Al-Qurtubi - An-Nisaa : 15
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا
وَالّٰتِيْ : اور جو عورتیں يَاْتِيْنَ : مرتکب ہوں الْفَاحِشَةَ : بدکاری مِنْ : سے نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتیں فَاسْتَشْهِدُوْا : تو گواہ لاؤ عَلَيْهِنَّ : ان پر اَرْبَعَةً : چار مِّنْكُمْ : اپنوں میں سے فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَاَمْسِكُوْھُنَّ : انہیں بند رکھو فِي الْبُيُوْتِ : گھروں میں حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَوَفّٰىھُنَّ : انہیں اٹھا لے الْمَوْتُ : موت اَوْ يَجْعَلَ : یا کردے اللّٰهُ : اللہ لَھُنَّ : ان کے لیے سَبِيْلًا : کوئی سبیل
مسلمانو ! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے یا خدا ان کے لیے کوئی اور سبیل (پیدا کرے)
آیت نمبر 15۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں عورتوں سے حسن سلوک کرنے اور انہیں مہر دینے کا ذکر فرمایا تو پھر مردوں کے ساتھ ان کی میراث کا بھی ذکر فرمایا اور وہ اگر غلط کاری کریں تو ان پر سختی کرنے کا ذکر فرمایا تاکہ عورت کو یہ وہم نہ ہو کہ اس کے لیے پاکدامنی کا ترک بھی جائز ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والتی “۔ یہ التی کی جمع ہے یہ مؤنث کے لیے مبہم اسم ہے اور یہ معرفہ ہے نکرہ بنانے کے لیے اس سے الف، لام کو دور کرنا جائز نہیں ہے اور یہ صلہ کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، اس میں تین لغات ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اس کی جمع اللات یعنی یا کے حذف اور کسرہ کے باقی رکھنے کے ساتھ بھی بنائی جاتی ہے، اور اللائی ہمزہ اور یا کے اثبات کے ساتھ بھی جمع آتی ہے اور الاء ہمزہ کے کسرہ اور یا کے حذف کے ساتھ بھی آتی ہے الا ہمزہ کے حذف کے ساتھ بھی جمع آتی ہے اگر تو جمع کی جمع بنائے تو اللاتی کی جمع اللواتی اور الاء کی جمع اللوائی بنائے گا، عربوں سے سے اللوات یعنی تا کے حذف اور کسرہ کے اثبات کے ساتھ بھی مروی ہے، یہ ابن الشجری کا قول ہے، جوہری نے کہا : ابوعیبدہ نے یہ شعر کہا ہے : من اللواتی والتی واللات زعمن ان قد کبرت لدات : اللواء تا کے اسقاط کے ساتھ ہے۔ التی کی تصغیر اللتیا فتحہ اور تشدید کے ساتھ ہے، راجز نے کہا : بعد اللتیا واللتیا والتی : بعض شعراء نے التی پر حرف ندا داخل کیا ہے جب کہ حروف ندا اس اسم پر داخل نہیں ہوتے جس پر الف لام ہو سوائے ہمارے قول : یا اللہ کے۔ گویا التی کو اس اسم جلالت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس حیثیت سے کہ الف، لام اس سے جدا نہیں ہوتے اسی وجہ سے شاعر نے کہا : من اجلک یالتی تیمت قلبی وانت بخیلۃ بالود عنی : کہا جاتا ہے : یہ اللتیا اور اللتی یہ دونوں داھیۃ (مصیبت) کے اسماء میں سے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یاتین الفاحشۃ “ یہاں فاحشۃ سے مراد زنا ہے اور (آیت) ” الفاحشۃ “ برے فعل کو کہتے ہیں، یہ مصدر ہے جیسے عاقبۃ اور عافیۃ مصدر ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ نے باجارہ کے ساتھ بالفاحشۃ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من نسآئکم “۔ اسلام کے معنی میں اضافت ہے اور مومن عورتوں کی حالت کا بیان ہے جیسے ارشاد فرمایا : (آیت) ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “۔ (بقرہ : 282) کیونکہ کافرہ کبھی نسب کی وجہ سے مسلمانوں کی عورتوں سے ہوتی ہے اس کو یہ حکم لاحق نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم “۔ یعنی مسلمانوں میں سے ان پر چار گواہ بناؤ۔ اللہ تعالیٰ نے زنا پر خصوصی طور پر چار گواہ مقرر فرمائے، مدعی پر تغلیظ اور بندوں کی پردہ پوشی کے لیے اور زنا پر چار گواہوں کی تعدیل کا حکم تورات، انجیل اور قرآن میں ثابت ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمنین جلدۃ “۔ (النور : 4) (آیت) ” فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم “۔ ابو داؤد نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : یہود اپنے ایک مرد اور عورت کو لے آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا تو نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس اپنے دو عالم آدمی لے آؤ، تو وہ صوریا کے دو بیٹے لے آئے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم تو رات میں ان دونوں کا معاملہ کیسے پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم تورات میں دیکھتے ہیں کہ جب چار آدمی گواہی دیں کہ انہوں نے اس کا آلہ تناسل، عورت کی شرمگاہ میں اس طرح دیکھا جس طرح سرمہ دانی میں سرمچو ہوتا ہے تو ان دونوں کو رجم کیا جائے گا فرمایا : تم لوگوں کو کون سی چیز ان کے رجم کرنے سے مانع تھی ؟ انہوں نے کہا : ہماری سلطانی چلی گئی، پس ہم قتل کو ناپسند کرتے ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے گواہوں کو بلایا وہ آئے اور گواہی دی کہ انہوں نے اس کا ذکر اس کی فرج میں سرمہ دانی میں سرمچو کی طرح دیکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا (1) (سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب فی رجم الیھودین، حدیث نمبر 3862، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ایک قوم نے کہا : زنا میں چار گواہ ہیں تاکہ زنا کرنے والوں میں سے ہر ایک پر دو دود گواہ گواہی دیں جس طرح دوسرے حقوق میں گواہ گواہی دیتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا حق ہے جو ان میں سے ہر ایک سے لیا جائے گا، یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ قسم، اموال میں داخل ہوتی ہے او اللوث، قسامت میں داخل ہے اور ان میں سے یہاں کسی ایک کا دخل نہیں۔ مسئلہ نمبر : (6) گواہوں کے لیے مذکر ہونا ضروری ہے، کیونکہ ارشاد ہے (آیت) ” منکم اس میں امت کا کوئی اختلاف نہیں اور گواہ عادل ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوع اور رجعت میں عدالت شرط قرار دی ہے۔ یہ بڑا معاملہ ہے اور یہ اس کے لیے اولی ہے اور یہ دلیل کے ساتھ مقید پر مطلق کو حمل کرنے سے ہے جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔ گواہ ذمی نہ ہوں گے اگرچہ حکم، ذمیۃ پر بھی لگایا ہو، سورة مائدہ میں اس کا ذکر آئے گا۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) نے (آیت) ” اربعۃ منکم “۔ کے قول سے اس مسئلہ میں دلیل پکڑی ہے کہ قذف میں جب ایک گواہ خاوند ہو تو لعان نہ ہوگا اس کا بیان انشاء اللہ سورة نور میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت “۔ یہ زنا کرنے والوں کی پہلی سزا ہے اور یہ ابتداء اسلام میں تھا، یہ حضرت عبادہ بن صامت، حسن اور مجاہد کا قول ہے حتی کہ بعد والی اذیت کے ساتھ یہ سزا منسوخ ہوگئی پھر وہ اذیت سورة نور کی آیت کے ساتھ اور ثیبہ میں رجم کے ساتھ منسوخ ہوگئی، ایک فرقہ نے کہا : اذیت پہلی سزا تھی پھر امساک کے ساتھ وہ منسوخ ہوگئی لیکن تلاوت مؤخر ومقدم کی گئی، یہ ابن فورک کا قول ہے اور یہ گھروں میں امساک اور حبس ابتداء اسلام میں تھا جب کہ ایسا جرم کرنے والے کم تھے، جب زیادہ ہوگئے اور ان کی قوت کا خدشہ ہوا تو ان کے لیے قید بنائی گئی، یہ ابن عربی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) علماء کا اختلاف ہے کہ کیا یہ قید حد تھی یا حد کی وعید دی تھی ؟ دو قول ہیں (1) حد کی دھمکی دی گئی اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ حد ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن کا قول ہے۔ ابن زید نے یہ زائد کہا ہے کہ انہوں نکاح کرنے سے منع کیا جائے گا حتی کہ وہ مر جائیں یہ ان کے لیے بطور سزا ہے جب انہوں نے نکاح کو بغیر وجہ کے طلب کیا، یہ دلیل ہے کہ وہ حد تھی بلکہ اس سے بھی سخت تھی مگر یہ حکم ایک حد تک محدود تھا اور وہ دوسری آیت میں اذیت ہے، دونوں تاویلوں کے اختلاف پر کہ کون سی آیت پہلے ہے۔ دونوں سزائیں ایک حد تک محدود تھیں اور وہ غایت حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث میں موجود ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھ سے حاصل کرو۔ مجھ سے حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راستہ بنایا ہے کنوارے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ کی سزا سو کوڑے اور رجم ہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے (آیت) ” ثم اتموا الصیام الی الیل “۔ (بقرہ : 187) جب رات آئے گی تو اس کی غایت کی انتہا کی وجہ سے روزے کا حکم اٹھ جائے گا نہ کہ اس کے منسوخ ہونے کی وجہ سے حکم اٹھ جائے گا، یہ متاخرین محققین اصولین کا قول ہے۔ نسخ دو متعارض قولوں میں ہوتا ہے جن کو کسی اعتبار سے جمع کرنا ممکن نہ ہو اور قید تعزیر کوڑے اور رجم کو جمع کرنا ممکن ہے، بعض علماء نے فرمایا : اذیت اور تعزیر، کوڑوں کے ساتھ باقی ہے، کیونکہ یہ متعارض نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں ایک شخص پر لاگوں کیے جائیں گے، رہا قید کرنا تو یہ اجماع کے ساتھ منسوخ ہے اور متقدمین کا ایسی صورت میں نسخ کا اطلاق مجازا ہے۔ آیت : نمبر : 12۔ اس میں سات مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذن “ یہ الذی کا تثنیہ ہے اور قیاس یہ تھا کہ الذیان کہا جاتا جیسے رحیان، مصطفیان، ثجیان “۔ سیبویہ نے کہا : یا کو حذف کیا گیا ہے تاکہ اسماء متمکنہ اور اسماء مبہمات میں فرق ہوجائے، ابو علی نے کہا : یا کو تخفیفا حذف کیا گیا ہے۔ کیونکہ الذان میں التباس کا امن ہے کیونکہ نون حذف نہیں ہوتی، اسماء ممتمکنہ میں تثنیہ کا نون اضافت کے ساتھ حذف ہوتا ہے جیسے رحیاک، مصطفیا القوم۔ اگر یا حذف ہو تو تثنیہ کے ساتھ مفرد مشتبہ ہوجائے گا، ابن کثیر نے اللذان کو نون کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، یہ قریش کی لغت ہے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ تشدید، زا کے الف کا بدل ہے اس کی وضاحت سورة القصص میں ” فذنک برھانن “ کے تحت آئے گی، اس میں دوسری لغت ہے اللذا یعنی نون کے حذف کے ساتھ ہے، یہ کو فیوں کا قول ہے، بصریوں نے کہا نون کو حذف کیا گیا ہے، کیونکہ صلہ کی وجہ سے اسم طویل ہوجاتا ہے، اسی طرح ھذان الذان ابتدا کی وجہ سے رفع دیا گیا ہے، سیبویہ نے کہا : اس کا معنی ہے فیما یتلی علیکم الذان یاتیانھا۔ ھا ضمیر سے مراد فاحشۃ ہے، فاذوھما میں فا داخل کیا گیا ہے، کیونکہ کلام میں امر کا معنی ہے، کیونکہ جب الذی فعل کے ساتھ ملایا گیا تو اس میں شرط کا معنی پایا گیا، کیونکہ اس پر کوئی معین شیء واقعی نہیں ہوئی جب شرط اور ابہام میں پایا گیا تو شرط کے قائم مقام ہوا پس فاداخل ہوئی۔ ماقبل مضمر اس پر عمل نہیں کرتا جس طرح اس کا ماقبل شرط میں عمل نہیں کرتا جب ان سے پہلے فعل کا اضمار اچھا نہیں تاکہ دونوں کو نصب دے تو ابتدا کی وجہ سے رفع دیا گیا، یہ سیبویہ کا اختیار ہے، فعل کے اضمار کی تقدیر پر نصب جائز ہے، یہ مختار ہے جب کلام میں امر، نہی کا معنی ہو جیسے تیرا قول ہے الذی عندک فاکرمھما “۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاذوھما “۔ قتادہ اور سدی نے کہا : اس کا مطلب توبیخ اور عار دلانا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یہ بغیر عار دلائے جفا اور سب ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ زبان سے تنبیہ اور جوتوں سے مارنا ہے۔ نحاس نے کہا : ایک قوم نے کہا : یہ منسوخ ہے۔ میں کہتا ہوں : ابن ابی نجیح نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ روایت کیا ہے فرمایا : (آیت) ” والتی یاتین الفاحشۃ، والذن یاتینھا “۔ یہ ابتدا میں حکم تھے پھر سورة النور کی آیت نے ان دونوں کی منسوخ کردیا۔ یہ نحاس کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اولی ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے یہ ان کو توبیخ کے ساتھ ادب سکھانا واجب ہے، انہیں کہا جائے گا : تو نے فجور کیا، تم نے فسق کیا اور تم نے اللہ تعالیٰ نے امر کی مخالفت کی۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” التی اور الذن “۔ کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے مجاہد وغیرہ نے کہا : سورة النساء کی پہلی آیت عام ہے شادی شدہ عورتیں ہوں یا غیرشادی شدہ ہوں اور دوسری آیت مردوں کے متعلق خاص ہے۔ تثنیہ کے لفظ نے مردوں کی دونوں قسموں کو بیان کیا جو شادی شدہ ہیں اور جو غیر شادی شدہ ہیں عورتوں کی سزا قید کرنا ہے اور مردوں کی سزا اذیت ہے۔ لفظ اس قول کا متقضی ہے اور کلام کی نص زانیوں کی تمام اقسام کو شامل ہے اور پہلی آیت میں (آیت) ” من نسآء کم “ اور دوسری آیت میں ” منکم “ کا ارشاد لفظ کی جہت سے اسی قول کی تائید کرتا ہے۔ نحاس نے اس قول کو پسند کیا ہے اور انہوں نے یہ قول حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، سدی اور قتادہ وغیرہ نے کہا : المحصنات کا لفظ جو پہلی آیت میں ہے اس میں مردوں میں سے جو شادی شدہ ہیں وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہیں، دوسری آیت میں مرد اور عورت جو کنوارے ہیں وہ داخل ہیں، ابن عطیہ (رح) نے کہا : اس قول کا معنی مکمل ہے مگر آیت کا لفظ اس سے پوری مناسبت نہیں رکھتا۔ طبری نے اس کو ترجیح دی ہے اور نحاس نے اس کا انکار کیا ہے اور فرمایا : مذکر پرمؤنث کو غلبہ دینا بعید ہے، کیونکہ کوئی چیز مجاز کی طرف نہیں نکالی جاتی جب کہ حقیقت میں اس کا معنی صحیح ہو، بعض علماء نے فرمایا : زانیہ کو روکنا ہے جبکہ زانی کو روکنا نہیں ہے، روکنے میں عورت خصوصی طور پر ذکر کی گئی ہے پھر اذیت میں دونوں جمع کیے گئے ہیں، قتادہ نے کہا : عورت کو قید کیا جائے گا اور دونوں کو اکٹھی اذیت دی جائے گی، یہ اس لیے ہے، کیونکہ مرد محنت و مزدوری کا محتاج ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) حضرت عبادہ ؓ کی اس حدیث کے متقضی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جس میں زانیوں کے احکام کا بیان ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، حضرت علی ؓ نے اس کے مقتضی کے مطابق عمل کیا ان سے اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے اور انہوں نے شراحہ ہمدانیہ کو سو کوڑے لگائے تھے اور اس کے بعد اسے رجم کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں نے کتاب اللہ کے حکم سے اسے کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول کی وجہ سے اسے رجم کیا ہے۔ یہ قول حسن بصری، حسن بن صالح بن حی اور اسحاق کا ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا شادی شدہ زانیہ پر بغیر کوڑوں کے رجم ہوگا یہ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے اور یہ قول زہری، نخعی، مالک، ثوری، اوزاعی، شافعی، اصحاب رائے۔ امام احمد، ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ ان علماء نے نبی مکرم ﷺ کے فعل سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ ﷺ نے ماعز اور غامدیہ کو رجم کیا تھا اور دونوں کو کوڑے نہیں لگائے تھے اور نبی مکرم ﷺ نے حضرت انیس سے کہا ہے تھا : تم اس کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ بھی اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کر دو ۔ دونوں نے کوڑے مارنے کا ذکر نہیں فرمایا : اگر یہ مشروع ہوتے تو آپ ﷺ خاموش نہ رہتے، ان کا کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ اس لیے خاموش رہے۔ کیونکہ وہ کتاب اللہ سے ثابت تھے شہرت اور قرآن میں تنصیص کی وجہ سے خاموش رہنا ممتنع نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ “۔ (نور : 2) یہ تمام زانیوں کو عام ہے واللہ اعلم۔ حضرت علی ؓ کا یہ فعل خلفاء راشدین سے ماخوذ تھا اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا۔ اسے کہا گیا : تو نے منسوخ پر عمل کیا اور ناسخ کو چھوڑ دیا، یہ تو واضح ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) کنوارے آدمی کو کوڑے لگانے کے ساتھ جلاوطن کرنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ کوڑوں کے ساتھ اسے جلا وطن بھی کیا جائے گا، یہ خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہے اور حضرت ابن عمر کا بھی یہی قول ہے۔ عطاء طاؤوس، سفیان، امام مالک، ابن ابی لیلی، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ اور حماد بن ابی سلیمان، امام ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن نے جلاوطنی کے ترک کا قول کیا ہے۔ جمہور کی حجت حضرت عبادہ کی حدیث ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد رحمۃ اللہ علیہم کی حدیث ہے اور العسیف (نوکر) والی حدیث ہے، جس میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ رہی بکریاں اور لونڈی تو وہ تجھے واپس کی جائے گی۔ آپ ﷺ نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگائے اور ایک سال جلاوطن کیا۔ اس حدیث کو ائمہ حدیث نے نقل کیا ہے اور جو علماء جلاوطن کرنے کا نظریہ نہیں رکھتے وہ لونڈی میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے حجت پکڑتے ہیں، اس میں کوڑوں کا ذکر ہے جلاوطنی کا ذکر نہیں ہے۔ عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے سعید بن مسیب ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : حضرت عمر ؓ نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب کی حد میں خیبر کی طرف جلاوطن کیا تو وہ ہرقل سے جاملا اور نصرانی ہوگیا، حضرت عمر ؓ نے کہا : اس کے بعد کسی مسلمان کو جلاوطن نہیں کروں گا۔ یہ علماء فرماتے ہیں : اگر جلاوطن کرنا اللہ تعالیٰ کی حد ہوتی تو اس کے بعد حضرت عمر ؓ اسے ترک نہ کرتے، پھر کتاب میں جو نص ہے وہ کوڑے ہیں اور نص پر زیادتی نسخ ہے، پس اس سے ایک قطعی حکم کا خبر واحد کے ساتھ نسخ لازم آتا ہے۔ جمہور علماء اس کا یہ جواب دیتے ہیں حضرت ابوہریرہ کی حدیث لونڈیوں کے متعلق ہے نہ کہ آزاد لوگوں کے متعلق ہے، حضرت عبداللہ بن عمر سے صحت کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے لونڈی کو زنا کی وجہ سے مارا اور اسے جلاوطن بھی کیا۔ اور رہی حضرت عمر ؓ کی حدیث اور ان کا قول کہ میں اس کے بعد کسی مسلمان کو جلاوطن نہیں کروں گا، یہ شراب کے بارے میں ہے۔ واللہ اعلم۔ کیونکہ نافع نے حضرت ابن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے مارا اور جلاوطن کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مارا اور جلاوطن کیا، حضرت عمر ؓ نے مارا اور جلاوطن کیا (1) (جامع ترمذی، کتاب الحدود عن رسول اللہ باب ما جاء فی النفی، حدیث نمبر 1358، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ ترمذی نے اپنی جامع میں نقل کی ہے اور نسائی نے اپنی سنن میں ابو کریب محمد بن علاہمدانی عن عبداللہ بن ادریس عن عبید اللہ بن عمر عن نافع کے سلسلہ سے روایت کی ہے، دارقطنی نے کہا : عبداللہ بن ادریس اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں ابو کریب کے علاوہ کسی ثقہ راوی نے اسے مسند روایت نہیں کیا۔ اور نبی مکرم ﷺ سے صحت کے ساتھ جلاوطنی مروی ہے پس اس کے ہوتے ہوئے کلام کی گنجائش نہیں اور جس نے سنت کی مخالفت کی، سنت ہی اس سے مخاصمت کرے گی۔ وباللہ التوفیق۔ رہا ان کا یہ قول کہ نص پر زیادتی نسخ ہے، یہ مسلم نہیں ہے، بلکہ اصل کے ساتھ دوسرے حکم کی زیادتی ہے۔ پھر وہ خبر واحد صحیح کے ساتھ پانی پر نبیذ کے وضو کرنے کی زیادتی کرتا ہے اور قربی میں فقر کی شرط لگاتا ہے، اس کے علاوہ بہت سی چیزیں ہیں جو قرآن میں منصوص نہیں ہیں خبر واحد کے ساتھ ان کو تسلیم کرتے ہیں، یہ مفہوم سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) جلاوطنی کے قائل علماء کا مذکر آزاد کو جلاوطن کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ غلام اور لونڈی کو جلاوطن میں کرنے اختلاف ہے، جو علماء غلام اور لونڈی کو جلاوطن کرنے کی رائے رکھتے ہیں ان میں حضرت ابن عمر بھی ہے حضرت ابن عمر نے اپنی لونڈی کو زنا کی وجہ سے کوڑے لگائے اور فدک کی طرف جلاوطن کیا، امام شافعی (رح)، ابو ثور، ثوری، طبری اور داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔ امام شافعی (رح) کا قول غلام کی جلاوطنی کے بارے میں مختلف یہ ہے۔ کبھی تو انہوں نے کہا : میں غلام کو جلاوطن کرنے میں اللہ سے استخارہ کروں گا، اور کبھی فرمایا : نصف سال جلاوطن کروں گا، کبھی فرمایا : ایک سال دوسرے شہر کی طرف بھیج دوں گا، یہی طبری کا قول ہے۔ لونڈی کی جلاوطنی کے بارے میں بھی دو قول ہیں، امام مالک (رح) نے فرمایا : مرد کو جلاوطن کیا جائے گا عورت اور غلام کو جلاوطن نہیں کیا جائے گا اور جس کو جس شہر کی طرف جلاوطن کیا جائے اس میں اسے قید کردیا جائے گا، مصر سے حجاز، شغب، اسوان اور اس جیسے شہروں کی طرف جلاوطن کیا جائے گا مدینہ سے خیبر اور فدک کی طرف جلاوطن کیا جائے گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے اسی طرح کیا تھا حضرت علی ؓ نے کوفہ سے بصرہ کی طرف جلاوطن کیا تھا، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس کی کم از کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : جلاوطنی کی اصل یہ ہے کہ بنی اسماعیل نے اجماع کیا تھا کہ جو حرم میں کوئی گناہ کرے گا اسے حرم سے جلاوطن کردیا جائے گا پس یہ سنت ہوگی وہ اس کی پیروی کرتے تھے، اسی وجہ سے سنت بن گئی کہ جب کوئی جرم کرے گا اسے اس کے شہر سے جلاوطن کردیا جائے گا زمانہ جاہلیت میں یہ جاری رہا حتی کہ اسلام آگیا، پس اسلام نے زنا میں اس کو خصوصی طور پر برقرار رکھا، اور جو علماء غلام کو جلا وطن کرنا اس کے مالک کو سزا دینا ہے، کیونکہ جلاوطنی کی مدت میں اس کے منافع سے اسے روکنا ہے، یہ شرع کا تصرف مناسب نہیں پس غیر مجرم کو سزا انہیں دی جاتی، اسی وجہ سے جمعہ، حج اور جہاد اس سے سر درد کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا، کیونکہ وہ حق اللہ ہے۔ اسی طرح جلاوطنی ہے۔ عورت جب جلاوطن کی جائے گی تو اکثر اس کا فاحشہ سبب ہوتا ہے اور یہ جلاوطنی اس کی شرمگاہ کے کھولنے اور اس کی حالت کو ضائع کرنے کا سبب ہے کیونکہ اصل میں اس کو گھر سے نکلنے سے منع کرنا ہے اور اس کی نماز بھی گھر میں افضل ہے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا عورتوں کو خروج کے لباس سے علیحدہ کرو وہ گھر کو لازم پکڑیں، پس اس سے تغریب کی حدیث کے عموم کی تخصیص حاصل ہوگی، اس مصلحت کی وجہ سے جس کی شہادت اعتبار کے ساتھ دی گئی ہے۔ اصولیین اور اہل نظر کے نزدیک اس میں اختلاف ہے، ایک طائفہ نے شافی قول کیا ہے کہ کوڑوں اور رجم کو شیخ پر جمع کیا جائے گا، جو ان کو کوڑے لگائے جائیں گے، انہوں نے حضرت زید بن ثابت ؓ کی حدیث میں لفظ الشیخ سے دلیل پکڑی ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجھا البتہ۔ اس حدیث کو نسائی نے نقل کیا ہے، اس طائفہ کا یہ قول فاسد ہے، کیونکہ دوسری حدیث میں الثیب کا ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان تابا “ یعنی اگر وہ زنا سے توبہ کریں (آیت) ” واصلحا “ یعنی اس کے بعد عمل کی اصطلاح کریں (آیت) ” فاعرضوا عنھما “۔ یعنی ان کی اذیت اور تعییر چھوڑ دو ، یہ حدود کے نزول سے پہلے کا حکم تھا۔ جب حدود نازل ہوئیں تو اس آیت کو منسوخ کردیا۔ اعراض سے مراد ہجرت نہیں ہے، لیکن ہجرت برائی کو چھڑانے والی ہے، اعراض کرانے والی ہے اس میں سابقہ معصیت کے سبب ان کے لیے حقارت ہے اور دوسری آیت میں جہالت کے مطابق احتقار ہے۔ (آیت) ” واللہ تواب “۔ یعنی اپنے بندوں کے گناہوں سے رجوع کرنے والا ہے۔
Top