Al-Qurtubi - An-Nisaa : 27
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ١۫ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يَّتُوْبَ : توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَيُرِيْدُ : اور چاہتے ہیں الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ : جو لوگ پیروی کرتے ہیں الشَّهَوٰتِ : خواہشات اَنْ : کہ تَمِيْلُوْا : پھر جاؤ مَيْلًا : پھرجانا عَظِيْمًا : بہت زیادہ
اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو
آیت نمبر : 27 تا 28) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واللہ یرید ان یتوب علیکم “۔ یہ مبتدا خبر ہے اور ان، یرید “ کی وجہ سے محل نصب میں ہے اسی طرح (آیت) ” یرید اللہ ان یخفف عنکم “۔ میں بھی ” ان یرید “ کی وجہ سے محل نصب میں ہے، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری احکام شرع میں ہیں اور یہی صحیح قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : تخفیف سے مراد لونڈی سے نکاح کرنا ہے یعنی جب ہم نے جان لیا کہ تم عورتوں پر صبر کرنے میں کمزور ہو تو ہم نے لونڈیوں سے نکاح کرنے کی تخفیف کردی، یہ مجاہد، ابن زید اور طاؤس کا قول ہے۔ طاؤس نے کہا : انسان عورتوں کے معاملہ میں انتہائی کمزور ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 40 دارالکتب العلمیہ) ، شہوات کی اتباع کرنے والوں کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے، مجاہد نے کہا : اس سے مراد زنا کرنے والے ہیں، سدی نے کہا : یہود و نصاری ہیں، ایک جماعت نے کہا یہ صرف یہود ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مسلمان، باپ کی طرف سے بہنوں سے نکاح کرنے میں ان کی پیروی کریں، ابن زید نے کہا : یہ عموم پر ہے اور یہ اصح ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 40 دارالکتب العلمیہ) المیل کا معنی سیدھے راستہ سے پھرجانا ہے، پس جو سیدھے راستے پر ہوتا ہے وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے ساتھی بھی اس راستہ پر ہوں تاکہ اسے فساد لاحق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” وخلق الانسان ضعیفا، ضعیفا “۔ کی نصب حال کی بنا پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی خواہش نے اس کو راہ حق سے ہٹایا اور اس کی شہوت اور غضب نے اسے حقیر بنایا، یہ انتہائی ضعف ہے پس وہ تخفیف کا محتاج ہوا، طاؤس نے کہا : یہ خاص عورتوں کے معاملہ میں ضعیف کا ذکر ہے (3) (جامع البیان للطبری، جلد 5، صفحہ 39) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں (آیت) ” خلق الانسان ضعیفا “۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 41 دارالکتب العلمیہ) یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ضعیف پیدا فرمایا یعنی وہ عورتوں کے سلسلہ میں صبر نہیں کرسکتا، ابن مسیب نے کہا : مجھ پر اسی سال گزر گئے اور میری آنکھ چلی گئی اور میں دوسری سے بھی کم دیکھتا ہوں اور میرا ساتھی (شرمگاہ) نابینا اور بہرہ ہے اور مجھے عورتوں کے فتنہ سے اندیشہ ہے۔ اور حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : کیا تم مجھے نہیں دیکھتے کہ میں سہارا کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں اور میں نہیں کھاتا مگر جو میرے لیے نرم کیا جاتا ہے اور گرم کیا جاتا ہے اور میرا ساتھی ایک عرصہ سے مر چکا ہے، پھر بھی مجھے پسند نہیں کہ میں کسی ایسی عورت سے خلوت کروں جو میرے لیے حلال نہیں، ہر روز مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں میرے پاس شیطان نہ آجائے اور اسے مجھ پر حرکت دے دے، میرے ساتھ (شرمگاہ) کے لیے نہ سننے کی طاقت ہے نہ دیکھنے کی۔
Top