Al-Qurtubi - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
الیۃ لھم من تین معانی کا احتمال ہے : (1) یہ ان کے لئے عبرت ہے کیونکہ آیات میں عبرتیں ہیں (2) ان پر نعمت ہے کیونکہ آیات میں انعام ہے (3) انہیں خبردار کرنا ہے کیونکہ آیات میں خبردار کرنے کا پہلو موجود ہوتا ہے (1) ۔ انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون۔ سورت میں مشکل ترین آیت ہے کیونکہ انہیں ہی کشتی میں سوار کیا گیا تھا ‘ ایک قول یہ کیا گیا : اہل مکہ کے لئے نشانی ہے کہ ہم نے سابقہ قوموں کی اولادوں کو بھری کشتی میں سوار کیا۔ دونوں ضمیریں مختلف ہیں ‘ یہ مہدوی نے زکر کیا ہے۔ نحاس نے علی بن سلیمان کو کہتے ہوئے سنا ہے اور اس کی حکایت بیان کی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : دونوں ضمیریں اہل مکہ کے لئے ہیں کہ ذریتھم سے مراد ان کی اولادیں اور ان کے ضعیف لوگ ہیں پہلے قول کے مطابق الفلک سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے اور دوسری تاویل کی بنا پر یہ اسم جنس ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و احسان کا ذکر کیا کہ اس نے کشتیوں کو پیدا کیا ان میں انہیں سوار کردیا جس کے لئے چلنا اور سواری پر سوار ہونا مشکل ہوتا ہے جیسے اولادیں اور کمزور لوگ۔ اس تعبیر کی بنا پر دونوں ضمیریں متفق ہوں گی۔ ایک قول یہ کیا گیا : ذریۃ سے مراد آباء و اجداد ہیں (2) اللہ تعالیٰ نے جنہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار کیا آباء ذریت ہیں ‘ اور ابناء بھی ذریت ہیں اس کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے یہ ابو عثمان کا قول ہے۔ آباء کو ذریت اس لئے کہتے ہیں کیونکہ انہیں میں سے بیٹوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ ایک چوتھا قول یہ بھی ہے : ذریۃ سے مراد نطفے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مائوں کے پیٹوں میں اٹھایا اور ان بیٹوں کو فلک مشحون سے تشبیہ دی ‘ یہ حضرت علی شیرا خدا ؓ کا قول ہے ‘ ماوردی نے اس کا ذکر کیا ہے (3) ۔ سورة البقرہ میں لفظ ذریۃ کا اشتقاق اور اس کے بارے مفصل گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ مشحون کا معنی بھری ہوئی ہے۔ فلک کا لفظ واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ سورة یونس میں اس پر مفصل بحث گزر چکی ہے۔ مایرکبون۔ اصل میں ما یرکبونہ ہے اسم موصول کی طوالت کی وجہ سے صلہ کی ضمیر حذف ہے اس لئے بھی کہ یہ ایت کا سرا ہے اس کے معنی میں تین قول ہیں (1): مجاہد ‘ قتادہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا مذہب ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ من مثلہ سے مراد اونٹ ہے ‘ اونٹ خشکی میں سواری کے لئے اسی طرح پیدا کیا گیا ہے جس طرح سمندر میں سواری کے لئے کشتی پیدا کی گئی ہے۔ عرب اونٹوں کو کشتیوں سے تشبیہ دیتے ہیں ‘ طرفہ نے کہا کان حدوج المالکیۃ غدوۃ خلایاسفین بالنواصف من دد (1) گویا صبح کے وقت مالکیہ کے حودج بڑی کشتیاں ہیں جو دو کے کھلے میدان میں ہیں۔ خلایا ‘ خلیۃ کی جمع ہے جس کا معنی بڑی کشتی ہے۔ (2) اس سے مراد اونٹ ‘ چوپائے اور سواری کا ہر جانور ہے۔ (3) اس سے مراد کشتیاں ہیں۔ نحاس نے کہا : یہ قول صحیح ترین ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ سے سند متصل کے ساتھ مروی ہے کہ و خلقنالھم من مثلہ ما یرکبون۔ سے مراد اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کشتیاں بنائیں جو اونٹوں کی مثل ہیں جن میں وہ سوار ہوتے ہیں۔ ابو مالک نے کہا : اس سے مراد چھوٹی کشتیاں ہیں (2) جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی کشتیوں کی طرح بنایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت حسن بصری سے اسی طرح مروی ہے۔ ضحاک اور دوسرے علماء نے کہا : اس سے مراد وہ کشتیاں ہیں جنہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے بعد بنایا گیا ہے۔ ماوردی نے کہا : حضرت علی شیر خدا ؓ کی تاویل کے نتیجے میں یہ پانچواں قول سمجھ آتا ہے کہ فلک مشہون میں ذریۃ سے مراد وہ نطفے ہیں جو عورتوں کے بطن میں ہیں کہ اس کا معنی یہ ہو کہ عورتیں اس لئے پیدا کی گئیں ہیں تاکہ خاوندان پر سوار ہوں (3) لیکن میں نے کسی کو یہ بیان کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ و ان نشا نغرقھم یعنی ہم انہیں سمندر میں غرق کردیئے۔ ضمیر اصحاب ذریت کی طرف لوٹے گی یا سب کی طرف لوٹے گی یہ تاویل حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے جس نے یہ کہا : من مثلہ سے مراد کشتیاں ہیں اونٹ نہیں تو ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا (4) ‘ یہ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے۔ شیبان نے قتادہ سے یہ قول نقل کیا ہے : ان کے لئے کوئی پناہ گاہ نہ ہوگی۔ دونوں کا معنی قریب قریب ہے صریح ‘ مصرخ کے معنی میں ہے یعنی فعیل ‘ مفعل کے معنی میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے فلاصریخ لھم کیونکہ اس کے بعد ایسی چیز ہے جس میں رفع کے بغیر کوئی چیز جائز نہیں ‘ نحوی یہ پسند کرتے ہیں لا رجل فی الدار ولا زید۔ لا ھم ینقذون۔ کا معنی ہے انہیں غرق ہونے سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عذاب سے انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا مگر ہماری رحمت ہی انہیں عذاب سے بچائے گی۔ کسائی نے کہا : الا رحمۃ یہ مستثنی کی حیثیت سے منصوب ہے۔ زجاج نے کہا : مفعول لہ کی حیثیت سے منصوب ہے یعنی رحمت کے لئے متا عاً اس کا معطوف ہے۔ حین سے مراد موت ہے ‘ یہ قتادہ کا قول ہے یحییٰ بب سلام نے کہا : قیامت تک مراد ہے معنی ہوگی مگر یہ کہ ہم ان پر رحمت کریں اور ان کی آجال تک انہیں لطف اندروز ہونے دیں (5) ۔ اللہ تعالیٰ سابقہ امتوں کا عذاب جلدی لے آیا اور حضرت محمد ﷺ کی امت کے عذاب کو موت اور قیامت تک مٔوخر کردیا اگرچہ وہ رسول اللہ ﷺ کو جھٹلائیں۔
Top