Al-Qurtubi - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
آیت نمبر : 31۔ اس آیت کے ضمن میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بڑے بڑے گناہوں سے منع فرمایا چھوٹے گناہوں سے اجتناب پر تخفیف کا وعدہ فرمایا۔ یہ دلیل ہے کہ گناہ چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی ہوتے ہیں، یہی اہل تاویل اور فقہاء کی جماعت کا نظریہ ہے، چھونا اور دیکھنا یقینی طور پر بڑے گناہوں سے اجتناب کے ساتھ معاف ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس کا قول حق ہے لیکن اس پر یہ چیز واجب نہیں، اس کی نظیر پہلے (آیت) ” انما التوبۃ علی اللہ “۔ کے ارشاد میں توبہ کی قبولیت کے بارے گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ بڑے گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے چھوٹے گناہ معاف فرما دیتا ہے، لیکن ایک اور چیز بھی اجتناب کبائر کے ساتھ متصل ہو تو یہ صغیر گناہ معاف ہوں گے اور وہ ہے فرائض کا قائم کرنا، امام مسلم (رح) نے حضرت ابویرہرہ (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے پانچ نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک، رمضان سے رمضان تک گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، جب کبائر سے اجنتاب کرے۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 122) ابو حاتم البستی (رح) نے مسند میں حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے پھر تین مرتبہ فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ (2) (المحریر لوجیز جلد 2، صفحہ 44) پھر خاموش ہوگئے ہم میں سے ہر شخص رسول اللہ ﷺ کی قسم کی وجہ سے سر جھکا کر رو رہا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ پانچ نازیں ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور سات بڑے گناہوں سے اجتناب کرے تو قیامت کے روز اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھولے جائیں گے حتی کہ انہیں زور سے بند کیا جائے گا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم “۔ کتاب وسنت سے چھوٹے گناہوں کی تکفیر کی تائید ملتی ہے مثلا غیر محرم کو دیکھنا اور اس کے مشابہ گناہ اور سنت نے بیان فرمایا کہ (آیت) ” تجتنبوا “۔ سے مراد تمام بڑے گناہوں سے کامل اجتناب نہیں ہے واللہ اعلم۔ اصولوں نے فرمایا : کبیرہ گناہوں سے اجتناب کے ساتھ چھوٹے گناہوں کا کفارہ ہونا قطعی طور پر واجب نہیں بلکہ یہ غلبہ ظن، قوت رجا پر محمول ہے اور مشیئت ثابت ہے، اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر گناہ کبیرہ سے اجتناب کرنے والے کے لیے اور فرائض ادا کرنے والے کے لیے ہم قطعی طور پر صغیرہ گناہوں کے کفارہ کا حکم لگائیں تو یہ اس کے لیے اس مباح کے حکم میں ہوں گے جس میں قطعی طور پر گناہ نہیں ہوتا اور یہ شریعت میں نقص ہے۔ اور ہمارے نزدیک کوئی صغیر نہیں ہوگا، قشیری عبدالرحیم نے کہا ہے : صحیح یہ ہے کہ یہ کبائر ہیں لیکن بعض دوسروں سے بڑے گناہ ہیں۔ تمییز، نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بندہ تمام گناہوں سے اجتناب کرے۔ میں کہتا ہوں : جس نے نفس کی مخالفت کی طرف دیکھا جیسا کہ بعض علماء نے فرمایا تو گناہ کے چھوٹا ہونے کی طرف نہ دیکھ بلکہ تو اس کی طرف دیکھ جس کی تو نے نافرمانی کی۔ اس نسبت سے تمام گناہ بڑے ہیں اس طریقہ پر قاضی ابوبکر، استاذ ابو اسحاق اسفرائینی، ابو المعالی، ابو النصر عبدالرحیم قشیری رحمۃ اللہ علیہم کا کلام اسی پر محمول کیا جائے گا، انہوں نے فرمایا : بعض گناہوں کو دوسروں کی نسبت سے صغیرہ گناہ کہا جاتا ہے جس طرح زنا کو کفر کی نسبت صغیرہ کہا جاتا ہے بلکہ یہ تمام کبیرہ ہیں اور کفر کے علاوہ جس کے لیے وہ چاہے گا اسے معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء “۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا اس بات کو کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور بخش دیتا ہے جو اس کے علاوہ ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور انہوں نے (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ “۔ کی قرات سے بھی حجت پکڑی ہے اور بڑا گناہ شرک ہے اور علماء اصول نے فرمایا : کبائر کی صورت میں اس سے مراد کفر کی اجناس ہوگی۔ وہ آیت جس نے حکم کو مقید کیا ہے تمام مطلقات کو اس کی طرف پھیرا جائے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ : (آیت) ” ویغفرما دون ذلک لمن یشآء “۔ اسی طرح علماء اصول نے مسلم وغیرہ کی اس روایت سے بھی حجت پکڑی ہے جو ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کسی مسلمان کا حق اپنی قسم سے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آگ کو واجب کردے گا اور اس پر جنت حرام کر دے گا “۔ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ وہ حق تھوڑا سا بھی ہو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگرچہ وہ کیکر کی چھڑی ہی وہ “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الا ایمان جلد، 1، صفحہ 80) پس تھوڑے سے گناہ پر بھی شدید وعید آئی ہے جس طرح زیادہ گناہ پر آئی ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ہر وہ گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آگ یا غضب یا لعنت یا عذاب کی وعید سنائی ہے، حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے جن گناہوں سے منع فرمایا ہے وہ تینتیس تک ہیں اور اس کی تصدیق یہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ “۔ طاؤوس نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا گناہ کبیرہ ساتھ ہیں ؟ فرمایا یہ ستر کے قریب ہیں، حضرت سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا : ایک شخص نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا : کبیرہ گناہ ساتھ ہیں ؟ فرمایا یہ سات سو تک ہیں ان میں بڑے سات ہیں مگر استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی فرمایا : کبیرہ گناہ چار ہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور رحمت الہیہ سے قنوط اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے امن میں ہونا (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 43 دارالکتب العلمیہ) اور اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، اس پر قرآن دلیل ہے، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ گناہ کبیرہ نو ہیں اور وہ یہ ہیں۔ (1) کسی نفس کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، محصنۃ پر تہمت لگانا، جھوٹی گواہی دینا، والدین کی نافرمانی کرنا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا، جادو کرنا اور بہت الحرام میں الحاد کرنا۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 43 دارالکتب العلمیہ) اور علماء کے نزدیک مندرجہ ذلیل گناہ بھی کبائر میں سے ہیں جوا چوری، شراب پینا، سلف صالحین کو گالی دینا شرعی احکام سے عدول کرنا، خواہش کی اتباع کرنا، جھوٹی قسم کا اٹھانا اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا، انسان کا اپنے والدین کو گالی دینا، آدمی کسی کے والدین کا گالی دیتا ہے پھر وہ اس کے والدین کو گالی دیتا ہے۔ زمین میں فساد کی کوشش کرنا، اس کے علاوہ بھی کثرت سے گناہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں اور احادیث میں آیا ہے جن کو ائمہ نے تخریج کیا ہے، مسلم نے کتاب الایمان میں ان میں سے اکثر کا ذکر کیا ہے، کبائر کے متعلق آثار کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد اور حصر میں علماء کا اختلاف ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کبائر کے متعلق صحیح اور حسن احادیث وارد ہیں ان میں حصر اور شمار کا قصد نہیں کیا گیا ہے لیکن بعض دوسروں کی نسبت بڑے ہیں جن کا ضرر ونقصان زیادہ ہے، شرک تمام کبائر سے بڑا ہے یہ وہ ہے جس کی بخشش نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر نص قائم فرمائی ہے اور اس کے بعد بڑا گناہ رحمت الہیہ سے مایوسی ہے، کیونکہ اس میں قرآن کی تکذیب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کا قول حق ہے (آیت) ” ورحمتی وسعت کل شیئ “۔ (الاعراف : 156) پس جو کہتا ہے کہ وہ اسے نہیں بخشے گا تو اس نے ایک وسیع چیز کو محدود کردیا، یہ اس صورت میں ہے جب وہ اس کا اعتقاد رکھتا ہو، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” انہ لا یایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون “۔ (یوسف) اس کے بعد بڑا گناہ قنوط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ومن یقنط من رحمۃ ربہ الا الضالون “۔ (الحجر) اس کے بعد بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے امن ہونا ہے پس وہ گناہوں میں لگا رہتا ہے اور بغیر عمل کے اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” افامنوا مکر اللہ فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخسرون “۔ (الاعراف) (تو کیا یہ بےخوف ہوگئے ہیں اللہ کی خفیہ تدبیر سے پس نہیں بےخوف ہوتے اللہ کی خفیہ تدبیر سے سوائے اس قوم کے جو نقصان اٹھانے والی ہوتی ہے) اور فرمایا : (آیت) ” ذلکم ظنکم الذی ظننتم بربکم اردکم فاصبحتم من الخسرین “۔ (حم السجدہ) (اور تمہارے اس گمان نے جو تم اپنے رب کے بارے میں کہا کرتے تھے تمہیں ہلاک کردیا پس تم ہوگئے نقصان اٹھانے والوں سے) اس کے بعد بڑا گناہ کسی کو قتل کرنا ہے، کیونکہ نفس کا ضیاع اور وجود کو ختم کرنا ہے، لواطت، اس میں نسل کو ختم کرنا ہے، زنا، اس میں نسب کا اختلاط ہے، شراب پینا، اس میں عقل کا چلانا جانا ہے جس پر تکلیف کا مدار ہے، نماز کا ترک کرنا اور اذان کو ترک کرنا اس میں شعار اسلام کے اظہار کا ترک ہے، جھوٹی گواہی دینا، اس میں خونوں، شرمگاہوں اور اموال وغیرہ کا مباح کرنا ہے اس کے علاوہ ایسے امور جن کا نقصان واضح ہے، ہر وہ گناہ جس کو شرع نے برا کہا اس پر عقاب کی دھمکی دی اور اس پر سختی فرمائی یا اسکا نقصان وجود میں زیادہ ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تو وہ گناہ کبیرہ ہے اس کے علاوہ گناہ صغیرہ ہے، یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وندخلکم مدخلا کریما “۔ ابو عمر و اور اکثر کو فیوں نے ” مدخلا “ کو میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اس میں احتمال ہے کہ مصدر ہو یعنی ادخالا اور مفعول محذوف ہے یعنی ہم تمہیں جنت میں داخل کریں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مدخلا مکان کے معنی میں ہو تو اس صورت میں مفعول ہوگا، اہل مدینہ نے میم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ دخل کا مصدر ہو اور فعل کے اضمار کے ساتھ منصوب ہو تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : ندخلکم فتدخلون مدخلا “۔ اور کلام اس پر دلیل ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ اسم مکان ہو پھر اس کو نصب مفعول بہ کی حیثیت سے ہوگی یعنی ہم تمہیں معزز جگہ یعنی جنت میں داخل کریں گے، یہ ابو سعید بن اعرابی نے کہا : میں نے ابو داؤد سجستانی کو یہ کہتے ہوئے سنا میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مسلمان تمام جنت میں جائیں گے میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ماتنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم وندخلکم مدخلا کریما “۔ یعنی اگر تم بچتے رہو گے ان بڑے بڑے کاموں سے روکا گیا ہے تمہیں جن سے تو ہم محو کردیں گے تمہارے (نامہ اعمال) سے تمہاری برائیاں اور ہم داخل کریں گے تمہیں عزت کی جگہ میں یعنی جنت میں، اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ذخیرہ کیا ہے (1) (تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، جلد 4 صفحہ 282، دارالسیرہ بیروت) جب اللہ تعالیٰ کبائر کے علاوہ فرما دے گا اور نبی مکرم ﷺ کبیرہ گناہوں کی سفارش کریں گے تو پھر مسلمانوں پر کون سا گناہ باقی رہے گا اور ہمارے علماء نے فرمایا : اہل سنت کے نزدیک کبیرہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے ہر اس شخص کے لیے جو موت سے پہلے انہیں ترک کر دے گا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور مسلمانوں میں سے جو ان پر مرے گا اسے بھی بخش دیا جائے گا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ویغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ یعنی شرک کے علاوہ گناہ معاف فرمادے گا جس کے لیے چاہے گا، اس سے مراد وہ شخص ہے جو گناہوں پر مرا ہو اگر موت سے پہلے توبہ کرنے والا مراد ہو تو پھر شرک اور دوسرے گناہوں میں فرق کا کوئی معنی نہیں رہے گا، کیونکہ شرک سے توبہ کرنے والے کی بھی مغفرت ہوجاتی ہے، حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : سورة نساء کی پانچ آیات ایسی ہیں جو مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (1) ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ۔ (2) ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ (3) ومن یعمل سوئا اویظلم نفسہ (4) وان تک حسنۃ یضعفا، (5) والذین امنوا باللہ رسولہ “۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا : سورة نساء میں آٹھ آیات ہیں جو اس امت کے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہیں جن پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے۔ (1) یرید اللہ لیبین لکم (2) واللہ یرید ان یتوب علیکم (3) یرید اللہ ان یخفف عنکم (4) ان تجتنبواکبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم (5) ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ (6) ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ (7) ومن یعمل سوءا اویظلم نفسہ (8) ما یفعل اللہ بعذابکم “۔ (الایۃ)
Top