Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
و ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔ کسائی نے کہا : ابراہیم کا لفظ انجینا کی وجہ سے منصوب ہے یعنی اس کا عطف ہاء ضمیر پر ہے ؎ کسائی نے اسے جائز قرار دیا ہے کہ اس کا عطف نوح پر ہے معنی ہے ہم نے ابراہیم کو بھیجا۔ ایک تیسرا قول ہے کہ یہ اذکر فعل کی وجہ سے منصوب ہے۔ کی ذات کو عبادت میں خاص کرو۔ اس کے عقاب اور اس کے عذاب سے ڈرو۔ بتوں کی عبادت سے یہ بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ اوثان کا معنی بت ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا : صنم اسے کہتے ہیں جو سونے، چاندی اور تانبے کا بنایا جاتا ہے اور روشن جو گچ یا پھتر سے بنایا جاتا ہے۔ جوہری نے کہا : وثن سے مراد بت ہے اس کی جمع وثن اور اوثان آتی ہے جس طرح اسد اور اوساد۔ حضرت حسن بصری نے کہا : کا معنی ہے تم تراشتے ہو (1) معنی ہے تم بتوں کی عبادت کرتے ہوئے جبکہ تم خود ان کو بناتے ہو۔ مجاہد نے کہا : الافک سے مراد جھوٹ ہے معنی ہے تم بتوں کی عبادت کرتے ہو جبکہ تم جھوٹ گھڑتے ہو (2) ابو عبدالرحمن نے تخلقون قرأت کی ہے اسے تخلقون پڑھا گیا ہے یہ خلق سے کثرت کے معنی میں ہے اور تخلقون یہ تغلق سے ممشتق ہے جو تکذب اور تخرص کے معنی میں ہے اسے افکا بھی پڑھا گیا ہے اس میں دو وجوہ ہیں : یہ مصدر ہو۔ جس طرح کذب اور لعب ہے افک اس سے مخفف ہے جس طرح کذب اور لعب ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے یہ فعل کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے یعنی خلقا افکا یعنی یہ تعبدون کی وجہ سے منصوب ہے اور ماکافہ ہے۔ قرآن کے علاوہ میں اوثان کو رفع دینا بھی جائز ہے کہ ما ان کا اسم ہے تعبدون اس کا صلہ ہے اسم کے لمبا ہونے کی وجہ سے ضمیر کو حذف کردیا۔ اور اوثان کو ان کی خبر بنا دیا ہے۔ یہ فعل کی وجہ منصوب ہے کسی اور کی وجہ سے منصوب نہیں۔ اس طرح یعنی تم اپنے رزق کے لئے اپنی رغبتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دو صرف اسی سے سوال کرو کسی غیر سے سوال نہ کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے : یعنی جھٹلانا کفار کی عادت ہے اور رسولوں پر صرف تبلیغ لازم ہے۔ عام قرأت کے ساتھ ہے یہ خبر اور اس کی توبیخ کے لئے ہے : یہ عبید اور ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ ابو عبید نے کہا : امتوں کے ذکر کے لئے یاء کے ساتھ پڑھا گویا فرمایا : ابو بکر، اعمش، ابن وثاب، حمزہ اور کسائی نے پڑھا تروا اس وقت یہ خطاب کا صیغہ ہوگا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ یہ کہا گیا ہے : قریش کو خطاب ہے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول نہیں۔ ہائر ضمیر سے مراد خلق اور بعث ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ پھلوں کو کیسے پیدا فرماتا ہے وہ زندہ ہوجاتے ہیں پھر فنا ہوجاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ پیدا فرماتا ہے یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اسی طرح انسان کی تخلیق کا آغاز فرماتا ہے پھر اس سے بچے کی پیدائش کے بعد ہلاک کردیتا ہے اس کے بچے سے بچہ جنم لیتا ہے۔ اس طرح باقی حیوانات بھی ہیں جب تم نے ابداء اور ایجاد پر اس کی قدرت کو دیکھ لیا تو وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ کیونکہ جب وہ کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرماتا ہے : کن فیکون۔
Top