Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1:۔ قبلۃ کی ضمیر کتاب کی طرف لوٹ رہی ہے جو قرآن ہے جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ اے محمد ﷺ آپ اس سے قبل اسے نہیں پڑھتے تھے اور اہل کتاب سے اختلاف نہیں کرتے تھے بلکہ ہم نے اسے اعجاز کے انتہائی درجہ پر فائز فرما کر غیوب کا ضامن بنا کر اور دوسرے مقاصد کے لئے اسے نازل کیا۔ اگر آپ کتاب پڑھتے ہوتے اور حروف لکھا کرتے تو اہل کتاب میں سے باطل پرست شک میں مبتلا ہوجاتے اور ان کے شک کی کوئی وجہ بھی ہوتی۔ وہ کہتے ہم نے اپنی کتابوں میں تو اسے امی پایا ہے جو نہ لکھا ہے اور نہ پڑھتا ہے پس یہ وہ نہیں : مجاہد نے کہا : اہل کتاب اپنی کتابوں میں پاتے کہ حضرت محمد ﷺ نہ لکھتے ہیں اور نہ پڑھتے ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ نحاس نے کہا : یہ قریش کے لئے آپ ﷺ کی نبوت پر دلیل ہے کیونکہ نہ آپ ﷺ پڑھتے، نہ لکھتے اور نہ ہی اہل کتاب کے ساتھ میل جول رکھتے اور نہ ہی مکہ مکرمہ میں کوئی اہل کتاب تھا جو ان کے پاس انبیاء اور امتوں کی خبریں لاتا۔ پس ریب اور شک زائل ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 2:۔ نقاش نے اس آیت کی تفسیر میں امام شعبی سے یہ ذکر کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا وصال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ نے لکھا اور ابو کبشہ سلولی کی حدیث کو بھی ذکر کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عینیہ بن حصن کا صحیفہ پڑھا اور اس کا معنی بیان کیا (1) ۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ سب ضعیف ہے اور باجبی رحمتہ اللہ تعالیٰ کا قول بھی اسی سے متعلق ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح مسلم میں حضرب براء ؓ کی حدیث میں ہے جو صلح حدیبیہ کے متعلق ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی شیر خدا کو فرمایا : ہمارے درمیان معاہدہ لکھو، (2) ۔ مشرکوں نے آپ ﷺ سے کہا : اگر ہم جانتے کہ اللہ کا رسول ہے تو ہم آپ کی اتباع کرتے۔ ایک روایت میں تابعنک کی جگہ بایعناک کے الفاظ ہیں بلکہ لکھو محمد بن عبداللہ، حضرت علی شیر خدا کو حکم دیا کہ وہ اس کو مٹا دے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے عرض کی۔ اللہ کی قسم : میں اسے نہیں مٹائوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھے اس کی جگہ دکھائو ” حضرت علی شیر خدا نے وہ جگہ دکھائی اور حضور نے اسے مٹا دیا۔ اور ابن عبداللہ لکھا۔ ہمارے علماء کہتے ہیں اس کا ظاہر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رسول اللہ کا کلمہ اپنے ہاتھ سے مٹایا اور اس کی جگہ ابن عبداللہ لکھا۔ امام بخاری نے اس سے بھی ظاہر روایت ذکر کی ہے کہا : یا رسول اللہ ﷺ نے مکتوب لیا اور لکھا (3) ۔ ایک او سند سے یہ اضافہ کیا : آپ اچھی طرح نہیں لکھتے تھے۔ ایک جماعت نے کہا : اس کے ظاہر سے کتاب کا جواز ثابت ہوتا ہے کہ حضور نے اپنے ہاتھ سے لکھا ان میں سے سمنانی، ابو ذر اور باجی ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ یہ آپ ﷺ کے امی ہونے میں قدح کا باعث نہیں اور کے خلاف نہیں اور نہ ہی حضور ﷺ کے ارشاد : (4) کے خلاف ہے۔ ہم ایسے لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں اور نہ ہی حساب جانتے ہیں بلکہ انہوں نے اسے معجزات میں ایک اور اضافہ کے طور پر دیکھا ہے اور آپ کی صداقت اور رسالت کی صحت پر اظہار کے طور پر دیکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے کتابت سیکھے بغیر کتابت کی اور نہ ہی اس کے اسباب کو حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ہاتھ اور آپ کے قلم پر ایسی حرکات جاری کیں جن سے ایسے خطوط عیاں ہوتے جن کا مفہوم ابن عبداللہ تھا جس نے بھی اسے پڑھا۔ یہ عادت کے خلاف تھا۔ جس طرح حضور ﷺ کچھ سیکھے اور اکتساب کے بغیر اولین و آخرین کا علم رکھتے تھے۔ یہ آپ کے معجزات میں بلیغ ترین اور فضائل میں سب سے عظیم ہے اس کے ساتھ آپ سے ای کا نام زائل نہیں ہوتا، اسی وجہ سے اس حالت میں راوی آپ ﷺ کے بارے میں یہ کہتا ہے آپ اچھی طرح نہیں لکھتے تھے۔ پس لکھنے کے باوجود امی کا نام باقی رہا۔ ہمارے شیخ ابو العباس احمد بن عمر نے کہا : اندلس کے کثیر فقہاء اور دوسرے علماء نے اس کا انکار کیا۔ انکار میں شدت کا اظہار کیا اور اس کے قابل کی طرف کفر کی نسبت کی ہے۔ کفر کی یہ نسبت کرنا علوم نظریہ کے نہ ہونے اور مسلمانوں کو کافر قراردینے پر عدم آگاہی پر دلیل ہے اور وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کیونکہ مسلمان کو کافر قرار دینا اس کے قتل کی طرح ہے جس طرح صحیح میں حضور ﷺ سے حدیت آئی ہے خصوصاً ایسے آدمی پر ایسا الزام دینا جس کے فضل، علم اور امامت پر لوگ گواہی دیتے ہوں کہ یہ مسئلہ قطعی نہیں بلکہ جس پر انحصار ہے وہ اخبار احادصحیہ کا ظاہر ہے مگر عقل اس کو محال قرار نہیں دیتی شریعت میں بھی کوئی ایسی قطعی دلیل نہیں جو اس کے وقوعہ کو محال قراردے۔ میں کہتا ہوں : بعض متاخرین نے کہا : جس نے یہ کہا یہ خارق للعادۃ امر کی نشانی ہے تو اسے کہا جائے گا۔ یہ ایسی نشانی ہوتی جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اگر یہ کسی اور آیت کے مناقض نہ ہوتی وہ یہ ہے کہ آپ امی ہیں آپ لکھتے نہیں آپ کے امی امت میں امی ہونے سے حجت قائم ہوجاتی ہے۔ انکار کرنے والوں کو خاموش کرایا جاسکتا ہے اور شبہ ختم ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیسے آپ کے ہاتھ کو یہ موقع دیتا کہ وہ لکھے اور ایک علامت بنے آیت تو یہ ہوتی وہ ہاتھ نہ لکھتا۔ معجزات کے بارے میں یہ محال ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔ کتب و اخذ القلم کا معنی ہے آپ نے اپنے کاتبوں میں سے کسی کو حکم دیا کہ وہ لکھے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں 26 کاتب تھے۔ مسئلہ نمبر 3:۔ قاضی عیاض نے حضرت معاویہ ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں لکھا کرتے تھے (1) تو حضور ﷺ نے حضرت معاویہ ؓ کو فرمایا : دوات رکھو اور قلم کو باریک کرو، باء کو لمبا کر کے لکھو، سین دندانے دار لکھو اور میم کو کا نا کر کے نہ لکھو، اللہ کو خوبصورت لکھو، رحمن کو مد سے لکھو اور رحیم کو عمدگی سے لکھو۔ قاضی عیاض نے کہا : اس چیز کو ذہن نشین کرلو، اگرچہ یہ روایت ثابت نہیں کہ حضور ﷺ نے لکھا کہ یہ کوئی بعید نہیں کہ حضور ﷺ کو اس کا علم دیا گیا ہو اور قرأت کتابت سے آپ کو روک دیا گیا ہو۔ میں کہتا ہوں : اس بات میں یہی صحیح ہے کہ حضور ﷺ نے نہیں لکھا ایک حروف بھی نہیں لکھا آپ نے کاتب کو لکھنے کا حکم دیا اسی طرح آپ نے (کسی صحیفہ) کو نہیں پڑھا اور نہ ہی ہجے کئے۔ اگر یہ کہا جائے : جب حضور ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو آپ نے ہجے کئے فرمایا ” اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ک، ا، ف، ر (1) ، جبکہ تم کہتے ہو کہ معجزہ اس صورت میں قائم ہے کہ آپ امی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اور حضور ﷺ نے فرمایا : ہم امی لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب جانتے ہیں تو پھر یہ کس طرح ؟ اس کا جواب وہ چیز ہے جو حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ کی حدیث میں بیان کی ہے حدیث قرآن کی طرح ہے جس کا بعض بعض کی تفسیر بیان کرتا ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث میں ہے :” اسے ہر مومن کاتب اور غیر کاتب پڑھتا ہے “ (2) ۔ اس میں غیر کاتب جو امیوں میں سے پر نص قائم کی ہے جو امر جلی ہے اس میں یہ سب سے واضح ہے۔
Top