Al-Qurtubi - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو کی) خبر داری کرتی ہے اور جن عوتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور (بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو۔ اگر اس پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر زد کو ب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈوں بیشک خدا سب سے اعلی (اور) جلیل القدرر ہے
آیت نمبر : 34۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الرجال قومون علی النسآء “۔ یہ مبتدا خبر ہیں یعنی مرد عورتوں کا خرچ اٹھاتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں اسی طرح مردوں میں حکام، امراء اور جہاد کرنے والے ہوتے ہیں، جب کہ یہ فرائض عورتوں پر نہیں۔ کہا جاتا ہے قوام وقیم (نگران) یہ آیت حضرت سعد بن ربیع ؓ کے حق میں نازل ہوئی ان کی بیوی حضرت حبیۃ بنت زید بن خارجہ بن ابی زہیر نے نافرمانی کی تو انہوں نے اسے طمانچہ مارا، حضرت حبیبۃ ؓ کے والد نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنی بیٹی سعد کو دی، اس نے اسے طمانچہ مارا ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” وہ اپنے خاوند سے قصاص لے، وہ اپنے باپ کے ساتھ واپس لوٹی تاکہ اپنے خاوند سے قصاص لے “۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” لوٹ آؤ میرے پاس جبریل (علیہ السلام) آیا ہے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” ہم نے ایک امر کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے امر کا ارادہ فرمایا “۔ دوسری روایت میں ہے : ” میں نے ایک چیز کا ارادہ کیا جو اللہ تعالیٰ ارادہ فرمایا وہ بہتر ہے “۔ آپ نے پہلا حکم ختم کردیا۔ (1) (اسباب النزول للواحدی، صفحہ 144) بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ “۔ (طہ : 114) اسی حکم کے بارے میں نازل ہوا۔ اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کیا اور فرمایا : حجاج بن منہال اور عارم بن فضل نے ہمیں بتایا۔ یہ الفاظ حجاج بن منہال کے ہیں، فرمایا : ہمیں جریر بن حازم نے بتایا فرمایا میں نے حس کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایک عورت نبی مکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہا : میرے خاوند نے میرے چہرے پر مارا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ” تمہارے درمیان قصاص ہوگا “۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ “۔ پس نبی مکرم ﷺ رک گئے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” الرجال قومون علی النسآئ “۔ ابو روق نے کہا : یہ جمیلہ بنت ابی اور ان کے خاوند ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی، کلبی نے کہا : یہ عمیرہ بنت محمد بن مسلمہ اور اس کے خاوند سعد بن ربیع کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا سبب ام سلمہ کا پہلا قول ہے، وجہ النظم یہ ہے کہ میراث میں مردوں کی عورتوں پر فضیلت کے بارے میں بات کی تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ولا تتمنوا “ پھر اللہ تعالیٰ نے میراث میں مردوں کی عورتوں پر فضیلت کو بیان فرمایا، کیونکہ مردوں پر مہر اور خرچ کی ذمہ داری ہے پھر مردوں کی فضیلت کا فائدہ عورتوں کی طرف لوٹتا ہے، کہا جاتا ہے کہ مردوں کو عقل اور تدبیر میں زائد فضیلت حاصل ہے پس مردوں کو عورتوں پر قیام کا حق دیا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نفس اور طبع میں مردوں کے لیے زیادہ قوت ہے، جو عورتوں میں نہیں ہے، کیونکہ مردوں کی طبیعت پر حرارت اور سختی غالب ہے پس اس میں قوت اور شدت ہوگی جب کہ عورتوں کی طیبعت میں رطوبت اور برودت غالب ہے، پس اس میں نرمی اور ضعف کا معنی ہوگا پھر مردوں کے لیے عورتوں پر قیام کا حق اسی لیے رکھا گیا اور دوسری وجہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وبما انفقوا من اموالھم “۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد، عورتوں کو ادب سکھائیں، جب وہ مردوں کے حقوق کی حفاظت کریں تو پھر مرد کو ان کے ساتھ غیر مناسب طرز معاشرت نہیں اپنانا چاہیے، قوام، فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے، اس کا مطلب ہے کسی چیز کی نگرانی کرنا، خود اس چیز میں غوروفکر کرنا اور اجتہاد کے ساتھ اس چیز کی حفاظت کرنا، پس مردوں کا عورتوں پر قیام اس حد تک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کی تدبیر، تادیب، گھر میں انہیں روکے رکھنے اور زیب وزینت ظاہر کرنے سے منع کرنا ہے اور عورت پر مرد کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کو قبول کرنا ہے جب تک معصیت نہ ہو، اس کی علت فضیلت، نفقہ، امر جہاد میں قوت وعقل، میراث، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے ہے، بعض نے تفضیل میں داڑھی کی رعایت کی ہے حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ کبھی داڑھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسری صفت نہیں ہوتی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس کا رد سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) (آیت) ” وبما انفقوا من اموالھم “۔ کے ارشاد سے علماء نے یہ سمجھا کہ جب مرد اس کے خرچہ سے عاجز ہوگا تو اس پر قوام نہیں ہوگا، اور جب قوم نہیں ہوگا تو عورت کے لیے عقد کا فسخ کرنا جائز ہوگا ہوگا، کیونکہ وہ مقصود زائل ہے جس کے لیے نکاح مشروع کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے آیت میں واضح دلیل ہے کہ نفقہ اور لباس سے عاجزی کے وقت نکاح کو فسخ کرنے کا ثبوت ہے۔ یہی امام مالک (رح) و امام شافعی (رح) کا مذہب ہے، اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : ایسی صورت میں نکاح فسخ نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “۔ (بقرہ : 280) اس پر کلام اسی سورت میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب “۔ یہ تمام خبر ہے اس سے مقصود خاوند کی اطاعت، اس کے مال کے حق کو قائم کرنے اور خاوند کی عدم موجودگی میں اپنے نفس کی حفاظت کرنے کا حکم ہے، مسند ابی داؤد طیالسی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ” بہتر عورت وہ ہے جسے جب تو دیکھے تجھے وہ خوش کرے، جب تو اسے حکم دے تو وہ تیری اطاعت کرے اور جب تو اسے غائب ہو تو وہ اپنی عصمت کی اور تیرے مال کی حفاظت کرے “۔ فرمایا پھر یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ” الرجال قومون علی النسآء۔۔۔۔۔ الخ نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا :” کیا میں تجھے مرد کے خزانہ میں سے بہتر چیز نہ بتاؤں، وہ نیک صالحہ بیوی ہے جب وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کریجب وہ اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے، جب وہ اس سے غائب ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے “۔ (1) (تفسیر بغوی، جلد 1، صفحہ 423) سرور دو عالم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا : کیا میں تجھے اس بہترین چیز کے بارے میں نہ خبر دوں ایک مرد جیسے خزانہ کرتا ہے ؟ وہ صالح عورت ہے الخ، پھر سابقہ حدیث ذکر کی، اس حدیث کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے، حضرت ابن مسعود ؓ کے مصحف میں فالصوالح قوانت حوافظ کے الفاظ ہیں، یہ وزن مؤنث کے ساتھ مختص ہیں، ابن جنی نے کہا : جمع مکسر از روئے لفظ کے معنی کے زیادہ مشابہ ہے، کیونکہ وہ کثرت کا معنی دیتی ہے اور یہ یہی مقصود ہے۔ اور (آیت) ” بما حفظ اللہ “ میں ما مصدر یہ ہے یعنی بحفظ اللہ لھن “۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ ما بمعنی الذی ہو اور حفظ میں عائد ضمیر منصوب ہوگی، اور ابو جعفر کی قرات میں بما حفظ اللہ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 47 دارالکتب العلمیہ) اسم جلالت نصب کے ساتھ ہے، نحاس نے کہا : رفع زیادہ واضح ہے یعنی حافظات لمغیب ازواجھن بحفظ اللہ ومعونتہ وتسدیدہ “۔ وہ اپنے خاوندوں کی غیر حاضری کے وقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت، معونت اور درستگی کے ساتھ حفاظت کرنے والی ہیں، بعض علماء نے فرمایا : بما حفظن اللہ فی مھورھن وعشرتھن، یعنی اللہ انکی حفاظت کرتا ہے ان کے مہور میں اور معاشرت میں، بعض علماء نے اس کا معنی یہ کیا ہے : بما استحفظن اللہ ایاہ من اداء الامانات الی ازواجھن، یعنی اللہ تعالیٰ نے انکے خاوندوں تک ان کی امانات کی ادائیگی کے لیے ان عورتوں کی حفاظت کی اور نصب کی قرات کا معنی یہ ہے : بحفظھن اللہ، یعنی انہوں نے اللہ کے امر اور دین کی حفاظت کرنے کی وجہ سے، بعض نے یہ تقدیر بیان کی بما حفظن اللہ پھر فعل واحد ذکر کیا گیا جس طرح کہا گیا ہے۔ : فان الحوادث اودی بھا، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے بحفظ اللہ جیسے حفظت اللہ۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والتی تخافون نشوزھن “۔ ” التی “ التی کی جمع ہے یہ پہلے گزر چکا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ” تخافون “۔ کا معنی علم اور یقین ہے، بعض نے فرمایا : اپنے معنی خوف پر ہے۔ النشوز کا معنی نافرمانی ہے، یہ النشز سے ماخوذ ہے النشز زمین کی بلند جگہ کو کہتے ہیں، کہا جاتا ہے : نشزالرجل ینشز جب کوئی بیٹھا ہو پھر سیدھا کھڑا ہوجائے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واذا قیل انشزوا فانشزوا “۔ (المجادلہ : 11) یعنی اٹھو اور جنگ کی طرف یا اللہ کے امور میں سے کسی امر کی طرف اٹھو، معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی نافرمانی کا خوف ہو اور اللہ تعالیٰ نے ان پر خاوندوں کی اطاعت واجب کی تھی اس کے ادا نہ کرنے کا خوف ہو۔ ابو منصور اللغوی نے کہا : النشوز کا معنی ہے میاں، بیوی میں سے ہر ایک کا دوسرے کو ناپسند کرنا، کہا جاتا ہے : نشزت تنشزفھی ناشز (بغیر تاء کے) نشمت تنشص یہ معاشرت کے لیے برائی ہے، ابن فارس نے کہا : نشرت المرأۃ یعنی عورت نے اپنے خاوند پر سختی کی اور نشزبعلھا علیھا جب خاوند عورت کو مارے اور ظلم کرے، ابن درید نے کہا : نشزت المرأۃ ونشست ونشصت کا ایک معنی ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فعظوھن “۔ یعنی اللہ کی کتاب کے ساتھ انہیں نصیحت کرو یعنی انہیں خاوند کے ساتھ حسن صحبت اور حسن معاشرت میں سے جو ان پر اللہ نے واجب کیا ہے وہ انہیں یاد دلاؤ اور انہیں خاوند کا وہ بلند مرتبہ کا اعتراف کراؤ جو اللہ نے اسے ان پر عطا فرمایا ہے۔ اور وہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو خاوند کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا “۔ اور فرمایا ” عورت اپنے خاوند کو اپنے پاس آنے سے نہ روکے اگرچہ وہ پالان پر ہی ہو “ اور فرمایا ’ جو عورت اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑ رات گزارتی ہے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے “ ایک روایت میں ہے ” حتی کہ وہ واپس آجائے اور اپنا ہاتھ اپنے خاوند کے ہاتھ میں رکھ دے اور ایسا کام کرے جو اس کی مثل ہو “۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واھجروھن فی المضاجع “۔ ابن مسعود اور نخعی وغیرہما نے فی المضجع پڑھا ہے گویا اسم جنس ہے جو جمع کا مفہوم دیتا ہے۔ الھجر فی المضاجع کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہم بستر ہو اور پیٹھ پھر کر سوئے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے، اور مجاہد (رح) نے کہا : اس کا مطلب ہے ان کے بستروں سے دور ہوجاؤ، اس کلام پر حذف مقدر ہوگا اور اس کی تائید (آیت) ” واھجروھن “۔ کا لفظ کرتا ہے جو الھجران سے مشتق ہے جس کا معنی دوری ہے، کہا جاتا ہے : ہجرہ اس سے دور ہوجا اور اس سے علیحدہ ہوجا اور دور ہونا ممکن نہیں مگر ان کا بستر چھوڑنے کے ساتھ یہ معنی ابراہیم نخعی، شعبی، قتادہ، اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم نے بیان کیا ہے، اور یہی معنی ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے ابن عربی نے اس کو پسند کیا ہے، ان علماء نے امر کو اکثر اور مکمل معنی پر محمول کیا اسی طرح ہوگا جیسے تو کہتا ہے اھجرہ فی اللہ۔ اللہ کے لیے اس کو چھوڑ دے، یہ امام مالک (رح) کی اصل ہے۔ میں کہتا ہوں یہ قول عمدہ ہے، خاوند جب اس کے بستر سے اعراض کرے گا پھر اگر عورت کو خاوند سے محبت ہوگئی تو اس پر یہ چیز شاق ہوگی اور وہ اصلاح کی طرف لوٹ آئے گی اگر وہ بغض رکھنے والی ہوگی تو اس سے نافرمانی ظاہر ہوگی پھر ظاہر ہوگا کہ نشوز (نافرمانی) اس کی طرف سے ہے بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” وھجروھن “۔ یہ الھجر سے مشتق ہے اور اس سے مراد قبیح کلام ہے یعنی کلام میں ان سے سختی کرو اور جماع وغیرہ کے لیے ان سے ہم بستر ہو، یہ معنی سفیان نے بتایا فرمایا : یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، بعض علماء نے فرمایا : ان کو انکے گھروں میں پابند کر دو ۔ یہ انکے قول ھجر البعیر، سے مشتق ہے یعنی رسی کے ساتھ اونٹ کو باندھ دیا، الھجار اس رسی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اونٹ کو باندھا جاتا ہے، یہ طبری کا مختار مذہب ہے اور انہوں نے تمام کلام پر جرح کی ہے ان انکے کلام میں اس جگہ نظر (اعتراض کی گنجائش) ہے قاضی ابوبکر بن العربی نے ” احکام “ میں ان کا رد کیا ہے اور کہا ہائے قرآن وسنت کے عالم کی لغزش اور اس مفہوم پر جس پر حدیث نے انہیں ابھارا وہ غریب حدیث ہے، ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق ؓ ، حضرت زیبر بن عوام کی بیوی تھی وہ باہر نکلتی تھی حتی کہ انہیں عتاب کیا گیا فرمایا : حضرت زبیر بن عوام نے اسے اور اس کی سوکن کو عتاب کیا پھر ایک بال دوسری کے بالوں کے ساتھ باندھ دیئے پھر انہیں سخت سزا دی سوکن بہت زیادہ بچنے والی تھی اور اسماء زیادہ بچنے والی نہ تھی پس اسے ضربیں بھی زیادہ لگیں، حضرت اسماء نے اپنے باپ حضرت ابوبکر سے شکایت کی، حضرت ابوبکر نے اسے کہا : اے بیٹی ! صبر کر زبیر صالح آدمی ہے شاید تیری خاوند جنت میں ہوگا، اور مجھے خبر پہنچی ہے کہ جب مرد بیوی سے ابتکار کرتا ہے تو جنگ میں اس سے نکاح کرے گا۔ پس (آیت) ” وھجروھن “۔ کا ان علماء نے ربط اور عقد (باندھنا) معنی لیا کیونکہ لفظ میں احتمال تھا اور ساتھ ساتھ حضرت زبیر کا فعل تھا تو اس نے یہ تفسیر بیان کردی، اور ان کے بستر کو چھوڑنے کا زیادہ سے زیادہ عرصہ علماء کے نزدیک ایک مہینہ ہے جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے کیا تھا جب آپ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے راز کی بات کی تھی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو بتا دی تھی اور انہیں نے اس پر ایکا کرلیا تھا اور ان چار مہینوں تک یہ چھوڑنا نہ پہنچے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایلاء کی مدت بنایا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واضربوھن “۔ اللہ تعالیٰ حکم دیا کہ مرد عورت کی اصلاح کے لیے پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرے پھر اس کے بستر سے جدا ہوجائے پھر اگر یہ دونوں صورتیں کارگر نہ ہوں تو پھر مارنا ہے، کیونکہ یہ چیز اس کے لیے اس کی اصلاح کرے گی اور اسے اس کا حق پورا کرنے پر ابھارے گی اور اس آیت میں مارنے سے مراد اس طرح مارنا ہے کہ وہ زخمی نہ کر دے اور وہ اس کی ہڈی نہ توڑ دے اور نہ زخم سے اس کو عیب لگا دے جیسے مکا مارنا وغیرہ کیونکہ اس سے مقصود اصلاح ہے (نہ کہ اے زخمی کرنا ہے) پس وہ اسے اتنی سزا دے گا کہ اسے ہلاک کر دے تو اس پر ضمانت واجب ہوگی۔ اور اسی طرح بچے کو تعلیم دینے اور ادب سکھانے میں سزا کا حکم ہے صحیح مسلم میں ہے ” عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی امانت سے تم نے انہیں حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ تمہارے بستر پر کسی کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو انہیں سزا دو مگر ایسی نہیں جو زخمی کردے “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الحج، جلد 1، صفحہ 397) امام مسلم نے حضرت جابر ؓ کی طویل حدیث کتاب الحج میں ذکر کی ہے یعنی وہ تمہارے گھروں میں ایسے رشتہ داروں اور اجنبی عورتوں کو داخل نہ کریں جن کو تم ناپسند کرتے ہو، اسی مفہوم پر اس روایت کو محمول کیا جائے گا جو امام ترمذی نے عمرو بن الاحوص سے روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی پھر وعظ ونصیحت فرمائی پھر فرمایا : ” عورتوں کے متعلق خیر کی وصیت حاصل کرو، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں اس کے علاوہ تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو مگر یہ کہ وہ واضح برائی کا ارتکاب کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کے بستروں سے جدا ہوجاؤ اور انہیں مارو مگر ایسی مار جو زخمی نہ کر دے اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر انہیں اذیت دینے کی راہ تلاش نہ کرو، خبردار تمہارے لیے تمہاری عورتوں پر حقوق ہیں اور تمہارے عورتوں کے لیے تم حقوق ہیں تمہارا حق تمہاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے تمہارگھروں میں اسے شخص کو نہ آنے دین جسے تم ناپسند کرتے ہو اور انہیں تمہارے گھروں میں اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے، خبردار ان تم پر یہ ہے کہ لباس اور طعام کے سلسلہ میں تم ان سے حسن سلوک کرو “۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الرضاع، جلد 1، صفحہ 139) امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور (آیت) ” بفاحشۃ مبینۃ “۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو گھر میں داخل نہ کریں جن کو ان کے خاوند ناپسند کرتے ہیں اور ان سے نفرک کرتے ہیں اس سے مراد زنا نہیں ہے، کیونکہ زنا تو حرام ہے اور اس پر حد لازم ہوتی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” عورتوں کو مارو جب وہ کسی نیکی میں تمہاری نافرمانی کریں لیکن وہ مار زخمی کرنے والی نہ ہو “۔ عطا نے کہا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا : نہ زخمی کرنے والی سزا کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : مسواک وغیرہ سے مارنا (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 48 دارالکتب العلمیہ) روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی بیوی کو مارا تو انہوں نے اس سے منع کیا گیا، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ مرد جو اپنی کو سزا دیتا ہے اس کے بارے میں اس سے نہیں پوچھا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (9) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان اطعنکم “ یعنی وہ نافرمانی چھوڑ دیں۔ (آیت) ” فلا تبغوا علیھن سبیلا “۔ یعنی قول یا فعل کے ساتھ ان پر زیادتی نہ کرو، یہ ان پر ظلم کرنے سے نہیں ہے اس کے بعد کہ ان پر مردوں کی فضیلت کو ثابت فرمایا اور انکو ادب سکھانے کی قدرت عطا فرمائی، بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے تم انہیں اپنے ساتھ محبت کرنے کی تکلیف نہ دو ، کیونکہ یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (10) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ کان علیا کبیرا “۔ یہ خاوندوں کو اشارہ ہے کہ نرمی اختیار کریں اور تواضع کا مظاہرہ کریں یعنی اگر تم عورتوں پر قادر ہو تو تم اللہ کی قدرت کو یاد کرو، اس کا دست قدرت، ہر ہاتھ سے بلند ہے پس کوئی شخص اپنی بیوی پر بلندی نہ چاہئے اللہ تعالیٰ سب کچھ تاڑ رہا ہے یہاں علو اور کبر کی صفات کا ذکر کرنا بہتر ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں کسی چیز کو مارنے کا صراحۃ حکم نہیں دیا سوائے اس مقام کے اور حدود میں، تو معلوم ہوا کہ ان کے خاوند کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور یہ کام ان کے خاوندوں کے سپرد ہے ائمہ کے سپرد نہیں ہے، یہ خاوندوں کے لیے روا رکھا جب کہ قاضیوں کے بغیر گواہوں اور دلائل کے کسی کو سزا دینا جائز نہیں، خاوند اللہ کی طرف سے عورتوں کے امین بنائے گئے ہیں مہلب نے کہا عورتوں کو مارنا جائز ہے جب وہ اپنے خاوندوں کو مباشرت سے منع کریں اور خدمت نہ کرنے کی صورت میں سزا دینے میں اختلاف ہے قیاس اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ جب مباشرت کے منع کرنے پر سزا دینا جائز ہے تو معروف طریقہ پر خاوند کی ایسی خدمت نہ کرنے پر بھی سزا دینا جائز ہو، جو خدمت عورت پر مرد کے لیے واجب تھی، ابن خویز منداد نے کہا : نافرمانی، نفقہ، اور تمام زوجیت کو ساقط کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے خاوند کو تادیبی کارو وائی کرنا جائز ہے جب کہ وہ سزا اسے زخمی کرنے والی نہ ہو اور اسے وعظ ونصیحت ہو اور اس کے بستر کو ترک کر دے حتی کہ وہ نافرمانی سے باز آجائے، جب وہ لوٹ آئے گی تو اس کے حقوق بھی لوٹ آئیں گے، اسی طرح ادب جس سزا کا تقاضا کرتا ہے خاوند کے لیے ایسی سزا دینا جائز ہے اور ارفع اور ادنی ادب میں حالت مختلف ہوتی ہے۔ رفیع ادب کے لیے جدائی ہے اور ادنی ادب کے لیے کوڑا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے اپنا کوڑا لٹکائے رکھا اور اپنے گھر والوں کو ادب سکھایا “ اور فرمایا : ابو جہم اپنا ڈنڈا اپنے کندھے سے اتارتا ہی نہیں “ (1) (سنن نسائی کتاب النکاح جلد 2، صفحہ 74) بشار نے کہا : الحریلحی والعصاللعبد “۔ آزاد آدمی کو صرف ملامت کی جاتی ہے اور غلام کے لیے چھڑی ہے۔ ابن درید نے کہا : واللؤم للحر مقیم رادع والعبد لا یردعہ الا العصا : آزاد آدمی کو ملامت ہی روکنے والی ہوتی ہے جب کہ غلام کو صرف ڈنڈا ہی باز رکھتا ہے، ابن المنذر نے کہا : اہل علم کا عورت کے اخراجات کا خاوندوں پر واجب ہونے پر اتفاق ہے جب کہ وہ بالغ ہوں مگر عورتوں میں سے جو نافرمان اور اپنے نفس سے روکنے والی ہو اس کا نفقہ واجب نہیں۔ ابو عمر نے کہا : جو عورت دخول کے بعد اپنے خاوند کی نافرمان ہو تو اس کا نفقہ ساقط ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ حاملہ ہو، ابن القاسم نے نافرمان کی نفقہ میں فقہاء کی جماعت کی مخالفت کی ہے انہوں نے نافرمان کا نفقہ بھی واجب کیا ہے جب نافرمان اپنے خاوند کی طرف لوٹ آئے تو پھر مستقبل کا نفقہ واجب ہوگا اور نافرمانی کے علاوہ کسی صورت میں عورت کا نفقہ خاوند سے ساقط نہ ہوگا نہ مرض سے نہ حیض سے، نہ نفاس سے، نہ روزے سے، نہ حج سے نہ اس کے خاوند کے غائب ہونے سے اور نہ کسی حق یا ظلم کی وجہ سے خاوند کے قیدی ہونے سے سوائے اسی صورت کے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top