Al-Qurtubi - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف و شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور خدا (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نور السموات والارض کلام عرب میں نور ان روشنیوں کو کہتے ہیں جو آنکھ کے ذریعے دیکھی جاتی ہیں مجازاً دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی چمکنا بھی ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے : کلام لہ نور اس کا چمکنے والا کلام ہے۔ اسی سے الکتاب المنیر (روشن کتاب) ہے، اسی سے شاعر کا قول ہے : نسب کان علیہ من شمس الضحا نورا ومن فلق الصباح عمودا لوگ کہتے ہیں : فلان نور البلد شمس العصر و قمرہ فلاں شہر کا نور ہے زمانہ کا سورج اور چاند ہے۔ شاعر نے کہا : فانک شمس والملوک کواکب۔ ایک شاعر نے کہا : ھلا خصصت من البلاد بمقصد قمر القبائل خالد بن یزید ایک اور شاعر نے کہا : ازا سار عبداللہ من مرو لیلۃ فقد سار منہا نورھا وجمالہا یہ کہنا بھی جائز ہے اس کا معنی ہوا للہ کا نور ہے۔ یہ مدح کی حجت سے ہو کیونکہ اس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا اور تمام اشیاء کا نور اس سے ہے اس سے تمام اشیاء کی ابتدا ہے اور اسی سے ان کا صدور ہے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے وہ ان روشنیوں میں سے نہیں ہے جو آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہیں وہ پاک ہے اس سے جو ظالم کہتے ہیں اس کی شان اس سے بلند اور بڑی ہے۔ ہشام جو القی اور مجسمیہ گروہ نے کہا : وہ نور ہے دوسرے انوار کی طرح نہیں، وہ جسم ہے دوسرے اجسام کی طرح نہیں یہ تمام اللہ تعالیٰ پر عقلاً اور نقلاً محال ہے جیسا کہ علم الکلام میں معروف ہے پھر ان کا قول متناقض ہے کیونکہ ان کا قول جسم یا نور ہے اس پر اس کی حقیقت کے ساتھ ایک حکم ہے اور ان کا قول : دوسرے نوروں کی طرح نہیں دوسرے اجسام کی طرح نہیں۔ اس چیز کی نفی ہے جس کو انہوں نے جسمیت اور نور میں سے ثابت کیا تھا یہ تناقض ہے اور اس کی تحقیق علم الکلام میں ہے جو انہیں اس میں ظاہر نظر آیا انہوں نے اس کی اتباع کی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جب آپ نماز تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ کہتے : اللہم لک الحمد، انت نور السموات والارض۔ اسی طرح آپ ﷺ سے پوچھا گیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے نور دیکھا۔ اس کے علاوہ بھی احادیث ہیں۔ علماء نے اس آیت کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا مطلب ہے، اس کے ساتھ اور اس کی قدرت سے اشیاء کی روشنی چمکی اور ان کے امور قائم ہوئے اور مصنوعات بنیں۔ یہ کلام ذہن کی تقریب پر مبنی ہے جیسے کہا جاتا ہے : الملک نور اھل البلد یعنی شہر والوں کے معاملات کا قیام اور ان کی صلاح بادشاہ کے ساتھ ہے کیونکہ اس کے امور سیدھے راستے پر چلاتے ہیں۔ یہ الملک کے لفظ میں مجاز ہے یہ اللہ تعالیٰ کی صفت میں حقیقت محضہ ہے کیونکہ اس نے موجودات کو پیدا کیا عقل کو نور اور ہدایت دینے والا بنایا کیونکہ موجود کا ظہور اس کے ساتھ حاصل ہوا جس طرح روشنی کے ساتھ دیکھی جانے والی چیزوں کا ظہور حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بابرکت ہے اس کے علاوہ کوئی رب نہیں ہے، یہ معنی مجاہد اور زہری وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ ابن عرفہ نے کہا : اس کا مطلب ہے وہ آسمانوں اور زمینوں کو منور کرنے والا ہے اسی طرح ضحاک اور قرظی نے کہا ہے جیسے لوگ کہتے ہیں : فلاں غیاثنا یعنی وہ ہماری مدد کرنے والا ہے، فلان زادی فلاں میرے سازوسامان تیار کرنے والا ہے : جریر نے کہا : ونت لنا نور وغیث و عصمہ ونبت لمن یرجو نداک و ریق یعنی ذو ورق۔ مجاہد نے کہا : آسمانوں اور زمین میں امور کی تدبیر فرمانے والا ہے۔ حضرت ابی بن کعب، حسن اور ابو العالیہ نے کہا : وہ سورج، چاند اور ستاروں سے آسمانوں کو مزین کرنے والا ہے۔ اور زمین کو انبیائ، علماء اور مومنین کے ساتھ مزین کرنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہما اور حضرت انس نے کہا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کا ہادی ہے۔ پہلا معنی اعم ہے اور تاویل کے ساتھ زیادہ اصح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مثل نورہ یعنی اس کے دلائل کی صفت جو وہ بندہ مومن کے دل میں ڈالتا ہے۔ دلائل کو نور کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو نور کہا ہے فرمایا : انزلنا الیکم نورا مبینا (النسائ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو نور فرمایا۔ قد جاء کم من اللہ نور و کتب مبین (المائدہ) یہ اس وجہ سے فرمایا کیونکہ کتاب ہدایت دیتی ہے اور بیان کرتی ہے اسی طرح رسول کی بھی یہی مثال ہوتی ہے اللہ کی طرف اضافت کی وجہ یہ ہے کہ وہ دلالت کو ثابت کرنے والا ہے اور بیان کرنے والا ہے اور اسے وضع کرنے والا ہے یہ آیت دوسرے معانی کا بھی احتمال رکھتی ہے۔ اس میں مثال کے ہر جز کا مقابل ممثل بہ کے ہر جز کے ساتھ نہیں بلکہ اس میں جملہ کی جملہ کے ساتھ تشبیہ واقع ہوئی کیونکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہدایت، ہر مخلوق کی صنعت کو اس کا پختہ کرنا اور ان تمام پر اس کے پھیلے ہوئے دلائل ہیں جیسے اس نور سے ہے جس کو تم اس صفت پر بناتے ہو جو اس نور کی صفات میں ابلغ ترین صفت پر ہے جو لوگوں کے سامنے ہے۔ بس وضوح اور روشنی میں اللہ کے نور کی مثال اس طرح ہے جس پر تماہری انتہا ہے اے انسانو ! المشکاۃ۔ دیوار میں بنے ہوئے طاق کو کہتے ہیں جو آر پار نہیں ہوتا، یہ ابن جبیر اور جمہور مفسرین کا قول ہے۔ یہ روشنی کو جمع کرتا ہے اس میں چراغ دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ روشنی دیتا ہے اس کی اصل وہ برتن ہے جس میں کوئی چیز رکھی جاتی ہے مشکاۃ چمڑے کا برتن جیسے ڈول، اس میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے یہ مفعلۃ کے وزن پر ہے جیسے مقراہ و مصفاۃ۔ شاعر نے کہا : کان عینیہ مشکاتان فی حجر قیضا اقتیاضا باطراف المناقیر بعض علماء نے کہا : مشکاۃ قندیل کا ستون جس میں وٹ ہوتی ہیمجاہد نے کہا : اس سے مراد قندیل ہے۔ فرمایا : فی زجاجۃ کیونکہ وہ شفاف جسم ہے چراغ، فانوس میں زیادہ روشن ہوتا ہے۔ المصباح آگ کے ساتھ وٹ۔ کا نھا کو کب دری، روشنی کرنے اور چمک میں ستارے کی مانند ہے۔ اس میں دو معانی کا احتمال ہے، وہ چراغ کے سات اس طرح ہے یا اپنی صفائی اور اپنے جوہر کی عمدگی کی وجہ سے اس طرح ہے۔ یہ تاویل نور پر تعاون میں زیادہ بلیغ ہے۔ ضحاک نے کہا : الکوکب الدری سے مراد زہرہ ستارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یوقد من شجرۃ مبارکۃ۔ یعنی درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے۔ مضاف کو حذف کیا گیا ہے اور درخت کو مبارک کہا گیا ہے کیونکہ زیتون نما (برہوتری) کے اعتبار سے پھلوں میں سے بڑا ہے۔ اسی طرح انار ہے۔ مشاہدہ اس کا تقاضا کرتا ہے ابو طالب نے مسافر بن ابی عمرو بن مایہ بن عبد شمس کے مرثیہ میں کہا : لیت شعری مسافر بن ابی عمرو ولیت یقولہا المحزون بورک المیت الغریب کما بورک نمع الرمان والزیتون بعض نے کہا : ان کی برکت کی وجہ سے ان کو مبارک کہا گیا ہے کیونکہ ان کی ٹہنیاں نیچے سے اوپر تک پتے نکالتی ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : زیتون میں بہت سے منافع ہیں۔ اس سے چراگ جلایا جاتا ہے، یہ بطور سالن استعمال ہوتا ہے، بطور تیل استعمال ہوتا ہے، اس کے ساتھ دباغت کی جاتی ہے، اس کے ساتھ لکڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے، اس میں کوئی ایسی چیز نہیں مگر اس میں منفعت ہے حتی کہ اس کی راکھ کے ساتھ ریشم کو صاف کیا جاتا ہے۔ یہ پہلا درخت ہے جو دنیا میں پیدا ہوا اور طوفان نوح کے بعد سب سے پہلے اگنے والا یہی درخت ہے۔ انبیاء کی منازل اور ارض مقدسہ میں اگتا ہے۔ اس کے لیے ستر انبیاء کرام نے برکت کی دعا کی۔ ان میں حضرت ابراہیم اور حضرت محمد ﷺ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی : اللہم بارک فی الزیت والزیتون۔ یہ دو مرتبہ عرض کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا شرقیۃ ولا غربیۃ۔ اس قول میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، عکرمہ، قتادہ وغیرہم نے فرمایا : شرقیۃ، جس کو سورج کی دھوپ پڑتی ہے جب سورج طلوع ہوتا ہے۔ اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سورج کی دھوپ نہیں لگتی، کیونکہ اس کے لیے پردہ ہوتا ہے اور غربیہ، اس کے برعکس ہے یعنی وہ صحراء میں درخت ہے زمین پر ظاہر ہو سورج کی دھوپ سے کوئی چیز اسے نہیں چھپاتی وہ تیل کے لیے عمدہ ہوتا ہے نہ خالصۃ شرق کے لیی ہے کہ اسے شرقیہ کہا جائے اور نہ غرب کے لیے ہے کہ اسے غربیہ کہا جائے بلکہ وہ شرقیہ غربیہ ہے۔ طبری نے حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہما سے روایت کیا کہ وہ ایک بہت بڑے صحن میں درخت ہے اس کو اس گھر نے گھیرا ہوا ہے۔ وہ شرق کی جہت سے نہ منکشف ہوتا ہے اور نہ غرب کی جہت سے منکشف ہوتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول حضرت ابن عباس ؓ سے درست نہیں ہے کیونکہ وہ پھل جو اس طرح ہوتا ہے اس کی اطراف خراب ہوتی ہیں یہ کائنات میں مشاہدہ ہے۔ حسن نے کہا : یہ دنیا کے درختوں میں سے نہیں ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کے لیے قائم فرمائی ہے کیونکہ اگر یہ دنیا میں ہوتا تو یا یہ شرقیہ ہوتا یا غربیہ ہوتا۔ ثعلبی نے کہا : قرآن نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ یہ دنیا کا درخت ہے، کیونکہ شام کے درخت نہ شرقی ہیں نہ غربی ہیں شام کے درخت افضل درخت ہیں یہ ارض مبارکہ ہے اور شرقیہ، زیتونہ کی نعت ہے اور لا صفت اور موصوف کے درمیان حائل نہیں ہوتا ولا غربیۃ، اس پر ولا غربیۃ کا عطف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار، یہ اس کے حسن صفائی اور جودت میں مبالغہ ہے نور علی نور، مشکاۃ میں چراغ کی روشنی جمع ہے زجاجہ (شیشہ) تک وہ روشنی پہنچتی ہے اور تیل کی روشنی تک پہنچتی ہے پس اسی وجہ سے وہ نور علی نور ہوگیا ہے۔ یہ انوار مشکاۃ (طاق) میں جمع ہوئے تو وہ انتہائی خوبصور نور ہوگیا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے براہین واضح ہیں۔ یہ دلیل کے بعد دلیل ہے اور تنبیہ کے بعد تنبیہ ہے جیسے رسولوں کو مبعوث فرمایا، کتب کو نازل فرمایا اور نصیحتیں فرمائیں جن میں عقل سلیم رکھنے والے کے لیے تکرار ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف اسے ہدایت دیتا ہے اور اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے سعادت بخشتا ہے اپنے بندوں پر ضرب الامثال کی صورت میں اپنے فضل کا ذکر فرمایا تاکہ انہیں عبرت نصیب ہو اور ایسی نظر ملے جو انہیں ایمان تک پہنچانے والی ہو۔ عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ اور ابو عبدالرحمن سلمی نے اللہ نور نون کے فتحہ اور واو کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ نورہ کی ضمیر کا مرجع کا۔ ہے مفسرین کا اس میں اختلاف ہے۔ کعب احبار اور ابن جبیر نے کہا : اس کا مرجع حضرت محمد ﷺ ہیں یعنی مثل نور محمد ﷺ ۔ ابن انباری نے کہا : اللہ نور السموات والارض پر وقف حسن ہے پھر کلام کا آغاز ہو رہا ہے مثل نورہ کمشکوۃ فیہا مصباح۔ یعنی نور محمد ﷺ کی مثال۔ حضرت ابی بن کعب اور ابن جبیر نے بھی اور ضحاک نے کہا : اس کا مرجع مومنین ہیں۔ حضرت ابی کی قرائت میں مثل نور المومنین ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ ان کی قراءت میں مثل نور المومن ہے روایت ہے کہ اس میں مثل نور من امن بہ ہے۔ حسن نے کہا : اس کا مرجع قرآن اور ایمان ہے۔ مکی نے کہا : ان اقوال کی بناء پر (الارض) پر وقف ہوگا ابن عطیہ نے کہا : ان اقوال کی بنا پر ضمیر کا مرجع ایسا ہوگا جا کا پہلے ذکر نہیں ہے۔ اس میں مثال کے ہر جز کا مقابلہ ممثل بہ کے جز سے ہوگا۔ پس جنہوں نے کہا کہ ممثل بہ حضرت محمد ﷺ ہیں وہ کعب حبر کا قول ہے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ مشکاۃ ہوں گے یا آپ کا سینہ مشکاۃ ہوگا اور مصباح سے مراد نبوت اور اس سے متصل اچھا عمل اور ہدایت ہے۔ الزجاجۃ سے مراد آپ ﷺ کا قلب (دل) ہے۔ الشجرۃ المبارکۃ سے وحی اور ملائکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کی طرف لاتے تھے اور اس کا سبب جو اس سے متصل ہوتا۔ الزیت سے مراد وہ حجج وبراہین ہیں وحی جن کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہوتی تھی اور جنہوں نے کہا : ممثل بہ مومن ہے۔ ان کے نزدیک چراغ سے مراد ایمان اور علم ہے۔ زجاج سے مراد اس کا دل ہے۔ زیت سے مراد حجتیں اور حکمت ہے جن کو وہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ حضرت ابی نے کہا : وہ مومن لوگوں میں بہتر حالت میں چلتا ہے جس طرح زندہ مردوں کی قبور میں چلتا ہے اور جنہوں نے کہا : ممثل بہ قرآن اور ایمان ہے تو تقدیر کلام اس طرح ہوگی مثل نورہ الذی ھو الایمان فی صدر المومن فی قلبہ کمشکاۃ یعنی اس نور کی مثال جو ایمان ہے جو بندہ مومن کے سینہ میں ہے اس کے دل میں ہے جو طاق کی طرح ہے۔ اس میں پہلی دونوں تشبیہوں کی طرح تشبیہ نہیں ہے کیونکہ مشکاۃ ایمان کا مقابل نہیں ہے۔ ایک جماعت نے کہا : ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے جسے ثعلبی، ماوردی اور مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ یہ معنی گزر چکا ہے اس قول کی کی بنا پر (الارض) پر وقف نہ ہوگا۔ مہدوی نے کہا : ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے تقدیر اس طرح ہوگی اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ اس نے جو مسلمانوں کے قلوب میں ہدایت ڈالی اس کی مثال مشکاۃ کی ہے : یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اسی طرح حضرت زید بن اسلم نے کہا ہے۔ حسن نے کہا : ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ اس کو مثل نورہ فی قلب المومن کمشکاۃ پڑھتے تھے۔ محمد بن علی ترمذی نے کہا : ان کے علاوہ کسی نے قرآن میں اس طرح نہیں پڑھا ہے۔ اور تاویل میں ان کی موافقت کی ہے کہ یہ بندہ مومن کے دل میں اس کا نور ہے۔ اس کی تصدیق دوسری آیت میں ہے فرمایا : افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ (الزمر :22) اور پہلے مفسرین نے اس کی اس طرح علت بیان کی ہے کہ ضمیر کو اللہ کے لیے بناناجائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نور کی کوئی حد نہیں ہے۔ ابو عمر دراوردی نے کسائی سے روایت کیا ہے کہ انہوں مشکاۃ کے الف میں اور اسے پہلے کاف میں امالہ کیا ہے۔ نصر بن عاصم نے زجاجۃ کو زاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اسی طرح الزجاجۃ کو بھی زاء کے فتحۃ کے ساتھ پڑھا ہے یہ بھی ایک لغت ہے۔ ابن عامر اور حفص نے عاصم سے دری دال کے ضمہ اور ی کی شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کی قراءت کی دو وجہیں یا تو کو کب، الدر کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کی سفیدی اور صفائی کی وجہ سے یا اس کی اص دریء مہموز ہے۔ فعیل یہ الدرئ سے مشتق ہے جس کا معنی دور کرنا ہے۔ پھر ہمزہ میں تخفیف کی گئی وہ بڑے بڑے ستارے جن کے اسماء معروف نہیں ہیں ان کو الدراری (بگیر ہمزہ کے) کہا جاتا ہے۔ حمزہ اور ابوبکر نے عاصم سے دریء ہمزہ اور مد کے ساتھ پڑھا ہے یہ فعیل کے وزن پر الدرء سے مشتق ہے اس معنی میں کہ وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ کسائی اور ابو عمر نے دریء دال کے کسرہ اور ہمزہ کے ساتھ الدرء سے مشتق کرکے پڑھا ہے جس کا معنی دور کرنا ہے جیسے السکیر اور الفسیق۔ سیبویہ نے کہا : ابوعبیدہ نے ابوعمر اور کسائی کی قراءت کو انتہائی ضعیف قرار دیا کیونکہ انہوں نے اس کو درات سے مشتق کیا ہے جس کا مطلب ہے دور کرنا یعنی ستاری ایک افق سے دوسرے افق کی طرف چلتا ہے۔ جب یہ تاویل ہو تو کلام میں کوئی فائدہ نہیں رہتا اور اس ستارے کی بہت سے ستاروں پر کوئی فضیلت نہیں رہتی۔ کیا آپ نے ملاحطہ نہیں کیا کہ یہ نہیں کہا جاتا جاءنی انسان من بنی آدم۔ ابو عمرو اور کسائی جیسے علماء کو ایسی دور از فکر تاویل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ان کی تاویل اس کے مطابق ہے جو محمد بن یزید سے مروی ہے کہ ان کا معنی یہ کہ ستارا نور کو دور کرتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے : اندرء الحریق یعنی اندفع آگ سے دور رہ۔ یہ تاویل میں قراٗ ت کے لیے صحیح ہے۔ سعید بن مسعدہ نے حکایت کیا ہے کہا جاتا ہے درء الکوکب بضوء ہ جب اس کی روشنی لمبی اور بلند ہو۔ جوہری نے الصحاح میں فرمایا : درء علینا فلان یدرء دروء یعنی اچانک طلوع ہوا۔ اسی سے کو کب دری بروزن فعیل ہے جیسے سکیر اور حمیر۔ اس کے زیادہ روشن ہونے اور چمکنے کی وجہ سے ہے۔ قد در الکوکب دروئ۔ ابوعمر بن علاء نے کہا : میں نے سعد بن بکر کے ایک شخص سے پوچھا جو ذات عرق سے تھا میں نے کہا : اس بڑے ستارے کو تم کیا کہتے ہو۔ فرمایا : الدری۔ وہ لوگوں میں سے بلیغ تھا۔ نحاس نے کہا : حمزہ کی قراٗ ت اہل لغت کے قول کے مطابق غلط ہے بالکل جائز نہیں ہے کہ عرب کلام میں کوئی اسم فعیل کے وزن پر نہیں ہے۔ ابوعبید نے اس پر اعتراض کیا اور حمزہ کی طرف سے حجت پیش کی کہ یہ فعیل کا وزن نہیں بلکہ یہ فعول کے وزن پر ہے جیسے سبوح واو سے یاء کو بدلا گیا ہے جیسے کہتے ہیں عتی۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : یہ اعتراض اور احتجاج بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ بالکل جائز نہیں ہے اگر وہ جائز ہوتا جو انہوں نے کہا ہے تو سبوح میں سبیح کہا جاتا۔ یہ کسی نے بھی نہیں کہا ہے۔ عتی اس سے نہیں ہے ان کے درمیان فرق واضح ہے کیونکہ عتی دو جہتوں سے خالی نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ یہ عات کی جمع ہو۔ اس میں بدل لازم ہوگا کیونکہ جمع تغییر کے باب سے ہے اور واو اسماء میں طرف کلمہ میں نہیں ہوتی جبکہ اس سے پہلے ضمہ ہو۔ جب اس سے پہلے ساکن تھا اور ساکن سے پہلے ضمہ تھا اور ساکن مضبوط آڑ نہیں ہے تو ضمہ کو کسرہ سے تبدیل کیا گیا اور واوکو یاء سے بدلا گیا۔ اور اگر عتی واحد ہو تو واو کے ساتھ اولی ہے اور اس کا قلب جائز ہے کیونکہ طرف کلمہ میں ہے۔ اور فعول میں واو طرف کلمہ میں نہیں پس اس کا قلب جائز نہیں۔ جوہری اور ابوعبید نے کہا : اگر تو دال کو ضمہ دے اور تو کہے دری تو یہ الدر کی طرف منسوب ہوگا فعلی کے وزن پر ہوگا اور مہموز نہ ہوگا کیونکہ عرب کلام میں فعیل نہیں ہے۔ قراء میں سے جنہوں نے اس کو ہمزہ دیا ہے انہوں نے فعول کا ارادہ کیا ہے جیسے سبوح ہے پھر کثرت سے ضموں کی وجہ سے ثقل پیدا ہوگیا تو بعض کو کسرہ کی طرف لوٹا دیا۔ اخفش نے بعض سے حکایت کیا ہے دری یہ راءۃ سے مشتق ہے اس کو ہمزہ دیا ہے اور اسے فعیل کے وزن پر پہلے حرف کو فتحہ دیا ہے۔ فرمایا : یہ اس کی چمک کی وجہ سے ہے۔ ثعلبی نے کہا : سعید بن مسیب اور ابورجاء نے دری دال کے فتحہ کے ساتھ مہموز پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا : یہ خطا ہے کیونکہ کلام میں فعیل بھی نہیں ہے اگر ان سے یہ صحیح ہو تو وہ دونوں حضت ہیں۔ یوقد، شیبہ، نافع، ایوب، سلام ابن عامر اہل شام اور حفص نے یوقد یاء مضمومہ کے ساتھ، قاف کی تخفیف اور دال کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حسن، سلمی، ابوجعفر، ابو عمرو بن علاء بصری نے توقد تمام حروف مفتوحہ کے ساتھ اور قاف کی شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو حاتم اور ابو عبید نے اس کو اختیار کیا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ دونوں قراءتیں قریب قریب ہیں کیونکہ دونوں مصباح کے لیے ہیں۔ یہ وصف کے مناسب ہیں کیونکہ وہ روشن کرتا ہے اور روشن ہوتا ہے۔ الزجاجۃ اس کے لیے برتن ہے اور توقد ماضی توقد، یتوقد سے ہے۔ اور یوقد فعل مضارع اوقد، یوقد سے ہے۔ نصر بن عاصم نے توقد پڑھا ہے اس کی قراٗت پر اصل تتوقد سے ایک تاء کو حذف کیا گیا کیونکہ دوسری اس پر دلالت کرتی ہے کو فیوں نے توقد تاء کے ساتھ پڑھا ہے الزجاجۃ کی طرف ضمیر لوٹائی ہے یہ دونوں قراءتیں الزجاجۃ کی تانیث کی بنا پر ہیں۔ من شجرۃ مبارکۃ زیتونۃ لا شرقیۃ ولا غربیۃ اس پر کلام گزر چکی ہے۔ یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار نور علی نور مونث فعل نار کی تانیث کی وجہ سے ہے۔ ابو عبید نے کہا : صرف یہی قراءت معروف ہے۔ ابو حاتم نے حکایت کیا ہے کہ سدی نے ابو مالک سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے لم یمسسہ نار یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ محمد بن یزید نے کہا : تزکیر اس بنا پر ہے کہ یہ مونث غیر حقیقی ہے ان کے نزدیک مونث کے استعمال کا یہی طریقہ ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : المشکاۃ سے مراد حضرت محمد ﷺ کا جوف (پیٹ) اور الزجاجۃ سے مراد قلب محمد ﷺ ہے اور المصباح سے مراد وہی نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں رکھا ہے۔ وہ روشن کیا جاتا ہے شجرۃ مبارکۃ سے یعنی آپ سلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ابراہیم سے ہے وہ آپ کا شجرۃ (درخت) ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کے قلب اطہر میں نور رکھا جس طرح حضرت ابراہیم کے قلب میں نور رکھا۔ محمد بن کعب نے کہا : المشکاۃ سے مراد حضرت ابراہیم ہیں۔ الزجاجۃ سے مراد حضرت اسماعیل ہیں اور المصباح سے مراد حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کا نام مصباح رکھا جیسا کہ آپ کا نام سراج رکھا۔ فرمایا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا (الاحزاب) یوقد من شجرۃ مبارکۃ شجرہ مبارکہ سے مراد حضرت آدم ہیں ان کی نسل میں برکت ڈالی گئی اور آپ سے انبیاء و اولیاء کثرت سے ہوئے۔ بعض علماء نے فرمایا : شجرہ مبارکہ سے مراد حضرت ابراہیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک فرمایا کیونکہ اکثر انبیاء کرام آپ کی صلب سے تھے لا شرقیۃ ولا غربیۃ یعنی ابراہیم نہ یہودی تھے یہ نصاری مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ یکاد زیتھا یضیء حضرت محمد ﷺ کے محاسن لوگوں کے لیے وحی الٰہی آنے سے پہلے بھی روشن تھے۔ نور علی نور نبی کی نسل سے نبی۔ ضحاک نے کہا : مشکاۃ سے مراد عبدالمطلب ہیں۔ الزجاجۃ سے مراد حضرت عبداللہ ہیں اور المصباح سے مراد حضرت محمد ﷺ پس حضرت محمد ﷺ ان دونوں کے دل میں تھے آپ حضرت ابراہیم سے نبوت کے وارث بنے۔ من شجرۃ تقوی رضوان کا درخت اور ہدایت و ایمان ایک درخت ہے جس کی اصل نبوت ہے اور اس کی فرع مروت ہے، اس کی ٹہنیاں تنزیل ہیں اور اس کے پتے تاویل ہیں اور اس کے خدمت گذار جبریل و میکائیل ہیں۔ قاضی ابوبکر ابن عربی نے کہا غریب امر یہ ہے کہ بعض فقہاء نے کہا یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت محمد ﷺ ، حضرت عبدالمطلب اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ کی مثال دی ہے۔ المشکاۃ سے مراد حبشہ کی زبان میں طاق ہے عبدالمطلب کو مشکاۃ سے تشبیہ دی گئی جس میں قندیل ہے اور الزجاجۃ ہے اور حضرت عبداللہ کو قندیل سے تشبیہ دی گئی اور وہ الزجاجۃ ہے اور حضرت محمد ﷺ مصباح کی مانند تھے یعنی ان کی اصلاب میں ویا وہ روشن ستارہ ہے اور وہ مشتری ہے۔ یوقد من شجرۃ مبارکۃ یعنی نبوت کی میراث حضرت ابراہیم سے ہے وہ مبارک درخت ہیں، یعنی حنیفیۃ لا شرقیۃ ولا غربیۃ لا یہودیۃ ولا نصرانیۃ۔ یکاد زیتہا یضیء ولولم تمسسہ نار فرمایا : قریب تھا حضرت ابراہیم وحی کے ساتھ کلام کرتے وحی آنے سے پہلے، نور علی نور حضرت ابراہیم پھر حضرت محمد ﷺ ۔ قاضی نے کہا : یہ تمام ظاہر سے عدول ہے اور تمثیل میں ممتنع نہیں ہوتا کہ آدمی اس میں وسعت دے۔ میں کہتا ہوں : سوائے پہلے قول کے تمام اقوال کا آیت سے ربط نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال دینا ممکن بھی نہیں ہے یہ مخلوق کو تنبیہ کرنے کے لیے تھا مگر بعض مخلوق کے ساتھ کیونکہ مخلوق اپنے قصور کی وجہ سے کسی بات کو نہیں سمجھتی مگر اپنی ذات کے ذریعے اور اپنی ذات سے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہ پہچانتا مگر اللہ وحدہ یہ ابن عربی کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے نور اور ہدایت کی مثال ہے جو بندہ مومن دل میں ہوتی ہے قریب ہے بندہ مومن ہدایت کے مطابق عمل کرے علم آنے سے پہلے، جب معرفت آنے سے پہلے حضرت ابراہیم نے کہا : ھذا ربی (الانعام :77) یہ آپ نے کسی کے خبر دینے سے پہلے کہا تھا کہ اب کوئی رب ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ وہ اس کا رب ہے تو ہدایت میں اضافہ ہوگیا اور فرمایا : قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین (البقرہ) اور جنہوں نے کہا : یہ بندہ مومن کے دل میں قرآن کی مثال ہے۔ فرمایا : جس طرح یہ چراگ روشن کیا جاتا ہے اور وہ کم نہیں ہوتا اسی طرح قرآن سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے اور کم نہیں ہوتا المصباح سے مراد قرآن ہے۔ الزجاجۃ سے مراد مومن کا دل ہے اور المشکاۃ سے مراد اس کی زبان اور اس کا فہم ہے۔ شجرہ مبارکہ سے مراد شجرۃ الوحی ہے۔ یکاد زیھا یضیء ولولم تمسسہ نار قریب ہے کہ قرآن کے دلائل واضح ہوجائیں اگرچہ نہ بھی پڑھے جائیں۔ نور علی نور یعنی قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کے لیے نور ہے باوجود اس کے کہ نزول قرآن سے پہلے اعلام و دلائل ان کے لیے قائم فرما دئیے تھے پس ان کے مزید اضافہ ہوگیا پھر بتایا کہ یہ نور عزیز ہے اسے کوئی حاصل نہیں کرسکتا مگر جس کی ہدایت کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے۔ فرمایا : یہدی اللہ لنورہ من یشائ، ویضرب اللہ الامثال للناس۔ یعنی اللہ تعالیٰ اشیاء کو افہام کے قریب کرنے کے لیے بیان فرماتا ہے۔ واللہ بکل شیء علیم وہ ہدایت یافتہ اور گمراہ سب کو جانتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہود نے کہا : اے محمد ﷺ اللہ کا نور آسمان کے نیچے کیسے پایا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال دی۔
Top