو۔ ابن المنذر اور دراوردی کا یہ نظریہ اور ابو عمر عبدالبر نے اس کو پسند کیا یہی ابن شہاب، ابو الزناد اور ربیعہ کا قول ہے مگر انہوں نے کہا : اس کا بیع پر راضی ہونا اس کا عاجز آنا ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : مکاتب کا بیچنا جائز نہیں ہے جب تک وہ مکاتب ہے حتی کہ وہ عاجز آجائے اور اس کی کتابت کی بیع جائز نہیں ہے۔ یہ مصر میں امام شافعی کا قول تھا اور عراق میں فرماتے تھے اس کی بیع جائز ہے اور کتابت کی بیع جائز نہیں ہے۔ امام مالک نے کتابت کی بیع کو جائز قرار دیا جب وہ کتابت ادا کردے گا تو آزاد ہوجائے گا ورنہ وہ کتابت کے خریدنے والے کے لیی غلام ہوگا۔ امام ابوحنیفہ نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ اس میں دھوکا ہے۔ امام شافعی کا قول منع اور اجازت میں مختلف ہے۔ ایک جماعت نے کہا : مکاتب کی بیع جائز ہے جبتک وہ کتابت میں ہے اگر وہ کتابت ادا کردے گا تو وہ آزاد ہوجائے گا اور اس کی ولاء اس کے لیے ہوگی جس نے اسے خریدا تھا اگر وہ عاجز آگیا تو وہ خریدنے والے کا غلام ہوگا ت۔ امام نخعی، عطائ، لیث، احمد اور ابو ثور کا یہی قول ہے امام اوزاعی نے کہا : مکاتب کو نہیں بیچا جائے گا مگر آزاد کرنے کے لیے۔ اس کے عاجز آنے سے پہلے اس کو بیچنا مکروہ ہے۔ یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ ابو عمر نے کہا : حدیث بریرہ میں مکاتب کی بیع کی اجازت ہے جب وہ بیع پر راضی ہو اور وہ قسط ادا کرنے سے عاجز نہ ہو جس کو ادا کرنے کا وقت آگیا ہے جبکہ ان علماء کا قول مختلف ہے جو کہتے ہیں کہ مکاتب کی بیع جائز نہیں ہے مگر عجز کی صورت میں کیونکہ بریرہ نے ذکر نہیں کیا کہ وہ قسط ادا کرنے سے عاجز ہے اور نہ اس نے بتایا کہ اس پر قسط ادا کرنے کا وقت آگیا ہے اور نہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو عاجز ہے یا کیا تجھ پر قسط ادا کرنے کا وقت آگیا ہے یا نہیں اور نبی ﷺ اس کے خریدنے کی اجازت نہ دیتے مگر یہ جاننے کے بعد کہ وہ عاجز ہے اگرچہ ایک قسط کی ادائیگی سے عاجز ہوتی جس کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا۔ زہری کی حدیث میں ہے اس نے زرکتابت سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا اور میں اس بات میں بریرہ کی اس حدیث سے اصح کوئی حجت نہیں جانتا۔ اور نبی ﷺ سے کوئی ایسی چیز مروی نہیں ہے جو اس کے معارض ہو اور نہ کوئی خبر مروی ہے جو اس کے عجز پر دال ہو۔ اور علماء نے مکاتب کی بیع سے منع کیا ہے انہوں نے کئی امور سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے کہا : مذکور کتابت ابھی منعقد نہیں ہوئی تھی اور حضرت بریرہ کا یہ کہنا کہ میں نے اپنے مالکوں سے کتابت کی ہے اس کا مطلب ہے میں نے مکاتب بنانے کا ان سے سودا طے کیا ہے انہوں نے اس کی قیمت، مدت مقدر کی ہے اور ابھی تک عقد نہیں ہے۔ احادیث کا ظاہر اس کے خلاف ہے جب اس کا سیاق غور سے پڑھا جائے۔ علماء نے کہا : بریرہ ادائیگی سے عاجز تھی اور اس نے اپنے مالکوں سے کتابت کے فسخ کرنے پر اتفاق کرلیا تھا اس وقت بیع صحیح ہوتی ہے مگر یہ ان علماء کے قول کے مطابق ہے جو کہتے ہیں کہ مکاتب کے عاجز ثابت ہونے کے لیے حاکم کی ضرورت نہیں جب غلام اور آقا اس پر متفق ہوجائیں کیونکہ حق ان سے تجاوز نہیں کرتا، یہ معروف مذہب ہے۔ سحنون نے کہا : سلطان کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے خوف ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ترک پر متفق ہوجائیں اس کی صحت پر دلیل ہے کہ وہ عاجز ہوگئی تھی جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ ان سے اپنی کتابت کے سلسلہ میں مدد طلب کرنے کے لیے آئی تھی اور ابھی اس نے اپنی کتابت سے کچھ ادا نہیں کیا تھا حضرت عائشہ ؓ نے اسے کہا : تو اپنے مالکوں کی طرف لوٹ جا اگر وہ پسند کریں کہ میں تیری کتابت ادا کردوں تو میں ایسا کردوں گی۔ اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ تمام کتابت یا بعض کتابت کا اس پر استحقاق ہوچکا تھا کیونکہ حقوق ادا نہیں کیے جاتے مگر جس کا مطالبہ ثابت ہو۔ واللہ اعلم۔ یہ تاویلات ان کی اپنی بیماری کے زیادہ مشابہ ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ ابن المنذر نے کہا : میں اس شخص کے لیے حجت نہیں جانتا جو کہتا ہے کہ مکاتب کی بیع جائز نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کہے : شاید بریرہ عاجز آگئی تھی۔ امام شافعی نے فرمایا : اس کا ظاہر معنی یہ ہے کہ کاتب کے مالک کے لیے اس کا بیچنا جائز ہے۔ مسئلہ نمبر
11
: مکاتب جب کتابت ادا کردے تو وہ آزاد ہوجائے گا اور وہ مالک سے آزادی کی ابتدا کی طرف محتاج نہ ہوگا۔ اسی طرح اس کی اولاد جو اس کی لونڈی سے کتابت کے دوران پیدا ہوئی وہ بھی اس کے آزاد ہونے کے ساتھ آزاد ہوں گے اور اس کے غلام ہونے کے غلام ہوں گے کیونکہ انسان کی اولاد اس کی لونڈی سے اس کے مقام کی وجہ سے آزاد تصور کی جائے گی اسی طرح مکاتبہ کی اولاد کا تصور ہوگا۔ اگر کتابت سے پہلے ان کی اولاد ہو تو وہ کتابت میں داخل نہ ہوگی مگر شرط کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر
12
۔ اللہ تعالیٰکا ارشاد ہے۔ واقتوھم من مال اللہ الذی اتاکم یہ مالکوں کو حکم ہے کہ وہ کتابت کے مال میں ان کی مدد کریں یا تو خود اپنی طرف سے کچھ ادا کردیں یا زر کتابت کے مال سے کچھ انہیں معاف کردیں امام مالک نے فرمایا : مکاتب سے آخری قسط میں سے ساقط کیا جائے گا حضرت ابن عمر ؓ نے پینتیس ہزار میں سے پانچ ہزار معاف کیے تھے۔ حضرت علی ؓ نے چوتھائی کتابت ساقط کرنے کو اچھا سمجھا ہے یہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے۔ حضرت ابن مسعود اور حسن بن ابی حسن نے تہائی معاف کرنے کو مستحسن کہا ہے۔ قتادہ نے کہا : اس کا دسواں حصہ معاف کرے۔ ابن جبیر نے کہا : کچھ معاف کردے۔ انہوں نے اس کی حد متعین نہیں کی۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ ثوری نے اس کو مستحسن کہا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : کچھ معاف کرے کم از کم چیز جس پر کچھ چیز ہونے کا اطلاق ہوتا ہو۔ اس پر مالک کو مجبور کیا جائے گا اور حاکم اس کے ساتھ ورثاء پر حکم لگائے گا اگر سردار مر جائے گا۔ امام مالک نے اس امر کو استحباب پر محمول کیا ہے اور کم کرنے کی مقدار کی حد متعین نہیں فرمائی۔ امام شافعی نے واتوھم کے قول میں مطلق امر سے حجت پکری ہے اور ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی (النحل :
90
) اور جو آیات اس کی مثل ہیں۔ ابن عربی نے کہا : اس سے پہلے یہ اسماعیل بن اسحاق قاضی نے ذکر کیا ہے۔ امام شافعی نے عطا کرنے کو واجب کہا ہے اور کتابت واجب نہیں ہے۔ پس امام شافعی نے اصل کو غیر واجب اور فرع کو واجب کہا ہے۔ اس کی مثال نہیں ہے۔ یہ محض ایک دعوی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ نکاح کی طرح ہوگا یہ واجب نہیں اور جب یہ منعقد ہوجائے تو اس کے احکام واجب ہوتے ہیں ان میں سے متعہ ہے ہم کہتے ہیں : ہمارے نزدیک متعہ واجب نہیں ہے۔ حضرت عثمان بن عفان نے اپنے غلام کو مکاتب بنایا اور قسم اٹھائی کہ زر کتابت میں کچھ بھی معاف نہیں کریں گے۔ یہ ایک طویل حدیث میں ہے۔ میں کہتا ہوں : حسن اور نخعی اور بریدہ نے کہا واتوھم کا خطاب تمام لوگوں کو ہے کہ وہ مکاتب لوگوں پر صدقہ کریں اور ان کی گردنیں آزاد کرانے میں ان کی مدد کریں۔ زید بن اسلم نے کہا : یہ خطاب والیوں کو ہے کہ وہ صدقہ کے مال سے ان کا حصہ انہیں ادا کریں۔ یہ وہ قول ہے جس کو فی الرقاب کا قول اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے ان دو اقوال کی بنا پر مالک کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مکاتب سے اس کی کتابت سے کوئی چیز ساقط کرے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کتابت کی اقساط سے کوئی چیز ساقط کرنے کا ارادہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ان سے اتنا مال ساقط کردو۔ مسئلہ نمبر
13
۔ جب ہم نے کہا کہ مخاطب مالک ہیں تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خیال کیا کہ یہ سقوط پہلی قسط سے ہوگا خیر کی طرف جلدی کرنے کے لیے کیونکہ ممکن ہے کہ آخری قسط کو نہ پائے۔ امام مالک وغیرہ نے کہا : سقوط آخری قسط سے ہو اس کی علت یہ ہے کہ جب وہ پہلی قسط سے ساقط کرے گا تو بعض اوقات غلام عاجز آجاتا ہے تو وہ اور اس کا مالک سب مالک کی طرف لوٹ جائے گا اور اس کا ساقط کرنا بھی اس کی طرف لوٹ جائے گا جبکہ یہ صدقہ کے مشابہ ہے، یہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی ؓ کا قول ہے مجاہد نے کہا : وہ اس کے لیے ہر قسط سے کچھ چھوڑ دے۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک اقوی یہ ہے کہ وہ آخر میں ساقط کرے کیونکہ ہمیشہ ساقط کرنا قرضوں کے آخر میں ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر
15
۔ کتابت کی عقد کی صفت میں علماء کا اختلاف ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : اس کا طریقہ یہ ہے کہ مالک اپنے غلام کو کہے میں نے تجھے اتنے اتنے مال پر مکاتب بنایا اتنی اتنی قسط ہوگی جب تو یہ ادا کردے گا تو تو آزاد ہوگا یا اسے کہے تو مجھے ہزار دس قسطوں میں ادا کردے تو تو آزاد ہے۔ غلام کہے : مجھے قبول ہے۔ اس طرح کے الفاظ کہے جب وہ اسے ادا کردے گا تو آزاد ہوگا۔ اسی طرح اگر غلام نے کہا : مجھے مکاتب بنا دے اور سردار کہے : میں نے ایسا کردیا یا کہے : میں نے مکاتب بنا دیا۔ ابن عربی نے کہا : یہ لازم نہیں ہے کیونکہ قرآن کے الفاط اس کا تقاضا نہیں کرتے اور حال اس کی گواہی نہیں دیتا اگر وہ اس کا ذکر کرے تو اچھا ہے اگر وہ اس کو ترک کردے تو معلوم ہے اس کی احتیاج نہیں ہے۔ اس باب کے مسائل اور فروع کثیر ہیں ہم نے اس کے اصول سے تمام زکر کردیے ہیں جو ان پر اکتفا کرے اس کے لیے کافی ہے۔ واللہ الموفق للھدایۃ۔ مسئلہ نمبر
16
۔ مکاتب کی میراث کے بارے میں علماء کے ختلف تین اقوال ہیں۔ امام مالک کا مزہب یہ ہے کہ مکاتب جب مر جائے اور وہ اپنی کتاب سے زائد مال چھوڑ جائے اور اس کے وہ بچے موجود ہوں جو کتابت کے عرصہ میں پیدا ہوئے ہوں یا ان پر اس نے مکاتبت کی ہو تو کتابت ادا کرنے کے بعد وہ باقی مال کے وارث ہوں گے کیونکہ بچوں کا حکم اس کے حکم کی طرح ہے اور اگر اس نے مال نہ چھوڑا تو مابقی کتابت کے لیے وہ کشش کریں گے اور وہ آزاد نہ ہوں گے مگر اس کی آزادی کے ساتھ۔ اگر ان کی طرف سے وہ ادا کرے جس نے ان کی طرف رجوع کرنا تھا، کیونکہ وہ اس پر آزاد ہوں گے تو وہ بدرجہ اولی اس کی میراث کے مستحق ہوں گے کیونکہ وہ تمام حالت میں اس کے مساوی ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اپنے مال سے تمام زر کتابت ادا کرے اور اسے اس طرح کردے گویا وہ آزاد مرا ہے اور اس کی تمام الاد اس کی وارث بن جائے خواہ وہ اولاد جو اس کی موت سے پہلے آزاد تھی اور ان پر اس نے مکاتبت کی تھی یا اس کی کتابت ادا ہوگئی، یہ قول حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اور تابعین میں سے عطا، حسن، طاؤس اور ابراہیم سے مروی ہے۔ یہی کوفہ کے فقہائ، سفیان ثوری، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب حسن بن صالح بن حی کا قول ہے۔ اسحاق کا نظریہ بھی یہی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ مکاتب جب تمام کتابت ادا کرنے سے پہلے مر جائے تو وہ غلام کی حیثیت سے مرے گا جو مال پیچھے چھوڑے گا وہ اس کے مالک کے لیے ہوگا اس کی اولاد میں سے کوئی وراث نہ ہوگا نہ آزاد اولاد، نہ وہ جو کتابت کے دوران اس کے ساتھ تھے، کیونکہ جب وہ تمام زر کتابت ادا کرنے سے پہلے مرگیا تو وہ غلام ہو کر مرا اور اس کا مال اس کے مالک کا ہے اس کے مرنے کے بعد اس کا آزاد ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے مرنے کے بعد اس کا آزاد ہونا محال ہے اور اس کی وہ اولاد جن پر اس نے مکاتبت لی یا جو اس کی کتابت کے دوران پیدا ہوئے باقی کتابت میں انہیں محنت کرنا ہوگی اور ان سے اس کے حصہ کی مقدار ساقط ہوگا۔ جب وہ ادا کردیں گے تو وہ آزاد ہوجائیں گے وہ اس میں اپنے باپ کے تابع ہوں گے۔ اگر وہ زر کتابت ادا نہیں کریں گے تو وہ غلام ہوں گے، یہ امام شافعی کا قول ہے، یہی امام احمد بن حنبل کا قول ہے یہی حضرت عمر بن خطاب، حضرت زید بن ثابت، عمر بن عبدالعزیز، زہری اور قتادہ کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے نازل ہوئی اس کی دو لونڈیاں تھیں ایک کا نام معاذہ تھا اور دوسری کا نام مسیکۃ تھا وہ انہیں زنا پر مجبور کرتا تھا اور انہیں اجرت طلب کرنے اور بچہ حاصل کرنے پر تکلیف دیتا تھا ان دونوں لونڈیوں نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو عبداللہ بن ابی اور منافقین میں جو ایسا کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معاذہ یہ اس خولہ نامی عورت کی ماں تھی جس نے بارگاہ رسالت میں اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑا کیا تھا صحیح مسلم میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ عبداللہ بن ابی کی لونڈی جس کا نام مسیکۃ تھا اور دوسری کا نام امیمۃ تھا وہ انہیں زنا پر مجبور کرتا تھا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اردن تحصنا یہ الفتیات کی طرف راجع ہے۔ یہ اس طرح ہے لوندی جب تحصن (پاکدامنی) کا ارادہ کرے تو اس وقت مالک کے لیے مجبور کرنا ممکن ہوتا ہے اور اسے مجبور کرنے سے اسے منع کرنا ممکن ہوتا ہے جب لونڈی خود ہی اس گناہ سے بچنے کا ارادہ نہ رکھتی ہو تو آقا کو یہ کہنا ممکن بھی نہیں کہ تو اسے زنا پر مجبور نہ کر، کیونکہ اکراہ (مجبور کرنا) متصور نہیں ہوتا جبکہ وہ زنا کا ارادہ کرنے والی ہو، یہ سرداروں اور لونڈیوں کو امر ہے جبکہ ان کی یہ حالت ہو اس مفہوم کی طرف ابن عربی نے اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی طرف سے بدکاری سے بچنے کے ارادہ کا ذکر کیا ہے کیونکہ مالک کی طرف سے اسے اکراہ (مجبور کرنا) اسی حالت میں متصور ہوتا ہے۔ جب وہ زنا میں پہلے بھی رغبت رکھتی ہو تو اکراہ متصور نہیں ہوسکتا پس علماء نے فرمایا : ان اردن تحصنا، الایامی کی طرف راجع ہے۔ زجاج اور حسن بن فضل نے کہا : کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یعنی ایامی اور اپنے نیک لوگوں کا نکاح کردو بعض نے فرمایا : ان اردن تحصنا کی شرط ملغہ ہے۔ اس طرح کے اقوال کمزور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لتبتغو عرض الحیوۃ الدنیا یہ مال جو لونڈی فرج کے ذریعے کماتی ہے اور وہ بچہ جو غلام بنایا جائے اور بیچا جائے۔ بعض نے کہا : زانی، مزنی بھا کی اولاد کو سو اونٹ فدیہ دیتا تھا، پھر وہ مالک کو سو اونٹ پیش کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یکرھھن جو انہیں مجبور کرتا ہے۔ فان اللہ من بعد اکراھھن ان کے لیے اللہ تعالیٰ غفور ہے (رحیم) اور ان پر رحم کرنے والے ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، جابر بن عبداللہ اور ابن جبیر نے لھن غفور پڑھا ہے۔ اکراہ (مجبور کرنا) پر کلام سورة النحل میں گذر چکی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مومنین پر اپنے انعام شمار کیے جو اس نے ان پر روشن آیات میں سے نازل کیا ان میں گزشتہ قوموں کی مثالیں ہیں تاکہ جن برے کاموں میں وہ واقع ہوئے تھے یہ اس سے پرہیز کریں۔
Top