Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 10
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ١ؕ اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ
وَمِنَ : اور سے۔ کچھ النَّاسِ : لوگ مَنْ يَّقُوْلُ : جو کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَاِذَآ : پھر جب اُوْذِيَ : ستائے گئے فِي اللّٰهِ : اللہ (کی راہ) میں جَعَلَ : بنا لیا فِتْنَةَ : ستانا النَّاسِ : لوگ كَعَذَابِ : جیسے عذاب اللّٰهِ : اللہ وَلَئِنْ : اور اگر جَآءَ : آئے نَصْرٌ : کوئی مدد مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہتے ہیں اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ اَوَلَيْسَ : کیا نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِمَا : وہ جو فِيْ صُدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں الْعٰلَمِيْنَ : جہان
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے جب ان کو خدا (کے راستے) میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں کیا جو اہل عالم کے سینوں میں ہے خدا اس سے واقف نہیں ؟
اس سے مراد ہمارا دین ہے۔ امر کی وجہ سے فعل مضارع کو جزم دی گئی۔ فراء اور زجاج نے کہا : یہ شرط و جزا کی تاویل میں امر ہے۔ مراد اگر تم ہمارے دین کی اتباع کرو تو ہم تمہاری خطائوں کو اٹھا لیں گے۔ جس طرح شاعر نے کہا : میں نے کہا : اگر تو بلائے تو میں بھی بلائوں گا بیشک زیادہ اونچی آواز اس وقت ہوتی ہے جب دو بلانے والی دعوت دیں۔ شعر میں ادعی و ادع شرط و جزا کی صورت میں ہیں ان دعوت دعوتُ مہدوی نے کہا : انھم لکذبون کا اس کے بعد وقوع معنی پر حمل کرنے کی وجہ سے ہے کیونکہ معنی ہے اگر تم ہمارے دین کی اتباع کرو تو ہم تمہاری خطائوں کو اٹھائیں گے۔ جب صیغہ امر معنی میں خبر کی طرف راجع ہوتا ہے تو اس پر تکذیب واقع ہوتی ہے جس طرح خبر پر واقع ہوتی ہے۔ مجاہد نے کہا : قریش میں سے مشرکوں نے کہا : ہمیں اور تمہیں دوبارہ ہمیں اٹھایا جائے گا۔ اگر تم پر کوئی بوجھ ہوا تو وہ ہم پر ہوگیا، یعنی جو تم پر لازم ہوگا وہ ہم پر لازم ہوگا۔ یہاں حمل حمالہ کے معنی میں ہے یعنی ذمہ داری اٹھانے کے معنی میں ہے یہ پشت پر اٹھانے کے معنی میں نہیں ہے۔ روایت کی گئی ہے : یہ قول کرنے والا ولید بن مغیرہ ہے۔ ان کی حسنات سے فارغ ہونے کے بعد ان کے گناہ ان کے ذمہ کردیئے جائیں گے جن پر انہوں نے ظلم کیا تھا اس کا معنی نبی کریم ﷺ سے مروی ہے۔ سورة آل عمران میں بحث پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت ابو امامہ باہلی نے کہا : قیامت کے روز ایک آدمی لایا جائے گا جبکہ اس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اس سے لگا تار قصاص لیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ اس کی نیکیوں ختم ہوجائیں گی پھر اس سے مطالبہ لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا۔ میرے بندے سے قصاص (بدلہ) لو۔ فرشتے عرض کریں گے : اس کی تو نیکیاں باقی نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : مظلوم کی برائیاں اس سے لے لو اور اس کے ذمہ کر دو ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ قتادہ نے کہا : جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر اس کا بوجھ ہوگا اور جس نے اس پر عمل کیا اس کا بوجھ بھی اس پر ہوگا ان کے بوجھوں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (النحل 25) اس کی مثل حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (1) جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس پر اس کا بوجھ ہوگا اور اس کا بوجھ ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، جبکہ ان کے بوجھوں میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی : حضرت ابوہریرہ ؓ اور دوسرے راویوں سے روایت مروی ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس آدمی نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کی پیروی کی گئی اور اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے ان کے اجروں کی مثل اجر ہوگا جنہوں نے اس کی اتباع کی، ان کے اجروں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ جس داعی نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس کی پیروی کی گئی اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس پر ان کے بوجھوں کی مثل بوجھ ہوگا جنہوں نے اس کی اتباع کی ان کے بوجھوں میں سے کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی “۔ پھر حضرت حسن بصری (رح) نے اس آیت کی تلاوت کی : میں کہتا ہوں : یہ مرسل ہے، یہ ہی حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث کا معنی ہے امام مسلم (رح) نے اسے نقل کیا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ کی رسول ﷺ سے حدیث کا متن یہ ہے : ابن ماجہ نے اسے سنن میں نقل کیا ہے جو بھی داعی گمراہی کی طرف دعوت دے تو اس کی اتباع کی جائے تو اس کے لئے ان کے بوجھوں کی مثل بوجھ ہوگا جنہوں نے اس کی اتباع کی اور ان کے بوجھوں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی اور جو بھی دعوت دینے والا ہدایت کی طرف دعوت دے تو اس کی اتباع کی جائے تو اس کے لئے ان کے اجروں کی مثل اجر ہوگا جنہوں نی اس کی اتباع کی اور ان کے اجروں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ اس باب میں حضرت ابو حجیفہ اور حضرت جریر سے مروی حدیث بھی ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ظالم کے مددگار ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد اس کے بدعتی ہیں جب ان بدعتیوں کی اتباع کی جائے ایک قول یہ کیا گیا ہے : نئے نئے کام کرنے والے جب ان کے بعد ان پر عمل کیا جائے۔ معنی قریب قریب ہے، حدیث سب کو جامع ہے۔
Top