بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسین
یسین میں قرأت کی کئی صورتیں ہیں۔ اہل مدینہ اور نسائی نے نون کو واد میں ادغام کر کے پڑھا ہے۔ ابو عمروف ‘ اعمش اور حمزہ نے یٰسٓکو نون کے اظہار کے ساتھ پڑھا ہے عیسیٰ بن عمر نے یٰسنٓ یعنی نون کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس ‘ ابن ابی اسحاق اور نصر بن عاصم نے اسے نون کے کسرہ کی ساتھ پڑھا ہے۔ ہارون اعور اور محمد بن سمیقع نے یٰسنٓ نون کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ پانچ قرائتیں ہیں۔ پہلی قرأت ادغام کے ساتھ ہے جس طرح لغت عربیہ میں ضروری ہے کیونکہ نون کو واو میں مدغم کیا جاتا ہے جس نے ادغام کے بغیر پڑھا ہے اس نے کہا : حروف ہجاء کا طریقیہ ہے کہ ان پر وقف کیا جائے ادغام تو درمیان کلام میں ہوتا ہے وقف پر نہیں ہوتا۔ سیبویہ نے نصب کا ذکر کیا ہے اور نصب دو وجوہ سے ذکر کی ہے : (1) ایک صورت تو یہ مفعول ہے وہ اسے مصرف قرار نہیں دیتے کیونکہ اس کے نزدیک یہ عجمی لفظ ہے اور ہابیل کے قائم مقام ہے تقدیر کلام یہ ہے اذکر یٰسٓ سیویہ نے اسے سورت کا نام بنا دیا ہے (2) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مبنی برفتحہ ہے جیسے کیف اور این ہے۔ جہاں تک کسرہ کا تعلق ہے فراء نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ عربوں کے قول : جیر افعل کے شابہ ہے اس سورت میں یس قسم ہوگی ‘ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا یہ امس ‘ حزام ‘ ھولاء اور رقاش کے مشابہ ہے۔ جہاں تک اس کے مضموم ہونے کا تعلق ہے تو اس صورت میں یہ منذ ‘ حیث اور قط کے مشابہ ہے اور منادی مفرد کے مشابہ ہے جب تو کہے : یا رجل جو آدمی اس پر وقف کرتا ہے ابن سمیقع اور ہارون نے کہا : اس کی تفسیر میں یا رجل کہا ہے ‘ مناسب اس پر ضمہ ہے۔ ابن انبارمی نے کہا : جس نے کہا یہ سورت کا آغاز ہے تو اس کے لئے وقف کرنا اچھا ہے جس نے کہا : یٰسٓ کا معنی یا رجل تو اس پر وقف نہ کرے۔ حضرت ابن عباس ‘ حضرت ابن مسعود ؓ سے یہ مروی ہے کہ اس کا معنی ہے اے انسان ‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان : سلم علی ال یاسین) الصافات ( کے بارے میں کہا یعنی آل محمد پر سلامتی ہو (1) ۔ سعید بن جبیر نے کہا : یہ سورت حضرت محمد ﷺ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اس کی دلیل انک لمن المرسلین ہے سید حمیرمی نے کہا : یا نفس لا تمحضی بالنصح جاہدۃ علی المودۃ الا آل یاسین (2) اے نفس ! حضرت محمد ﷺ کی ذات کے سوا کسی سے محبت کرنے میں نصیب کو خالص نہ کر جبکہ تو کوشش کرنے والا۔ ابوبکر وارق نے کہا : اس کا معنی ہے اے سید البشر ! ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے امام مالک کا قول ہے ‘ اشہب نے ان سے روایت کیا ہے۔ جس نے آپ سے پوچھا کیا کیس کے لئے مناسب ہے کہ نام یاسین رکھ لے ؟ فرمایا : میں تو اسے مناسب خیال نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یٰسٓ والقرآن الحکیم اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یہ میرا نام یٰسٓ ہے ابن عربی نے کہا : یہ بہت عمدہ کلام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بندے کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے رب کے اسماء میں سے ایسا نام رکھ لے جب کہ اس بندے میں اس کا عنی موجود ہے جو جس طرح عالم ‘ قادر ‘ سید اور متعلم سے امالک نے یٰسٓ نام رکھنے سے اس لئے منع فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے جس کا معنی معلوم نہیں بعض اوقات کوئی ایسا وصف ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ یکتا ہوتا ہے تو اس لئے یہ جائز نہیں کہ بندہ اس پر آگے بڑھے۔ اگر یہ سوال کیا جائے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : سلم علی ال یاسین) الصافات ( ہم اس کا جواب دیں گے : یہ حروف تہجی کے ساتھ لکھا گیا ہے اس لئے اس کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے یہیٰسٓ ایسا اسم ہے جس کے ہجے نہیں لکھے گئے ‘ امام مالک نے اس کے بارے میں یہی گفتگو کی ہے کیونکہ اس میں اشکال موجود ہے ‘ اللہ تعالیٰ بہتر جاتا ہے۔ بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آغاز یاء اور سین کے ساتھ کیا ہے ان دونوں میں خیر ہی خیر ہے شروع کرنے والے کی اس پر راہنمائی کی گئی ہے کہ یہ سورت دل ہے اور دل جسم کا امیر ہے اسی طرح یٰسٓ تمام قرآن کے معانی پر مشتمل ہے۔ علماء نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ سعید بن جبیر اور عکرمہ نے کہا : یہ حبشہ کی لغت کا لفظ ہے۔ شعبی نے کہا : یہ سریانی زبان کا لفظ ہے ‘ عربوں نے اپنی زبان میں اسے استعمال کیا تو یہ ان کی لغت کا ایک لفظ بن گیا۔ یہ بحث سورة طہٰ اور کتاب کے مقدمہ میں مفصل گزرچکی ہے۔ قاضی عیاض نے یٰسٓ کے معنی کے متعلق مفسرین کے اقوال اچھی طرح بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ میرے ‘ میرے رب کے ہاں دس نام ہیں ان میں طہٰ اوریٰسٓ کا ذکر کیا۔ میں نے کہا : ماوردی ہے نے حضرت علی شیر خدا ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ” اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں میرے سات ناموں کا ذکر کیا ہے محمد ‘ احمد ‘ طہ ‘ یس ‘ مزمل ‘ مدثر اور عبداللہ (1) “ یہ قاضی عیاض کا قول ہے۔ ابو عبدالرحمن سلمی نے امام جعفر صادق (رح) سے یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ ارادہ کیا ہے اے سید ! اس میں نبی ﷺ کو خطاب کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے یٰسٓ کا معنی ہے اے انسان ! اس سے حضرت محمد ﷺ کا ارادہ کیا ہے ‘ کہا : یہ قسم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک ہے ‘ زجاج نے کہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اے محمد ! ایک قول یہ کیا گیا : اے مرد ! ایک قول یہ کیا گیا ہے : اے انسان ! ابن حنفیہ سے مروی ہے یٰسٓ سے مراد ہے اے محمد ﷺ ! کعب سے مروی ہے یٰسٓ سے مراد قسم ہے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے تخلیق سے دو ہزار سال پہلے اس کے ساتھ قسم اٹھائی فرمایا : اے محمد ! تو مرسلین میں سے ہے پھر فرمایا : والقران الحکیم۔ اگر یہ مقدر کیا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے اور یہ صحیح ہو کہ یہ قسم ہے تو اس میں تعظیم کا پہلو موجود ہوگا اس پر دوسری قسم کا جو عطف کیا گیا ہے اس کے ساتھ پہلی قسم کو مٔوکد کیا گیا ہے اگر یہ ندا کے معنی میں ہو تو اس کے بعد قسم اس لئے آئی ہے تاکہ آپ ﷺ کی رسالت کو ثابت کیا گیا جائے اور آپ ﷺ کی ہدایت پر گواہی دی جائے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف وحی کی ‘ آپ ایمان کی صراط مستقیم پر ہیں یعنی یہ ایسا راستہ ہے جس میں کوئی کمی نہیں اور حق سے کوئی اعراض نہیں۔ نقاشی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپ ﷺ کے سوا کسی کی رسالت کے لئے قسم نہیں اٹھائی اس میں نبی کریم ﷺ کے لئے عظمت اور شرف کا اظہار ہے۔ یہ تعبیر اس کے مطابق ہے جس نے اس کی یہ تاویل کی یا سید کو ین کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں (2) “ ان کی گفتگو اپنے اختتام کو پہنچی۔ قشیری نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ نے ارشاد فرمایا : قریش کے کفار نے کہا تو مرسل نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہماری طرف مبعوث نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی قسم اٹھا کر فرمایا : آپ رسولوں میں سے ہیں۔ حکیم کا معنی محکم ہے یہاں تک کہ باطل اور تناقض لاحق نہیں ہوتا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : احکمت ٰایتہ) ہود (1: اسی طرح یہ قرآن نظم اور معنی میں محکم ہے اسے کوئی خلل لا حق نہیں ہوتا بعض اوقات لفظ حکیم اللہ تعالیٰ کے حق میں محکم کے معنی میں ہوتا ہے جس طرح الیم مئولم کے معنی میں ہوتا ہے۔ علی صراط مستقیم یعنی دین مستقیم پر ہوتا ہے اس سے مراد اسلام ہے۔ زجاج نے کہا : اس سے مراد ہے آپ سابقہ انبیاء کے طریقہ پر ہیں۔ کہا : لمن المرسلین ان کی خبر ہے (1) اور علی صراط مستقیم دوسری خبر ہے یعنی آپ رسولوں میں سے ہیں اور آپ صراط مستقیم پر ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جنہیں استقامت پر بھیجا گیا تو اس صورت میں علی صراط مستقیم المرسلین کا صلہ ہوگا ‘ یعنی آپ ان رسولوں میں سے ہیں (2) جنہیں صراط مستقیم پر بھیجا گیا تھا ‘ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : و انک لتہدی الی صراط مستقیم) شوری ( یعنی اللہ تعالیٰ کا رابطہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ تنزیل العزیز الرحیم ابن عامر حفص ‘ اعمش ‘ یحییٰ ‘ حمزہ ‘ نسائی اور خلف نے تنزیل پڑھا ہے یعنی یہ مفعول مطلق ہے تقدیر کلام یہ ہے۔ نزل اللہ ذالک تنزیلا (3) مصدر کو مضاف کیا تو وہ معرفہ ہوگیا جس طرح یہ قول ہے فضرب الرقاب) محمد : (4 یہ اصل میں ضرباللرقاب تھا باقی قراء نے تنزیل کو رفع کر ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں یہ مبتدا مخدوف کی خبر ہوگی تقدیر کلام یہ ہوگی ہو تنزیل یا تقدیر یہ ہوگی الذی انزل الیک تنزیل العزیز الرحیم (4) ۔ اس نقطہ لطیفہ کو محفوظ کرلو۔ اسے تنزیل کر کے بھی پڑھا گیا ہے اس وقت یہ قرآن سے بدل ہوگا اور تنزیل قرآن کی طرف لوٹے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹ رہا ہے معنی یہ بنے گا آپ ﷺ رسولوں میں سے ہیں اور آپ ﷺ عزیز و رحیم کی تنزیل ہیں ‘ اس صورت میں تنزیل ‘ ارسال کے معنی میں ہوگا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : قد انزل اللہ الیکم ذکرا رسولا یتلوا) الطلاق ( یہ جملہ بولا جاتا ہے : ارسل اللہ المطروانزلہ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کی حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل کی۔ جس نے اسے منصوب پڑھا ہے اس نے کہا : آپ ﷺ رسولوں میں سے ہیں جسے عزیز و رحیم کی جانب سے بھیجا گیا ہے العزیز یعنی اپنے مخالف سے انتظام لینے والا۔ الرحیم اہل اطاعت پر حیم ہے۔
Top