Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ ۧ
وَمَنْ
: اور جو
لَّمْ يَسْتَطِعْ
: نہ طاقت رکھے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
طَوْلًا
: مقدور
اَنْ يَّنْكِحَ
: کہ نکاح کرے
الْمُحْصَنٰتِ
: بیبیاں
الْمُؤْمِنٰتِ
: مومن (جمع)
فَمِنْ
: تو۔ سے
مَّا
: جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں
مِّنْ
: سے
فَتَيٰتِكُمُ
: تمہاری کنیزیں
الْمُؤْمِنٰتِ
: مومن۔ مسلمان
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِاِيْمَانِكُمْ
: تمہارے ایمان کو
بَعْضُكُمْ
: تمہارے بعض
مِّنْ
: سے
بَعْضٍ
: بعض (ایک دوسرے سے
فَانْكِحُوْھُنَّ
: سو ان سے نکاح کرو تم
بِاِذْنِ
: اجازت سے
اَھْلِهِنَّ
: ان کے مالک
وَاٰتُوْھُنَّ
: اور ان کو دو
اُجُوْرَھُنَّ
: ان کے مہر
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
مُحْصَنٰتٍ
: قید (نکاح) میں آنے والیاں
غَيْرَ
: نہ کہ
مُسٰفِحٰتٍ
: مستی نکالنے والیاں
وَّلَا
: اور نہ
مُتَّخِذٰتِ
: آشنائی کرنے والیاں
اَخْدَانٍ
: چوری چھپے
فَاِذَآ
: پس جب
اُحْصِنَّ
: نکاح میں آجائیں
فَاِنْ
: پھر اگر
اَتَيْنَ
: وہ کریں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی
فَعَلَيْهِنَّ
: تو ان پر
نِصْفُ
: نصف
مَا
: جو
عَلَي
: پر
الْمُحْصَنٰتِ
: آزاد عورتیں
مِنَ
: سے
الْعَذَابِ
: عذاب (سزا)
ذٰلِكَ
: یہ
لِمَنْ
: اس کے لیے جو
خَشِيَ
: ڈرا
الْعَنَتَ
: تکلیف (زنا)
مِنْكُمْ
: تم میں سے
وَاَنْ
: اور اگر
تَصْبِرُوْا
: تم صبرو کرو
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی انکو (دی جائے) یہ (لونڈی کیساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر :
25
۔ اس آیت میں اکیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن لم یستطع منکم طولا “ اللہ تعالیٰ نے نکاح میں تخفیف پر آگاہ فرمایا اور وہ لونڈی سے نکاح کرنا ہے اس لیے جو طاقت نہیں رکھتا کہ آزاد عورت سے نکاح کرے، طول کے معنی میں علماء کے تین مختلف اقوال ہیں پہلا معنی یہ ہے السعۃ والغنی یعنی خوشحالی اور غنی یہ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد، سعید بن جبیر سدی، ابن زید، اور اماملکرحمۃ اللہ علیہم کا مدونہ میں قول ہے کہا جاتا ہے : طال یطول طولا یعنیفضل کرنے اور قدرت میں طاقت رکھتا ہے۔ فلان ذو طول، یعنی وہ مال میں قدرت والا ہے۔ یہ طا کے فتحہ کے ساتھ ہے اور طا کے ضمہ کے ساتھ ہو تو وہ قصر (پست) کی ضد ہے۔ یہاں اکثر علماء کے قول میں مہر پر قدرت مراد ہے، یہی امام شافعی، امام احمد، ابو ثور اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، احمد بن المعذل نے کہا : عبدالملک نے کہا ہے کہ الطول سے مراد ہر وہ نقدی یا سامان یا مالدار شخص پر قرض ہے جو نکاح پر مقرر کیا جاتا ہے اور فرمایا : ہر وہ چیز جس کا بیچنا اور اجارہ کرنا ممکن ہے وہ طول ہے، اور فرمایا : ایک بیوی دو بیویاں، اور تین بیویاں طول نہیں ہیں۔ اور فرمایا : میں نے امام مالک (رح) سے سنا کہ عبدالملک نے کہا : بیوی کے ذریعے نکاح نہیں کیا جاتا اور نہ اس کے ذریعے غیر تک پہنچا جاتا ہے، کیونکہ وہ مال نہیں ہے، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے پوچھا گیا جس نے لونڈی سے نکاح کیا جب کہ وہ طاقت رکھتا ہے تو امام مالک (رح) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ ان کے درمیان تفریق کی جائے، پھر کہا گیا : وہ بدکاری کا خوف رکھتا ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : اسے کوڑے مارا جائے گا پھر اس کے بعد تخفیف فرمائی۔ دوسرا قول یہ ہے، الطول سے مراد آزاد عورت ہے، امام مالک (رح) کا قول آزاد عورت کے بارے میں مختلف ہے کہ کیا وہ طول ہے یا نہیں ؟ المدونہ میں فرمایا : آزاد عورت طول نہیں ہے جو لونڈی کے نکاح سے روکتی ہے جب وہ دوسری کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے بدکاری کا خوف ہو اور کتاب محمد میں جو ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ آزاد عورت طول ہے لخمی نے کہا : یہی ظاہر قرآن ہے۔ یہی ابن حبیب سے مروی ہے، یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے، یہ تقاضا کرتا ہے کہ جس کے پاس آزاد عورت ہو اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ طاقت نہ رکھتا ہو اور بدکاری کا خوف بھی ہو، کیونکہ وہ شہوت طلب کرتا ہے اور اس کے پاس عورت موجود ہے یہی طبری کا قول ہے اور اس قول کی تائید میں حجت قائم کی ہے امام ابو یوسف نے فرمایا : الطول سے مراد پہلے آزاد عورت کا عقد میں موجود ہونا ہے، جب اس کے عقد میں آزاد عورت ہوگی تو وہ ذوالطول ہوگا اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ الطول سے صبر اور جبر ہے اس شخص کے لیے جو کسی لونڈی سے محبت رکھتا ہے اور اتنی محبت رکھتا ہے کہ وہ کسی دوسری عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے جائز ہے کہ وہ لونڈی سے نکاح کرے جب کہ وہ اس کی محبت پر ضبط نہیں رکھتا اور اسے اس کے ساتھ بدکاری کا خوف ہے اگرچہ وہ آزاد عورت سے نکاح کے لیے مال میں وسعت بھی رکھتا ہو، یہ قتادہ، نخعی، عطا، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے اس تاویل پر (آیت) ” لمن خشی العنت “۔ کا ارشاد صبر نہ کرنے کی صفت میں ہوگا اور پہلی تاویل پر لونڈی سے نکاح کرنا دو شرطوں کے ساتھ معلق ہوگا مال میں وسعت نہ رکھنا اور بدکاری کا خوف، پس یہ حکم صحیح نہ ہوگا مگر دونوں شرطوں کے جمع ہونے کے ساتھ۔ یہ امام مالک (رح) کے مذہب کی مدونہ میں ابن نافع، ابن القاسم، ابن وہب اور ابن زیاد رحمۃ اللہ علیہم کی روایت سے نص ہے، مطرف اور ابن ماجشون نے کہا : انسان کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا حلال نہیں، اور یہ دونوں ثابت نہیں کرتے مگر یہ کہ دونوں شرطیں جمع ہوجائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اصبغ نے بھی یہی کہا ہے اور یہ قول حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس، عطا، طاؤس، زہری، اور مکحول رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے اور یہ قول امام شافعی، ابو ثور اور امام احمد، اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، ابن المنذر (رح) وغیرہ نے اس کو اختیار کیا ہے، پس اگر مہر پائے اور نفقہ نہ پائے تو امام مالک (رح) نے کتاب محمد میں فرمایا : اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے اصبغ رحمۃ اللہ علیہنے کہا : یہ جائز ہے، کیونکہ لونڈی کا خرچہ اس کے مالکوں پر ہے جب خاوند اس کو اپنے ساتھ نہ رکھے، اور اس آیت میں چوتھا قول بھی ہے، مجاہد نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس لونڈی پر دوسری لونڈی اور نصرانیۃ عورت سے نکاح کرنے کی وسعت دی ہے اگر وہ شخص خوشحال ہو امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے اور انہوں نے بدکاری کے کوکی شرط نہیں رکھی جب کہ پہلے اس کے نکاح میں آزاد عورت نہ ہو، یہ علماء فرماتے ہیں : ہر وہ مال جس کے ساتھ لونڈی سے شادی کرنا ممکن ہے اس کے ساتھ آزاد عورت سے شادی کرنا بھی ممکن ہے پس اس بنا پر مطلقا لونڈی سے نکاح کے جواز میں یہ آیت اصل ہے۔ مجاہد نے کہا : اس کے مطابق سفیان بھی عمل کرتے تھے۔ میں نے ان سے لونڈی کے نکاح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ابن ابی لیلی عن المنہال عن عباد بن عبداللہ عن علی ؓ کی سند سے بتایا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جب لونڈی پر آزاد عورت سے نکاح کیا جائے تو آزاد کے لیے دو دون ہوں گے اور لونڈی کے لیے ایک دن ہوگا، فرمایا : حضرت علی اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے، اس قول کی دلیل اللہ تعالیٰ کے ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” واحل لکم ماورآء ذلکم “۔ اور ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المؤمنت فمن ماملکت ایمانکم من فتیتکم المؤمنت واللہ اعلم بایمانکم، بعضکم من بعض، فانکحوھن باذن اھلھن واتوھن اجورھن بالمعروف محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب ذلک لمن خشیہ العنت منکم “۔ کا عموم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ “۔ (اور نکاح کرو جو پسند آئیں تمہیں (ان کے علاوہ دوسری) عورتوں سے دو دو، تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم ان میں عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی) علماء کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی چار عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے اگرچہ اسے عدل نہ کرنے کا خوف بھی ہو، علماء نے فرمایا : اسی طرح اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے اگرچہ وہ آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، امام مالک (رح) سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ آزاد عورت پر قدرت کے باوجود لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے اور یہ ان کا ضعیف قول ہے، اور کبھی امام مالک (رح) نے فرمایا : یہ واضح حرام نہیں ہے اور میں اس کو جائز کہتا ہوں اور صحیح یہ ہے کہ آزاد مسلمان مرد کے لیے کسی غیر مسلمہ لونڈی سے نکاح کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے اور نہ اس کے لیے مسلمان لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے مگر دو شرطوں کے ساتھ جن کو نص قرآنی میں بیان کیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے العنت سے مراد زنا ہے۔ اگر آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور زنا کا خدشہ بھی نہ ہو تو لونڈی سے نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے اسی طرح اگر آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور زنا کا اندیشہ ہو (تو پھر بھی لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں) اگر آزاد کتابیۃ سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو پھر یہ مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) کیا لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے ؟ اس کے متعلق ہمارے علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء نے فرمایا : لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے، کیونکہ مسلمان لونڈی، کافرہ لونڈی سے ملحق نہیں ہے مومنہ لونڈی، مشرکہ آزاد عورت سے بہتر ہے۔ ابن عربی نے اس کا اختیار کیا ہے، بعض علماء نے فرمایا : کتابیہ سے نکاح کرے، کیونکہ لونڈی ایمان کی وجہ سے اگرچہ کافرہ آزاد پر فضیلت رکھتی ہے تو کافرہ حریت (آزادی) کی وجہ سے اس پر فضیلت رکھتی ہے، یہ بیوی ہے اگر اس کا بچہ پیدا ہوگا تو وہ آزاد ہوگا غلام نہیں بنایا جائے گا اور لونڈی کا بچہ غلام ہوگا وہ اپنے مذہب پر مسئلہ بیان کر رہے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اس شخص کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جو لونڈی پر آزاد عورت سے نکاح کرتا ہے جبکہ آزاد عورت کو اس کا علم نہیں ہیی، (کہ پہلے اس کا لونڈی سے نکاح ہے) علماء کی ایک جماعت نے کہا کہ نکاح ثابت ہے، سعید بن مسیب، عطاء بن ابی رباح، شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے نے اسی طرح کہا ہے، اور حضرت علی ؓ سے یہی مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : آزاد عورت کو جب علم ہو تو اسے اختیار ہے پھر اسے کس چیز میں اختیار ہے ؟ زہری، سعید بن مسیب، امام مالک، امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : چاہے تو اپنے خاوند کے ساتھ رہے، چاہے تو اسے جدا کر دے، عبدالملک (رح) نے کہا : لونڈی کے نکاح کو قائم رکھنے یا اسے فسخ کرنے میں اسے اختیار ہے، نخعی نے کہا : جب لونڈی پر آزاد عورت سے نکاح کرے تو لونڈی کو جدا کردے مگر یہ کہ لونڈی سے اس کی اولاد ہو تو پھر ہو لونڈی کو جدا نہ کرے، مسروق نے کہا : لونڈی کا نکاح فسخ کیا جائے گا، کیونکہ یہ ضرورت کے لیے مباح کیا گیا تھا، جس طرح مردار ضرورت کے لیے مباح ہوتا ہے جب ضرورت اٹھ گئی تو اباحت بھی اٹھ گئی۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اگر کسی کے نکاح میں دو لونڈیاں ہوں جبکہ آزاد عورت کو ان میں سے ایک کا علم ہو دوسری کا علم نہ ہو تو آزاد عورت کو اختیار ہوگا کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ اگر آزاد عورت پر لونڈی سے نکاح کرے پھر وہ راضی ہو پھر اس پر ایک اور لونڈی سے نکاح کرے پھر وہ راضی ہو، پھر اس پر ایک اور لونڈی سے نکاح کرے، پھر وہ انکار کرے تو اس کے لیے یہ اختیار ہے اسی طرح اس کو دو لونڈیوں سے نکاح کا علم نہیں تھا اور ایک کے بارے میں علم تھا (تو اسے اختیار ہے) ابن القاسم نے کہا : امام مالک (رح) نے فرمایا : ان مسائل میں ہم نے آزاد عورت کے لیے اختیار رکھا ہے، کیونکہ مجھ سے پہلے علماء نے یہی فرمایا ہے، ان علماء سے مراد سعید بن مسیب، ابن شہاب وغیرہ ہیں، امام مالک (رح) نے فرمایا : اگر مذکورہ علماء کے اقول نہ ہوتے تو میں اسے حلال سمجھتا، کیونکہ یہ کتاب اللہ میں حلال ہے اگر مرد کو ایک آزاد عورت کفایت نہ کرے اور اسے دوسری عورت کی ضرورت ہو اور وہ اس کے مہر پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے حتی کہ ظاہر قرآن کی وجہ سے چار عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے، یہ ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے، ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس کا نکاح رد کیا جائیی گا، ابن عربی نے کہا : دلیل میں پہلا قول اصح ہے اسی طرح قرآن میں ہے کیونکہ جو سبب محقق نکاح کرنے کا اختیار ہے وہ جان چکی ہے کہ اگر وہ آزاد عورت سے نکاح پر قادر نہ ہوگا تو لونڈی سے نکاح کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر شرط نہیں لگائی ہے جس طرح اس نے اپنے اوپر شرط لگائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی شرط میں اس کے علم کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا اس باب میں یہی تحقیق کی انتہاء ہے اور اس میں انصاف کا پہلو ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والمحصنت “۔ اس سے مراد آزاد عورتیں ہیں اس کی دلیل آزاد اور لونڈیوں کے درمیان تقسیم ہے جو اس ارشاد میں ہے : (آیت) ” من فتیتکم المؤمنت “۔ ایک جماعت نے کہا : اس کا معنی پاک دامن عورتیں ہیں اور یہ ضعیف قول ہے، کیونکہ لونڈیاں بھی اس کے تحت واقع ہوتی ہیں، پس اہل کتاب کے لونڈیوں سے نکاح جائز قرار دیا ہے اور بدکارہ مومنات اور کتابیات کو حرام کیا ہے، یہ ابن میسرہ اور سدی کا قول ہے، علماء کا اختلاف ہے لونڈیوں سے نکاح کرنے کے جواز میں اس آزاد کے لیے جو آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں رکھتا اور اسے بدکاری کا خطرہ ہے، امام مالک (رح)، امام ابو حنیفہ، ابن شہاب زہری اور حارث عکلی رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ اس کے لیے چار لونڈیوں سے نکاح کرنا جائز ہے، حماد بن ابی سلمان نے کہا : دو لونڈیوں سے زیادہ سے نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ امام شافعی، ابو ثور، امام احمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ صرف ایک لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور مسروق ؓ اور ایک جماعت کا قول ہے اور انہوں نے اس ارشاد سے دلیل پکڑی ہے۔ (آیت) ” لمن خشی العنت منکم “۔ اور یہ خدشہ ایک کے نکاح سے زائل ہوجاتا ہے۔ (یعنی ایک سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے) مسئلہ نمبر : (
6
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن ما ملکت ایمانکم “۔ یعنی غیر کی لونڈی سے نکاح کرے اور علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنی لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں حقوق کا تعارض ہے اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من فتیتکم “۔ یعنی لونڈیاں فتیات، جمع ہے فتاۃ کی اور عرب غلام کو فتی اور لونڈی کو فتاۃ کہتے ہیں صحیح حدیث میں ہے تم میں کوئی عبدی اور امتی (میرا غلام، میری لونڈی) نہ کہے بلکہ فتای وتفاتی کہے (
1
) (صحیح بخاری، کتاب العتق، باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق وقولہ عبدی اوامتی، حدیث نمبر
2366
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الفتی اور الفتاۃ کا اطلاق جوان آزاد مرد اور عورت پر ہوتا ہے لیکن غلاموں کے لیے جوانوں اور بوڑھے دونوں صورتوں میں بولے جاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
8
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” المؤمنت “۔ اس لفظ کے ساتھ بیان فرمایا کہ کتابیہ لونڈی کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ یہ صفت امام مالک (رح) امام شافعی (رح) اور ان کے متبعین کے نزدیک اور ثوری اوزاعی، حسن بصری، زہری، مکحول اور مجاہد کے نزدیک شرط ہے، اور علماء کی ایک جماعت نے کہا : جن میں اصحاب الرائے بھی ہیں، کہ کتابیہ لونڈی سے نکاح جائز ہے، ابو عمر نے کہا : میں ان سے پہلے کسی کا قول نہیں جانتا، سوائے ابو عمرو بن شرحبیل کے قول کے اس نے کہا ہے کہ اہل کتاب کی لونڈیاں، ان کی آزاد عورتوں کے قائم مقام ہیں، یہ علماء فرماتے ہیں ،: (آیت) ” المؤمنت “ کا لفظ یہ فاضل وصف کی جہت سے ہے یہ ایسی شرط نہیں ہے کہ اس کے علاوہ جائز ہی نہیں، یہ اس قول کی طرح ہے۔ (آیت) ” فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ “۔ (اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم ان میں عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی) اگر کسی کو عدل نہ کرنے کا خوف ہو پھر وہ ایک سے زیادہ نکاح کرے تو بھی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ وہ زیادہ عورتوں سے نکاح نہ کرے، اسی طرح یہاں بھی افضل یہ ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر مومنہ عورت سے، اگر غیر مومنہ سے نکاح کرے گا تو جائز ہوگا اور انہوں نے آزاد عورتوں پر قیاس سے حجت پکڑی ہے، جب آزاد عورتوں میں مومنات کی صفت نے کتابیات سے نکاح کرنے منع نہیں کیا تو اسی طرح لونڈیوں میں مومنات کا قول، کتابی لونڈیوں سے نکاح کرنے سے مانع نہ ہوگا، اشہب نے المدونہ میں کہا ہے کہ مسلمان غلام کے لیے کتابیہ لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے اور ان کے نزدیک خاوند کو حریت اور دین دونوں میں فضیلت ہے، اور اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ مجوسیہ اور بت پرست لونڈی سے مسلمان کا نکاح جائز نہیں اور جب ان کا نکاح بالاجماع حرام ہے تو اسی ملک یمین کی وجہ سے وطی کرنا بھی قیاسا اور نظرا حرام ہے، طاؤوس، مجاہد، عطا، اور عمرو بن دینا رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ملک یمین کی وجہ سے مجوسیہ لونڈی سے وطی میں کوئی حرج نہیں، یہ شاذ اور متروک قول ہے فقہاء امصار میں سے کسی نے اس کی طرف التفات نہیں کیا، جمہور علماء کا قول ہے کہ ایسی لونڈی سے وطی کرنا حلال نہیں حتی کہ مسلمان ہوجائے، اس مسئلہ میں تفصیلی گفتگو سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واللہ اعلم بایمانکم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ امور کے بواطن کو جاننے والا ہے جبکہ تم امور کے ظاہر کو جانتے ہو، تم تمام آدم کی اولاد ہو اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے اور ضرورت کے وقت لونڈی سیی نکاح کرنے کو عار نہ سمجھو اگرچہ ان کے قیدی ہونے کا زمانہ قریب ہو یا دو گنگی ہو یا اسی جیسی کسی اور صورت میں ہو، اس لفظ میں تنبیہ ہے کہ بعض اوقات لونڈی کا ایمان بعض آزاد عورتوں کے ایمان سے افضل ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” بعضکم من بعض “ یہ مبتدا خبر ہیں جیسے تیرا قول ہے، زید فی الدار مطلب یہ ہے کہ تم آدم کے بیٹے ہو، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تم مومن ہو، بعض نے فرمایا : کلام میں تقدیم وتاخیر ہے معنی یہ ہے کہ جو تم میں سے آزاد مومنات سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو تم میں سے بعض بعض سے نکاح کرلے، یہ اس کی لڑکی سے، یہ اس کی لڑکی سے پس اس تقدیر پر (آیت) ” بعضکم “ فعل فلینکح کی وجہ سے مرفوع ہوگا، اور اس کلام سے مقصود ان عربوں کے نفوس کو مطمئن کرنا ہے جو لونڈی کی اولاد کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اس کو عار دلاتے تھے اور اس کو الھجین کہتے تھے، جب شریعت اسلامیہ نے لونڈی سے نکاح کے جواز کا حکم دیا تو انہوں نے جان لیا کہ اس تھجین کا کوئی معنی نہیں لونڈی کا مرتبہ جب کم ہوگیا تو آزاد مرد کے لیے بغیر ضرورت کے اس سے نکاح کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ بچے کی غلامی کا سبب بنتی ہے اور لونڈی ہمیشہ اپنے خاوند کے لیے فارغ بھی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فانکحوھن باذن اھلھن “۔ یعنی اس کے ارباب ولایت کیا جازت سے نکاح کرو اسی طرح غلام بھی اپنے آقا کی اجازت سے نکاح کرے گا، کیونکہ غلام مملوک ہوتا ہے اس کا کوئی امر نہیں ہوتا اور اس کا پورا بدن مستغرق ہوتا ہے لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ غلام جب آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا پھر اس کا آقا اس کی اجازت دے گا تو نکاح جائز ہوگا، یہ امام مالک (رح) اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے، اور یہی قول حسن بصری، عطا بن ابی رباح، سعید بن مسیب، شریح اور شعبی کا قول ہے اور لونڈی جب اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو وہ نکاح فسخ ہوجائے گا آقا کی اجازت سے جائز نہ ہوگا، کیونکہ لونڈی میں النوثت کا نقصان قطعی طور پر اس کے نکاح کے انعقاد سے مانع ہے، ایک طائفہ نے کہا : جب غلام بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا تو اس کا نکاح بھی فسخ ہوگا، یہ امام شافعی، اوزاعی، داؤد بن علی رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، یہ علماء فرماتے ہیں، آقا کی اجازت جائز نہیں کرتی اگر وہ نکاح میں موجود نہ ہو، کیونکہ فاسد عقد کو اس کی اجازت صحیح نہیں کرتی، اگر وہ نکاح کا ارادہ کرے گا تو دوبارہ نکاح کرے گا، مسلمانوں کے علماء کا اجماع ہے کہ آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح جائز نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر ایسے غلام کو زانی شمار کرتے تھے اور اسے حد لگاتے تھے، یہی ابو ثور (رح) کا قول ہے عبدالرزاق (رح) نے عبداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر اور عن معمر عن ایوب عن نافع عن ابن عمر کی دو سندوں سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنے غلام کو پکڑا جس نے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تھا پھر اسے حد لگائی اور انہیں (میاں، بیوی کو) جدا کردیا اور اس عورت کے مہر کو باطل قرار دیا، عبدالرزاق (رح) نے کہا : ہمیں ابن جریج (رح) نے بتایا انہوں نے موسیٰ بن عتبہ سے روایت کیا انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ ، آقا کی اجازت کے بغیر غلام کے نکاح کو زنا خیال کرتے تھیی اور اس کو حد لگانے کا نظریہ رکھتے تھے اور انہیں بھی سزا دیتے تھے جو ان دونوں کا نکاح کرتے تھے (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب فی نکاح العبد بغیر اذن سیدہ، حدیث نمبر
1779
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) عبدالرزاق نے فرمایا ہمیں ابن جریج نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے روایت کرکے بتایا کہ انہوں نے فرمایا میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کیا وہ زانی ہے۔ “ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب النکاح، جلد
1
، صفحہ
132
، ایضا، حدیث نمبر
1090
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے : یہ نکاح حرام ہے، اگر آقا کی اجازت سے نکاح کرے گا تو طلاق اس کے ہاتھ میں ہوگی جو فرج کو حلال کرے گا، ابو عمر ؓ نے کہا : اس پر حجاز اور عراق کے علماء کا مذہب ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے بلا اختلاف مروی ہے کہ طلاق آقا کے ہاتھ میں ہے اس پر حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور ایک فرقہ نے ان کی متابعت کی ہے، یہ علماء کے نزدیک شاذ قول ہے اس پر توجہ نہیں دی جائے گی، میرا خیال ہے حضرت ابن عباس ؓ نے اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے۔ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شیء “۔ (النحل :
75
) اللہ تعالیٰ نے عبد مملوک کی مثال بیان فرمائی جو کسی چیز پر قادر نہیں ہوتا، اور اہل علم کا اجماع ہے کہ غلام کا نکاح، آقا کی اجازت سے جائز ہے، اگر اس نے نکاح فاسد کیا تو امام شافعی (رح) نے فرمایا : اگر اس نے مصاحبت نہیں کی تو عورت کے لیے کچھ نہ ہوگا اور اگر مصاحبت کرچکا ہوگا تو اس پر مہر ہوگا جب وہ آزاد ہوگا یہ صحیح مذہب یہی امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے، اس پر مہر نہ ہوگا حتی کہ وہ آزاد ہوجائے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اگر اس سے مصاحبت کرے گا تو اس عورت کے لیے مہر ہوگا، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا : جب غلام دو شخصوں کا ہو اور ایک مالک اسے نکاح کی اجازت دے دے اور وہ نکاح کرے تو نکاح باطل ہوگا رہی لونڈی جب اپنے مالک سے نکاح کی اجازت طلب کرے اور وہ اسے نکاح کی اجازت دے دے تو جائز ہے اگرچہ وہ خود عقد نہ بھی کرے لیکن اس کو عقد کا ولی بنایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتوھن وجورھن “۔ نکاح میں مہر کے وجوب پر یہ جملہ دلیل ہے اور یہ مہر لونڈی کے لیے ہوگا، (آیت) ” بالمعروف “ اس کا معنی ہے شرع اور سنت کے مطابق، یہ کلام تقاضا کرتا ہے کہ لونڈیاں اپنے مہر کی اپنے مالکوں کی نسبت خود زیادہ حقدار ہیں، یہ امام مالک (رح) کا مذہب ہے، کتاب الرہون میں ہے : آقا کے لیے لونڈی کا مہر لینا اور بغیر جہیز (سامان) کے اسے چھوڑ دینا جائز نہیں (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
38
) امام شافعی (رح) نے فرمایا : مہر آقا کے لیے ہے، کیونکہ وہ عوض ہے پس مہر لونڈی کیے لیے نہ ہوگا، اس کی اصل لونڈی سے منفعت اٹھانے کی اجازت ہے۔ لونڈی کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ مہر اس کے سبب واجب ہوا ہے قاضی اسماعیل نے احکام میں ذکر کیا ہے کہ بعض عراقیوں نے خیال کیا ہے کہ جب مالک اپنی لونڈی کا نکاح اپنے غلام سے کر دے تو مہر نہیں ہوگا، یہ قول کتاب وسنت کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” محصنت “۔ یعنی پاک دامن عورتیں، کسائی نے اسے محصنات سارے قرآن میں صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے سوائے اس ارشاد کے (آیت) ” والمحصنت من النسآئ “۔ اور باقی قراء نے پورے قرآن میں صاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ پھر فرمایا : غیر مسافحات اعلانیہ زنا کرنے والی نہ ہو، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں علانیہ زنا کرنے والی ہوتی تھیں، ان کے لیے جھنڈے گاڑے ہوئے ہوتے تھے بیطار کے جھنڈے کی طرح۔ (آیت) ” ولا متخذت اخدان “۔ (نہ بنانے والی ہوں پوشیدہ یار) برائی پر دوست نہ بنانے والی ہوں، اخدان کا واھد خدن اور خدین ہے۔ وہ جو تمہیں دوست بنائے، رجل خدنۃ جب کوئی دوست بنائے یہ ابو زید سے مروی ہے، بعض علماء نے فرمایا : مسافحہ کا معنی اعلانیہ زنا کرنے والی ہے یعنی جو عورت کرائے پر زنا کرتی ہے۔ ذات الخدن جو پوشیدہ زنا کرتی ہے بعض علماء نے فرمایا : المسافحہ سے مراد ہر شخص سے بدکاری کرنے والی اور ذات الحذن جو کسی ایک سے زنا کرتی ہے عرب اعلانیہ زنا کو معیوب سمجھتے تھے اور پوشیدہ یار بنانے کو معیوب نہیں جاتے تھے اسلام نے یہ تمام صورتیں اٹھادیں اس کے متعلق یہ ارشاد نازل ہوا۔ (آیت) ” ولا تقربوا الفواحش ماظھر منھا وما بطن “۔ (الانعام :
151
) یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاذا احصن “۔ عاصم، حمزہ اور کسائی کی قرات ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ (
1
) (معالم التنزیل، جلد
2
، صفحہ
47
) اور باقی قراء کی قرات ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ ہے ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے : جب وہ اسلام قبول کریں اور جب ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے : جب ان کا نکاح کیا گیا ہو، جب مسلمان لونڈی زنا کرے گی تو اسے آزاد عورت کے کوڑوں سے نصف کوڑے لگائیں جائیں گے، اس کا مسلمان ہونا اس کا محصن ہونا ہے یہ جمہور، حضرت ابن مسعود، شعبی، زہری رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم کے قول میں ہے اور کافرہ لونڈی کو حد نہیں لگائی جائے گی جب وہ زناد کرے گی، یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہکا قول ہے۔ جو ابن المنذر (رح) نے ذکر کیا ہے، دوسرے علماء نے فرمایا : لونڈی کا احصان اس کا آزاد شخص سے نکاح کرنا ہے جب غیر شادی شدہ مسلمان لونڈی زناکرے گی تو اس پر حد نہ ہوگی، یہ سعید بن جبیر، حسن اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے اور ابو عبید نے بھی یہی کہا ہے، اس نے کہا کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ کی حدیث میں ہے کہ ان سے لونڈی کی حد کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ان الامۃ القت فروہ راسھا من وراء الدار۔ اصمعی نے کہا : الفروۃ سر کی جلدکو کہتے ہیں۔ ابو عبید نے کہا : حضرت عمر ؓ نے فروہ سے مراد سر کی جلد نہیں لی ہے اسے کیسے گھر کے پیچھے پھینک سکتی ہے، لیکن یہ مثال ہے فروہ سے مراد پردہ ہے، یعنی اس پر کوئی پردہ نہیں ہوتا وہ ہر جگہ جاتی ہے جہاں اس کے مالک اسے بھیجتے ہیں وہ اس سے بچنے پر قادر نہیں ہوتی، پس وہ اس وجہ سے برائی سے بچنے پر قادر نہیں ہوتی مثلا اسے بکریاں چرانا ہوتی ہے ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ، گویا حضرت عمر ؓ نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اس پر اس وجہ سے حد نہیں ہے اگر وہ زنا کرے، ایک فرقہ نے کہا ہے کہ لونڈی کا احصان اس کا نکاح کرنا ہے مگر غیر شادی شدہ مسلمان لونڈی پر حد سنت سے واجب ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ لونڈی جب زنا کرے اور شادی شدہ نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے اس پر حد کو واجب کیا (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحدود جلد
2
، صفحہ
70
، صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب بیع العبد الزانی، حدیث نمبر
2009
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور زہری نے کہا : شادی شدہ مسلمان لونڈی کی حد قرآن نے متعین فرمائی ہے اور غیر شادی شدہ کی حد، حدیث سے متعین ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
39
) اور جن علماء نے اذا احصن کا معنی اسلام لانا کیا ہے، قاضی اسماعیل نے کہا : اس میں بعد ہے کیونکہ ایمان کا ذکر تو ان سے پہلے (آیت) ” من فتیتکم المؤمنت “۔ میں گذر چکا ہے اور رہے وہ علماء جنہوں نے احصن کا معنی تزوجن کیا ہے اور کہا ہے کہ لونڈی پر حد نہیں ہے حتی کہ وہ شادی کرلے، یہ علماء ظاہر قرآن پر گئے ہیں میرا خیال ہے انہیں یہ حدیث معلوم نہیں تھی ہمارے نزدیک معاملہ یہ ہے کہ لونڈی جب زنا کرے اور وہ شادی شدہ ہو تو کتاب اللہ کے ساتھ اسے کوڑے لگائے جائیں گے او جب زنا کرے جب شادہ شدہ نہ تو نبی مکرم ﷺ کی حدیث کیوجہ سے کوڑے لگائے جائیں گے، لونڈی پر رجم نہ ہوگا کیونکہ رجم کا نصف نہیں ہوتا۔ ابو عمر ؓ نے کہا : قرآن کا ظاہر تقاضا کرتا ہے کہ لونڈی پر حد نہیں ہے اگرچہ وہ مسلمان بھی ہو مگر شادی کے بعد، پھر سنت نے اس کے کوڑوں کو بیان کیا اگرچہ شادی شدہ نہ ہو پس یہ اس کے بیان کی زیادتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مون کی پیٹھ محفوظ ہے اسے مباح نہیں کیا جائے گا مگر یقین کے ساتھ اور اختلاف کے ہوتے ہوئے یقین نہیں ہوتا تو پھر صحیح سنت میں اس کی کوڑوں کی سزا کا ذکر ہے اسے کیوں نہ تسلیم کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ ابن المنذر (رح) نے ابو ثور (رح) کا قول ذکر کیا ہے کہ اگر علماء کا غلام اور لونڈی کو، زنا کی صورت میں رجم کرنے میں اختلاف ہوگا تو جب وہ محصن ہوں گے تو انہیں رجم کیا جائے گا اور اگر اجماع ہوگا تو پھر اجماع اولی ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
15
) علماء کا اختلاف ہے کہ غلام اور لونڈی زنا کریں گے تو ان پر حد کون لاگو کرے گا ؟ ابن شہاب نے کہا : سنت قائم ہوچکی ہے کہ زنا کی صورت میں انہیں ان کے مالک حد لگائیں گے مگر ان کا مقدمہ سلطان تک پہنچایا جائے گا تو پھر کسی کے لیے اس کیا اجازت کے بغیر کوئی کام کرنا جائز نہ ہوگا۔ نبی مکرم ﷺ کے ارشاد کا بھی یہی متقضی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اسے حد لگائے، (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الحدود، جلد
2
، صفحہ
70
، صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب بیع المدبر، حدیث نمبر
2080
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت علی ؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : اپنے غلاموں پر حد قائم کرو جو ان میں سے محصن ہیں اور جو محصن نہیں ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی لونڈی نے زنا کیا تو مجھے نبی مکرم ﷺ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم فرمایا، اس کا قریب ہی بچہ پیدا ہوا تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ میں اسے کوڑے لگاؤں گا تو اسے قتل کر دوں گا، میں نے اس کا ذکر نبی مکرم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تو نے اچھا کیا “۔ (
4
) جامع ترمذی، کتاب الحدود جلد
1
صفحہ
173
) (کہ اسے کوڑے نہیں لگائے) “ اس حدیث کو مسلم نے حضرت علی ؓ سے موقوف نقل کیا ہے نسائی نے اسے مسند ذکر کیا ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر (زنا کرنے کی صورت میں) حد قائم کرو جو ان میں محصن ہیں اور جو محصن نہیں ہیں “۔ یہ نص ہے کہ سردار ہی اپنے غلاموں پر حدود قائم کریں گے ان میں سے جو محصن ہیں اور جو محصن نہیں ہیں۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : آقا اپنے غلام کو حد لگائے گا زنا، شراب پینے اور قذف لگانے میں جب کہ گواہ اس کے پاس گواہی دین اور چوری میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹے گا بلکہ امام اس کا ہاتھ کاٹے گا، یہ لیث کا قول ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے غلاموں پر حدود قائم کیں، ان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت انس ؓ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی ان کا مخالف نہیں، ابن ابی لیلی سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں نے انصار کے بقیہ لوگوں کو پایا کہ وہ اپنی لونڈیوں میں سے اس لونڈی کو اپنی مجالس میں مارتے تھے جب وہ زنا کرتی تھی، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا غلاموں اور لونڈیوں پر زنا اور تمام حدود میں سلطان حدود قائم کرے گا، آقا یہ نہیں کرے گا، یہی حسن بن حی کا قول ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : آقا ہر حد لگائے گا اور ہاتھ کاٹے گا اور امام شافعی (رح) نے ان احادیث سے حجت پکڑی ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں ثوری اور اوزاعی نے کہا : زنا میں آقا اسے حد لگائے گا اور یہی احادیث کا مقتضی ہے، واللہ اعلم، اسی سورت میں غلام کو جلاوطن کرنے کے متعلق گفتگو گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) اگر لونڈی زنا کرے پھر آقا کے حدلگانے سے پہلے وہ آزاد کردی گی تو آقا کو اس کو حد لگانے کا اختیار نہ ہوگا اور سلطان اسے کوڑے لگائے گا جب زنا اس کے سامنے ثابت ہوجائے گا، اگر لونڈی زنا کرے پھر نکاح کرلے تو پھر بھی آقا کو اسے کوڑے مارنے کا اختیار نہ ہوگا، کیونکہ خاوند کے حق کو نقصان پہنچے گا یہ امام مالک کا مذہب ہے جب کہ خاوند بھی اس آقا کا غلام نہ ہو، اگر خاوند بھی اسی مالک کا غلام ہوگا تو پھر آقا کے لیے حد لگانا جائز ہوگا، کیونکہ ان دونوں کا حق اس کا حق ہے۔ مسئلہ نمبر : (
17
) اگر غلام زنا کا اقرار کرے اور آقا اس کا انکار کرے تو غلام پر اس کے اقرار کی وجہ سے حد واجب ہوگی اور آقا کے انکار کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے اسی طرح مدبر، ام ولد، مکاتب اور جس کا بعض حصہ آزاد ہے، ان تمام کا حکم ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے کہ لونڈی جب زنا کرے تو پھر آزاد کی جائے تو اسے لونڈیوں والی حد لگائی جائے گی اور جب وہ زنا کرے جب کہ اسے اپنی آزادی کا علم نہیں تھا، پھر اسے علم ہوا تو اس پر آزاد عورت کی پوری حد لگائی جائے گی، ابن المنذر (رح) نے یہ ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) غلام اور لونڈی جب زنا کریں تو آقا کے ان کو معاف کرنے کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، حسن بصری فرماتے ہیں : اسے معاف کرنے کا اختیار ہے، اس کے علاوہ علماء نے کہا : اسے حد قائم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جیسا کہ سلطان کو حد کے ثبوت کے متعلق علم ہونے کے بعد معاف کرنے کی گنجائش نہیں، اسی طرح آقا کو اپنی لونڈی کو معاف کرنے کی گنجائش نہیں جب اس پر حد واجب ہوجائے، یہ ابو ثور کے مذہب پر ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
19
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب “۔ یعنی کوڑوں کی سزا نصف ہوگی لونڈیوں پر، یہاں المحصنت سے مراد کنواری عورتیں ہیں، کیونکہ شادی شدہ پر رجم ہے اور رجم کا نصف نہیں ہوتا۔ کنواری کو محصنۃ کہا گیا ہے اگرچہ وہ شادی شدہ نہیں ہے، کیونکہ احصان شادی کے ساتھ ہوتا، جیسا کہ کہا جاتا ہے : قربانی کو اس کو قربان کرنے سے پہلے کہا جاتا ہے اور اسی طرح بقرۃ (بیل) کو مشیرہ (ہل چلانے والی) کہا جاتا ہے اس کے زمین میں ہل چلانے سے پہلے بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” المحصنت “۔ سے مراد شادی شدہ عورتیں ہیں، کیونکہ ان پر حدیث میں ضرب اور رجم ہے اور رجم کا نصف نہیں ہوتا پس ان پر نصف کوڑوں کی سزا ہوگی، لونڈیوں کی حد میں کمی اس وجہ سے ہے کہ وہ آزاد عورتوں سے کمزور ہوتی ہیں، کہا جاتا ہے : وہ (لونڈیاں) اپنی مراد کو نہیں پہنچتی ہیں جس طرح آزاد عورتیں پہنچتی ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : سزا نعمت کی مقدار کے مطابق واجب ہوتی ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو فرمایا (آیت) ” ینسآء النبی من یات منکن بفاحشۃ منبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین “۔ (الاحزاب :
30
) (اے نبی کریم ﷺ کی بیبیو ! جس کسی نے تم میں سے کھلی ہوئی بیہودگی کی تو اس کے لیے عذاب کو دو چند کردیا جائے گا) جب ازواج مطہرات کی نعمت زیادہ تھی تو اس کی سزا کو بھی سخت فرمایا : اسی طرح لونڈیوں کی نعمت جب کم تھی تو اس کی سزا کو کم کیا، اس آیت میں خاص لونڈیوں کی حد کا ذکر فرمایا اور غلاموں کی حد کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن غلاموں اور لونڈیوں کی سزا برابر ہے زنا میں پچاس کوڑے اور حد قذف اور شراب پینے کی حد چالیس کوڑے ہے، کیونکہ لونڈی کی حد غلامی کے نقصان کی وجہ سے کم ہوئی تو غلامی کی علت کی وجہ سے اس میں غلام بھی داخل ہے جیسا کہ نبی مکرم ﷺ کے ارشاد : ” من اعتق شرکا لہ فی عبد “۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
2
، صفحہ
53
، ایضا صحیح بخاری، کتاب العتق باب اذا اعتق عبد ابین اثنین ارامۃ بین الشرکاء حدیث نمبر
2338
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (جس نے غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا) میں لونڈیاں بھی داخل ہیں، اس کو علماء قیاس فی معنی الاصل کا نام دیتے ہیں، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” والذین یرمون المحصنت “۔ (النور :
4
) اس آیت میں محصن مرد بھی قطعا داخل ہیں، اس کا بیان ان شاء اللہ، سورة النور میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
20
) علماء کا اجماع ہے کہ زانیہ لونڈی کو بیچنا مالک پر لازم نہیں ہے اگر وہ اس کو اپنے لیے پسند کریں کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے ” جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہوجائے تو اسے آقاحد لگائے اور اسے ملامت نہ کرے، پھر اگر زنا کرے تو آقا اسے حد لگائے اور اسے ملامت نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور اس کا زنا ظاہر ہوجائے تو اسے بیچ دے اگرچہ بالوں کی رسی سے (بیچ دے) (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الحدود جلد
2
صفحہ
70
) اس حدیث کو مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ اہل ظاہر نے چوتھی مرتبہ زنا کرنے کی صورت میں اسے بیچنے کے وجوب کا قول کیا ہے، ان علماء میں دادؤ وغیرہ ہیں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے حکم فرمایا : فلیبعھا (اسے بیچ دے) اور فرمایا : ثم بیعوھا ولوبضفیر “۔ (پھر اسے بیچو اگر بالوں کی رسی کے ساتھ (بیچو) ابن شہاب نے فرمایا : میں نہیں جانتا تیسری یا چوتھی مرتبہ کے بعد بچنے کا حکم دیا الضفیر سے مراد رسی ہے جب اسے فروخت کرے تو اس کے زنا کی وضاحت کرے، کیونکہ یہ عیب ہے اور اسے چھپانا حلال نہیں ہے۔ اگر کہا جائے گا کہ حدیث کا مقصود زانیہ کو دور کرنا تھا اور بائع پر اس کے زنا کو بتانا واجب تھا تو کسی کے لیے اس کا خریدنا بھی مناسب نہ ہوگا، کیونکہ ہمیں اس کے دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لونڈی مال ہے اور اسے ضائع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ مال کو ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نہ اسے ہمیشہ کے لیے روکا جائے گا، کیونکہ یہ چیز اس کے لیے زنا پر ابھارنے والی ہے اور یہ اسے زنا پر قدرت دینا ہے اور نہ اسے ہمیشہ کے لیے محبوس کیا جائے گا، کیونکہ اس میں اس کے آقا کی منفعت کو معطل کرنا ہے پس اس کا بیچنا ہی باقی رہ جاتا ہے شاید دوسرا آقا وطی کے ذریعے اسے زنا سے بچا لے یا وہ اس کے بچاؤ میں مبالغہ کرے اور اس طرح وہ اسے اس برائی سے محفوظ کرلے، علی الجملہ مالکوں کے تبدیل ہونے کے وقت اس کے احوال تبدیل ہوجائیں گے۔ مسئلہ نمبر : (
21
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یعنی لونڈی سے نکاح کرنے کی نسبت کنوارہ رہ کر صبر کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ بچے کو غلام بنانے تک پہنچاتا ہے، نفس کو روکنا اور مکارم اخلاق پر صبر کرنا گھٹیاچیز سے بہتر ہے، حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جس آزاد مرد نے لونڈی سے نکاح کیا اس نے اپنا نصف غلام بنالیا، یعنی وہ اپنی اولاد کو غلام بنانے والا ہے پس اس سے صبر افضل ہے تاکہ اولاد کو غلام نہ بنائے، سعید بن جبیر نے کہا : لونڈی سے نکاح زنا نہیں مگر قریب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وان تصبروا خیرلکم “۔ یعنی لونڈیوں کے نکاح سے صبر کرنا تمہارے لیے بہتر ہے، سنن ابن ماجہ میں ضحاک بن مزاحم ؓ سے مروی ہے فرمایا : میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” جو اللہ تعالیٰ سے طاہر مطہر ملنا چاہتا ہے تو وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے “ (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، جلد
1
، صفحہ
135
، ایضا حدیث نمبر
1851
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو اسحاق ثعلبی نے یونس بن مرداس کی حدیث سے روایت کیا ہے اور یہ حضرت انس ؓ کا خادم تھا اور اس نے یہ زائد کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ ” آزاد عورتیں گھر کے لیے صلاح (بہتر) ہیں اور لونڈیاں گھر کے لیے ہلاکت ہیں یا فرمایا گھر کے لیے فساد ہیں “۔
Top