Al-Qurtubi - Yaseen : 39
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
وَالْقَمَرَ : اور چاند قَدَّرْنٰهُ : ہم نے مقرر کیں اس کو مَنَازِلَ : منزلیں حَتّٰى : یہاں تک کہ عَادَ : ہوجاتا ہے كَالْعُرْجُوْنِ : کھجور کی شاخ کی طرح الْقَدِيْمِ : پرانی
اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردیں یہاں تک کہ (گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ والقمر اس کی تقدیر کلام یوں ہے و ایۃ لھم القمر۔ یہ بھی جائز ہے کہ القمر مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہو کر فیوں نے اسے والقمر منصوب پڑھا ہے کیونکہ فعل مضمر ہے ‘ یہ ابو عبیدہ کا پسندیدہ مسلک ہے ‘ اس نے کہا : اس سے قبل نسلخ فعل ہے اور اس کے بعد قدرناہ فعل ہے۔ وہ ھاء میں عامل ہے۔ ابو حاتم نے کہا : اس میں رفع بہتر ہے کیونکہ تو نے ضمیر کی وجہ سے فعل کو اس سے غافل کردیا ہے تو اسے رفع دے گا۔ یہ قول کیا جاتا ہے : چاند کی منازل نہیں ہوتیں تو پھر کیسے ارشاد فرمایا : قدرنہ منازل اس بارے میں دو جواب ہیں : (1) اس سے مراد ہم نے اسے منازل والا بنا دیا ہے جس طرح وسل القریۃ) یوسف (82: سے مراد اہل قریۃ ہے (2) اصل کلام یوں تھا قدرنا لہ منازل پھر لام کو حذف کردیا گا وس کا حذف بہت اچھا ہے تاکہ فعل دو مفعولوں کی طرف واسطہ کے بغیر متعدد ہو جس طرح اس ارشاد میں ہے : واختار موسیٰ قومہ سبعین رجلا) الاعراف (155: منازل اٹھائیس ہیں۔ چاند ہر روز ایک منزل میں اترتا ہے وہ سرطان ‘ بطین ‘ ثریا ‘ دبران ‘ ہقعہ ‘ ہنعہ ‘ ذراع ‘ نثرہ ‘ طرف جبہہ ‘ خراتان ‘ صرف ‘ عواء ‘ سماک ‘ غفر ‘ زبانیان ‘ اکلیل ‘ قلب ‘ شولہ ‘ نعائم ‘ بلدہ ‘ سعدالذابح ‘ سعد بلع ‘ سعد السعود ‘ سعد الاخبیہ ‘ الفرغ المقدم ‘ الفرغ الموخر اور بطن الحوت (1) ۔ جب چاند اس آخری منزل میں پہنچتا ہے تو پھر پہلے کی طرف لوٹ آتا ہے وہ فلک کو اٹھائیس راتوں میں طے کرتا ہے پھر چھپ جاتا ہے پھر ہلال کی صورت میں طلوع کرتا ہے اور فلک طے کرنے میں منازل کی طرف لوٹ آتا ہے یہ بروج پر منقسم ہے ہر برج دو منزلیں اور ایک تہائی ہے حمل کے لئے سرطان ‘ بطین اور ثریا ایک تہائی ہے ‘ ثور کے لئے ثریا کے دو ثلث اور دبران اور ہقعہ کے دو تہائی ہیں ہر باقی کے لئے بھی یہی صورتحال ہے۔ سورة حجر میں بروج کے ناموں کا ذکر ہوچکا ہے۔ الحمد اللہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو آگ سے پیدا کیا ہے پھر طلوع کے وقت انہیں نور کا لباس عطا کیا جہاں تک سورج کے نور کا تعلق ہے تو وہ وعرش کے نور سے ہے جہاں تک چاند کے نور کا تعلق ہے تو وہ کرسی کا نور ہے وہ ان کی پیدائس کی اصل اور یہ ان کی لباس ہے جہاں تک سورج کا تعلق ہے تو اس کے لباس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ شعاع والا اور روشن ہوتا رہے جہاں تک چاند کا تعلق ہے روح الامین نے اپنے پروں کو اس کے چہرہ پر پھیر تو اس کی روشنی کو پروں کے غلبہ سے مٹا دیا کیونکہ وہ روح ہیں اور روح اس کی سلطان ہے جو تمام اشیاء پر غالب ہے اس کا محو باقی رہا جیسا اسے مخلوق دیکھتی ہے پھر اسے پانی کے غلاف میں رکھ دیا پھر اس کے لئے گذر گاہ بنائی ہر رات مخلوق کے لئے اس غلاف سے اس قدر چاند ظاہر ہوتا ہے جس قدر وہ ان کے لئے ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا ظہور ان کے لئے مکمل ہوجاتا ہے اور مخلوق اس چاند کو مکمل اور پورا گول دیکھتی ہے پھر ہر رات اس میں سے کچھ حصہ اس غلاف کی طرف لوٹ جاتا ہے اور اسی مقدار سے دکھائی دینے میں کم ہوتا جاتا ہے جس قدر ظاہر ہونے میں ظاہر ہوا تھا اور اسی جانب سے نقصان میں کمی شروع ہوجاتی ہے جس جانب سورج اسے نہیں دیکھتا وہ اس کی وجہ اس کا خشک ہونا اور باریک ہونا ہے۔ اسے قمر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی سفیدی کی وجہ سے فضا کو سفید کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ چھپ جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ زجاج نے کہا : یہ کھجور کی ایسی شاخ ہے جس پر چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں ہوں (2) یہ انعراج سے فعلون کا وزن ہے انعراج کا معنی مڑ جانا ہے یعنی وہ اپنی منازل میں چلتا ہے جب وہ آخری منزل میں پہنچتا ہے تو وہ باریک ہوجاتا ہے۔ قوس دار ہوجاتا ہے اور تنگ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ کھجور کی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے اس تعبیر کی بنا پر نون زائدہ ہے قتادہ نے کہا : عرجون سے مراد کھجور کی خشک مڑی ہوئی شاخ ہے۔ ثعلب نے کہا العرجون سے مراد کھجور کا گھچا جب کاٹا جائے تو جو باقی رہے جائے وہ عرجون ہے القدیم سے مراد بوسیدہ ہے۔ خلیل نے کہا : عرجون سے مراد شاخ کی جڑ ہے یہ زرد رنگ کی چوڑی ہوتی ہے جب چاند ٹیڑھا ہوجاتا ہے تو اسے اس شاخ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جوہر نے کہا : عرجون نے مراد شاخ کی جڑ ہے جس کی چھوٹی شاخیں کاٹی دی جاتی ہیں تو وہ کھجور کے درخت پر ہی باقی رہتی ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : عرجنہ اسے شاخ کے ساتھ مارا ان لوگوں کے قول کے مطابق نون اصلیہ ہے اسی معنی میں اعشیٰ بن قیس کا شعر ہے : شرق الملک والعبیر بھا فھی صفراء کعرجون القمر کستوری اور عبیر اس پر چمک اٹھی وہ زرد ہے جس طرح چاند جب شاخ کے طرح ٹیڑھا ہوتا ہے کھجور کی شاخ جب خشک اور قوس دار ہوجاتی ہے تو چاند کی باریکی اور زردی میں اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسے اہان ‘ کباسہ اور قنو بھی کہتے ہیں ‘ ابل مصر اسے اسباط کہتے ہیں۔ اسے عرجون بھی پڑھتے ہیں (1) یہ فرحون کا وزن ہے یہ دنوں لغتیں ہیں جس طرح بزبون اور یذیون۔ زمحشری نے یہ ذکر کیا ہے اور کہا : عرجون کھجور کی شاخ کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو کھجور اور اس کے پتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھ سال چار موسموں پر منقسم ہے ہر موسم کی سات منازل ہیں پہلا موسم بہار ہے اس کا آغاز اذار) مارچ ( کی پندرہ تاریخ سے ہوتا ہے اس کے دنوں کی تعداد بانوے (92) ہے اس موسم میں سورج تین برج حمل ‘ ثور اور جوزاء اور سات منازل شرطان ‘ بطین ‘ ثریا ‘ دبران ‘ ہقعہ ‘ ہنعہ اور ذراع کو عبور کرتا ہے پھر موسم گرما حزیان) جون ( کو پندرہ تاریخ کو داخل ہوجاتا ہے اس کے دنوں کی تعداد بانوے (92) ہے اس موسم میں سورج تین برجوں شرطان ‘ اسد اور سنبلہ اور سات منازل کو طے کرتا ہے وہ سات منازل نثرہ ‘ طرف جہہ ‘ خراتان ‘ صدقہ ‘ عواء اور سماک ہیں ‘ پھر ایلول) ستمبر (کی پندرہ تاریخ کو موسم خزاں داخل ہوجاتا ہے اس کے دنوں کی تعداد اکانوے (91) ہے اس موسم میں سورج تین برجون یعنی میزان ‘ عقرب اور قوس اور سات منازل یعنی غفر ‘ زبان ‘ اکلیل ‘ قلب ‘ شولہ ‘ نعائم اور بلدہ کو طے کرتا ہے کانون اول) دسمبر ( کی پندرہ تاریخ کو موسم سرما داخل ہوجاتا ہے اس کے دنوں کی تعداد نوے ہے بعض اوقات اس کے دنوں کی تعداد اکانوے ہوتی ہے اس موسم میں سورج تین برجون یعنی جدی ‘ دلو اور ہوت کو طے کرتا ہے اور سات منازل کو طے کرتا ہے سعد الذابح ‘ سعد بلع ‘ سعد سعود ‘ سعد اخبیہ ‘ فرغ مقدم ‘ فرغ موخر اور بطن حوت۔ یہ سریانیوں کی مہینوں کی تقسیم ہے تشرین اولاول) اکتوبر ( تشرین الثانی) نومبر ( نیسان) اپریل ( حزیران) جون ( اور ایلول) ستمبر ( یہ تیس دن کے ہوتے ہیں اشباط) فروری ( اٹھائی مکمل اور 1/4 دن کا ہوتا ہے اس سے ہم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرے اللہ تعالیٰ کا فرمان والقمر قدرنہ منازل کا یہی مفہوم ہے جب سورج ایک منزل میں ہوتا ہے تو ہلال اس کے بعد والی منزل میں پڑائو کرتا ہے اور فجر دو منزلیں اس سے پہلے ہوتی ہیں جب سورج اپریل کی پچیس تاریخ کو ثریا میں ہوتا ہے تو فجر شرطیں میں ہوتی ہے اور چاند بران میں پڑائو کرتا ہے پھر ہر رات میں اس کی ایک منزل ہوتی ہے یہاں تک کہ اٹھائیس راتوں میں وہ اٹھائیس منزل طے کرتا ہے یہی عزیز وعلیم کی تقدیر ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ زمحشری نے قدیم کی وضاحت کتے ہوئے کہا : جب وہ شاخ پرانی ہوجاتی ہے تو وہ باریک ٹہڑی اور زرد ہوجاتی ہے چاند کو اس کے ساتھ تین وجوہ سے تشبیہ دی جاتی ہے (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس چیز کی صفت قدیم کے لفظ کے ساتھ بیان کی گئی ہو اس کا کم سے کم عرصہ سال ہوتا ہے اگر کوئی آدمی کہے : کل مملوک لی قدیم فھو حر یا اس نے اپنی وصیت میں یہ قول کیا ہو تو جو غلام ایک سال یا اس سے زیادہ اس کی ملک میں رہا ہو تو وہ آزاد ہوجائے گا۔ میں کہتا ہوں : چاند پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان کا ذکر سورة بقرہ میں گذر چکا ہے۔ الحمد اللہ۔
Top