Al-Qurtubi - An-Noor : 37
رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ
رِجَالٌ : وہ لوگ لَّا تُلْهِيْهِمْ : انہیں غافل نہیں کرتی تِجَارَةٌ : تجارت وَّلَا بَيْعٌ : اور نہ خریدو فروخت عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَاِقَامِ : اور قائم رکھنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءِ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں يَوْمًا : اس دن سے تَتَقَلَّبُ : الٹ جائیں گے فِيْهِ : اس میں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) وَالْاَبْصَارُ : اور آنکھیں
(یعنی ایسے) لوگ جن کو خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خریدو فروخت۔ وہ اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں
رِجَالٌ (ایسے مرد) یہ یسبح کا فاعل ہے۔ شامی، ابوبکر نے یُسَبَّحُ پڑھا ہے، اور اس کا اسناد تینوں ظروف میں سے کسی ایک کی طرف کیا جاتا ہے میری مراد لہؔ، فیھاؔ بالغدو ہے اور رجال مرفوع ہے۔ اس بناء پر جس پر یسبحؔ دلالت کرتا ہے ای یسبح لہ۔ لَّا تُلْھِیْھِمْ (ان کو غافل نہیں کرتی) تِجَارَہٌ (کوئی تجارت) حالت سفر میں۔ وَّ لَا بَیْعٌ (اور خریدو فروخت) گھر موجودگی میں۔ ایک قول التجارۃ اسم جنس ہے مطلقًا خرید نامراد ہے خواہ کسی نوع کا ہو۔ ایک اور قول بیع کو تجارت کے بعد خاص طور پر ذکر کیا حالانکہ تجارت میں یہ شامل ہے کیونکہ بیع شراء کی نسبت غفلت میں زیادہ مبتلا کرنیوالی ہے۔ اس لئے کہ نفع بخش بیع میں نفع یقینی ہے اور شراء تو گمان نفع کا ہے۔ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ (اللہ تعالیٰ کی یاد سے) خواہ دل کے ساتھ ہو خواہ زبان سے وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ (اور نماز کے قائم کرنے سے) نماز کی اقامت سے۔ اقامۃؔ میں تاءؔ اس الف کے عوض میں ہے جو تعلیل کی وجہ سے ساقط ہوئی ہے یہ اصل میں اقواما تھا۔ جب وائو کو الف سے بدلا تو دو الف جمع ہوئے ایک التقائے ساکنین کی وجہ سے گرا دیا پس اقامًا باقی رہا محذوف کے بدلے تاءؔ کو لائے۔ جب مضاف کیا تو اضافت کو قائم مقام تاء ؔ کے لائے اور تاؔء کو ساقط کردیا۔ وَاِیْتَآ ئِ الزَّکٰوۃِ (زکوٰۃ کی ادائیگی سے) ای عن ایتاء الزکاۃ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی تجارت نہیں کہ جو ان کو غافل کر دے جیسا اولیائے عزلت۔ نمبر 2۔ خریدو فروخت کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے ہیں اور جب نماز کا وقت آجائے تو بوجھ محسوس کرنے کے بغیر فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں جیسا کہ اولیائے عشرت ہیں۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا (وہ ایسے دن سے ڈرتے ہیں) یعنی قیامت کا دن۔ یہ تلھیھم کی ضمیر سے حال ہے یا نمبر 2۔ رجالٌ کی صفت ثانی ہے۔ تَتَقلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ (جس میں بہت سے دل اور آنکھیں پلٹ جائیں گی) اس وجہ سے کہ دل حلق کو پہنچ جائیں گے۔ وَالْاَبْصَارُ (اور آنکھیں) پتھرانے کی وجہ سے یا نیلگوئی کے سبب نمبر 2۔ دل ایمان کی طرف پلٹ آئیں گے حالانکہ وہ پہلے کفر کرتے تھے۔ اور آنکھیں کھلے طور پر معائنہ کریں گی اس کے باوجود کہ وہ پہلے سرکشی کی وجہ سے انکاری ہونگی جیسا کہ دوسرے ارشاد میں ہے فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید۔ (ق : 22 )
Top