Al-Qurtubi - Yaseen : 30
یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
يٰحَسْرَةً : ہائے حسرت عَلَي الْعِبَادِ ڱ : بندوں پر مَا يَاْتِيْهِمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس سے يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی اڑاتے
بندوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا مگر اس سے تمسخر کرتے ہیں
30.32:۔ یحسرۃ علی العباد ‘ حرۃ منصوب ہے کیونکہ نکرہ کو ندا کی جا رہی ہے۔ بصریوں کے نزدیک نصب کے علاوہ کوئی صورت جائز نہیں۔ حضرت ابی کی قرأت میں یا حسرۃ العباد یعنی حسرۃ کا لفظ مضاف ہے (1) لغت میں حسرت کے معنی یہ ہے کہ انسان کو شرمندگی لاحق ہو جس کی وجہ سے یہ حسیر یعنی افسوس کرنے والا ہوجائے۔ قراء نے کہا : پسندیدہ قرائت نصب ہے۔ اگر نکرہ کو رفع دیا جائے جو صلہ کے ساتھ ملا ہوا ہو تو یہ بھی صورت درست ہے اور چند چیزوں سے دلیل قائم کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ انہوں نے عربوں سے سنا یا یامھتم بامرنا لاتھتم اور یہ مصرعہ پڑھا : یا دارغیرھا البلی تغیرا اے گھر ! جسے بوسیدگی نے تبدیل کردیا۔ نحاس نے کہا : اس میں تو نداء کے تمام احکام یا اکثر احکام کا ابطال ہے کیونکہ وہ خالص نکرہ کو رفیع دیتا ہے اور اسے جو اپنی طوالت میں مضاف کے قائم مقام ہوتا ہے اس کو رفع دیتا ہے اور تنوین کے حذف کے ساتھ رفیع دیتا ہے جب کہ وہ متوسط ہو اور اسے رفع دیتا ہے جو معنی میں مفعول ہو جب کہ ایسی علت نہ ہو جو اسے واجب کرے۔ عربوں سے جو کچھ اس نے حکایت بیان کی ہے وہ تو اس کے مشابہ نہیں جس کو اس نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ یامھتم بامرنا لاتھتم کی تقدیر تقدیم و تاخیر کی بنا پر ہے معنی ہے یا یھا المھتم الاتھتم بامرنا اس مصرعہ کی تقدیر کلام یون ہے یا ایتھا الدار پھر خطب کو تبدیل کیا اور کہا : اے لوگو ! اس گھر کی بوسیدگی نے بدل دیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : حتی ازا کنتم فی الفلک و جرین بھم) یونس (22: حسرۃ کا لفظ ندا کی وجہ سے منصوب ہے جس طرح تو کہتا : یا رجلا اقبل۔ ندا کا مطلب یہ ہوگا یہ حسرت کے حاضر ہونے کی جگہ ہے۔ طبری نے کہا : معنی ہے بندوں کی اپنی ذاتوں پر حسرت اور شرمندگی ہے کہ وہ اللہ کے رسولوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : معنی ہے ہائے بندوں پر ہلاکت۔ ان سے یہ بھی قول مروی ہے : یہ لوگ اس جگہ واقع ہوتے ہیں جن پر حسرت کی جاتی ہے۔ ربیع نے انس سے وہ ابوالعالیہ سے روایت نقتل کرتے ہیں : یہاں عباس سے مراد رسول ہیں اس کی وجہ سے کفار نے جب عذاب کو دیکھا تو انہوں نے کہا : یحسرۃ علی العباد تو انہوں نے قتل کرنے ‘ ایمان کو ترک کرنے پر حسرت کا اظہار کیا انہوں اس وقت ایمان کی تمنا کی جب ایمان انہیں کوئی نفع نہ دے سکتا تھا ‘ یہ مجاہد کا قول ہے۔ ضحاک نے کہا : جب کفار نے رسولوں کو جھٹلایا تو فرشتوں نے کفار پر حسرت کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یحسرژ علی العباد آدمی کا قول تھا جو شہر کے دور دراز حصہ سے دوڑتا ہوا آیا تھا جب قوم کے لوگ اسے قتل کرنے کے لئے جھپٹ پڑے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ ان تین افراد نے یہ بات کہی تھی جب قوم نے اس آدمی کو قتل کردیا تھا اور بھیجے گئے افراد ان سے جدا ہوگئے تھے یا انہوں نے تین بھیجے گئے افراد کے ساتھ اس آدمی کو بھی قتل کردیا جس طرح روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے : ہائے ان بھیجے گئے افراد پر افسوس ! اس آدمی پر افسوس کاش ! ہم ان پر اس وقت ایمان لاتے جس وقت ایمان انہیں نفع دیتا۔ اس کے بارے میں گفتگو مکمل ہوچکی ہے پھر نئے سرے سے گفتگو شروع کی فرمایا : ما یاتیھم من رسول۔ ابن یزید ‘ مسلم بن جندب اور عکرمہ نے یا حسرژ علی العباد پڑھا ماء کو ساکن پڑھا ہے مقصود بیان پر حرص دلانا ہے اور نفس میں معنی کو پختہ کرنا ہے کیونکہ موقع وعظ و نصیحت کا تھا عرب اس موقع پر اس قسم کا عمل کرتے ہیں اگرچہ وقف کا موقع نہ بھی ہو اس معنی میں وہ روایت بھی ہے جو نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں مروی ہے کہ آپ ﷺ ایک ایک حرف (1) قرائت کرتے مقصود بیان اور سمجھانے پر حرص دلانا تھا گویا حسرۃ پر وقف کو مقدر کیا اور ھاء کو کسرہ دیا پھر کہا : علی العباد یعنی میں بندوں پر حسرت کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباس ‘ ضحاک اور دوسرے علماء سے یہ مروی ہے یاحسرۃ العباد میں حسرۃ کا لفظ مضاف ہے اور علی کا لفظ مخذوف ہے۔ یہ مصحف کے خلاف ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہو تو العباد اس کا فاعل ہوگا گویا جب انہوں نے عذاب کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے حسرت کا اظہار کیا عو یہ کلام تیرے اس صورت میں عباد کا لفظ مفعول ہوگا گویا بندوں پر وہ حسرت کا اظہار کرتا ہے جو ان پر شفقت کرتا ہے جس نے یاحسہ ہ علی العباد کی قرائت کی ہے وہ اس معنی کو قوت بخشتی ہے سیبو یہ نے کہا میں ان کم اھلکنا سے بدل ہے یہاں کن خبر یہ ہے اس وجہ سے اس سے اس چیز کو بدل بنانا جائر ہے جو استفہام نہ ہو معنی اس کا یہ بن جائے گا : کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جن قوموں کو ہم نے ہلاک کیا ہے وہ ان کی طرف لوٹنے والے نہیں۔ فراء نے کہا : کم دو وجہ سے محل نصب ہیں : (1) یروا کی وجہ سے، اس پر دلیل حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات سے پیش کی ہے وہ قراءت اس طرح ہے الم یروا من اھلکنا (2) اھلکنا کی وجہ سے کم منصوب ہے۔ نحاس نے کہا : پہلا قول محال ہے کیونکہ کم میں اس لا ما قبل عمل نہیں کرتا کو ن کہ یہ استفہا حیہ ہے اور یہ بات محال ہے کہ استفہام ما قبل کی خبر پر داخل ہو جب یہ ہو تو اس وقت بھی اس کی صورت حال یہی ہوگی اگرچہ سیبو یہ نے ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور انھم کو کم سے بدل بنایا ہے۔ محمد بن زید نے اس کا شدید ترین رد کیا ہے اور کہا کم اھلکنا کی قوموں کو ہلاک کردیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ہب مسعود کی قرائت میں من اھلکنا ہے۔ حضرت حسن بصری نے اسے لنھم الیھم لایرجعون پڑھا ہے کیونکہ یہ جملہ مستانفہ ہے (2) یہ آیت اس آدمی کا رد ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ مخلوقات میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو موت کے بعد قیا مت سے پہلے لوٹیں گیں۔ و ان کل لما جمیع الدینا محضرون۔ سے مراد یوم قیامت ہے ‘ جزا کے لئے انہیں حاضر کیا جائے گا۔ اب عامر ‘ عاصم اور حمزہ نے لما پڑھا ہے جب کہ باقی قراء نے اسے لما پڑھا ہے۔ ان مشقلہ سے مخففہ ہے اس کا مابعد مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے اس کا مابعد خبر ہے جب اس کا لفظ بدل گیا تو اس کا عمل باطل ہوگیا اس کی خبر پر لام کی داخل کرنا لازم ہے تاکہ ان تاکیدیہ اور ان نافیہ کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ ابوعبیدہ کے نزدیک ما زائدہ ہے اس کے نزدیک تقدیر کلام ہوں ہوگی و ان کل لجمیع۔ فراء نے کہا جس نے اسے مشدد پڑھا ہے اس نے لما کو الا کے معنی میں بنایا ہے اور ان ‘ ما کے معنی میں ہے جس طرح یہ قوم ہے : ان ھو الا رجل بہ جنۃ) المومنون (25: وہ نہیں مگر ایسا آدمی جس کو جنون ہے۔ سیبویہ نے سائتک باللہ لما فعلت میں حکایت بیان کی ہے۔ کسائی نے کہا : یہ معروف نہیں۔ یہی بحث سورة ہود میں گزر چکی ہے۔ ہضرت ابی کی قرائت میں و ان منھم الاجمیع لدینا محضرون ہے۔
Top