Al-Qurtubi - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو نہ کرو فِيْ دِيْنِكُمْ : اپنے دین میں وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو عَلَي اللّٰهِ : پر (بارہ میں) اللہ اِلَّا : سوائے الْحَقَّ : حق اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلُ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَكَلِمَتُهٗ : اور اس کا کلمہ اَلْقٰىهَآ : اس کو ڈالا اِلٰي : طرف مَرْيَمَ : مریم وَ : اور رُوْحٌ : روح مِّنْهُ : اس سے فَاٰمِنُوْا : سو ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو ثَلٰثَةٌ : تین اِنْتَھُوْا : باز رہو خَيْرًا : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں اللّٰهُ : اللہ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : معبودِ واحد سُبْحٰنَهٗٓ : وہ پاک ہے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : اولاد لَهٗ : اس کا مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اور اس کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔
آیت نمبر : 171۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یاھل الکتب لاتغلوا فی دینکم “۔ غلو سے منع کیا گیا ہے۔ الغلو کا معنی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اسی سے ہے : غلا السعریلغوغلاء قیمت حد سے بڑھ گئی، وغلا الرجل فی الامرغلوا “۔ آدمی معاملہ میں حد سے بڑھ گیا، غلا بالجاریہ لحمھا وعظمھا، جب عورت جلدی جوانی چڑھی اور دوسرے، بچو سے تجاوز کرگئی، مفسرین نے جو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے : یہود کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے یہ غلو تھا کہ انہوں نے حضرت مریم پر تہمت لگائی اور نصاری کا غلو یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رب بنا دیا، افراط اور تفریط گناہ اور کفر ہے، اسی وجہ سے مطرف بن عبداللہ نے کہا : نیکی دونوں برائیوں (افراط وتفریط) کے درمیان ہے۔ شاعر نے کہا : اوف ولاتستوف حقک کلہ وصافح فلہ یستوف قط کریم : ولا تغل فی شی من الامر واقتصد کلاطرفی قصد الامور ذمیم : پورا حق دو اور اپنا حق پورا نہ لو اور درگزر کر، کریم کبھی پورا وصول نہیں کرتا، کسی معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کر اور میانہ روی اختیار کر میانہ روی کی دونوں طرفیں مذموم ہیں۔ ایک اور شاعر نے کہا : علیک باوسط الامور فانھا نجاۃ ولا ترکب ذلولا وصعبا : درمیانی امر کو لازم پکڑو کیونکہ یہ نجات ہے اور نہ بالکل نرم اور نہ بالکل سخت ہو کر سوار ہو۔ صحیح بخاری میں نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے : ” میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو، جس طرح نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعریف میں حد سے تجاوز کیا توم کہو عبد اللہ ورسولہ “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء جلد 1، صحفہ 490، ایضا حدیث نمبر 3189 ضیاء القرآن پیلی کیشنز) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تقولوا علی اللہ الا الحق “۔ یعنی یہ نہ کہو کہ اس کا شریک ہے یا اس کے بیٹے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی حالت اور صفت کو بیان فرمایا (آیت) ” انما المسیح عسی ابن مریم رسول اللہ وکلمہ “۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) (آیت) ” انما المسیح “ ابتدا کی وجہ سے مسیح کو رفع دیا گیا ہے اور عیسیٰ اس سے بدل ہے اسی طرح ابن مریم ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتدا کی خبر ہو، یہ معنی ہو المسیح ابن مریم، مسیح مریم کے فرزند ہیں، اس پر دلیل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” عیسیٰ ابن مریم “ یعنی جو اپنی والدہ کی طرف منسوب ہو وہ الہ کیسے ہو سکتا ہے۔ الہ کا حق یہ ہے کہ وہ قدیم ہو، حادث نہ ہو، اور رسول اللہ خبر کے بعد خبر ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کا ذکر نہیں کیا اور کسی عورت کو اس کے نام کے ساتھ اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا سوائے مریم بنت عمران کے تقریبا تیس جگہوں پر خاص حکمتوں کی وجہ سے حضرت مریم کا ذکر فرمایا جن حکمتوں کا بعض مشائخ نے ذکر کیا ہے، ملوک اور اشراف اپنی آزاد کا مجمع میں ذکر نہیں کرتے تھے اور ان کے اسماء استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ عرس، اہل اور عیال کے لفظ استعمال کرتے تھے، اگر لونڈیوں کا ذکر کرتے تو کنایۃ نہ کرتے اور نہ ان کے صراحۃ اسماء کے ذکر سے حفاظت کرتے تھے، جب حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں نصاری نے کہا جو انہوں نے کہا اور ان کے بیٹے کے بارے میں کہا تو اللہ تعالیٰ نے صراحۃ حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر فرمایا، اموت اور عبودیت جو ان کی صفت تھی ان کا ذکر نہیں کیا اور لونڈیوں کے ذکر میں عربوں کی جو عادت تھی اس پر کلام کو جاری فرمایا : مسئلہ نمبر : (3) یہ عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں ہے، جب ان کا اسم ماں کی طرف منسوب کرکے بار بار ذکر فرمایا تو دلوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے باپ کی نفی کا عقیدہ کا واجب ہونا محسوس کرلیا اور یہود کی طرف سے لگائی گئی تہمت سے ان کی والدہ کی پاکیزگی کا عقیدہ دلوں میں راسخ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وکلمتہ القھا الی مریم “ وہ کن کے کلمہ سے بنائے گئے تھے گویا آپ بغیر باپ کے بشر تھے، عرب کسی چیز کو اس چیز سے تعبیر کردیتے ہیں جب وہ اس سے صادر ہو، بعض نے فرمایا : (آیت) ” کلمتہ “ سے مراد اللہ کی طرف سے حضرت مریم (علیہا السلام) کو بشارت تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کی بشارت تھی جو جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے دی گئی، اس سے یہ مراد ہے : (آیت) ” اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ “۔ (آل عمران : 45) بعض علماء نے فرمایا : الکمۃ سے یہاں مراد الایۃ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وصدقت بکلمت ربھا “۔ (التحریم : 12) (آیت) ” مانفدت کلمت اللہ “۔ (لقمان : 27) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے چار اسماء تھے۔ (1) مسیح (2) عیسیٰ (3) کلمۃ (4) روح، اس کے علاوہ بھی نام ہیں جو قرآن میں نہیں ہیں۔ (آیت) ” القہا الی مریم “۔ کا معنی ہے مریم نے اس کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وروح منہ “ اس چیز نے نصاری کو گمراہی میں ڈالا، انہوں نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا جز ہیں پس وہ جاہل بنے اور گمراہ ہوئے، اس کے آٹھ جواب ہیں (1) حضرت ابن ابی بن کعب ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ارواح کو پیدا فرمایا جب ان سے پختہ عہد لیا پھر ان روحوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ کی طرف لوٹایا اور حضرت عیسیعلیہ السلام کی روح کو اپنے پاس روک لیا جب ان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو اس روح کو حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرف بھیجا پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے تھے اسی وجہ سے فرمایا (آیت) ” وروح منہ “۔ بعض نے فرمایا : یہ اضافت تفضیل کے لیے ہے اگرچہ تمام روحیں اس کی تخلیق سے ہیں یہ اس طرح ہے جیسے فرمایا (آیت) ” وطھربیتی للطآئفین “۔ (الحج : 26) بعض نے فرمایا : جس سے عجیب چیزیں ظاہر ہوتی ہیں اسے روح کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا پر کہا جاتا ہے : ھذا روح من اللہ یعنی وہ اللہ کی تخلیق سے ہے جس طرح نعمت کے بارے کہا جاتا ہے۔ : انھا من اللہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کے مریض کو درست کرتے تھے اور مردوں کو زندہ کرتے تھے پس یہ اس اسم کے مستحق ہوئے، بعض نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کہا جاتا ہے۔ جبریل کے روح پھونکنے کے سبب نفخ (پھونکنا) کو روح کہا جاتا ہے، کیونکہ ریح (ہوا) روح سے نکلی ہے، شاعر نے کہا : فقلت لہ ارفعھا الیک واحیھا بروحک واقتنہ لھا قیتۃ قدرا : وارد ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو قمیص میں پھونک ماری تو وہ اللہ کے اذن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے حاملہ ہوگئیں اسی وجہ سے (آیت) ” وروح منہ “ اس مضمر پر معطوف ہوگا جو اللہ کا اسم (آیت) ” القہا میں ہے تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : القی اللہ وجبریل الکلمۃ الی مریم “۔ بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” وروح منہ “ سے مراد ہے اس کی تخلیق سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعا منہ “۔ (الجاثیہ : 13) یعنی من خلقہ، بعض نے فرمایا : (آیت) ” روح منہ “ سے مراد اس کی طرف سے رحمت، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے متبعین کے لیے اللہ کے طرف سے رحمت تھے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وایدھم بروح منہ “۔ (المجادلہ : 22) یعنی اپنی رحمت سے، پڑھا گیا (آیت) ” فروح وریحان “۔ (الواقعہ : 89) بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” روح منہ “ کا مطلب ہے برھان منہ، عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم پر برہان اور حجت تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ “۔ یعنی ایمان لاؤ کہ اللہ ایک ہے، مسیح کا خالق اور اس کو بھیجنے والا ہے، اور اللہ کے رسل پر ایمان لاؤ اور ان میں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں پس ان کو الہ نہ بناؤ، (آیت) ” ولا تقولوا “۔ یہ نہ کہو کہ ہمارے خدا (آیت) ” ثلثۃ “ ہیں۔ پس یہ زجاج سے مروی ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : تثلیث سے مراد اللہ تعالیٰ ، حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کا بیٹا ہے، فراء اور ابو عبیدہ نے کہا : تم یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” سیقولون ثلثۃ (الکہف : 22) ابو علی نے کہا : اس کی تقدیر یہ ہے ولا تقولوا ھو ثالث ثلاثۃ، یعنی یہ نہ کہو کہ وہ تین میں سے تیسرا ہے، پس مبتدا اور مضاف کو حذف کیا گیا ہے۔ نصاری کے سارے فرقے اس پر جمع ہیں کہ تین خدا ہیں۔ وہ کہتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ ایک جوہر ہے اور اس کے تین اقانیم ہیں اب ابن اور روح القدس، اب سے مراد وجود لیتے تھے، روح سے مراد جنات اور ابن سے مراد مسیح لیتے تھے، ان کے کلام میں اس مسئلہ میں تخبط ہے جس کا بیان اصول دین میں ہے، ان کی کلام کا خلاصہ یہ ہے وہ سب یہ عقیدہ رکھتے تھے حضرت عسی (علیہ السلام) الہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر خوارق للعادت کام جاری فرمائے جیسا کہ اس کا ارادہ اور متقضی تھا، انہوں نے کہا : ہم جانتے ہیں کہ یہ امور انسانی قدرت سے خارج ہیں، پس جو ان پر قادر ہے وہ الوہیت سے موصوف ہوگا، ان کو کہا جائے گا : اگر یہ ان کی قدرت میں ہوتا اور مستقل ہوتا تو پھر دشمنوں سے اپنی نفس کو بچانے اور اپنے آپ سے شر کو دور کرنا ان کی مقدورات سے ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر نصاری اس کا اعتراف کریں تو ان کا قول اور دعوی ساقط ہوجائے گا کہ وہ مستقل بالذات ایسا کرتے تھے، اگر وہ اس کو تسلیم نہ کریں تو ان کے لیے کوئی حجت نہ ہوگی، کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جو ان کے ہاتھوں پر بڑے بڑے امور جاری ہوئے تھے اس سے معارض تھے مثلا عصا کا سانپ بن جانا، سمندر کا پھٹنا، ید بیضا، من وسلوی وغیرہ، اسی طرح انبیاء کے ہاتھوں پر جو معجزات جاری ہوئے تھے، اگر وہ ان کا انکار کریں تو ہم بھی اس کا انکار کریں گے جو وہ دعوی کرتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں پر ظاہر ہوئے تھے، پس پھر تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے کسی چیز کا ثابت کرنا ممکن ہی نہ ہوگا، ہمارے نزدیک اثبات کا طریق قرآن کی نصوص ہیں جب کہ وہ قرآن کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تکذیب کرتے ہیں جو وہ لے کر آیا پس ان کے لیے اخبار تواتر کے ساتھ اس کا ثبوت ممکن نہ ہوگا۔ بعض علماء نے کہا : نصاری، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے اکیاسی سال بعد تک دین اسلام پر قائم رہے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، رمضان کے مہینہ کے روزے رکھتے تھے حتی کہ ان کے اور یہود کے درمیان جنگ ہوئی، یہود میں ایک بہادر شخص تھا جس کو بولس کہا جاتا تھا اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب کی ایک جماعت کو قتل کردیا اور کہا : اگر حق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوتا تو ہم نے کفر کیا اور ہم نے انکار کیا اور آگ کی طرف ہمارا لوٹنا ہے ہم خسارے میں ہوں گے اگر وہ جنت میں داخل ہوئے اور ہم آگ میں داخل ہوئے، میں ان میں ایک سازش کرتا ہوں میں انہیں گمراہ کروں گا پس وہ دوزخ میں داخل ہوں گے، اس کا ایک گھوڑا تھا جس کو عقاب کہا جاتا تھا اس نے ندامت کا اظہار کیا اور اپنے سر پر مٹی ڈالی، اس نے نصاری کو کہا : میں تمہارا دشمن بولس ہوں، آسمان سے آواز آئی کہ تیرے لیے توبہ نہیں ہے مگر یہ کہ نصرانی ہوجائے، نصاری نے اسے کنیسہ کے ایک کمرے میں داخل کیا سپ وہ اس میں سے باہر نکلا اور کہا : آسمان سے مجھے ندا آئی کہ اللہ تعالیٰ نے تیری توبہ قبول کرلی ہے، نصاری نے اس کی تصدیق کی اور اس سے محبت کی پھر وہ بیت المقدس کی طرف چلا گیا اس نے ان پر نسطورا کو خلیفہ بنایا اور اسے بتایا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) خدا تھا پھر روم کی طرف گیا اور انہیں لاہوت اور ناسوت سکھایا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انسان نہیں تھے پھر وہ انسان بنے اور نہ جسم تھے پھر وہ جسم بنے لیکن وہ اللہ کے بیٹے تھے، اس نے ایک شخص کو سکھایا جس کو یعقوب کہا جاتا تھا، پھر اس نے ایک شخص کو بلایا جس کو ملک کہا جاتا تھا، اس نے اسے کہا : الہ ہمیشہ سے تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہمیشہ رہیں گے جب ان پر اس نے مکمل قدرت حاصل کرلی تو اس نے ان تینوں افراد کو علیحدہ علیحدہ بلایا، اس نے ہر ایک کو کہا : تو میرا خالص ساتھی ہے، میں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو نیند میں دیکھا وہ مجھ سے راضی تھے، اس نے ان میں سے ہر ایک کو کہا : میں کل اپنے آپ کو ذبح کر ڈالوں گا اور اس طرح میں قرب حاصل کروں گا پھر وہ مذبح میں داخل ہوا اور اپنے آپ کو ذبح کردیا، جب تیسرا دن تھا تو ہر ایک نے اپنے نحلۃ (مذہب) کی طرف بلایا پس میں سے ہر ایک کی ایک طائفہ نے اتباع کی، پس وہ آپس میں جھگڑنے لگے اور آج تک اختلاف کر رہے ہیں، تمام نصاری تین فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، یہ ان کے شرک کا سبب تھا واللہ اعلم۔ یہ واقعہ (آیت) ” فاغرینا بینم العداوۃ والبغضآء الی یوم القیمۃ “۔ (المائدہ : 14) کے تحت روایت کیا گیا ہے مزید انشاء اللہ آگے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” انتھوا خیرالکم “۔ سیبویہ کے نزدیک فعل مضمر کے ساتھ خیرا منصوب ہے، گویا فرمایا ائتوا خیرالکم (1) (المحرر الوجیز جلد 2، صفحہ 137) کیونکہ جب اس نے انہیں شرک سے منع کیا تو انہیں اس چیز کے لانے کا حکم دیا جو ان کے لیے بہتر تھی، سیبویہ نے کہا : اس کو فعل کے اضمار پر نصب دی جاتی ہے جس کا اظہار متروک ہوتا ہے (آیت) ” انتھوا خیرالکم “۔ کیونکہ جب تو کہتا ہے : امتہ تو تو ایک امر سے اسے نکالتا ہے اور دوسرے امر میں اسے داخل کرتا ہے۔ شاعر نے کہا : فواعدیہ سرحتی مالک اوالربابینھما اسھلا “۔ (2) (المحرر الوجیز جلد 2، صفحہ 137) اور ابوعبیدہ کا مذہب ہے : انتھو یکن خیرالکم محمد بن یزید نے کہا : یہ خطاء ہے کیونکہ وہ شرط اور جواب شرط کو مضمر کرتا ہے اور یہ کلام عرب میں نہیں پایا جاتا، اور فراء کا مذہب ہے کہ یہ محذوف مصدر کی نعت ہے علی بن سلیمان نے کہا : یہ فحش غلطی ہے کیونکہ معنی ہوگا انتھوا الانتھاء الذی ھو خیرلکم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” انما اللہ الہ واحد “۔ یہ مبتدا خبر ہے اور واحد، الہ کی صفت ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ الہ اسم جلالت سے بدل ہو اور واحد خبر ہو تقدیر اس طرح ہوگی انما المعبود واحد معبود ایک ہے۔ (آیت) ” سبحنہ ان یکون لہ والد “۔ اللہ تعالیٰ بیٹے سے پاک ہے، جب عن ساقط ہوگیا تو ان حرف جر کے نزع کے ساتھ محل نصب میں ہوگا یعنی اس کے لیے بیٹا کیسے ہوگا ؟ آدمی کا بیٹا اس کے مشابہ ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کوئی شبیہ نہیں ہے۔ (آیت) ” لہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہا السلام) بھی ان چیزوں میں سے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان میں سے مخلوق ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) الہ کیسے ہوں گے جب کہ وہ مخلوق ہیں ؟ اگر اس کا بچہ جائز ہو تو اس کی اولاد جائز ہونی چاہیے حتی کہ جس کے ہاتھ سے معجزہ ظاہر ہو وہ اس کا بیٹا ہو، (آیت) ” وکفی باللہ وکیلا “۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے لیے کافی ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top