Al-Qurtubi - An-Noor : 50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠   ۧ
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ : کیا ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : کوئی روگ اَمِ : یا ارْتَابُوْٓا : وہ شک میں پڑے ہیں اَمْ : یا يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں اَنْ : کہ يَّحِيْفَ اللّٰهُ : ظلم کرے گا اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول بَلْ : بلکہ اُولٰٓئِكَ : وہ هُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ خدا اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے ؟ (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں
مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین۔ اطاعت کرتے ہوئے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ حق کے ساتھ فیصلہ فرماتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : اذعن فلان لحکم فلان یذعن اذعانا تسلیم کرنا نقاش نے کہا : مذعنین کا مطلب ہے خضوع کا اظہار کرتے ہوئے (1) مجاہد نے کہا : اس کا مطلب ہے جلدی کرتے ہوئے۔ اخفش اور ابن اعرابی نے کہا : اقرار کرتے ہوئے۔ افی قلوبھم مرض مرض سے مراد شک و شبہ ہے۔ امر ارتابوا۔ کیا انہیں آپ کی نبوت اور عدل میں شک پڑگیا ہے، ام یخافون ان یحیف اللہ علیہم ورسوللہ یا انہیں خوف ہے کہ فہصلی میں اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے۔ استفہام کے لفظ سے کلام ذکر کی کیونکہ یہ تو بیخ میں سخت ہے اور مذمت میں ابلغ ہے جیسے جرید نے مدح میں کہا : الستم خیر من رکب المطایا واندی العالمین یطون راح (1) بل اولئک ھم الظلمون۔ وہ معاند اور کافر ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ سے اعراض کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ فیصلہ کرنے کا اختیار مسلمانوں کے لیے ہوگا جب معاہد اور مسلم کے درمیان فیصلہ ہو۔ اس میں ذمیوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور اگر جھگڑا ذمیوں کے درمیان ہو تو پھر ان کا قاضی ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں ذمی اسلام کے قاضی کے پاس آئیں تو اس کی مرضی ہے چاہے تو فیصلہ کر دے چاہے تو اعراض کرلے جیسا کہ سورة مائدہ میں گزرا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ یہ آیت دلیل ہے کہ کوئی شخص کسی کو کسی جھگڑے میں تصفیہ کے لیے کسی قاضی کی طرف بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ضرور اس قاضی کے پاس جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سخت مذمت کی ہے جس کو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بلایا جائے تاکہ آپ اس کے اور اس کے خصم کے درمیان فیصلہ کریں اور وہ انکار کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : افی قلوبھم مرض، ابن خویز منداد نے کہا : جس کو قاضی کی عدالت میں بلایا جائے اسے جانا واجب ہے جبب کہ اسے معلوم نہ ہو کہ قاضی فاسق ہے یا مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان عداوت ہے۔ زہراوی نے حسن بن ابی الحسن سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اپنے خصم کو کسی مسلمان حاکم کی طرف بلایا اور وہ نہ آیا تو وہ ظالم ہے اور اسے حق نہیں ہے “ (2) یہ بھی ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ حدیث باطل ہے۔ رہا یہ قول کہ وہ ظالم ہے، یہ کلام صحح ہے اور رہا یہ قول کہ اس کا حق نہیں یہ صحیح نہیں ہے۔ اور یہ احتمال رکھتا ہے کہ اس کی مراد یہ ہو کہ وہ غیر حق پر ہے۔
Top