Al-Qurtubi - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
آیت نمبر : 22۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تنکحوا مانکح ابآؤکم من النسآء “۔ کہا جاتا ہے کہ لوگ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لایحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “۔ (اے ایمان والو ! نہیں حلال تمہارے لیے کہ وارث بن جاؤ عورتوں کے زبردستی) کے نزول کے بعد اپنے باپ کی بیوی سے اس کی رضا سے نکاح کرلیتے تھے تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ولا تنکحوا “۔ الخ پس یہ تمام احوال میں حرام ہوگیا، کیونکہ نکاح کا اطلاق جماع اور نکاھ کرنے پر ہوتا ہے۔ اگر باپ کسی عورت سے نکاح کرے یا اس سے وطی کرے بغیر نکاح کے بیٹے پر وہ عورت حرام ہوجائے گی، اس کا مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مانکح “۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد عورتیں ہیں، بعض نے فرمایا : عقد ہے یعنی جو تمہارے آباء نے نکاح فاسد کیا جو اللہ تعالیٰ کے دین کے مخالف تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی وجہ کو پختہ کیا اور اس کی شرائط کو واضح کردیا ہے۔ یہ طبری کا مختار قول ہے۔ من (آیت) ” تنکحوا “ کے متعلق ہے اور ما نکح “ مصدر ہے فرمایا : اگر اس کا معنی یہ ہو کہ ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نے نکاح کیا تو پھر ما کی جگہ من کا ہونا واجب تھا، اس بناء پر نہی اس پر واقع ہوئی کہ وہ اپنے باپ دادا کے فاسد نکاح کی طرح نکاح نہ کریں، پہلا قول اصح ہے، اور ما بمعنی الذی اور من ہوگا اس پر دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس آیت کو اس معنی پر محمول کیا اور بیٹوں کے لیے اپنے باپ دادا کی بیویوں سے نکاح کرنے سے استدلال کیا ہے، عرب میں ایسے قبائل تھے جن کی عادت تھی کہ باپ مر جاتا تو بیٹا اس کی بیوی (سوتلی ماں) سے نکاح کرلیتا، یہی طریقہ انصار میں بھی تھا اور قریش میں یہ طریقہ باہم رضا مندی پر مباح تھا، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عمرو بن امیہ نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا پھر اس سے مسافر یا ابو معیط کو اس نے جنم دیا اور پہلے امیہ سے اس کے بیٹے ابو العیص وغیرہ تھے، بنو امیہ، مسافر اور ابو معیط کے بھائی تھے اور ان کے چچے بھی تھے اسی سے ہے کہ صفوان بن امیۃ بن خلف نے اپنے باپ کے بعد اپنی سوتلی ماں فاختۃ بنت اسود بن مطلب بن اسد سے نکاح کیا تھا، امیہ قتل ہوا تھا جب کہ وہ اس کے عقد میں تھی، اس میں سے یہ ہے منظور بن زبان نے ملیکہ بنت خارجہ سے نکاح کیا تھا اور یہ پہلے اس کے باپ زبان بن سیار کے عقد میں تھی، حصن بن ابی قیس نے اپنی باپ کی بیوی کبیشتہ بنت معن سے نکاح کیا تھا اسود بن خلف نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا، اشعث بن سوار نے کہا : ابو قیس فوت ہوا اور یہ انصار کے نیک افراد میں سے تھا، اس کے بیٹے قیس نے اپنے باپ کی بیوی کو نکاح کا پیغام بھیجا، اس عورت نے کہا : میں تجھے اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوتی ہوں اور آپ سے مشورہ طلب کرتی ہوں وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور صورت حال عرض کی پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، عربوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی بیٹیوں سے نکاح کیا تھا وہ حاجب بن زرارہ تھا وہ مجوسی ہوگیا تھا اس نے یہ فعل شنیع کیا تھا اس کا ذکر نضر بن شمیل نے اپنی ” کتاب المثالب “ میں کیا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے مومنین کو منع فرمایا اس سے جس طریقہ پر ان کے آباء نکاح کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ما قدسلف “۔ یعنی جو گزر چکا اور جو ہوچکا یعنی جو تمہارے باپ دادا اور قرابتداروں سے جو ہوچکا وہ معاف ہے۔ یہ استثناء منقطع ہے یعنی جو کچھ پہلے ہوچکا تم اس سے اجتناب کرو اور اسے چھوڑ دو ، بعض علماء نے فرمایا : الا بمعنی بعد ہے یعنی بعد ما سلف، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” لایذوقون فیھا الموت الا الموتۃ الاولی “۔ (الدخان : 56) اس آیت میں الا بمعنی بعد ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب لا ما سلف یعنی وہ نہیں جو ہوچکا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطائ “۔ یعنی ولا خطا، بعض علماء نے فرمایا : آیت میں تقدیم وتاخیر ہیی۔ اس کا معنی ہے (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآؤکم من النسآء الا ما قدسلف، انہ کان فاحشۃ ومقتا وساء سبیلا “۔ اور بعض علماء نے فرمایا : اس آیت میں اضمار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ولا تنکحوا مانکح ابآؤکم من النسآء “۔ یعنی نہ نکاح کرو جن سے نکاح کرچکے تمہارے باپ داد) اگر تم ایسا کرو گے تو تم سے مواخذہ ہوگا اور تمہیں سزا دی جائے گی مگر جو ہوچکا وہ معاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” انہ کان فاحشۃ ومقتا وساء سبیلا “۔ اس عمل کی مذمت فرمائی اس میں مبالغہ فرمایا، یہ دلیل ہے کہ اس نے جو فعل کیا وہ انتہائی قبیح اور برا ہے ابو العباس نے کہا : میں نے ابن عربی (رح) سے نکاح المقت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کا ہ : وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کی بیوی (سوتلی ماں) سے نکاح کرے جب باپ اسے طلاق دے یا باپ مرجائے، ایسے شخص کو الضیزن “۔ کہا جاتا ہے۔ ابن عرفۃ نے کہا : عربوں میں جب کوئی شخص اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرتا اور پھر اس عورت سے بچہ پیدا ہوتا تو اس بچے کو مقتی کہا جاتا تھا، المقت کی اصل البغض ہے، یہ مقت یمقت مقتا فھو ممقوت ومقیت سے مشتق ہے، اور باپ کی بیوی سے بچہ پیدا کرنے والے کو مقیت کہتے تھے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو مقتا فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ مقت والا ہے، ایسا نکاح کرنے والے کو وہ بچہ لاحق ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس آیت سے مراد نہی ہے اس بات سے کہ آدمی ایسی عورت سے وطی کرے جس سے اس کا باپ یا دادا وطی کرچکا ہو مگر جو زمانہ جاہلیت میں ان کے آباء جن عورتوں سے زنا کرچکے وہ معاف ہے، جب کہ وہ مناکحت کے اعتبار سے صحبت نہ تھی، کیونکہ تمہارے لیے ان سے نکاح جائز ہے اور تم عقد نکاح کے ذریعے وطی کرسکتے ہو جن سے تمہارے آباء نے زنا کے اعتبار سے وطی کی ہے۔ یہ ابن زید (رح) کا قول ہے۔ اس صورت میں استثامتصل ہوگی۔ اور اس میں اصل ہوگی کہ زنا حرام نہیں کرتا جیسا کہ آگے بیان آئے گا۔
Top