Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 4
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
اَمْ حَسِبَ : کیا گمان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برے کام اَنْ : کہ يَّسْبِقُوْنَا : وہ ہم سے باہر بچ نکلیں گے سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں
کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ؟ جو یہ خیال کرتے ہیں برا ہے
ام احسب الذین یعلمون۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد وہ شرک ہے آن یسبقونا وہ ہماری گرفت سے نکل سکتے ہیں اور ہمیں عاجز کرسکتے ہیں قبل اس کے کہ ہم ان کا مواخذہ کریں ان اعمال کا جو وہ کرتے رہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : الذین سے مراد ولید بن مغیرہ، ابو جہل، اسود، عاص بن ہشام، شبہ، عتبہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط، حنظلہ بن ابی سفیان اور عاص بن وائل ہیں۔ انہوں نے اپنے رب کی صفات میں جو یہ فیصلہ کیا وہ کتنا برا فیصلہ ہے کہ اس پر سبقت لی جاسکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ مامحل نصب میں ہے یہ ساء شیاء او حکم یحکمون کے معنی میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ مامحل رفع میں ہو معنی ہوگا یہ زجاج کا قول ہے۔ ابن کیسان نے ان دو تقدیروں کے علاوہ دو اور تقدیریں مقدر کی ہیں۔ (1) مایحکمون شی واحد کی جگہ ہے جس طرح تو کہتا ہے : اعجبنی ما صنعت، یہاں ما صنعک، صنعیک کے معنی میں ہے ما اور فعل مصدر کے حکم میں ہیں اور محل رفع میں ہیں۔ تقدیر کلام یہ ہوگی، سائہ حکمھم، دوسری تقدیر یہ ہے کہ ما کا اعراب میں کوئی محل نہ ہو۔ یہ ساء کے اسم کے قائم مقام ہے اسی طرح نعم اور بئس ہے۔ ابو الحسن بن کیسان نے کہا : میں اس امر کو پسند کرتا ہوں کہ جہاں تک میں قادر ہوں کہ میں مَا کا کوئی محل بنائوں (1) ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آل عمران 159) اسی طرح (النسائ 155) اور اسی طرح (القصص 28) ان تمام مواقع پر مامحل جر میں ہے اور اس کا مابعد اس کے تابع ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (البقرہ 26) اس میں ما محل نصب میں ہے اور بعوضۃ اس کے تابع ہے۔ یہ یخاف کے معنی میں ہے ہذلی شہد اتارنے والے کے بارے میں کہتا ہے : جب شہد کی مکھیاں اسے ڈستی ہیں توہ ان کے ڈنگوں سے نہیں ڈرتا۔ اہل تفسیر نے اس پر اجماع کیا کہ معنی ہے جو آدمی موت سے ڈرتا ہے وہ عمل صالح کرے کیونکہ موت آنا ضروری ہے، یہ نحاس نے ذکر کیا ہے : زجاج نے کہا کا معنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امید رکھتا ہے۔ (2) من مبتدا ہونے کی حیثیت سے محل رفع میں ہے۔ کان یہ خیبر کے محل میں ہے۔ یہ شرط کی وجہ سے محل جزم میں ہے۔ یرجواکان کی خبر کی جگہ اور ……ہے۔ جو آدمی دین میں جہاد کرتا ہے، کفار سے قتال اور طاعات کے اعمال پر صبر کرتا ہے۔ تو وہ اپنے لئے ہی کوشاں ہوتا ہے۔ یعنی ان کا سب کا ثواب اسے ہی ملے گا ان میں سے کسی چیز کا نفع اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے غنی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جو آدمی اپنی ذات کے لئے اس کے دشمن سے جہاد کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے جہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ والذین آمنو جنہوں نے تصدیق کی کہ ہم مغفرت کے ساتھ ان کو ڈھانپ لیں گے۔ ان کے احسن اعمال جو طاعات ہیں کا بدلہ دیں گے پھر یہ کہا گیا : یہ احتمال موجود ہے ان کی ہر وہ معصیت بخش دے گا جو انہوں نے حالت شرک میں کی۔ اور حالت اسلام میں جو انہوں نے اعمال حسنہ کئے ان پر ان کو ثواب دیا جائے گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ کفر اور اسلام دونوں میں ان سے واقع ہونے والی سیئات کو بخش دے گا اور حالت کفر و اسلام میں انہوں نے جو نیکیاں کیں ان پر انہیں بدلہ دیا جائے گا۔
Top