Al-Qurtubi - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور بہت سے پیغمبر ہے جن کے حالات ہم تم سے پیشتر بیان کرچکے ہیں اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات تم سے بیان نہیں کئے۔ اور موسیٰ سے تو خدا نے باتیں بھی کیں۔
آیت نمبر : 164۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ورسلا قد قصصنھم علیک من قبل “۔ یعنی مکہ میں اور رسلا کی نصب فعل مضمر کی وجہ سے ہے یعنی وارسلنا رسلا، کیونکہ ” اوحینا الی نوح “ کا معنی ہے وارسلنا نوح “۔ بعض علماء نے فرمایا : فعل کی وجہ سے منصوب ہے جس پر قصصنھم “ دلالت کر رہا ہے یعنی قصصنا رسلا “۔ اس کی مثل سیبویہ نے اس شعر سے دی ہے۔ اصحبت لا احمل السلاح ولا املک راس البعیر ان نفرا : والذئب اخشاہ ان مررت بہ وحدی واخشی الریاح والمطرا : یعنی اخشی الذئب، اور حضرت ابی کی قرات میں ورسل “ رفع کے ساتھ ہے اس کی تقدیر یہ ہے منہم رسل “ پھر فرمایا گیا : اللہ تعالیٰ نے جب اپنی کتاب میں بعض انبیاء کے اسماء ذکر فرمائے اور بعض کے ذکر نہ فرمائے تو جن کا ذکر فرمایا ان کو فضیلت ہے ان پر جن کا ذکر نہیں فرمایا، یہود نے کہا : محمد ﷺ نے انبیاء کا ذکر کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ تکلیما “ ، مصدر ہے اس کا معنی تاکید ہے یہ اس کے قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جو کہتا ہے : اس نے درخت میں اپنے لیے کلام تخلیق کی پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے سن لیا، بلکہ یہ وہ حقیقی کلام ہے جس کے ساتھ متکلم، متکلم ہوتا ہے، نحاس نے کہا : نحویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب فعل مصدر کے ساتھ مؤکد ہوتا ہے تو وہ مجازا نہیں ہوتا اور شاعر کے قول میں یہ جائز نہیں : امتلاء الحوض وقال قطنی : کہ قال قولا اسی طرح جب تکلیما فرمایا تو یہ اس حقیقی کلام پر محمول ہوگا جو سمجھی جاتی ہے۔ وہب بن منبہ نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یارب ! مجھے تو نے کیوں کلیم بنایا ؟ انہوں نے وہ عمل طلب کیا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہیں سعادت عطا فرمائے تاکہ وہ اس عمل کو زیادہ کریں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : کیا تجھے یاد ہے جب کوئی بکری کا بچہ بھاگ جاتا ہے پھر تو دن کا اکثر حصہ اس کے پیچھے لگا رہتا ہے اور وہ تجھے تھکا دیتا ہے پھر تو اسے پکڑتا ہے اور اسے بوسہ دیتا ہے پھر اسے اپنے سینے سے لگاتا ہے اور تو اسے کہتا ہے : تو نے مجھے تھکایا اور اپنے آپ کو بھی تھکایا اور تو اس پر غصے نہیں ہوتا اس وجہ سے میں نے تجھے کلیم بنایا :
Top