Al-Qurtubi - Yaseen : 65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَلْيَوْمَ : آج نَخْتِمُ : ہم مہر لگا دیں گے عَلٰٓي : پر اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَتُكَلِّمُنَآ : اور ہم سے بولیں گے اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَتَشْهَدُ : اور گواہی دیں گے اَرْجُلُهُمْ : ان کے پاؤں بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : وہ تھے يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے تھے)
آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو آپ ﷺ ہنسے پوچھا : ” کیا تم جانتے ہو کس وجہ سے میں ہنسا ہوں ؟ ہم نے عرضہ کی اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : ” بندہ اپنے رب سے جس انداز میں خطاب کرتا ہے اس وجہ سے میں ہنسا ہوں بندہ عرض کرتا ہے : اے میرے رب ! کیا تم نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیوں نہیں۔ بندہ عرض کرتا ہے : میں اپنے سوا کسی کو اپنے اوپر گواہ جائز نہیں جانتا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : آج تجھ پر تیرا نفس اور کراما کا تبین ہی گواہ کافی ہیں۔ فرمایا : اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی تو اس کے اعضاء سے کہا جائے گا : بول تو وہ عضو اس کے اعمال کے بارے میں بات کرے گا پھر اس کے اور ان کی گفتگو کے درمیان رکاوٹیں ختم کردی جائیں گی تو وہ اعضاء کو کہے گا : تمہارے لئے ہلاکت ہو کیا میں اس لئے تمہاری حفاظت کرتا رہا ؟ “ (1) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی ایک روایت مروی ہے اس میں ہے ” پھر اسے کہا جائے گا : اب ہم تم پر کوئی گواہ لاتے ہیں ‘ وہ اپنے بارے میں سوچ و بچار کرے گا مجھ پر کون گواہی دے گا ؟ تو اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : بول تو اس کی ران ‘ اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گی۔ یہی وہ شخص ہے جو گناہ کیا کرتا تھا ‘ یہی منافق تھا اور یہی وہ شخص ہے جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا “۔ امام ترمذی نے حضرت معاویہ بن حیدہ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے شام کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا : ” یہاں سے لے کر وہاں تک تمہیں سوار اور پیدل جمع کیا جائے گا تمہیں قیامت کے روز کھینچا جائے گا تمہارے مونہوں پر چھیکے ہوں گے تم سترویں امت کو پورا کرو گے تم ان میں سے بہترین ہو اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز ہو ‘ تمہارے اعضاء میں سے سب سے پہلے جو اظہار کرے گی وہ اس کی ران ہوگی “ دوسری روایت میں ” اس کی ران اور اس کی ہتھیلی ہوگی “۔ فدام سے مراد وہ کپڑا ہے جو کو زے اور لوٹے کے اوپر باندھا جاتا ہے ‘ یہ لیث نے کہا۔ ابو عبیدہ نے کہا : یعنی انہیں گفتگو سے روک دیا جائے گا یہاں تک کہ ان کی رانیں گفتگو کریں گی۔ تو گفتگو سے روکنے کے عمل کو اس کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے جسے لوٹے پر باندھا جاتا ہے منہ پر مہر لگانے کی چارو جوہ ذکر کی گئی ہیں : (1) انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! اے ہمارے رب ہم شرک کرنے والے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مونہوں پر مہریں لگا دیں یہاں تک کہ ان کے اعضاء نے گفتگو کی ‘ یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول ہے۔ (2) اہل موقف انہیں پہچان لیں اور ان سے ممتاز ہوجائیں گے ‘ یہ ابن زیاد کا قول ہے۔ (3) غیر ناطق کا اقرار اس کے اقرار سے دلیل میں یہاں بلیغ ہوتا ہے جوگ گفتگو کرسکتا ہو کیونکہ اس کی گفتگو معجزہ کے حکم میں ہوتی ہے اگرچہ اس دن کسی معجزہ کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (4) تاکہ وہ خود جان لے کہ اس کے اعضاء اس کے بارے میں مددگار تھے تو وہ اس کے رب کے حق میں گواہ ہوگئے اگر یہ سوال کیا جائے : یہ کیوں فرمایا : و تکلمنا ایدیھم و تشھد ارجلھم ہاتھ کے اظہار کو کلام اور پائوں کے اظہار کو گواہی قراردی ؟ اس کا جواب دیا جائے گا : ہاتھ خود عمل کرتا ہے اور پائوں حاضر ہوتا ہے اور حاضرکا قول غیر پر گواہ ہوتا ہے فائل کا اپنے بارے میں قول اقرار ہوا کرتا ہے خواہ وہ قول کرے یا عمل کرے اسی وجہ سے ہاتھوں سے جو کچھ صادر ہوگا اس کو قول سے تعبیر کیا اور جو کچھ پائوں سے صادر ہوا اس کو شہادت کہتے ہیں۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :’‘ جس روز منہ پر مہر لگا دی جائے گی اس روز جو ہڈی سب سے پہلے کلام کرے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران ہوگی “ یہ ماوردی اور مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا : میں جو گمان کرتا ہوں کہ انسان کی ہڈی جو سب سے پہلے گفتگو کرے گی وہ اس کی دائیں ران ہوگی ‘ یہ بھی مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ ماوردی نے ذکر کیا : یہ احتمال موجود ہے کہ اعضاء میں سے پہلے ران گفتگو کرے گی کیونکہ وہ گناہوں کی لذت کا ادراک ان حواس میں کرتا ہے جو اس کے نچلے دھڑ میں ہوتے ہیں ان میں سے ران بھی ہے تو کیونکہ وہ قریب تر عضو ہے اس لئے وہ گواہی دینے میں سب سے پہلے ہوگی کہا : بائیں ران پہلے گواہی دے گی کیونکہ دائیں اعضاء میں شہوت بائیں اعضاء کی نسبت قوی ہوگی اسی وجہ سے بائیں ران ‘ دائیں ران پر گواہی دینے میں مقدم ہوگی کیونکہ اس میں شہوت کم ہوتی ہے (1) ۔ میں کہتا ہوں : یا اس کے برعکس ہوگا کیونکہ شہوت کا غلبہ ہوگا یا دونوں رانیں اور ہتھیلی اکٹھے گواہی دیں گے کیونکہ اس کے مجموعے سے ہی شہوت اور لذت مکمل ہوتا ہے۔ کسائی نے یوں حکایت بیان کی ہے : طمس ‘ یطمس ‘ یطمس اہل لغت کے نزدیک مطموس اور طمس اس اندھے کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں میں شق ہی نہ ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کے معنی ہے ہم نے انہیں ہدایت سے اندھا کردیا وہ کبھی بھی حق کے راستہ کی طرف ہدایت پانے والے نہیں۔ حضرت حسن بسری اور سدی نے کہا : ہم نے انہیں اندھا بنا کر چھوڑ دیا وہ متر دو گھومتے پھرتے ہیں ان کا معنی ہے ہم نے انہیں اندھا بنا دیا وہ اپنے گھروں اور دوسری جگہ اپنے تصرفات کے طریقہ کو نہیں دیکھتے ‘ یہ طبری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ پس انہوں نے راستہ کی طرف جلدی کہ تاکہ وہ گزر جائیں تو وہ کہاں سے دیکھیں۔ عطا ‘ مقاتل اور فتادہ نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہم ان کی گمراہی کی آنکھوں کو پھاڑ دیتے ہم انہیں ان کی گمراہی سے اندھے کردیتے اور ان کی نظروں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیر دیتے پس وہ ہدایت پا جاتے اپنی ہدایت کو دیکھ لیتے اور آخرت کے راستہ کی طرف جلدی کرتے جب کہ ہم نے ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا تو وہ کیسے ہدایت پا سکتے تھے جب کہ ہدایت کی آنکھ ہی بند تھی اور گمراہی پر باقی تھی۔ حضرت عبداللہ بن سلام سے سابقہ گفتگو سے مختلف مروی ہے انہوں نے یہ تاویل کی کہ یہ قیامت کے روز ہوگا کہا : جب قیامت کے دن ہوگا پل کو بچھا دیا جائے گا ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا : چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ اور اس کی امت کھڑی ہوجائے تو ان میں سے نیک و بد سب کھڑے ہوجائیں گے وہ سرور دو عالم ﷺ کے پیچھے چلیں گے تاکہ وہ پل صراط سے گزر جائیں پھر ایک ایک منادی اعلان کرے گا : چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی امت کھڑی ہو۔ آپ (علیہ السلام) اور آپ کی امت کھڑی ہوگی تو نیک و گناہگار ان کے پیچھے چل پڑیں گے تو ان کا راستہ وہی وہ گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہوگا باقی ماندہ انبیاء کی حالت بھی ایسے ہی ہوگی ‘ نحاس نے یہ ذکر کیا ہم نے اس کا ذکر ” تذکرہ “ میں کیا ہے یہ اسی کے مانسب ہے جو ابن مبارک نے ” رقائق “ میں ذکر کیا ہے اور قشیری نے اس کا ذکر کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اسود بن اسود نے ایک پتھر اٹھایا جب کہ اس کے ساتھ بنی مخزم کی ایک جماعت تھی اس نے پتھر اس لئے اٹھایا تھا تاکہ نبی کریم ﷺ پر اسے پھینکے اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کو بند کردیا پتھر کو اس کے ہاتھ کے ساتھ چمٹا دیا نہ اس کے اس نے دیکھا اور نہ اس نے ہدایت پائی اس کے یہ آیت نازل ہوئی۔ مطموس اسے کہتے ہیں جس کی پلکوں کے درمیان شق نہ ہو یہ طمس الریح الاثر سے مشتق ہے ‘ یہ اخفش اور قتبی نے کہا۔ مسخ سے مراد خلقت کو تبدیل کردینا ہے اسے پتھر ‘ جمادیا چوپایا بنا ددینا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا : معنی ہے ہم نے انہیں بٹھا دیا وہ طاقت نہیں رکھتے کہ آگے گزریں اور پیچھے ہٹیں اسی طرح جامع چیز آگے اور پیچھے نہیں ہو سکتی بعض اوقات مسخ انسان کو چوپایا بنانے کی صورت میں ہوتا ہے پھر وہ چوپایا کسی ایسے موقع و محل کی سمجھ نہیں رکھتا کہ جس کا وہ قصد کرے پس وہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے نہ آگے بڑھتا ہے اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : معنی ہے اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے مسکنوں میں ہی انہیں ہلاک کردیتے (2) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اگر ہم چاہتے تو ہم اسے اس جگہ پر مسخ کردیتے جہاں اس نے نافرمانی کی جرأت کی تھی۔ حضرت ابن سلام نے کہا : یہ سب کچھ قیامت کے روز ہوگا اللہ تعالیٰ پل صراط پر سے گذرتے وقت ان کی آنکھوں کو مسخ کر دے گا۔ حضرت حسن بصری ‘ سلمی ‘ زربن حبیش اور عاصم نے ابوبکر کی روایت میں مکانتھم جمع کا صیغہ ہے جبکہ باقی نے واحد کا صیغہ پڑھا ہے ابو حیوہ نے فما استطاعو مضیاء قرأت کی ہے۔ المضی جب میم کے ضمہ کے ساتھ ہو تو مصدر ہوتا ہے جس کا معنی جاتا ہے۔ عاصم اور حمزہ نے ننکسہ پڑھا ہے۔ یہ تنکیس سے مشتق ہے جب کہ باقی قراء نے اسے ننکسہ پڑھا ہے یہ نکست الشی انکسہ نکسا سے مشتق ہے جس کا معنی ہے میں نے اسے سر کے بل الٹایا تو وہ الٹ گیا۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے اللہ نے اسے اس بڑھاپے کی حالت کی طرف پھیرا جو بچے کی حالت کے مشابہ ہے۔ سفیان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : جب وہ اسی سال کی عمر کا ہوجاتا ہے تو اس کے جسم میں تبدیلی آجاتی ہے اور اس کی قوت کمزور ہوجاتی ہے (3) ۔ شاعر نے کہا : من عاشق اخلقت الایام جدتہ و خانہ ثقتاہ السمع والبصر (1) جو آدمی طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے تو ایام اس کی تروتاز کی کی بوسیدہ کردیتے ہیں اور اس کی دو قابل اعتماد چیزیں یعنی قوت سماعت اور قوت بصارت اس کے ساتھ خیانت کرتی ہیں۔ لمبی عمر جوانی کو بڑھ اپنے ‘ قوت کو ضعف ‘ زیادہ کو نقص میں تبدیل کردیتی ہے یہی غالب طریقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارذل عمر کی طرف لوٹائے جانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہی (2) ۔ سورة نحل میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے کیا تم اتنا بھی نہیں جانتے کہ جس نے ایسا کیا ہے وہ تمہیں دوبارہ اٹھانے پر قادر ہے۔ نافع اور ابن ذکوان نے تعلقون پڑھا ہے جب کہ باقی قراء نے یعقلون پڑھا ہے۔
Top