Al-Qurtubi - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو تمہارے آگے اور جو تمہارے پیچھے ہے اس سو ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
قتادہ نے کہا : ما بین ایدیکم سے مراد تم سے قبل کی امتوں کے واقعات ہیں (1) اور وما خلفکم سے مرادآخرت ہے۔ حضرت ابن عباس ‘ ابن جبیر اور ماجد نے کہا : ما بین ایدیکم سے مراد سابقہ گناہ ہیں (2) اور وما خلفکم سے مراد آنے والے گناہ ہیں حضرت حسن بصری نے کہا : ما بین ایدیکم سے مراد جو تمہاری عمر گزر چکی ہے (3) اور وما خلفکم سے مراد جو باقی ماندہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ما بین ایدیکم سے مراد دنیا ہے اور وما خلفکم سے مراد عذاب آخرت ہے ‘ یہ سفیان کا قول ہے۔ ثعلبی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کے برعکس قول نقل کیا ہے کہ ما بین ایدیکم سے مراد امر آخرت اور اس کے لئے اعمال ہیں اور وما خلفکم سے مراد دنیاوی امور ہیں ان سے بچو اور اس کے ساتھ دھوکہ میں مبتلا نہ ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ مابین ایدیکم سے مراد جو تمہارے لئے ظاہر ہے اور وما خلفکم سے مراد جو تمہارے لئے مخفی ہے (4) ۔ جواب مخدوف ہے تقدیر کلام یہ ہوگی : اذا قیل لھم ذلک اعرضوا اس کی دلیل ما بعد قول ہے : وما تاتیھم من ایۃ من آیت الا کانو عنھا معرضین جواب کی بجائے اس دلیل پر اکتفا کیا۔ انفقوا سے مراد فقراء پر صدقہ کرو۔ حضرت حسن بصری نے کہا 0 یہودیوں کو جب فقراء پر صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایک قوم یہ کیا گیا : ضمیر کا مصداق مشرکین ہیں انہیں نبی کریم ﷺ کے فقراء صحابہ نے یہ کہا (5) : تم اپنے اموال میں سے جن کے بارے میں یہ خیال کرتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں وہ ہمیں دو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : و جعلوا للہ مما ذرامن الحرث و الانعام نصیبا) الانعام (136: وہ اسی پر دلالت کرتا ہے ‘ تو انہوں نے فقراء کو محروم رکھا اور مذاق کے طور پر کہا : اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں کھلاتا ہم تمہیں کچھ بھی نہ کھلائیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے دین کی طرف لوٹو۔ انہوں نے کہا : کیا ہم تمہیں دیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے کھلاتا۔ انہیں مسلمانوں کا یہ قول پہنچا تھا کہ رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے تو انہوں نے مذاق کیا انداز میں کہا : کیا ہم اسے کھلائیں کہ اللہ تعالیٰ اگر اسے کھلانا چاہتا تو اسے غنی کردیتا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں زنا دقہ تھے (1) جب انہیں مساکین پر صدقہ کرنے کا حکم دیا جاتا تو وہ کہتے : اللہ کی قسم ! نہیں کیا اللہ تعالیٰ تو اسے فقیر بنائے اور ہم اسے کھلائیں ؟ وہ مومنوں کی باتیں سنا کرتے وہ افعال کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کرتے وہ کہتے : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فلاں کو غنی کردیتا ‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فلاں کو عزت دے دیتا ‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس طرح ہوجاتا۔ انہوں نے یہ جواب مومنوں کا استہزاء کرنے کے لئے نکالا اور اس کا مذاق اڑانے کے لئے دیا جو مومن امور کو اللہ تعالیٰ مشیت کی طرف معلق کردیتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے انہوں نے یہ قول اس لئے کیا تھا تاکہ مومنوں کے قول کو اپنے ساتھ مشروط کردیں انفقوا مما رزقکم اللہ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ تمہیں بھی رزق دے تو پھر تم ہم سے کیوں رزق طلب کرتے ہو ؟ یہ استدلال باطل تھا کیونکہ الہ تعالیٰ جب کسی بندے کو مال کا مالک بناتا ہے پھر اس میں حق لازم کردیتا ہے گویا اتنا حصہ اس سے الگ کردیا تو اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہتی وہ اپنے اس قول لو یشاء اللہ اطعمہ ‘ میں سچے تھے لیکن دلیل میں جھوٹے تھے اس کی مثل اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے سیقول الذین اشرکوا لو شاء اللہ ما اشرکنا) الانعام (148: اور اللہ تعالیٰ کا فرامان ہے : قالو انشہد انک لرسول اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون۔ ) المنافقون ( اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان انتم الا فی ضلل مبین۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ کفار کا مومنوں کے حق میں قول ہے یعنی تم جو مال کا سوال کرتے اور حضرت محمد ﷺ کی اتباع کرتے ہو اس میں تم گمراہی میں مبتلا ہو۔ کہا : یہ مقاتل اور دوسرے علماء نے معنی کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کا کفار کے حق میں قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کا کفار کے حق میں قول ہے جب انہوں نے اس جواب کے ساتھ رد کیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مسلمان مساکین کو کھانا کھلایا کرتے تھے تو ابوجہل ان سے ملا اور کہا : اے ابوبکر ! کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان فقراء کو کھانا کھلانے پر قادر ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا : ہاں ‘ اس نے پوچھا : کیا وجہ ہے اس نے ان کو نہیں کھلایا ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو فقر کے ساتھ آزمایا اور کچھ لوگوں کو غنا کے ساتھ آزمایا ہے ‘ فقراء کو صبر کا حکم دیا اور اغنیاء کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا۔ تو ابو جہل نے کہا : اللہ کی قسم ! اے ابوبکر ! تو گمراہ ہے کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کھلانے پر قادر ہے اور وہ انہیں نہیں کھلاتا پھر تو انہیں کھلاتا ہے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : فاما من اعطی واتقی۔ و صدق بالحسنی۔ ) اللیل ( نازل ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ آیت زنادقہ کے حق میں نازل ہوئی ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو زندیق تھے وہ اس کائنات کے صانع پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اس قول کے ذریعے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے قشیری اور ماوردی نے اس کا ذکر کیا (1) ۔ جب کفار کو یہ کہا گیا : اتقوا ما بین ایدیکم وما خلفکم تو انہوں نے کہا : متی ھذا الوعد یہ قیامت کب برپا ہوگی ؟ یہ کفار کی جانب سے استہزاء تھا یعنی یہ وعید متحقق نہ ہوگی اللہ تعالیٰ کا فرمان : وہ صرف حضرت اسرافیل کے نفحہ کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں اپنی گرفت میں لے لے گی جب کہ وہ دنیا کے امور میں جھگڑ رہے ہوں گے تو وہ اسی جگہ مر جائیں گے ‘ یہ صعق کا نفحہ ہے۔ یخصمون میں پانچ قرأتیں ہیں : ابوعمرو اور ابن کثیر نے یخصمون پڑھا ہے یعنی یاء اور خاء کو مفتوح اور صاد پر شد پڑھی ہے ورش نے نافع سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اصحاب قرأت اور ورش کے سوا اصحاب نافع نے یخصمون روایت کیا ہے یعنی خاء کو ساکن اور صاد کو مشدد پڑھا ہے یعنی دو ساکنوں کو جمع ذکر کیا ہے۔ یحییٰ بن وثاب ‘ اعمش اور حمزہ نے اسے یخصمون پڑھا ہے خاء کو ساکن اور صادر کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے ‘ یہ خصمہ سے مشتق ہے۔ عاصم اور کسائی نے اسے یخصمون پڑھا ہے یعنی خاء مکسور اور صادر مشدد ہے اس کا معنی ہے وہ ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا۔ نفحہ انہیں آپہنچے گا جب کہ وہ آپس میں یہ دلائل قائم کر رہے ہوں گے کہ انہیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا (2) ۔ ابن جبیر ‘ اوبکر سے وہ عاصم سے اور حماد ‘ عاصم سے یاء اور خاء کے کسرہ اور تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : پہلی قرأ ت ان سب سے واضح ہے اصل میں یہ یختصمون تھا تاء کو صاد میں مدغم کردیا گیا اس کی حرکت خاء کی طرف نقل کردی گئی۔ ابی کی قرأ ت میں یختصمون خاء کو ساکن کرنا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں دو ساکنوں کا اجتماع ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی حرف مدہ اور لین نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا : انہوں نے خاء کو اپنے اصل پر رکھتے ہوئے ساکن پڑھا ہے مینم وہ ایک دوسرے سے جھگڑتے ہوں کے تو مضاف کو حذف کردیا گیا۔ یہ بھی جائز ہے کلام اس معنی میں ہو یخصمون مجادلھم عند انفسھم تو مفعول کو حذف کردیا گیا۔ ثعلبی نے کہا : یہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت ہے۔ نحاس نے کہا : یخصمون کی اصل یختصمون ہے تاء کو صاد میں مدغم کیا گیا پھر اجتماع ساکنین کی وجہ سے خاء کو کسرہ دیا گیا۔ فراء نے گمان کیا ہے کہ یہ قرأت سب سے عمدہ اور اکثر مروی ہے اور جو صورت بہتر تھی اس کو ترک کردیا یعنی تاء کی حرکت خاء کو دی اور اس کے لئے ایک اور حرکت لے آیا اور پھر یاء اور کسرہ کو جمع کردیا اور گمان یہ کیا۔ یہ عمدہ اور اکثر مستعمل ہے۔ یہ اکثر کی قرأت کیسے ہو سکتی ہے جب کہ فتحہ کے ساتھ قرأت اہل مکہ اہل بصرہ اور اہل مدینہ کی قرأت ہے ؟ عاصم سے یاء اور خاء کے کسرہ کے ساتھ جو مروی ہے وہ اتباع کیوجہ سے ہے۔ یہ بحث تخطف میں سورة بقرہ میں اور یھدی میں سورة یونس میں گزر چکی ہے۔ عکرمہ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان الا صیحۃ واحدۃ کے بارے میں کہا : اس سے مراد صور میں پہلا نفحہ ہے۔ حضرت ابو ہریرؓ نو کہا : لوگ بازاروں میں ہوں گے کوئی دودھ دوہ رہا ہوگا ‘ کوئی کپڑا ماپ رہا ہوگا اور کوئی کام کاج میں مصروف ہوگا کہ صور پھونک دیا جائے گا۔ نعیم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد : ” قیامت برپا ہوجائے گی جب کہ دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کے لئے اسے پھیلائے ہوئے ہوں گے وہ اسے ابھی نہیں لپیٹیں گے یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے گی ‘ ایک آدمی اپنا حوض درست کر رہا ہوگا تاکہ وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلائے ابھی وہ اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی ‘ ایک آدمی اپنا ترازو نیچے جھکائے گا ابھی وہ اسے اوپر نہیں اٹھائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی ‘ ایک آدمی اپنا لقمہ منہ کی طرف اٹھائے گا ابھی وہ اسے نہیں نگلے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی “ (1) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے ” سب سے پہلے جو آدمی صور کی آواز سنے گا وہ وہ آدمی ہوگا جو اپنے حوض کو درست کر رہا ہوگا وہ چیخ مارے گا اور دوسرے لوگوں بھی ثیخ ماریں گے “ (2) ۔ وہ ایک دوسرے کو توبہ وغیرہ کی وصیت کی طاقت نہ رکھیں گے بلکہ اپنے بازاروں اور اپنے اپنے مواقع پر ہی مر جائیں گے جب وہ مر جائیں گے تو وہ اپنے گھروں کی طرف نہیں لوٹیں گے (3) ایک قول یہ کیا گیا : اس کا معنی ہے کہ وہ ان کے لئے انا للہ و انا الیہ رجعون نہیں کہیں گے۔ قتادہ نے کہا : وہ اپنے گھروں کی طرف نہیں لوٹیں گے کیونکہ ان کے ساتھ بہت جلد معاملہ کیا گیا ہے۔
Top