Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 20
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ
قُلْ : فرما دیں سِيْرُوْا : چلو پھرو تم فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ بَدَاَ : کیسے ابتدا کی الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ يُنْشِئُ : اٹھائے گا النَّشْاَةَ : اٹھان الْاٰخِرَةَ : آخری (دوسری) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
کہہ دا کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا پھر خدا ہی پچھلی پیدائش کرے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
اے محمد ﷺ : تم انہیں کہو زمین میں گھومو، پھرو۔ دیکھو تو اللہ تعالیٰ نے کیسے مخلوق کو پیدا کیا جبکہ تعداد میں وہ کثیر ہیں، ہیبتییں مختلف ہیں، زبان، رنگ اور طبیعتیں مختلف ہیں تم سابقہ قوموں کے مسکن، گھر، آ اور آثار دیکھو اللہ تعالیٰ نے کیسے انہیں ہلا کہ تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کو پہچانو۔ ابو عمرو اور ابن کثیر نے النشائۃ شین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا اور دنوں لغتیں ہیں جس طرح رأفۃ اور رآفۃ۔ جوہری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کو پیدا کیا، اسم نشاۃ اور نشائۃ کے ساتھ ہے یہ ابو عمرو بن علاء سے مروی ہے۔ اپنے عدل کے ساتھ جس کو عذاب دینا چاہتا ہے۔ اور اپنے فضل کے ساتھ جس پر رحم کرنا چاہتا ہے۔ اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔ فراء نے کہا : معنی ہے یعنی نہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں۔ عربی لغت میں یہ امر مبہم ہے کیونکہ دوسرے حصے میں ضمیر ظاہر نہیں، یہ حدیث حضرت حسان کے قول کی طرح ہے : تم میں سے جو رسول اللہ کی ہجو کرے اور جو آپ کی مدح اور مدد کرے وہ برابر ہیں۔ یہاں اس سے کا ارادہ کیا ہے، من کو مضمر کیا، یہ عبدالرحمن بن زید کا قول ہے، اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، (الصافات) یہاں بھی اصل میں من لہ تھا، من مضمر ہے۔ معنی ہے اللہ تعالیٰ کو اہل زمین میں اور اہل سماء آسمان میں عاجز نہیں کرسکتے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں۔ قطرب نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے : یعنی نہ آسمان میں اگر تم آسمان میں ہوتے، جس طرح تو کہتا ہے، معنی ہے اگر وہ بصرہ چلا جائے تب بھی میری گرفت سے باہر نہیں ہو سکتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ وہ نہ زمین میں بھاگ جانے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ وہ آسمان میں بھاگ جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مبرو نے کہا : معنی ہے اور نہ وہ آسمان میں ہیں اس بناء پر کہ من موصولہ نہیں ہے، بلکہ نکرہ ہے۔ فی السماء اس کی صفت ہے۔ صفت کو موصوف کے قائم مقام رکھا۔ علی بن سلیمان نے اس کا رد کیا اور کہا : یہ جائز نہیں اور کہا : من جب نکرہ ہو تو اس کی صفت کا لگانا ضروری ہے تو اس کی صفت صلہ کی طرح ہوگی۔ موصول کا حذف اور صلہ کا ترک جانا جائز نہیں۔ معنی ہے لوگوں کو اسی کی چیز کے ساتھ خطاب کیا گیا جس کی وہ عقل رکھتے تھے۔ معنی ہے اگر تم آسمان میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو عاجز نہ کرسکتے، جس طرح فرمایا : (النسائ :78) بھی جائز ہے کیونکہ محل رفع کا ہے اور من زائد ہے۔ آیات سے مراد قرآن ہے یا ادلہ اور اعلام میں سے جن کو قائم کیا گیا۔ رحمت سے مراد جنت ہے اس کو ان کی طرف منسوب کیا گیا معنی ہے ان کو مایوس کردیا گیا۔ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی جانب سے جملہ معترضہ کے طور پر ہیں تاکہ اہل مکہ کو یاد دلایا جائے اور انہیں نصیحت کی جائے، پھر خطاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کی طرف لوٹتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی تو ان کا جواب یہ تھا : پھر انہوں نے آپ کو جلانے پر اتفاق کیا ؎ یعنی آگ کی اذیت سے نجات دی۔ یعنی اس بڑی آگ سے آپ کو نجات دینے میں، یہاں تک کہ آگ میں جب آپ کو پھینکا گیا تو اس نے آپ کو نہ جلایا۔ لایت عام قرأت جواب کی باء کی نصب کے ساتھ ہے کیونکہ یہ کان کی خبر ہے۔ ان قالو یہ محل رفع میں ہے یہ کان کا اسم ہے سالم افطن اور عمرو بن دینار نے جواب کا لفظ رفع کے ساتھ پڑھا ہے (1) کہ یہ کان کا اسم ہے اور ان خبر کے محل میں ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ وقال یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : حفص اور حمزہ نے مردۃ بینکم پڑھا ہے۔ ابن کثیر ابو عمرو اور کسائی نے مردۃ بینکم قرأت کی ہے۔ جہاں تک ابن کثیر کی قرأت ہے تو اس میں تین توج ہیں ہیں، زجاج نے ان میں دو کا ذکر کیا ہے۔ مردۃ کا لفظ ان کی خبر کی وجہ سے مرفوع ہے اور مالذی کے معنی میں ہے تقدیر کلام یہ ہے دوسری توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ مبتسدا مضمر ہو کہ تقدیر کلام یہ ہوگی : معنی ہے تمہارے الہ یا تمہاری جماعت تمہارے درمیان محبت ہے۔ ابن انباری نے کہا : اوثانا یہ وقف اس کے لئے اچھا ہے جس نے مردۃ کو رفع دیا اس تقدیر کی بناء پر ذلک مردۃ بینکم نے جس نے مردۃ کو اس بناء پر رفع دیا کہ ان کی خبر ہے وہ اس پر وقف نہیں کرے گا۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ جس کو اس نے ذکر نہیں کیا کہ مردۃ کا لفظ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور فی الحیاہ الدینا اس کی خبر ہو۔ جہاں تک مردۃ کے لفظ کو بینکم کی طرف مضاف کرنے کا تعلق ہے تو بینکم کو اسم بنایا جائے گا مگر یہ ظرف نہ ہوگا۔ نحوی کہتے ہیں : اسے مجاز کی بناء پر مفعول بہ بنایا ہے۔ سیبویہ نے حکایت بیان کی ہے۔ اس کی طرف مضاف کرنا جائز نہیں اس حال میں کہ یہ ظرف ہے وہ ایسی علت ہے جس کے ذکر کا یہ محل نہیں جس نے مردۃ کو رفع دیا۔ اور اسے تنوین دی تو یہ اس معنی کی بناء پر ہے جو ذکر کیا گیا بینکم ظرف ہونے کی بناء پر منصوب ہے جس نے مردۃ کو رفع دیا اور اسے تنوین نہ دی اس نے اس کو مفعول بنایا کیونکہ اتخذ کا فعل اس پر واقع ہو رہا ہے انما ایک حرف ہے اس نے اسے الذی کے معنی میں نہیں بنایا۔ مردۃ کو اس وجہ سے نصب دیا بھی جائز ہے کہ مفعول لاجلہ ہے جس طرح تو کہتا ہے : کو مجرو و پڑھا بھی جائز ہے۔ جس نے مردۃ کو تنوین دی اور اسے نصب دی تو یہ اس تاویل کی بناء پر ہے جس کو ذکر کیا گیا بینکم منصوب ہے اضافت کے بغیر ہے ابن ابناری نے کہا : جس نے مردۃ پڑھا اس نے اوثانا پر وقف نہیں کیا۔ اس نے الحیاۃ الدنیاۃ پر وقف کیا آیت کا معنی ہے تم نے بتوں کو یوں بنا دیا ہے کہ اس پر باہم محبت کرتے ہو اور دنیاوی زندگی میں ان کی عبادت پر باہم محبت کرتے ہو۔ ثم بت اپنے عباد گزاروں اور سردار اپنے تابعداروں سے برأت کا اظہار کردیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الزخروف) یہ بتوں کے عبادت گزاروں کو خطاب ہے وہ ان میں سے سردار ہوں یا پیرو کار ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ : اس میں بت داخل ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الانبیائ 98)
Top