Al-Qurtubi - An-Nisaa : 33
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠   ۧ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیے مَوَالِيَ : وارث مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑ مریں الْوَالِدٰنِ : والدین وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ عَقَدَتْ : بندھ چکا اَيْمَانُكُمْ : تمہار عہد فَاٰتُوْھُمْ : تو ان کو دے دو نَصِيْبَھُمْ : ان کا حصہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : اوپر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز شَهِيْدًا : گواہ (مطلع)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حقداروں میں تو تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی انکا حصہ دو بیشک خدا ہر چیز کے سامنے ہے
آیت نمبر : 33۔ اس آیت میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہر انسان کے ورثاء اور موالی ہیں، ہر ایک کو اس سے نفع حاصل کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے اس کے لیے تقسیم فرمایا ہے اور غیر کے مال کی خواہش نہ کرے بخاری نے کتاب الفرائض میں حضرت سعید بن جبیر ؓ کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : (آیت) ” ولکل جعلنا “۔ الخ کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کے تحت فرمایا مہاجرین جب مدینہ طیبہ آئے تو انصار کا مہاجر وارث ہوتا تھا، حالانکہ وہ اس کا ذی محرم نہیں ہوتا تھا، یہ اس اخوت کی وجہ سے تھا جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان قائم فرمائی تھی پھر جب (آیت) ” لکل جعلنا موالی “ کی آیت نازل ہوئی تو اسے (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ سے منسوخ کردیا (1) (صحیح بخاری، کتاب الفرائض، جلد 2، صفحہ 999) ابو الحسن بن بطال نے کہا : تمام نسخوں میں یہی ہے کہ (آیت) ” لکل جعلنا موالی “ کو (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ نے منسوخ کردیا جب کہ صحیح یہ ہے کہ ناسخ (آیت) ” لکل جعلنا موالی “۔ ہے اور منسوخ (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ ہے اس طرح طبری نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے۔ سلف جمہور سے مروی ہے کہ (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ کو منسوخ کرنے والی آیت 75 سورة انفال میں ہے (آیت) ” واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض “۔ یہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت قتادہ ؓ اور حضرت حسن بصری ؓ سے روایت کیا ہے، ابو عبیدہ نے اپنی کتاب ” الناسخ والمنسوخ “ میں اسی چیز کو ثابت کیا ہے، اس میں ایک دوسرا قول بھی ہے جسے زہری نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے فرمایا جن لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں اپنے بیٹوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اپنے متبنی بنایا تھا اور اسلام میں وہ وارث بنتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ وصیت میں انکے لیے حصہ مقرر کرو اور میراث کو اللہ تعالیٰ نے ذوی الرحم اور عصبہ ورثاء کی طرف لوٹا دیا، ایک جماعت نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ محکم ہے منسوخ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حکم فرمایا کہ اپنے حلیفوں کو نصرت ونصیحت وغیرہ کے اعتبار سے کچھ دو اور ان کے لیے وصیت کرو جب کہ میراث ختم ہوچکی ہے، یہ مجاہد (رح) اور سدی کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : نحاس نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور یہ انہوں نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے اور نسخ صحیح نہیں ہے کیونکہ جمع کرنا ممکن ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا جو طبری نے ذکر کیا ہے، بخاری نے یہ مفہوم ” کتاب التفسیر “۔ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، ذوی الارحام کی میراث کا ذکر سورة انفال میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (2) کل کا لفظ عرب کلام میں احاطہ اور عموم کے لیے استعمال ہوتا ہے جب یہ مفرد آئے تو تمام نحویوں کے نزدیک یقینا کلام میں حذف ہوتا ہے حتی کہ بعض علماء نے قبل اور بعد کی طرح مررت بلکل جائز قرار دیا حذف کی تقدیر یہ ہوگی، ” ولکل احد جعلنا موالی “۔ یعنی ورثاء بنائے۔ (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حلف کے ساتھ عہد و پیمان باندھتے ہیں، یہ قتادہ سے مروی ہے، یہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کسی سے عہد و پیمان کرتا تھا اور کہتا تھا : میرا خون، تیرا خون، مدد ونصرت میں ہم ایک چیز ہوں گے اور میرا بدلہ اور تیرا ایک ہوگا۔ میری جنگ اور تیری جنگ ایک ہوگی، میری صلح اور تیری صلح ایک ہوگی تو میرا وارث ہوگا میں تیرا وارث ہوں گا، تو میری وجہ سے طلب کیا جائے گا میں تیری طرف سے طلب کیا جاؤنگا، تو میری طرف سے دیت دے گا، میں تیری طرف سے دیت دوں گا، پس حلیف کو اپنے دوسرے حلیف کی میراث میں چھٹا حصہ ملتا تھا پھر یہ منسوخ ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (3) موالی کا لفظ مشترک ہے کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ آزاد کرنے والا، آزاد کیا گیا، آزاد کرنے والے کو مولی اعلی اور آزاد کیے گئے کو مولی اسفل کہا جاتا ہے، مددگار کو بھی مولی کہا جاتا ہے (آیت) ” وان الکفرین لا مولی لھم “۔ (محمد) یعنی کافروں کا کوئی مددگار نہیں۔ چچا کے بیٹے کو بھی مولی کہا جاتا ہے، پڑوسی کو بھی مولی کہا جاتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد (آیت) ” ولکل جعلنا موالی “۔ اس سے مراد عصہ ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ” فرائض سے جو بچ جائے وہ قریبی مذکر عصبہ کے لیے ہے “ (1) (مسند امام احمد، حدیث نمبر 2657) اور عصبات میں سے مولی اعلی ہے، نہ کہ مولی اسفل، یہ اکثر علماء کا قول ہے، کیونکہ معتق (آزاد کرنے والا) معتق (آزاد کیا گیا) پر انعام کرنے والا ہے جیسے اس کا موجد ہے اس معنی کی وجہ سے اس کو میراث کا حق دیا جاتا ہے۔ طحاوی نے حسن بن زیاد سے روایت کیا ہے کہ مولی اسفل، مولی اعلی کا وارث ہوگا اور انہوں نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے کہ ایک شخص نے اپنا غلام آزاد کیا پھر آزاد کرنے والا فوت ہوگیا اور اس نے اپنے آزاد کیے گئے غلام کے علاوہ کوئی وارث نہ چھوڑا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی میراث اس کے آزاد کردہ غلام کو دے دی (2) (جامع ترمذی کتاب الفرائض عن رسول اللہ، باب میراث العصبہ، حدیث نمبر 2024، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام طحاوی نے فرمایا : اس حدیث کی کوئی معارض حدیث نہیں ہے پس اس پر عمل واجب ہے، کیونکہ جب آزاد کرنے والے کے لیے میراث کا ثابت کرنا ممکن ہے اس تقدیر پر کہ وہ اس کے لیے موجد کی طرح ہے تو وہ باپ کے مشابہ ہے اور مولی اسفل، بیٹے کے مشابہ ہے یہ چیز میراث میں برابری کا تقاضا کرتی ہے، اصل یہ ہے کہ اتصال عام ہوتا ہے اور حدیث میں ہے قوم کامولی، ان میں سے ہے، اور جنہوں نے اس کی مخالفت کی وہ جمہور علماء ہیں وہ فرماتے ہیں : میراث قرابت کا تقاضا کرتی ہے اور یہاں کوئی قرابت نہیں ہے مگر ہم نے معتق پر انعام کے حکم کی وجہ سے معتق کے لیے میراث کو ثابت کیا ہے اور انعام کا مقابلہ مجازاۃ کا تقاضا کرتا ہے اور یہ مولی اسفل میں منعکس نہیں ہوتا، رہا بیٹا تو وہ سب لوگوں سے زیاد میراث کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنے باپ کا خلیفہ ہوتا ہے اور اس کے قائم مقام ہوتا ہے اور معتق اس کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے معتق (آزاد کرنے والا) کے قائم مقام ہو معتق نے اس پر انعام کیا ہوتا ہے پس شرع نے اسے معتق کی میراث کا حقدار بنا دیا، پس یہ صفت مولی اسفل (آزاد کردہ غلام) میں نہیں پائی جاتی، پس ان کے درمیان فرق ظاہر ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ علی بن کبثہ نے حمزہ سے روایت کیا ہے عقدت یعنی کثرت پر دلالت کرنے کے لیے قاف کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور حمزہ سے مشہور قرات (آیت) ” عقدت ایمانکم “۔ (قاف کی تخفیف) کے ساتھ ہے، یہی قرات عاصم اور کسائی کی ہے، یہ قرات بعید ہے کیونکہ عہد و پیمان نہیں ہوتا مگر دو یا زیادہ شخصوں کے درمیان پس اس کا باب فاعل ہے، ابو جعفر نحاس (رح) نے کہا : حمزہ کی قرات عربی میں غموض پر تجوز ہے اس تقدیر میں (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “۔ سے مراد قسم اٹھانا اور پختہ وعہد و پیمان ہوگا، یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے اس کی تقدیر یوں ہوگی ” عقدت لھم ایمانکم الحلف “۔ پھر لام کو حذف کیا گیا ہے جس طرح کہ اس ارشاد میں ہے : (آیت) ” واذا کالوھم “۔ (المطففین : 3) یعنی کالوھم اور دوسرے مفعول کو حذف کیا گیا ہے جس طرح کہا جاتا ہے، کلتک یعنی کلت لک برا مفعول اول حذف کیا گیا، کیونکہ وہ صلہ میں متصل ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا “۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ان کے ساتھ عہد و پیمان دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ وفاکو پسند کرتا ہے۔
Top