بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
الم۔ احسب الناس۔۔۔۔۔ سورتوں کے آغاز میں حروف مقطعات کے بارے میں بات گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : معنی ہے میں اللہ، بہتر جانتا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سورت کا نام ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ قرآن کا نام ہے۔ آحسب میں ہمزہ استفہام کا ہے مراد تقریر و توبیخ ہے۔ حسب کا معنی ظن ہے۔ آن یترکو محل نصب میں ہے جس کو نصب حسب نے دی ہے۔ سیبویہ کے قول کے مطابق یہ اور اس کا صلہ دو مفعولوں کے قائم مقام ہیں۔ ان یقولو میں ان دو توجہیوں میں سے ایک توجیہ کے مطابق محل نصب میں ہے۔ معنی ہے لان یقولو بان یقولو علی ان یقولوا۔ دوسری جہت کی بناء پر اس میں تکرار ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے : حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء نے کہا : الناس سے مراد مومنوں کی قوم ہے (5) جو مکہ مکرمہ میں تھے قریش کے کفار اسلام قبول کرنے کی وجہ سے انہیں اذیتیں اور تکالیف دیا کرتے تھے۔ جس طرح حضرت سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ، حضرت ولید بن ولید، حضرت عمار بن یاسر، حضرت یاسر ان کے والد، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور بنی مخزوم کے کچھ افراد وغیرہ۔ یہ آیت نازل ہوئی تاکہ تسلی دے اور تعلیم دے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں میں یہی معمول ہے کہ وہ مومنوں کو آزماتا ہے اور فتنہ میں ڈالتا ہغ۔ ابن عطیہ نے کہا : اگرچہ یہ آیت اسی سبب سے نازل ہوئی یا اس معنی میں جو اقوال ہیں ان میں نازل ہوئی۔ یہ حضرت محمد ﷺ کی امت میں باقی ہے اس کا حکم آخر زمانہ تک موجود رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش مسلمانوں کی سرحدوں میں باقی رہے گی کبھی کسی کو گرفتار کرلیا جائے گا، کبھی دشمن کی جانب سے کوئی اذیت پہنچے گی اس کے علاوہ بھی صورتحال ہو سکتی ہے۔ اگر ہر جگہ کا اعتبار کیا جائے تو بھی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ بیماریاں واقع ہوں اور مختلف قسم کے امتحان واقع ہوں، لیکن وہ مصیبت جو قریش کی جانب سے واقع ہوئی اس کے مشابہ وہ ہے جو سرحد پر دشمن کی جانب سے واقع ہو سکتی ہے جس کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے۔ میں کہتا ہو : انہوں نے جو کہا کتنا اچھا کہا، جو کہا سچ کہا : مقاتل نے کہا : یہ آیت حضرت مجمع جو حضرت عمر ؓ کا غلام تھا اس کے بارے میں نازل ہوئی (1) یہ غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی جانب سے پہلا شہید تھا۔ عامر بن حضری نے اسے تیر مارا اور اسے شہید کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا : سید الشھد امجع و ھو اول میں یدعی الی باب الجنتہ من ھذہ الامۃ : شہیدوں کا سردار مجمع ہے یہ اس امت کا وہ پہلا شخص ہے جسے جنت کے دروازے کی طرف دعوت دی جائے گی۔ اس کے والدین اور اس کی بیوی نے اس پر جزع فزع کی تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ شعبی نے کہا : اس سورت کا آغاز ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوا (2) جو مسلمانوں میں سے مکہ مکرمہ میں تھے۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے حدبییہ سے انہیں خط لکھے کہ تمہارا اسلام کا اقرار کرنا قبول نہ کیا جائے گا یہاں تک تم ہجرت نہ کرو وہ نکلے تو مشرکوں نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں اذیتیں دیں تو ان کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی تو صحابہ نے انہیں خط لکھے کہ ان کے بارے میں فلاں فلاں آیت نازل ہوئی ہے تو انہوں نے کہا : ہم نکلیں گے اگر کسی نے ہمارا پیچھا کیا تو ہم اس سے جنگ کریں گے مشرکوں نے ان کا پیچھا کیا تو انہوں نے ان سے جنگ کی ان میں سے کچھ قتل ہوئے اور کچھ نجات پا گئے۔ تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، (النحل 110) و ھم لا یقون کہ ان کا امتحان نہ لیا جائے گا۔ کیا ان لوگوں نے گمان کرلیا ہے جنہوں نے مشرکوں کی اذیتوں سے گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ ان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم مومن ہیں اور ان کے امان، ذات اور اموال میں امتحان نہ لیا جائے گا جس سے ان کے ایمان کی حقیقت واضح ہوجائے۔ ہم نے گزشتہ لوگوں کو بھی آزمایا جس طرح حضرت خلیل کو آگ میں پھینکا گیا اور جس طرح کہ وہ قوم جو اللہ تعالیٰ کے دین کی وجہ سے آریوں سے چیر دی گئی تو وہ اس سے نہ پلٹے۔ امام بخاری نے حضرت حباب بن ارت ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں شکایت کی جبکہ آپ ﷺ کعبہ کے سائے میں چادر کو تکیہ بنائے ہوئے تھے، ہم نے آپ ﷺ سے عرض کی : کیا آپ ﷺ ہمارے لئے مدد طلب نہیں کریں گے ؟ کیا آپ ﷺ ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے ؟ فرمایا : تم سے قبل ایک آدمی کو پکڑا جاتا زمین میں اس کے لئے گڑھا کھودا جاتا آری لائی جاتی، اسے اس کے سر پر رکھ دیا جاتا تو اس کو نصف نصف کردیا جاتا اس کے گوشت اور ہڈیوں کو لوہے کی کنگی سے جسم سے الگ کیا جاتا تو یہ عمل اسے اس کے دس سے نہ پھیر سکتا۔ اللہ کی قسم ! یہ امر مکمل ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا، تو اسے کسی چیز کا خوف نہ ہوگا، سوائے اللہ اور ریوڑ پر بھیڑئیے کے لیکن تم تو جلدمی مچا رہے ہو “ (1) ۔ امام ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کو سخت بخار تھا میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو میں نے لحاف کے اوپر سے اپنے ہاتھ میں آپ کے جسم کی حرارت کو پایا۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ پر کس قدر شدید ہے ؟ فرمایا :” ہمارے لئے اسی طرح آزمائش کئی گنا ہوتی ہے اور ہمارے لئے کئی گنا اجر ہوتا ہے۔ “ (2) ۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے ازروئے آزمائش کے کون سب سے زیادہ سخت ہیں : فرمایا ” انبیائ “۔ میں نے عرض کی : پھر کون ؟ فرمایا ” صالحین) (3) ۔ ان میں سے کسی کو فقر سے آزمایا جاتا ہے وہ کوئی چیز نہیں پاتے مگر عباء جسے پھاڑ کر وہ گریبان بنا لیتا ہے ان میں سے کوئی آزمائش سے یوں خوش ہوتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی ایک خوشحالی سے خوش ہوتا ہے۔ “ حضرت سعد بن وقاص ؓ سے مروی ہے فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے کون سخت مصیبت والا ہوتا ہے ؟ فرمایا ” انبیاء پھر درجہ میں ان سے نیچے پھر درجہ میں ان سے نیچے ایک آدمی کو اس کے دین کے حساب سے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے آزمائش بندے کے ساتھ رہتی ہے یہاں تک وہ اسے یوں کر چھوڑتی ہے کہ زمین پر چلتا ہے تو اس پر کوئی خطا نہیں ہوتی “۔ (4) عبدالرحمن بن زید نے روایت کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک وزیر تھا ایک دن و سوار ہوا تو ایک درندے نے اسے پکڑ لیا اور اسے کھا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے رب : تیرے دین میں میرا وزیر، بنی اسرائیل پر میرا نائب اور ان میں میرا خلیفہ تو نے اس پر ایک درندہ مسلط کردیا تو وہ درندہ اسے کھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اس کا میرے ہاں بلند مرتبہ تھا میں نے اس کا کوئی عمل ایسا نہ پایا جو اسے اس مقام تک پہنچائے تو میں نے اسے اس آزمائش میں ڈالا تو یہ عمل اسے اس مقام تک پہنچا دے گا۔ وہب نے کہا : میں نے حواری کی ایک کتاب میں دیکھا جب اللہ تعالیٰ تجھے آزمائش کے راستے پر چلائے تو آنکھ ٹھنڈا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تجھے انبیاء اور صالحین کے راستے پر چلایا ہے اور جب تجھے خوشحالی کے راستے پر چلائے تو اپنی ذات پر رو تحقیق تجھے ان کے راستے سے مختلف راستہ پر چلایا گیا ہے۔ تاکہ جو ایمان میں سچے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دکھائے۔ سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ زجاج نے کہا : تاکہ اللہ تعالیٰ صادق کے صدق کو اس کی جانب سے صدق کے وقوع کو جانے جبکہ اللہ تعالیٰ صادق کو کاذب سے ان دونوں کی تخلیق سے پہلے بھی جانتا ہے لیکن یہاں ارادہ اس علم کے وقوع کا ہے جس پر جزا دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ صادق کے صدق کو واقع اور اس کے وقوع کو واقع ہونے والا جانتا ہے جبکہ وہ پہلے ہی جانتا ہے کہ ایسا وقوع ہوگا۔ نحاس نے کہا : اس میں دو قول ہیں (1) صدقوا یہ صدق سے مشتق ہے اور الکذبین کذب سے مشتق ہے جو صدق کی ضد ہے۔ معنی ہوگا انہوں نے جو سچ بولا اللہ تعالیٰ اسے واضح فرمائے گا۔ انہوں نے کہا تھا : ہم مومن ہیں اور اس کی مثل اعتقاد کیا۔ جب انہوں نے اس کے خلاف اعتقاد رکھا تو انہوں نے جھوٹ بولا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ صدقوا یہ صدق ہے مشتق ہے جو صلب ہے اور الکذبین یہ کذب سے مشتق ہے جس کا معنی شکت کھانا ہے تو معنی ہوگا اللہ تعالیٰ انہیں جانے جو جنگ میں ثابت قدم رہے اور جنہوں نے شکت کھائی۔ جس طرح شاعر نے کہا : عثر کے مقام پر شیر بہادروں کا شکار کرتا ہے اور وہ اس وقت بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے جب شیر اپنے ہم پلہ افراد کے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لیعلمن کے لفظ کو فلیبینن کی جگہ مجازا ذکر کیا۔ جماعت کی قرأت فلیعلمن یا اولام کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے یاء کے ضمہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ اسی معنی کی وضاحت کرتی ہے جو نحاس نے کہا : یہ لفظ تین معانی کا احتمال رکھتا ہے (1) ان صادقین اور کاذبین کو ان کے ثواب اور عقاب کی منازل اور دنیا میں جو ان کے اعمال تھے آخرت میں انہیں آگاہ کردے گا (2) مفعول اوِّل مخدوف ہے اس کی تقدیر یہ ہوگی لوگوں اور عالم کو ان صادقین اور کاذبین پر آگاہ کردے گا یعنی انہیں رسواء کر دے اور انہیں مشہور کردے۔ صادقین خیر میں کاذبین شر میں مشہور ہوجائیں۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہوگا (3) یہ فعل علامت سے مشتق ہے یعنی ہر طائفہ کے لئے ایک علامت بنا دے جس کے ساتھ وہ مشہور ہوجائے۔ اس تعبیر کی بناء پر یہ آیت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ من اسر سھیرۃ المسہ اللہ ردامطا (1) ” جس نے راز کو پوشیدہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے چادر زیب تن کرائے گا۔ “
Top