Al-Qurtubi - Yaseen : 37
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ١ۖۚ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الَّيْلُ ښ : رات نَسْلَخُ : ہم کھینچتے ہیں مِنْهُ : اس سے النَّهَارَ : دن فَاِذَا : تو اچانک هُمْ : وہ مُّظْلِمُوْنَ : اندھیرے میں رہ جاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کے لئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے
یہ اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ اس کی قدرت اور اس کی اہمیت کے ثبوت پر علامت ہے سدخ کا معنی اتارنا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : سلخہ اللہ من دینہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے دین سے الگ کردیا پھر یہ نکالنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے روشنی جانے اور تاریکی کے آنے کو ‘ کسی شے سے چمڑے کو اتارنے اور جسم کے ظاہر ہونے کی طرح ہے پس یہ اشارہ ہے مظلون۔ وہ تاریکی میں داکل ہونے والے ہیں یہ جملہ بولا جاتا ہے : اظلمنا ہم رات کی تاریکی میں داخل ہوتے ہیں اظہرنا ہم ظہر کے وقت میں داکل ہوئے۔ ایک قول یہ کیا گیا منہ ‘ عنہ کے معنی میں ہے اس کا معنی ہے ہم نے اس سے دن کی روسنی کو الگ کردیا تو اچانک وہ تاریکی میں تھے کیونکہ دن کا نور ہوا میں داخل ہوتا ہے تو وہ روشن ہوجاتا ہے جب وہ ہوا سے نکل جاتا ہے تو وہ تاریک ہوجاتا ہے (1) ۔ والشمس تجری لمستقرلھا یہ جائز ہے کہ تقدیر کلام یوں ہو ایۃ لھم الشمس یہ بھی جائز ہے کہ الشمس اس فعل کی وجہ سے مرفوع ہو جس کی تفسیر مابعد فعل کرتا ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ الشمس مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو۔ تجری خبر ہے جو جاریۃ کے معنی میں ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان و الشمس تجری لمستقرلھا کے بارے میں سوال کیا۔ فرمایا : ” اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے (2) “ اس بارے میں حضرت ابوذر ؓ سے مروی ہے کہ ایک روز نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ “ صبحانہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا :” سورج چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ عرش کے نیچے اپنے سفر کی انتہا کرتا ہے پھر وہ سندہ ریز ہوجاتا ہے وہ اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا ہے : تو اٹھ اور جہاں سے تو آیا ہے اس کی طرف واپس لوٹ جا تو وہ صبح کے وقت اپنے مطلع سے طلوع کرتا ہے ‘ پھر وہ چلتا رہتا ہے لوگ اس سے کوئی عجیب چیز نہیں دیکھتے یہاں تک کہ وہ عرش کے نیچے اس ٹھکانے تک جا پہنچتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے : اٹھ تو مغرب سے کل صبح طلوع کر تو وہ مغرب سے طلوع کرے گا “۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو کہ یہ کب ہوگا ؟ یہ اس وقت ہوگا جس وقت کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا تھا اس نے اپنے ایمان میں کوئی خیر کا عمل نہ کیا تھا “۔ بخاری شریف کے الفاظ حضرت ابوذر ؓ سے یوں مروی ہیں (3) کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے اس وقت کہا جب سورج غرب ہوا : کیا تو جانتا ہے سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ فرمایا : ” یہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے وہ اجازت طلب کرتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے ممکن ہے وہ سجدہ کرے تو اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے وہ اجازت طلب کرے تو اسے اجازت نہ دی جائے اسے کہا جائے : جہاں سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جا تو وہ مغرب کی جانب سے طلوع کرے اللہ تعالیٰ کا فرمان : والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم۔ کا یہی مفہوم ہے۔ ترمذی شریف کے الفاظ حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس طرح مروی ہیں (1) : جب سورج غروب ہوگیا تو میں مسجد میں داخل ہوا جب کہ نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے ابوذر ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ “ میں عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ فرمایا :” یہ جاتا ہے سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے گویا اسے کہا جاتا ہے جہاں سے آیا ہے وہاں سے طلوع ہو تو وہ مغرب سے طلوع کرتا ہے پھر آپ ﷺ نے اس کی تلاوت کی “۔ ذالک مستقرھا کہا : یہ حضرت عبداللہ کی قراءت ہے۔ امام ترمذی حضرت ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ عکرمہ نے کہا : سورج جب غروب ہوتا ہے وہ عرش کے نیچے ایک محراب میں د اخل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسیبح بیان کرتا ہے یہاں تک کہ وہ صبح کرتا ہے جب وہ صبح کرتا ہے تو باہر آنے سے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرمایا ہے : جب میں نکلوں گا تو تیرے سوا میری عبادت کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : نکل اس وجہ سے تجھ پر کوئی قدغن نہیں میں ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی طرف جہنم بھیجو گا وہ اسے کھینچتے ہوئے لائیں گے یہاں تک کہ فرشتے ان سب کو جہنم میں داخل کریں گے “ کلبی اور دوسرے لوگوں نے کہا : اس کا معنی وہ غروب میں بعید ترین منزل کی طرف چلے گا پھر وہ قریب ترین منزل کی طرف لوٹے گا اس کا ٹھکانہ اس کا اس جگہ تک پہنچنا ہے جہاں سے وہ آگے نہیں جاتا ل کہ اس جگہ سے لوٹ آتا ہے جس طرح ایک انسان وہ مسافت طے کرتا ہے یہاں تک کہ آخری منزل تک پہنچتا ہے اور اپنا کام مکمل کرتا ہے پھر اس پہلی منزل کی طرف لوٹ آتا ہے جہاں سے اس نے اس سفر کا آغاز کیا تھا سورج کا اپنی آخری منزل تک پہنچنا جب کہ وہ اس کا مستقر ہے جب وہ ہمنعہ) جسے تیئس 23 جون ( طلوع ہوتا ہے یہ سال کا سب سے لمبا دن ہوتا ہے اور اس کی رات سب سے چھوٹی ہوتی ہے دن پندرہ گھنٹے کا ہوتا ہے اور رات نو گھنٹے کی ہوتی ہے پھر دن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور سورج لوٹ آتا ہے جب ثریا طلوع کرتا ہے تو رات اور دن برابر ہوجاتے ہیں تو رات اور دن میں سے ہر ایک بار بار گھنٹے کے ہوجاتے ہیں پھر وہ قریبی منزل تک پہنچ جاتا ہے اور نعائمہ) تیئس 23 دسمبر ( کو طلوع ہوتا ہے۔ یہ سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے اور رات پندرہ گھنٹے کی ہوتی ہے یہاں تک کہ فرغ دلوموخر) تیئس 23 مارچ ( کو طلوع کرتا ہے تو رات اور دن برابر ہوجاتے ہیں ہر رات دن سے ہر روز گھنٹے کا تئیسواں حصہ لیتی ہے ہر دن گھنٹے کا ایک تہائی لیتے ہیں اور ہر ماہ ایک گھنٹہ لیتا ہے یہاں تک کہ رات اور دن سے اسی طرح حصہ لیتا رہتا ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : سورج کے سال میں تین سو ساٹھ مطلع ہوتے ہیں ہر روز ایک مطلع میں نزول کرتا ہے پھر ایک سال تک اس میں نزول نہیں کرتا وہ انہیں منازل میں گردش کرتا رہتا ہے (2) یہی اس کا مستقر ہے یہ معنی میں اس جیسا جس کا زکر پہلے ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب سورج غروب ہوتا ہے اور اس کی جگہ تک جا پہنچتا ہے جس سے آگے تجاوز نہیں کرتا تو وہ طلوع ہونے تک اس کے نیچے قرار پر رہتا ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ نے جو کہا ہے وہ تمام اقوال کو جامع ہے اس میں غور کرو۔ حضرت ابن مسعود اور ہضرت ابن عباس رضی للہ عنہما نے کہا : یوں قرأت کی والشمس تجری لمستقرلھا کہ وہ رات اور دن میں جاری رہتا ہے اس میں نہ ٹھہرائو ہے نہ ہی قرار ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے روز اسے گرا دے گا۔ جس نے مصحف کی مخالف کی اس نے کہا : میں حضرت اب مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت کو پڑھتا ہوں۔ ابن انباری نے کہا : جس نے یہ قول نقل کیا ہے وہ باطل ہے اس پر اسے لوٹا دیا جائے کیونکہ ابو عمر نے ماجد سے ‘ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ابن کثیر نے مجاہد سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ والشمس تجری لمستقر لھا یہ دونوں سندیں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی گئی ہیں جن کی صحت پر اجماع گواہی دیتا ہے اور جو ضعیف سند کے ساتھ جماعت اور امت کے متفق علیہ مذہب کی مخالفت کرتا ہے یہ دونوں سندیں اس کو باطل کردیتی ہیں۔ میں کہتا ہوں : وہ ثابت شدہ احادیث جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کے قول کو رد کردیتی ہیں اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے وہ اللہ پر کتنا جری ہے۔ قول لمستقرلھا میں لام ‘ الی کے معنی میں ہے۔ مستقر سے مراد قرار کی جگہ ہے یعنی رات ‘ دن اور سورج کا جو مقام ذکر کیا گیا ہے یہ عزیز وعلیم و تقدیر ہے۔
Top